مذہب، مذہبی شخصیات و مقامات اور مذہبی اقدار و روایات کی توہین کو جرم تسلیم کرنے کی بجائے آزادئ رائے کی علامت قرار دیا جا رہا ہے اور اقوام متحدہ کے متعلقہ شعبہ کی طرف سے پاکستان سے باقاعدہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ توہینِ مذہب کے قوانین کو ختم کر دیا جائے۔
یہ سوال اپنی جگہ مستقل ہے کہ اگر عام انسان کی توہین جرم ہے اور کسی بھی ملک کے عام شہری کی توہین جرم ہے تو مذہبی شخصیات کی توہین کیوں جرم نہیں؟ مگر اس سے ہٹ کر بعض حضرات کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ چونکہ اس قانون کا غلط استعمال بھی ہو جاتا ہے اس لیے اسے ختم کر دینا چاہیے۔ یہی بات مغرب کی طرف سے خود مذہب کے بارے میں کہی جاتی ہے کہ چونکہ بعض لوگ مذہب کا غلط استعمال کرتے ہیں اس لیے مذہب کے معاشرتی کردار کو ختم کر دینا چاہیے۔
سوال یہ ہے کہ اگر کسی قانون کا غلط استعمال اسے ختم کر دینے کی دلیل یا جواز ہے تو پاکستان میں دیگر بہت سے قوانین کی طرح اقدامِ قتل سے متعلق دفعات ۳۰۲ اور ۳۰۷ کا بھی عام طور پر باہمی دشمنیوں میں غلط استعمال ہوتا ہے، تو کیا یہ قانون ختم کر کے قتل کو بھی جرائم کی فہرست سے نکال دینا چاہیے؟