پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چودھری شجاعت حسین نے گزشتہ روز قومی اسمبلی میں حقوق نسواں کے تحفظ کے حوالے سے ایک اور بل پیش کر دیا ہے، جس میں عورتوں کو وراثت سے محروم رکھنے، ان کی جبری شادی، قرآن کریم کے ساتھ شادی کے نام سے انہیں نکاح کے حق سے محروم کرنے اور ونی جیسی معاشرتی رسموں اور رواجوں کو قابل تعزیر جرم قرار دیا گیا ہے۔ یہ بل جسے ”خواتین دشمن روایات ایکٹ ۲۰۰۷ء“ کا نام دیا گیا ہے، دراصل ان تجاویز پر مشتمل ہے جو ”تحفظ حقوق نسواں ایکٹ“ کے حوالے سے چودھری شجاعت حسین کی تجویز پر قائم ہونے والی ”علماء کمیٹی“ نے خود چودھری صاحب اور ان کے رفقاء کے ساتھ مذاکرات کے دوران اس عنوان سے پیش کی تھیں کہ ”تحفظ حقوق نسواں ایکٹ“ میں تو خواتین کے حقوق نام کی کوئی چیز شامل نہیں، بلکہ زنا کے راستے میں حائل رکاوٹیں دور کر کے اس ایکٹ میں عورتوں کی عصمت و عزت کو خطرے میں ڈال دیا گیا ہے۔ اس لیے اگر حکومت واقعتاً عورتوں کے حقوق کا تحفظ کرنا چاہتی ہے تو ہمارے معاشرتی تناظر میں عورتوں کے حقوق یہ ہیں کہ انہیں وراثت میں حصہ دلوانے کا اہتمام کیا جائے، ان کی جبری شادی کو قانوناً ممنوع قرار دیا جائے، بعض علاقوں میں موجود ان کی خرید و فروخت کا رواج ختم کرایا جائے اور ان کو مہر کی رقم دلوانے کی قانونی ضمانت دی جائے وغیرہ۔
حکومت نے تحفظ حقوق نسواں ایکٹ کے حوالے سے ”علماء کمیٹی“ کی سفارشات کو تو تسلیم نہیں کیا اور اسے اسی قابلِ اعتراض صورت میں پارلیمنٹ سے منظور کروا لیا ہے، جس پر نہ صرف متحدہ مجلس عمل کو شدید اعتراض ہے، بلکہ ملک بھر کے دینی حلقوں اور اس سلسلے میں خود حکومتی حلقوں کی تجویز کردہ ”علماء کمیٹی“ نے بھی اسے مسترد کر دیا ہے اور اب بھی باقاعدہ قانون کی شکل اختیار کر لینے کے باوجود ”تحفظ حقوق نسواں ایکٹ“ سنجیدہ دینی و علمی حلقوں کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے، البتہ اب اسے متوازن کرنے کے لیے ”علماء کمیٹی“ ہی کی سفارشات کو ”خواتین دشمن روایات بل“ کے عنوان سے قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا ہے، جسے قومی اسمبلی نے بحث کے لیے منظور کر لیا ہے اور اسے ”سلیکٹ کمیٹی“ کے سپرد کر دیا گیا ہے، جو اس کے مسودہ کو حتمی شکل دے گی، جبکہ اپوزیشن نے اس مرحلہ پر اس کی مخالفت نہیں کی۔
جہاں تک اس بل کے مشمولات کا تعلق ہے چونکہ یہ خود ہماری تجاویز پر مشتمل ہیں اور ہمارے معروضی معاشرتی تناظر میں عورتوں کو درپیش حقیقی مسائل سے تعلق رکھتے ہیں، اس لیے ہم اس بل کی حمایت کرتے ہیں اور اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ یہ وضاحت بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اس بل کی منظوری سے ”تحفظ حقوق نسواں ایکٹ“ متوازن نہیں ہو گا اور اس پر قرآن و سنت اور فقہ اسلامی کی روشنی میں ہمارے اعتراضات اور تحفظات بدستور قائم رہیں گے، جن کے لیے علمی و دینی حلقوں کی جدوجہد بدستور اسی طرح جاری رہے گی جیسے صدر محمد ایوب خان مرحوم کے نافذ کردہ عائلی قوانین کی قرآن و سنت کے منافی شقوں کے خلاف جدوجہد چلی آ رہی ہے۔
اس موقع پر ہم عورتوں کو وراثت میں حصہ دلوانے کے لیے قانونی اور سماجی جدوجہد کے پس منظر سے قارئین کو آگاہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں یہ جدوجہد کم و بیش پون صدی سے زیادہ عرصہ سے جاری ہے۔ ہمارے ہاں رواج کے نام سے عورتوں کو وراثت کا حق دار نہیں سمجھا جاتا اور اس رواج کی جڑیں روایات تک پھیلی ہوئی ہیں، جن کے مطابق باپ کی وراثت کا حق دار صرف بیٹا تصور ہوتا تھا اور بیٹی کو شادی کے موقع پر جہیز کے نام سے کچھ دے دلا کر باپ کی جائیداد میں وراثت کے حق سے فارغ کر دیا جاتا تھا۔
ہمارے معاشرے میں شادی کے موقع پر لڑکیوں کو بھاری جہیز دینے کا جو رواج ہے، اس کے پس منظر میں دونوں تصور کارفرما ہیں۔ سنت نبویؐ کا تصور بھی موجود ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو شادی کے موقع پر گھریلو استعمال کی چند اشیاء مرحمت فرمائی تھیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ سوچ بھی موجود ہوتی ہے کہ لڑکی کو چونکہ باپ کی جائیداد سے کچھ نہیں ملتا، اس لیے اسے جہیز کے نام پر شادی کے موقع پر کچھ دے دلا کر فارغ کر دیا جائے۔ چنانچہ عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شادی شدہ خاتون باپ کی وفات کے بعد وراثت کے حصے کا تقاضا کرتی ہے تو اسے یہ کہہ کر چپ کرا دیا جاتا ہے کہ تمہیں جہیز میں جو کچھ دیا گیا تھا، وہی تمہارا باپ کی وراثت میں حصہ ہے۔ جبکہ شرعی مسئلہ یہ ہے کہ جہیز سے وراثت کا حق ادا نہیں ہوتا اور عورت کو جہیز ملے یا نہ ملے، باپ کی وفات پر اس کی جائیداد میں شرعی طور پر مقرر کردہ حصہ پر اس کا حق برقرار رہتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں عورت کو نہ صرف یہ کہ باپ کی جائیداد میں حصہ نہیں ملتا، بلکہ خاوند، بیٹے یا بعض صورتوں میں بھائی کی وراثت سے بھی اسے محروم رکھا جاتا ہے اور اس کے لیے اس کی طرف سے معاف کر دینے اور دستبردار ہو جانے کے بعض حیلے ہمارے ہاں عام طور پر مروج ہیں۔
اس مسئلہ پر سب سے پہلے ۱۹۲۳ء میں حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے توجہ فرمائی۔ جب انہیں توجہ دلائی گئی کہ پنجاب میں عورتوں کو وراثت میں حصہ نہیں دیا جاتا تو انہوں نے ایک تبلیغی مہم کا آغاز کیا اور خانقاہ تھانہ بھون کے مفتی مولانا عبد الکریم گمتھلوی رحمہ اللہ کو پنجاب کے مختلف علاقوں میں تبلیغی مہم کے لیے روانہ فرمایا، جنہوں نے علماء کرام، مسلمانوں کی انجمنوں اور رہنماؤں سے ملاقاتوں کے علاوہ عوامی اجتماعات سے خطاب کر کے لوگوں کو اس مسئلہ کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی کہ عورتوں کو وراثت میں حصہ دینا شرعی طور پر ضروری ہے اور انہیں اس سے کسی بھی طرح محروم رکھنا غصب اور ظلم شمار ہوتا ہے، جو سخت گناہ کی بات ہے۔ حضرت حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ نے ”ظلمِ پنجاب کے متعلق خدائی وصیت“ اور ”غصب المیراث“ کے نام سے دو پمفلٹوں میں مسئلہ کی پوری طرح وضاحت کر کے اس کی ہزاروں کاپیاں تقسیم کرائیں۔
حضرت مولانا مفتی عبد الکریم گمتھلوی رحمہ اللہ نے اس مقصد کے لیے پنجاب کے دو تفصیلی سفر کیے، پہلا سفر انہوں نے تنہا ۱۹۲۴ء میں کیا، جبکہ ۱۹۲۵ء میں دوسرے سفر میں حضرت مولانا عبد المجید بدایونی رحمہ اللہ بھی ان کے ہمراہ تھے، حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے اس فتویٰ اور جدوجہد کی تفصیل حضرت مولانا مفتی عبد الکریم گمتھلوی کے پوتے اور حضرت مولانا مفتی سید عبد الشکور ترمذی کے فرزند مولانا مفتی سید عبد القدوس ترمذی نے ”غصب المیراث“ کے نام سے ایک کتابچہ میں شائع کر دی ہے، جو مسئلہ کی وضاحت کے ساتھ ساتھ دلچسپ تاریخی معلومات پر مشتمل ہے اور اسے ”ادارہ اشرف البیان، جامعہ حقانیہ، ساہیوال ضلع سرگودھا“ سے طلب کیا جا سکتا ہے۔
اس سلسلے کی دوسری کوشش ۱۹۳۵ء میں ہوئی، جب برطانوی حکومت کے تحت صوبائی خود مختاری کے عنوان سے انتخابات ہوئے اور مختلف صوبوں میں قانون ساز اسمبلیاں وجود میں آئیں تو صوبہ سرحد کی اسمبلی میں ”شریعت بل“ کے عنوان سے ایک مسودۂ قانون پیش کیا گیا کہ صوبہ سرحد کے عام رواج کے مطابق لڑکیوں کو وراثت میں حصہ نہیں دیا جاتا، اس لیے قانونی طور پر لوگوں کو پابند کیا جائے کہ وہ عورتوں کو شریعت اسلامیہ کے مطابق ان کا حصہ ادا کریں۔ یہ بل جب صوبائی قانون ساز اسمبلی میں پیش ہوا تو اسے حسبِ ضابطہ ایک سیلیکٹ کمیٹی کے سپرد کیا گیا، جس کے سربراہ مجلس قانون ساز کے ممبر سر جارج کنگھم تھے، انہوں نے اس سلسلے میں مسلمان علماء کرام سے رہنمائی کے لیے رابطہ کیا تو ایک اشکال سامنے آیا کہ کیا برطانوی حکومت سے اور برطانوی نوآبادیاتی نظام سے شریعت اسلامیہ کے کسی قانون کے نفاذ کا مطالبہ درست ہے یا نہیں اور علماء کرام کو اس سلسلے میں سیلیکٹ کمیٹی سے ملاقات کرنا چاہیے یا نہیں؟
اس وقت جمعیت علماء ہند کی صوبہ سرحد شاخ کے صدر مولانا شاکر اللہ رحمہ اللہ تھے اور ان سے بھی سیلیکٹ کمیٹی نے اس سلسلے میں رابطہ قائم کیا تھا۔ انہوں نے مفتی اعظم ہند اور جمعیت علماء ہند کے مرکزی قائد مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ کی خدمت میں رہنمائی کے لیے استفسار بھیجا کہ مجھے سیلیکٹ کمیٹی کی اس فرمائش پر کیا کرنا چاہیے؟ مولانا شاکر اللہ کا یہ استفسار یکم جولائی ۱۹۳۵ء کا تحریر کردہ ہے اور حضرت مفتی صاحب کے جواب سمیت ”کفایت المفتی“ میں موجود ہے۔ حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ نے جمعیت علماء ہند کے صوبائی صدر مولانا شاکر اللہ کو جواب میں لکھا ہے کہ
”اس کمیٹی کے سامنے آپ شہادت میں یہ بیان دیں کہ قرآن مجید کی رو سے ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ خدا کے احکام کے سامنے سرِتسلیم خم کرے، ورنہ وہ مسلمان نہیں رہے گا، اس کے لیے آیت کریمہ اور دیگر آیات پیش کریں، پھر یہ بتائیں کہ جو رواج شریعت اسلامیہ کے صریح خلاف ہو، اس کو بمقابلہ شریعت اختیار کرنا مسلمان کو اسلام سے خارج کر دیتا ہے۔ اس لیے مسلمانوں کا یہ مطالبہ بالکل صحیح ہے کہ مسلمانوں کے درمیان اسلامی احکام کے موافق وراثت، نکاح، طلاق وغیرہ مقدمات فیصل کیے جائیں اور چونکہ حکومت برطانیہ کا وعدہ اور اس کا اصول بھی یہی ہے کہ وہ کسی مذہب میں دست اندازی نہ کرے گی، بلکہ رعایا کے ہر طبقہ کو اس کے مذہب پر عمل کرنے میں آزاد رکھے گی، اس لیے حکومتِ ہند کو ایک منٹ کے لیے بھی تامل نہ ہونا چاہیے کہ وہ مجوزہ بل پاس کر دے۔“
(بقیہ حصہ دستیاب نہیں ہو سکا۔)