خدمات علماء دیوبند کانفرنس کا ملت کے نام پیغام

   
۱۰ مئی ۲۰۰۴ء

گزشتہ روز آل جموں و کشمیر جمعیت علماء اسلام کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد نذیر فاروقی جو میرے جیل کے ساتھی اور مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے فاضل ہیں جمعیت کے ایک اور سرگرم رہنما مولانا عبد الحی آف دھیر کوٹ کے ہمراہ گوجرانوالہ تشریف لائے اور یکم و دو مئی کو باغ میں جمعیت کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی دو روزہ ’’خدمات علماء دیوبند کانفرنس‘‘ کی کامیابی اور اس کے نتیجے میں پورے آزاد کشمیر کے دینی حلقوں میں رونما ہونے والی ہلچل کا ذکر کیا۔ کانفرنس بحمد اللہ تعالیٰ بارش اور موسم کی خرابی کے باوجود بہت کامیاب رہی ہے اور اس نے آزاد کشمیر میں علماء حق کی جدوجہد کو ایک نیا رخ دیا۔ کانفرنس میں جمعیت علماء اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمٰن کے فکر انگیز خطاب اور والد محترم شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم کی علالت اور ضعف کے باوجود شرکت کا انہوں نے بطور خاص ذکر کیا اور کہا کہ اس سے ہماری دینی جدوجہد کو بہت تقویت حاصل ہو گی۔

انہوں نے کانفرنس میں میری غیر حاضری کا شکوہ کیا۔ میں نے گزارش کی کہ حاضری کا ارادہ تھا اور پروگرام کی ترتیب بھی تقریباً طے تھی، مگر جب مسلسل بارشوں کی وجہ سے گوجرانوالہ اور دیگر شہروں سے آنے والے بسوں کے قافلوں کو روک دیا گیا تو میرا ارادہ بھی کمزور پڑ گیا۔ ویسے بھی میں روزنامہ اسلام کے تین کالموں کی صورت میں کانفرنس میں اپنا حصہ ڈال چکا تھا اور جو کچھ عرض کرنا چاہتا تھا کہہ چکا تھا، اس لیے حاضری کا پروگرام ترک کر دیا۔

جمعیت کے ان دونوں رہنماؤں نے کانفرنس اور اس کے اثرات کے حوالہ سے جو کچھ بتایا وہ معلوم کر کے بے حد خوشی ہوئی۔ انہوں نے کانفرنس کے بعض خطبات، قراردادوں اور اعلامیہ کے مسودات بھی دیے، جنہیں دیکھ کر اطمینان ہوا کہ کانفرنس کو بامقصد بنانے کے لیے بحمد اللہ تعالیٰ خاصی محنت کی گئی۔ اللہ تعالیٰ امیر جمعیت حضرت مولانا محمد یوسف خان دامت برکاتہم کا سایہ تادیر ہمارے سروں پر سلامت رکھیں اور ان کی رہنمائی میں کام کرنے والے علماء کرام کی ٹیم کو مزید حوصلہ اور توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

کانفرنس کے حوالہ سے مذکورہ بالا مسودات میں آج کے معروضی حالات کے تناظر میں مجھے جو امور زیادہ اہم محسوس ہوتے ہیں وہ قارئین کے مطالعہ کے لیے پیش کر رہا ہوں۔

مولانا امین الحق کانفرنس کے خطبہ استقبالیہ میں دارالعلوم دیوبند کی ملی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ

’’آپ یہ ضرور جاننا چاہیں گے کہ دارالعلوم دیوبند کی تحریک کے برگ و بار سے آج تک ملت اسلامیہ نے کیا استفادہ کیا؟ متنوع مقاصد کی حامل اس تحریک کا اہم ترین کارنامہ اسلامی تہذیب و تمدن کا دفاع اور برطانوی استعمار کا انخلا تھا، جس میں اسے کامیابی ہوئی۔ دین کے تحفظ کے لیے ڈیڑھ درجن تحریکوں (نام باعث طوالت) کی قیادت، ختم نبوتؐ، ناموس رسالتؐ، ناموس صحابہؓ، ناموس بزرگان دین، دفاع مدارس، نفاذ اسلام کی سعی، اسلام کی تبلیغ کے کارہائے نمایاں اس کے حصہ میں آئے۔ ماضی قریب کی جہادی تحریکات کی آبیاری، مستشرقین کے مسکت جوابات، عیسائیت، ہندو مت اور ارتداد کی یلغار کا منہ توڑ جواب، توہمات اور شرک کے گھپ اندھیروں میں توحید و سنت کے چراغ جلانا، دین و سیاست کی دوئی کو یکجائی میں بدلنا، اسلام کو عملاً آفاقی اور ہر دور کے لیے موزوں ضابطہ حیات ثابت کرنا، برصغیر کے طول و عرض میں مدارس کا جال اور دنیا کے سات براعظموں میں بقدر ضرورت ان کا قیام، اسلام کی سلف سے منقول شدہ تعبیر کو متعارف کروانا اور عقل و نقل کا بہترین مرقع بنانا اس تحریک کے کارہائے نمایاں ہیں۔

برصغیر کا موجودہ قابل فخر تدین، عقیدے کی پختگی، مذہب کے بارے میں جانثاری کا جذبہ، بقدر ضرورت دینی رہنمائی کی فراہمی، مشاہیر اسلام کی فہرست میں گرانقدر اضافہ اور دینی لٹریچر کا عربی سے اردو میں انتقال اس تحریک کے شاندار کارنامے ہیں۔ اس کی وجہ سے ”ازہر ہند“ کا آغاز ہوا تو مفسر، محدث، ادیب، فقیہ، قلمکار، سیاسی، صحافی، مورخ، منطقی، فلسفی اور ماہرین علوم دستیاب ہوئے اور اس کا فیض چہار سو عالم پھیلا۔

آپ کے میزبان خطہ کشمیر میں اسلامی اصلاحات شعبہ قضاء و افتاء کا قیام، قاری و عربی معلمین کا تقرر، حدود آرڈیننس، زکوٰۃ آرڈیننس، اردو کا دفتری زبان ہونا، شلوار قمیض کا سرکاری لباس ہونا بھی انہی اکابر کی مساعی کا صلہ ہے جو اس تحریک سے وابستہ تھے۔ جنہوں نے جہاد کے ہر مرحلے میں عملاً قیادت کی، ہزاروں شہیدوں کی قربانی دی۔ اسی طرح انہی علماء نے جو کشمیر سے تعلق رکھتے تھے افغان جہاد میں اہم رول ادا کیا۔

ہم نے جن کارناموں کا ذکر کیا، غیر مذکورہ کا عشر عشیر ہیں۔ وقت کی تنگی تفصیل کی متحمل نہیں ہو سکتی۔‘‘

شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یوسف خان دامت برکاتہم امیر آل جموں و کشمیر جمعیت علماء اسلام ریاست آزاد جموں و کشمیر کے قیام اور اس میں اسلامی قوانین کے نفاذ کے سلسلہ میں علماء کرام کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’۱۹۴۳ء میں منگ کے مقام پر ایک واقعہ پیش آیا۔ ایک ہندو نے منگ کے ایک مسلمان سردار کو قتل کر دیا۔ قاتل کو صرف دو سال سزا ہوئی، جبکہ اس وقت گاؤ کشی کی سزا سات سال تھی، جس پر راقم نے ایک بڑے جلسہ میں یہ کہا تھا کہ ایک مسلمان کے قتل پر اس کے ہندو قاتل کو اتنی کم سزا دی گئی جبکہ گاؤ کشی پر سات سال کی سزا ہے۔ ہندو حکومت کا یہ انصاف نہیں بلکہ ظلم عظیم ہے، اس لیے اس کو ختم کرنا اور اس ظلم سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اس حکومت سے آزادی حاصل کی جائے۔ ظاہر ہے یہ بغاوت تھی جس کی پاداش میں راقم کو پابند سلاسل کیا گیا، مگر اس سے حلقہ میں جو آزادی کی تحریک پہلے سے چل رہی تھی اس میں ہلچل آ گئی۔

ان ہی دنوں میں باغ میں ہاڑی گہل کے مقام پر ہندوؤں کے ہاتھوں مسجد جلانے کا واقعہ پیش آیا، جس پر باغ میں امیر شریعت مولانا عبداللہ کفل گڑھی (مرحوم) کی قیادت میں آزادی کی تحریک میں اور اضافہ ہوا، جس سے پریشان ہو کر ڈوگرہ فوج باغ اور سدھنوتی تک آ گئی۔ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے ۱۹۴۷ء میں پاکستان کی خداداد سلطنت معرض وجود میں آ گئی، جس سے حوصلہ پا کر مظفر آباد، باغ، سدھنوتی اور میرپور کے مجاہدین نے مسلح جنگ کا آغاز کر دیا۔ ان مجاہدین کی کوششوں اور جہاد سے آزاد کشمیر کے اس علاقے کو آزادی حاصل ہوئی۔ مجاہدین کے دوش بدوش مظفر آباد سے مولانا عبدالرحمٰن خطیب سلطان مسجد (مرحوم) اور ان کے ساتھی، باغ سے مولانا عبداللہ کفل گڑھی (مرحوم)، مولانا امیر عالم (مرحوم)، مولانا جلال الدین (مرحوم) جو باغ میں لڑتے ہوئے شہید بھی ہو گئے، مولانا ثناء اللہ شاہ (مرحوم) خطیب جامع مسجد باغ، مولانا مظفر حسین (مرحوم) اور ان کے بھائی حضرت سید کبیر الدین شاہ (مرحوم)، حویلی سے مولانا عبدالحمید قاسمی، مولانا عبدالرحمٰن ٹاٹوی (مرحوم) اور مولانا خلیل احمد (مرحوم)، سدھنوتی سے مولانا عبد العزیز تھوراڑوی، منگ سے مولانا محمد نذیر منگوی، راولا کوٹ سے مولانا غلام حیدر جنڈالوی، پلندری سے مولانا محمد حسین (مرحوم) اور مولانا محمد کریم (شہید)، کوٹلی سے مفتی عبد الکریم (مرحوم) اور مولانا رکن عالم صاحب (مرحوم)، میرپور سے مولانا عبد اللہ سیاکھوی، ان کے بھائی مولانا ابراہیم (مرحوم)، مولانا حکیم حیات علی صاحب (مرحوم)، مولانا عبد الغفور کے والد مولانا محمد یوسف (مرحوم)، مولانا محمد حسین صاحب بانی دارالعلوم باغ اور بھمبر سے مولانا عبداللہ (مرحوم) وغیرہ علماء کرام نے نہ صرف مجاہدین سے تعاون کیا، بلکہ اکثر ان کے ساتھ محاذ پر بھی شریک رہے۔ اس جہاد میں پونچھ کے مقام پر مولانا محمد کریم صاحب آف پلندری نے بھی شہادت پائی۔

آزاد شدہ علاقہ میں جب حکومت قائم ہوئی تو ان علماء کرام کی یہ کوشش تھی کہ اس علاقہ میں اسلامی قوانین کا نفاذ کیا جائے۔ چنانچہ ۱۹۴۹ء میں ابتدائی طور پر محکمہ افتاء قائم کیا گیا اور طے پایا تھا کہ آگے چل کر اس کو محکمہ قضاء میں تبدیل کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ عوام و خواص کو اسلامی قوانین سے آگاہی کے لیے عدالتوں میں درس قرآن کا اہتمام کیا گیا۔ آگے چل کر حدود اور قصاص کا ایکٹ منظور ہوا، جس کی بعد میں پاکستان نے بھی تقلید کی ہے۔ اس ایکٹ کی منظوری کے بعد محکمہ افتاء کو محکمہ قضاء میں تبدیل کیا گیا اور جملہ عدالتوں کو اسلامی قوانین کے مطابق فیصلہ کرنے کا پابند کیا گیا۔

محکمہ افتاء کو محکمہ قضاء میں تبدیل کرنے کے بعد محکمہ افتاء کو دوبارہ قائم کر کے ازسرنو مفتی صاحبان کا تقرر کیا گیا۔ اس وقت قاضی حضرات عدالت عالیہ کے ماتحت اور محکمہ افتاء علیحدہ طور پر دینی فرائض سرانجام دینے میں مصروف ہیں۔ البتہ عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ میں قضاء کے تقرر کا معاملہ تاہنوز تشنہ تکمیل ہے۔ اسی طرح آزاد کشمیر میں اگرچہ شریعت ایکٹ منظور ہے، مگر شریعت کو سپریم لاء قرار دینے کا مطالبہ تاحال پورا نہیں ہوا، جس کے لیے ہماری کوشش جاری ہے۔‘‘

شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یوسف خان دامت برکاتہم آل جموں و کشمیر جمعیت علماء اسلام کا تعارف کراتے ہوئے اس کی سرگرمیوں اور عزائم و مقاصد کا یوں تذکرہ فرماتے ہیں کہ

”آزادی سے پہلے یہاں جمعیت علماء پونچھ کے نام سے علماء کی تنظیم قائم تھی، جس کے صدر حضرت مولانا غلام حیدر پلندری پھلیاں والے (مرحوم) اور اس کے بعد عبد الرحمٰن ٹاٹوی تھے۔ اس وقت پونچھ کی چار تحصیلیں قائم تھیں: سدھنوتی، باغ، حویلی، مینڈر۔ جہاد آزادی سے تحصیل باغ اور تحصیل سدھنوتی مکمل آزاد ہو گئے، جبکہ حویلی اور مینڈر کا ایک حصہ ابھی تک بھارت کے قبضہ میں ہے۔ آزادی کے بعد اہلیان باغ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ۱۹۴۹ء میں اسی باغ کے مقام پر جامع مسجد باغ میں علماء کرام کے ایک اجتماع میں جس میں جامع مسجد کے خطیب حضرت مولانا ثناء اللہ شاہ صاحب (مرحوم)، مولانا عبد العزیز تھوراڑوی (مرحوم)، مولانا مظفر حسین ندوی (مرحوم)، حضرت مولانا علامہ محمد شریف کشمیری ملتانی صاحب (مرحوم)، مولانا محمد نذیر صاحب منگوی اور اس طرح کے بہت سے علماء کرام کے اجتماع میں جمعیت علمائے اسلام آزاد کشمیر کے نام سے تنظیم کا آغاز کیا گیا۔ جس کی سربراہی مولانا عبد الرحمن صاحب ٹاٹوی کو حاصل تھی، سیکرٹری کا عہدہ کبھی راقم کے پاس رہا اور کبھی مولانا مفتی عبد المتین (مرحوم) کے پاس۔ ایک عرصہ حضرت مولانا میر واعظ یوسف شاہ صاحب کشمیری بھی اس کے صدر رہے، جو پہلے محکمہ افتاء کے وزیر اور بعد میں آزاد حکومت کے صدر بھی رہے۔

آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ کشمیر میں شیخ عبداللہ کے مقابلہ میں وہ ہی واحد دینی عظیم شخصیت تھی جو پاکستان کی حامی رہی۔ ان کے دور میں محکمہ افتاء کو استحکام ملا۔ بحمد اللہ آج بھی اس خاندان کے چشم و چراغ مولانا عمر فاروق تحریک آزادی کشمیر کے لیے حریت کانفرنس میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور آپ کو یہ جان کر بھی خوشی ہو گی کہ لاہور میں جب قرارداد پاکستان پیش ہوئی تو کشمیر کی طرف سے اس کی تائید بھی کرنے والے حضرت مولانا غلام حیدر جنڈالوی دیوبندی تھے۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آزادی کشمیر کی مسلح تحریک کے آغاز کا شرف مولانا عبد الحی صاحب کے والد گرامی حضرت مولانا خدا بخش دیوبندی (مرحوم) کو حاصل ہے۔ حضرت مولانا یوسف شاہ صاحب (مرحوم) کے بعد پھر مولانا ٹاٹوی صاحب صدر رہے اور ان کے فوت ہونے کے بعد سب ساتھیوں نے جماعت کی ذمہ داری مجھ پر ڈالی۔ جبکہ اس کے سیکرٹری مولا نا امیر الزمان صاحب (مرحوم) رہے۔ انہوں نے اپنے دور میں بے شمار خدمات سرانجام دیں۔ ان کے فوت ہونے کے بعد یہ ذمہ داری بہت سے دوست نبھاتے رہے۔ جبکہ اب ایک عرصہ سے یہ ذمہ داری مولانا نذیر فاروقی صاحب نبھا رہے ہیں۔

جماعت کا واحد مقصد کشمیر کی آزادی، آزاد کشمیر میں اسلامی نظام کا مکمل نفاذ، دینی تعلیم کی ترویج اور تعلیم، لوگوں کی اصلاح، بدعات خرافات سے ان کا تحفظ اور جملہ وہ مقاصد جن کے حامل ہمارے اسلاف رہے ہیں، ان کے حصول کی کوشش اور جدوجہد ہے۔ ہماری کوشش اور جدوجہد کا یہ بھی ایک حصہ ہے کہ گلگت اور بلتستان جو کشمیر کا حصہ ہے، اس کو آج تک آزاد حکومت کی عمل داری سے خارج رکھا گیا ہے، اس کو آزاد کشمیر کی عمل داری میں شامل کر کے وہاں کے باشندوں کو حصول انصاف کے لیے آزاد کشمیر عدالت العالیہ اور عدالت عظمیٰ تک رسائی کو ممکن بنایا جائے۔‘‘

کانفرنس کے اعلامیہ میں مسئلہ کشمیر کی موجودہ صورت حال اور مستقبل کے امکانات کا جائزہ لیتے ہوئے آل جموں و کشمیر جمعیت علماء اسلام کے مندرجہ ذیل اصولی اور متوازن موقف کا اعلان کیا گیا:

  1. یہ عظیم الشان اجتماع مقبوضہ کشمیر میں جاری جدوجہد آزادی کو شرعی جہاد قرار دیتے ہوئے اس کی مکمل حمایت کا اعلان کرتا ہے اور واضح کرتا ہے کہ بھارت کی ظالمانہ کارروائیوں سے کشمیریوں کے جائز حق کو کسی بھی صورت میں غصب نہیں کیا جا سکتا۔
  2. یہ عظیم اجتماع مطالبہ کرتا ہے کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیا جائے، جس کا وعدہ اقوام عالم کے فورم نے کشمیریوں سے کیا ہے۔
  3. آج کا یہ عظیم اجتماع پاکستان و بھارت کے درمیان مذاکرات کی حمایت کرتے ہوئے یہ واضح کرتا ہے کہ مذاکرات سے قبل ضروری ہے کہ فریقین کشمیر کو حل طلب مسئلہ تسلیم کریں، جس کا فیصلہ کشمیری عوام کی خواہشات اور مرضی سے ہو گا۔
  4. کشمیر کے مسئلہ کے حل تک فریقین اپنی فوجوں کو صرف کنٹرول لائن تک محدود کریں، سیز فائر کا اطلاق صرف کنٹرول لائن تک محدود نہ کیا جائے، بلکہ اس پر مقبوضہ کشمیر کے اندر بھی عمل درآمد ہو۔
  5. ہم اس عظیم اجتماع کی وساطت سے اقوام عالم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ بھارت کو مسئلہ کشمیر کے حل پر مجبور کیا جائے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے بھارت کو روکا جائے۔
  6. آج کا یہ اجتماع واضح کرتا ہے کہ ویزا کی پابندی کے ساتھ کشمیر کے دونوں خطوں میں آمدورفت کو ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔
  7. یہ اجتماع مطالبہ کرتا ہے کہ کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان آمدورفت کے لیے ۱۹۵۶ء سے پہلے جو طریقہ رائج تھا اسے بحال کیا جائے۔
  8. آج کا یہ اجتماع ہندوستان و پاکستان پر یہ واضح کرتا ہے کہ کشمیر بشمول آزاد کشمیر، مقبوضہ جموں و کشمیر، شمالی علاقہ جات ایک وحدت ہے۔ کشمیری ہر اس فیصلے کو مسترد کرتے ہیں جس سے کشمیر کی وحدت کے نقصان کا اندیشہ ہو۔
  9. یہ اجتماع مطالبہ کرتا ہے کہ مذاکرات کے عمل میں کشمیری قیادت کو بھی شامل کیا جائے۔ کیونکہ کشمیری ہی مسئلہ کشمیر کے ۔۔۔۔۔۔۔ حیثیت رکھتے ہیں۔
  10. کانفرنس کی رائے میں ۔۔۔۔۔۔۔ خوشحالی کے لیے خطے کے ممالک کے درمیان باہمی ۔۔۔۔۔ لازمی ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل کشمیری عوام کی خواہشات اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کیا جائے۔
  11. یہ اجتماع بھارت کی طرف سے کشمیریوں کی نسل کشی اور اقوام عالم کی مجرمانہ خاموشی کی بھرپور مذمت کرتا ہے اور حکومت پاکستان کو متنبہ کرتا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر ۔۔۔۔۔۔ موقف سے دستبرداری کسی بھی صورت میں قابل ۔۔۔۔ نہیں ہو گی۔
  12. اعتماد کی بحالی کے نام پر تجارتی و ثقافتی وفود کے تبادلے اور پاکستان میں ہندووانہ کلچر کے فروغ کی کسی بھی صورت میں اجازت نہیں دی جائے گی۔
  13. یہ اجتماع مطالبہ کرتا ہے کہ ۔۔۔۔۔ قیادت کو باہمی گفتگو اور ملاقاتوں کا موقع فراہم کیا جائے۔
  14. ۔۔۔۔۔ ایریاز، مقبوضہ کشمیر، آزاد کشمیر ایک ہی وحدت کی تین اکائیاں ہیں، جو اپنی اصل سے ناقابل انفکاک ہیں۔ آج کے اجتماع میں جمعیت اپنے اس واضح موقف کا برملا اظہار کرتی ہے کہ وہ اس کی وحدت وسالمیت کی بقاء کے ساتھ اس کی آزادی کے لیے تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے جدوجہد جاری رکھے گی۔ نیز شمالی علاقہ جات کو آزاد کشمیر اسمبلی میں نمائندگی دلانے کے لیے راہ ہموار کرے گی۔
  15. ۔۔۔۔۔۔۔۔ شمالی علاقہ جات یا کشمیر کی مذہبی یا فرقہ وارانہ بنیادوں ۔۔۔۔۔ کے امکانات یا اندیشوں کو کلیۃً مسترد کرتے ہوئے اصحاب اقتدار کو متنبہ کرتی ہے کہ اس سے قضیہ کشمیر کے ۔۔۔۔ حل کی راہیں مسدود ہو جائیں گی۔ بالخصوص ۲۸ ہزار میل رقبہ پر مشتمل نادرن ایریاز کشمیر کا تاریخی اور جغرافیائی حیثیت سے لازمی حصہ ہیں۔ اسے ریاست کی ۔۔۔۔۔ اکائی تسلیم کروانا اور کشمیر اسمبلی میں نمائندگی دلانا جمعیت کا ہدف ہوگا۔
   
2016ء سے
Flag Counter