مولانا اللہ وسایا قاسم نے اپنے حالیہ دورہ تربت کے حوالہ سے ایک مضمون میں ذکری مذہب اور اس کے پیروکاروں کی سرگرمیوں کا تذکرہ کیا ہے۔ راقم الحروف کو بھی گزشتہ دنوں چنیوٹ اور چناب نگر میں مجلس تحفظ ختم نبوت اور ادارہ مرکزیہ دعوت و ارشاد کی دو الگ الگ تربیتی کلاسوں میں ذکری مذہب کے بارے میں لیکچر دینے کا موقع ملا۔ اس مناسبت سے کچھ معلومات قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہیں۔
ذکری فرقہ اس خطہ میں منکرینِ ختم نبوت کا سب سے قدیمی گروہ ہے جس کے آغاز کو کم و بیش ساڑھے چار سو برس ہو گئے ہیں۔ یہ گروہ بلوچستان کے علاقہ مکران میں اس وقت سے بدستور اپنی مذہبی سرگرمیوں میں مصروف چلا آ رہا ہے اور اب بھی ہزاروں افراد اس سے وابستہ ہیں۔ اس فرقہ کے بانی ملا محمد اٹکی نے ۹۷۷ھ میں مکران کے علاقہ تربت میں ظاہر ہو کر مہدی ہونے کا دعویٰ کیا اور چند شعبدے دکھا کر علاقہ کے عوام کو اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ یہ دور ایران میں صفوی بادشاہ شاہ اسماعیل کی حکومت کا بتایا جاتا ہے جس نے نہ صرف اہل سنت کے خلاف جبر و تشدد کے حربے استعمال کر کے ایران کو زبردستی شیعہ ملک بنایا بلکہ باطنی فرقہ کے افراد کے خلاف بھی وسیع پیمانے پر کارروائی کی، جس کی وجہ سے یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ ملا محمد مذکور بھی شاید باطنی فرقہ کے ایسے ہی افراد میں سے تھا جس نے مکران کے علاقہ میں آ کر پناہ لی اور اس خطہ کے عوام کو اپنے سابقہ تجربات دہرانے کے لیے نئی شکار گاہ بنا لیا۔
ملا محمد اٹکی نے اپنی پیشوائیت کا آغاز مہدی کے دعویٰ سے کیا، اور پھر جس طرح اس قسم کے طالع آزماؤں کی پیشرفت ہوتی ہے، اس نے نبوت کا اور پھر نبی آخر الزمان ہونے کا دعویٰ کر دیا۔ وہ ایک روز اپنے چند سادہ لوح عقیدت مندوں کو لے کر ایک درخت کے پاس گیا اور کہا وہ ابھی ان کے سامنے درخت پر چڑھے گا اور درخت کے اوپر ایک شگاف میں اس پر خدا تعالیٰ کی طرف سے کتاب نازل ہو گی جو وہ وہاں سے لے کر نیچے اترے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اس کے ساتھی اس کی اس وحی پر ایمان لے آئے۔ اسی طرح کے چند شعبدے اس نے اور دکھائے اور لوگوں پر اپنا رنگ جما لیا۔ علاقہ کا ایک بااثر سردار مراد بھی اس کے حلقہ میں شامل ہو گیا، جس کے نام پر اس پہاڑ کو کوہِ مراد کا نام دے دیا گیا، جو ذکری فرقہ کے لوگوں میں بیت اللہ شریف کی طرح مقدس سمجھا جاتا ہے۔
ملا محمد اٹکی ۹۷۷ ہجری سے ۱۰۲۹ ہجری تک اپنے پیروکاروں کے درمیان رہ کر اچانک غائب ہو گیا۔ اس لیے اس کے آغاز اور انجام کو ظہور اور غیبوبت کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے، اور ذکری مذہب کی بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ ’’نوری بود بعالم بالا رفت‘‘ وہ نوری مخلوق سے تعلق رکھتا تھا جو عالمِ بالا کی طرف واپس چلا گیا ہے۔ ملا محمد اٹکی نے نماز کو منسوخ کر کے ذکر کو اس کا قائم مقام کر دیا، اسی وجہ سے اس کے پیروکاروں کو ’’ذکری‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، جبکہ اس کے مقابلہ پر اس علاقہ کے عام مسلمانوں کو ’’نمازی‘‘ کہا جاتا ہے، اور نماز اور ذکر کا یہ فرق مسلمانوں اور ذکریوں کے درمیان امتیاز قائم کرتا ہے۔ ذکری مذہب میں رمضان المبارک کے روزے منسوخ کر کے ان کی جگہ ذوالحجہ کے پہلے عشرہ کے روزے رائج کیے گئے ہیں۔ جبکہ بیت اللہ (مکہ مکرمہ) کا حج منسوخ کر کے اس کی جگہ ستائیس رمضان المبارک کو کوہِ مراد کا طواف حج کا قائم مقام سمجھا جاتا ہے، اور ہر سال ذکری فرقہ کے ہزاروں افراد ستائیس رمضان المبارک کو کوہِ مراد (تربت) میں جمع ہو کر یہ حج کرتے ہیں۔ زکوٰۃ بھی منسوخ کر دی گئی، اس کی جگہ ہر ذکری اپنی آمدنی کا دسواں حصہ دیتا ہے جو غریب لوگوں کی بجائے صرف مذہبی پیشواؤں کے لیے مخصوص ہوتا ہے۔ ذکری مذہب میں کلمہ بھی مسلمانوں سے الگ پڑھا جاتا ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں ’’لا الٰہ الا اللہ نور پاک نور محمد مہدی رسول اللہ‘‘۔
ملا محمد اٹکی کے فضائل و مناقب کے بارے میں عجیب و غریب سی روایات ذکری مذہب کی کتابوں اور تذکروں میں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً ان کے ایک رسالہ ’’معراج نامہ‘‘ میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر معراج کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ رسول اللہ کو ایک روز خیال آیا کہ وہ سب رسولوں سے افضل ہیں، مگر اللہ تعالیٰ کو (نعوذ باللہ) یہ بات پسند نہ آئی اور یہ غلط فہمی دور کرنے کے لیے نبی اکرمؐ کو معراج پر بلایا، اور جناب نبی اکرمؐ جب معراج کے سفر میں عرش پر پہنچے تو دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ عرش پر ملا محمد اٹکی بیٹھا ہوا ہے۔ حضور علیہ السلام اس کو دیکھ کر حیران ہو گئے، چنانچہ اللہ رب العزت نے یہ فرما کر (نعوذ باللہ) جناب نبی اکرمؐ کی غلط فہمی دور کر دی کہ انبیاء کا سردار یہ ہے جو میرے ساتھ بیٹھا ہوا ہے۔ اس قسم کی اور بھی بہت سی خرافات ذکری مذہب کی روایات میں ملتی ہیں۔
ذکری مذہب نہ صرف یہ کہ ساڑھے چار سو برس کے لگ بھگ عرصہ سے مسلسل چلا آ رہا ہے بلکہ ۱۰۳۵ھ میں ذکری مذہب سے تعلق رکھنے والے بلیدی خاندان کی حکومت بھی اس علاقہ میں قائم ہو گئی تھی جو کافی عرصہ تک چلتی رہی۔ اس خاندان کے پہلے حکمران کا نام ابو سعید بتایا جاتا ہے۔
کوہِ مراد کو اس مذہب میں بیت اللہ کا درجہ حاصل ہے جس کا ستائیس رمضان کو طواف کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ مقامِ محمود کے نام سے حرم کا علاقہ بھی قائم کیا گیا ہے اور گلذن نامی ایک میدان کو عرفات کا درجہ دیا جاتا ہے۔ ان کی عبادت میں جوگان کو خصوصی اہمیت حاصل ہے جس کی عملی شکل یہ ہے کہ مرد اور عورتیں مل کر دائرے کی صورت میں رقص کرتے ہیں اور ذکر کے علاوہ نعت خوانی کرتے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے امیر حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی نے مذہب کے کعبہ اور مصنوعی حج کے خلاف مہم چلائی تھی اور جعلی کعبہ اور حج کو بند کرنے کا حکومت سے مطالبہ کیا تھا۔ اس مطالبہ میں تو ابھی تک کامیابی نہیں ہوئی، البتہ ملک کے علمی و دینی حلقوں میں ایک حد تک بیداری ضرور پیدا ہوئی ہے اور ملک بھر کے بہت سے لوگ جو پاکستان میں اس مذہب کے وجود سے آگاہ نہیں تھے انہیں واقفیت حاصل ہوئی ہے۔ اب بھی جمعیت علماء اسلام اور مجلس تحفظ ختم نبوت کے راہنما ذکریوں کو قادیانیوں کی طرح غیرمسلم اقلیت قرار دینے اور ان کے مصنوعی حج اور کعبہ کو ختم کرنے کا وقتاً فوقتاً مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ اس سلسلہ میں اگر کسی دوست کو مزید معلومات مطلوب ہوں تو مفتی احتشام الحق صاحب جامعہ رشیدیہ آسیا آباد، تربت ضلع مکران بلوچستان سے خط و کتابت کر سکتے ہیں جو اس حوالے سے علاقہ کے مسلمانوں کے جذبات اور جدوجہد کی ترجمانی کر رہے ہیں۔