۱۰ مارچ ۲۰۲۴ء کو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں پاکستان شریعت کونسل کی صوبائی مجلس عاملہ کے اجلاس سے خطاب کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آپ حضرات نے بہت اچھا کیا کہ بدلتے ہوئے قومی منظر میں باہمی مشاورت کے لیے رمضان المبارک سے قبل مل بیٹھنے کا اہتمام کیا۔ رمضان المبارک میں ہماری مصروفیات کا دائرہ باقی پورے سال سے مختلف ہوتا ہے اور شوال المکرم دینی مدارس کے نئے سال کے داخلوں اور اسباق کے آغاز کے ماحول میں گزر جاتا ہے۔ حالیہ الیکشن کے بعد ہم ایک نئی قومی زندگی کا آغاز کر رہے ہیں جسے میں یوں تعبیر کرتا ہوں کہ قومی سیاست کے کولہو کے گرد انتخابات کے ایک اور چکر نے دائرہ مکمل کر لیا ہے اور ہم حسب سابق اسی ’’زیرو پوائنٹ‘‘ پر پھر سے کھڑے ہیں جس پر ہر الیکشن کے بعد کھڑے ہوتے ہیں۔
ہمارے ساتھ اسی طرح کا معاملہ ہو رہا ہے جس طرح ٹوٹی ہوئی ہڈیاں جوڑنے والے دیسی معالجین کرتے ہیں کہ ٹوٹی ہوئی ہڈی ان کے حساب سے صحیح نہ جڑی ہو تو اسے دوبارہ جوڑنے کے لیے زخم کو کچا کرتے ہیں اور ہڈی کو توڑ کر پھر سے جوڑنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ ان کا یہ عمل تو مریض کے ساتھ ایک دو بار ہوتا ہے مگر ہم قیامِ پاکستان کے بعد سے کئی بار اس تکلیف دہ عمل سے گزر چکے ہیں۔ ہمارے ہڈیاں جوڑنے والے ہر بار ہڈیوں کی سیٹنگ سے مطمئن ہو جانے کی بجائے قوم کو اس ’’ری پراسیسنگ‘‘ سے گزارنے کو ضروری سمجھتے ہیں اور الیکشن کے ہر عمل کے بعد قوم پھر سے زیرو پوائنٹ پر کھڑی اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنے لگ جاتی ہے۔
بہرحال ہم حسب معمول، حسبِ سابق اور حسبِ توقع پھر سے نقطۂ آغاز پر کھڑے ہیں مگر یہ سب سیاسی باتیں ہیں جو اپنے تاثرات کے اظہار کے لیے میں نے عرض کر دی ہیں جبکہ ہمارا یعنی پاکستان شریعت کونسل کا دائرہ عمل ان سب باتوں سے بے نیاز اپنے مشن اور جدوجہد میں اپنے طور پر بہرحال مصروف رہنا ہے جس کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔
ہمارا دائرہ کار متعین ہے کہ ہم نے پاکستان شریعت کونسل کے فورم پر (۱) ملکی وحدت و سالمیت کی پاسداری (۲) قومی خودمختاری کی بحالی (۳) شریعت اسلامیہ کے عملی نفاذ (۴) دستور پاکستان بالخصوص اس کی اسلامی دفعات کی عملداری (۵) اور غیر اسلامی تہذیب و ثقافت اور روایات و اقدار کی روک تھام کے لیے محنت کرتے رہنا ہے۔
اسی طرح ہمارا طریق کار بھی طے شدہ ہے کہ انتخابات اور عملی سیاست کا حصہ بنے بغیر مذکورہ بالا اہداف کے حوالے سے کسی بھی پیش آمدہ مسئلہ اور خطرہ کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ رائے عامہ کو بریف کرنا، اس کے لیے آواز بلند کرنا اور متعلقہ حلقوں سے رابطہ کر کے انہیں اس کے حل کی طرف توجہ دلانا ہے۔ جسے قومی و دینی مسائل کی نشاندہی، بریفنگ اور لابنگ کے دائروں سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اور ہم گزشتہ تین عشروں سے انہی مقاصد کے لیے اس طریق کار کے مطابق بحمد اللہ تعالیٰ مصروفِ عمل ہیں۔
اب میں ان حوالوں سے پیش آمدہ چند اہم مسائل کا ذکر کرنا چاہوں گا:
دستور کے مطابق ملک کی اسلامی نظریاتی شناخت اور دستور کی اسلامی دفعات مسلسل دباؤ کا شکار ہیں، عالمی و ملکی سیکولر لابیاں انہیں کمزور کرنے کے لیے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہیں، جبکہ یہ مسائل قومی سیاسی جماعتوں کے ایجنڈے کا بھی حصہ نہیں ہیں، اس لیے ان سے اس حوالے سے کوئی توقع نہیں کی جا سکتی۔ گزشتہ چند سالوں میں قومی معیشت حتیٰ کہ اسٹیٹ بینک پر آئی ایم ایف کی نگرانی، اوقاف کا متنازعہ ایکٹ، خاندانی نظام میں تشدد کے خاتمہ کے عنوان سے تبدیلیوں کا قانون، ٹرانس جینڈر کا قانون، اور اب سپریم کورٹ کے ایک فیصلہ میں قادیانیوں کے بارے میں نیا ابہام اور تشکیک کا سامنے آنا اس کی اہم مثالیں ہیں۔ یہ فیصلے موجود اور نافذ ہیں، اگر دینی حلقوں کے دباؤ سے ان پر عملدرآمد میں کچھ تاخیر ہے تو یہ وقتی بات ہے، حالات موافق ہونے پر ان سب قوانین پر عمل کا ایجنڈا موجود ہے جسے دینی قوتوں کی وحدت، رائے عامہ کی بیداری، اور عوامی قوت کے ذریعے ہی روکا جا سکتا ہے۔ اور یہ بات ہمیں ہر وقت ذہن میں رکھنی چاہیے کہ قومی سیاسی جماعتوں میں سے کسی کے قائدین ان میں سے کسی مسئلہ کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کریں گے۔ ان مسائل کے لیے جو کچھ بھی کرنا ہے ہم نے کرنا ہے اور اس کے لیے ہمارا چوکنا رہنا ہے۔ دینی حلقوں میں ہم آہنگی کو فروغ دینا اور مسائل کی نشاندہی اور بریفنگ مہیا کرتے ہوئے دینی و سیاسی جماعتوں اور مراکز کو اس طرف توجہ دلاتے رہنا ضروری ہے۔
اس کے ساتھ ہی بیت المقدس اور فلسطین کا مسئلہ بھی ہمیشہ کی طرح ہماری سنجیدہ توجہ کا طالب ہے۔ فلسطینی مظلوم بھائیوں کی مسلسل اور بھرپور حمایت کے ساتھ ساتھ ان کی عملی مدد کی ممکنہ صورتیں دریافت کرنا اور قوم کو ان کے لیے تیار کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔
میں اس موقع پر یہ عرض کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ حالیہ الیکشن میں دینی ٹائٹل رکھنے والی ایک جماعت کو صرف ایک سیٹ کی بنیاد پر فرنٹ پر لا کر جس طرح اس کی جھولی سیٹوں سے بھر دی گئی ہے وہ قومی سیاست میں حصہ لینی والی دینی جماعتوں کے لیے دوٹوک پیغام ہے کہ اگر وہ قومی سیاست میں اپنے کردار کو سیٹیں بانٹنے والوں کے ایجنڈے کے ساتھ ایڈجسٹ کر لیں تو ان کے لیے بھی سیٹوں کا اہتمام ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر وہ قومی سیاست میں اپنے ایجنڈے کے ساتھ آزادانہ طور پر کوئی کام کرنا چاہتی ہیں تو انہیں اس کا راستہ نہیں ملے گا۔
ان گزارشات کے ساتھ میں ملک بھر میں پاکستان شریعت کونسل کے احباب اور رفقاء سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ وہ صورتحال پر نظر رکھیں اور اپنے مقاصد و اہداف کے حوالے سے اپنے طریق کار کے مطابق خود کو ہر سطح پر مصروف رکھنے کی بھرپور کوشش کریں۔ یہ ہمارا دینی اور ملی فریضہ ہے جس کے لیے ہم قوم اور تاریخ کے سامنے جوابدہ ہوں گے اور قیامت کے دن کی مسئولیت تو طے شدہ بات ہے۔ آپ حضرات باہمی مشاورت کے ساتھ صبر و حوصلہ، بے نیازی اور استقامت کے ساتھ اپنی ذمہ داری اور فرائض کو پوری طرح سمجھتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھیں، اللہ تعالیٰ ہم سب کو پورے عزم و حوصلہ کے ساتھ دینی، ملی اور قومی مقاصد کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔