ذہنی خلفشار اور قومی سطح پر پایا جانے والا تضاد

   
۲۰ جنوری ۲۰۰۲ء

صدر جنرل پرویز مشرف نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ تین مسائل کی وجہ سے ہمارے ذہنوں میں خلفشار ہے۔ سب سے پہلے کشمیر کاز، دوسرے بیرونی سطح پر ایسے تنازعات اور تصادم جن میں مسلمان ملوث ہیں، اندرونی طور پر فرقوں اور مسلکوں کے اختلافات۔

خدا جانے ’’ذہنی خلفشار‘‘ سے صدر محترم کی مراد کیا ہے؟ جہاں تک ہم سمجھے ہیں وہ ذہنوں میں خلفشار کے عنوان سے اس نظریاتی، فکری اور تہذیبی کشمکش اور کشیدگی کی نشاندہی کرنا چاہتے ہیں جس نے نہ صرف پاکستان بلکہ پورے عالم اسلام کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور جس کی شدت اور تناؤ میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ہم ان کالموں میں اس کشیدگی اور کشمکش کا مختلف عنوانوں سے متعدد بار تذکرہ کر چکے ہیں کہ مغرب اور اس کی قیادت میں موجود عالمی سسٹم عالم اسلام اور پاکستان کو اپنے ایجنڈے کے مطابق چلانا چاہتا ہے اور اس کی تفصیلات اس نے پوری طرح طے کر رکھی ہیں۔ عالم اسلام اور پاکستان کے حوالے سے مغرب کی ترجیحات بالکل واضح ہیں اور دنیا کی کوئی مسلم حکومت ان ترجیحات کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

ایک غریب اور نادار سی حکومت نے بے سروسامانی اور فقر و محتاجی کے باوجود مغرب کے ایجنڈے، ورلڈ سسٹم کی ترجیحات اور بین الاقوامی اداروں کے احکامات کو قبول کرنے سے انکار کر کے اپنا ریاستی ڈھانچہ اقوام متحدہ کی ہدایات کی بجائے قرآن و سنت کی نظریاتی بنیادوں پر تشکیل دینے کا اعلان کر رکھا تھا، اس کا حشر ساری دنیا نے دیکھ لیا ہے۔ اس لیے اب اگر کوئی مسلمان حکومت دنیا کے کسی خطے میں اگر چاہے بھی تو موجودہ عالمی نظام اور مغرب کی ترجیحات سے انحراف کا راستہ اختیار نہیں کر سکتی۔

لیکن دوسری طرف ان مسلم حکومتوں کا المیہ یہ ہے کہ ان کے ملکوں کے عوام بالخصوص دینی حلقے مغرب کے ایجنڈے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مغرب کے ایجنڈے اور اس کی ترجیحات کو تسلیم کرنے اور انہیں عملی و قومی زندگی میں جگہ دینے کا مطلب نہ صرف اسلامی عقائد و احکام اور اسلام کے معاشرتی کردار سے دستبردار ہونا ہے، بلکہ مسلم ممالک و اقوام کی آزادی و خودمختاری کو بھی تھوڑے سے وقتی مفادات کی خاطر ہمیشہ کے لیے گروی رکھ دینا ہے۔ اس لیے کم و بیش ہر مسلم ملک کی صورتحال ایسی ہے کہ عوامی رجحانات کا لحاظ کرنے اور مسلم عوام کو اپنے مستقبل کے بارے میں خود فیصلہ کرنے کا موقع دینے کی بجائے آمریت اور ریاستی جبر کے شکنجے میں جکڑ کر زبردستی مغربی ایجنڈے کی تکمیل کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ اکثر مسلم ممالک میں آمریتیں مسلط ہیں اور جمہوریت کی علمبردار مغربی حکومتیں ان ملکوں کے عوام کی سیاسی و شہری آزادیوں کی حمایت کرنے کی بجائے آمر حکومتوں کو سپورٹ کر رہی ہیں۔ حتیٰ کہ اگر کسی مسلم ملک کے عوام نے باقاعدہ ووٹ کے ذریعے اپنے اجتماعی فیصلے کا وزن اسلام کے اجتماعی و معاشرتی کردار اور اسلامی اقدار و روایات سے بہرحال وابستگی کے حق میں ڈال دیا ہے تو ان کے اس عوامی اور جمہوری فیصلے کو مغرب کی سرپرستی میں فوجی قوت کے ذریعے مسترد کر کے آمریت کے شکنجے کو پہلے سے زیادہ کس دیا گیا ہے، جیسا کہ ترکی اور الجزائر میں ہوا ہے۔

پاکستان کی صورتحال دوسرے مسلم ممالک سے قدرے مختلف ہے۔ اس حوالے سے بھی کہ دوسرے مسلم ممالک کی بنیاد علاقائی قومیتوں پر ہے۔ مصر، شام، سوڈان، عراق، ترکی، الجزائر اور دیگر بہت سے مسلم ممالک کے ریاستی ڈھانچے قومیتوں کی بنیاد پر کھڑے ہیں، جبکہ پاکستان کی بنیاد کسی علاقائی یا نسلی قومیت پر نہیں بلکہ مسلم قومیت اور اسلامی تہذیب کے جداگانہ تشخص پر ہے۔ اس لیے ان ممالک میں اگر خدانخواستہ اسلامی طرز حیات اور نظام ریاست کچھ عرصہ اور بھی بروئے کار نہیں آتا تو ان کے پاس اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے قومیتوں کے حوالے موجود ہیں، مگر پاکستان سے اگر مسلم قومیت کی شناخت اور اسلامی تہذیب کا جداگانہ تشخص چھین لیا جاتا ہے تو مختلف علاقائی قومیتوں کے حامل اس ملک کے پاس اپنے وجود کو باقی رکھنے کی خدانخواستہ کوئی بنیاد ہی باقی نہیں رہ جاتی، اور غالباً مغرب اسی غرض سے پاکستان کو اس کی اسلامی شناخت اور تہذیبی تشخص سے محروم کر دینے کے درپے ہے۔

پاکستان کی صورتحال یہ ہے کہ اس کی اسلامی دستوری بنیاد طے کرنے کا فیصلہ ’’قرارداد مقاصد‘‘ کی صورت میں کسی مذہبی قوم نے نہیں، بلکہ ملک کی باقاعدہ دستور ساز اسمبلی نے کیا تھا۔ اسلام کو ملک کا سرکاری مذہب قرار دینے اور قرآن و سنت کے تمام احکام کو نافذ کرنے کی دستوری ضمانت کسی دینی جماعت نے نہیں، بلکہ عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب دستور ساز اسمبلی نے دی تھی۔ اور قرآن و سنت کو ملک کا سپریم لاء قرار دینے کا دستوری فیصلہ بھی عوام کے ووٹوں سے تشکیل پانے والی قومی اسمبلی اور سینٹ نے کیا تھا۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود پاکستان کا اسلامی تشخص ابھی تک سوالیہ نشان بنا ہوا ہے اور خود صدر جنرل پرویز مشرف نے اپنے اس خطاب میں باقاعدہ یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا پاکستان کو نظریاتی سٹیٹ بنانا چاہیے؟

اس لیے صدر محترم کے اس ارشاد میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارے ہاں قومی سطح پر ذہنی خلفشار موجود ہے، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ وہ خلفشار کشمیر کے مسئلہ، عالم اسلام کے لیے مسائل، یا اندرون ملک فرقہ وارانہ کشمکش کی وجہ سے نہیں، بلکہ ہمارے اجتماعی ذہنی خلفشار کا اصل سرچشمہ کہیں اور ہے۔ اور جن تین مسائل کا ذکر صدر پرویز مشرف نے کیا ہے ان میں بھی اگر الجھاؤ اور کنفیوژن پایا جاتا ہے تو وہ اسی وجہ سے پایا جاتا ہے۔ اس لیے ہمارے نزدیک یہ تینوں مسائل اور ان کا الجھاؤ ہمارے قومی ذہنی خلفشار کا سبب نہیں ہے، بلکہ اس کا نتیجہ ہیں اور جس ذہنی خلفشار کا صدر محترم نے ذکر کیا ہے، اس کے اسباب کی تلاش میں ہمیں کسی اور میدان کا رخ کرنا ہوگا۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس ذہنی خلفشار کو پیدا کرنے اور مسلسل بڑھاتے چلے جانے کی ذمہ داری ان حکمران طبقات پر عائد ہوتی ہے جن کے ہاتھ گزشتہ نصف صدی سے ملک کی زمامِ اقتدار ہے، اور جنہوں نے ابھی تک قیامِ پاکستان کے تہذیبی اور نظریاتی پس منظر کو ذہنی طور پر قبول نہیں کیا۔ بلکہ وہ قیام پاکستان کے تہذیبی محرکات و عوامل، پاکستان کی متعدد منتخب اسمبلیوں کے واضح فیصلوں اور پاکستانی عوام کے واضح رجحانات کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے ملک کو نظریاتی حوالے سے مسلسل تذبذب کی حالت میں رکھنے پر مصر ہیں، اور عالمی برادری کی ناراضگی کا خوف مسلط کر کے پاکستان کے عوام اور دینی حلقوں کو ملک کی نظریاتی اساس اور اسلامی تہذیب و ثقافت سے دستبردار ہونے پر مجبور کر رہے ہیں۔

ہم قومی سطح پر ذہنی خلفشار کی موجودگی کو تسلیم کرتے ہیں اور اس خلفشار کو دور کرنے کے لیے ہر سنجیدہ کوشش اور پروگرام سے تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن اس گزارش کے ساتھ کہ سائے کے پیچھے بھاگنے اور درخت کے پتے جھاڑنے کی بجائے اصل جڑ کی طرف آئیے اور اس تضاد کو دور کرنے کی طرف قدم بڑھائیے، جو ملک کی اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کے قیام کے نظریاتی مقاصد اور اسلامی تہذیب و ثقافت کو سبوتاژ کرنے کے لیے گزشتہ نصف صدی سے پوری ضد اور ہٹ دھرمی کے ساتھ اپنا رکھا ہے۔ جب تک یہ تضاد دور نہیں ہوگا قومی سطح پر ذہنی خلفشار بڑھتا رہے گا اور جزوی ادھورے اور ڈنگ ٹپاؤ قسم کے اقدامات سے قومی یکجہتی کے حصول کا مقصد بھی حاصل نہیں ہو سکے گا۔

   
2016ء سے
Flag Counter