غازی جمال عبد الناصرؒ، عرب اتحاد کا عظیم علمبردار

   
۴ اکتوبر ۱۹۷۴ء

صدر جمال عبد الناصر ۱۵ جنوری ۱۹۱۸ء کو شمالی مصر کے ایک چھوٹے سے گاؤں بنی مور میں ایک متوسط الحال مصری گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آٹھ برس کی عمر میں انہیں تحصیل علم کے لیے قاہرہ بھیج دیا گیا جہاں انہوں نے نہضۃ المصر ثانوی سکول میں داخلہ کیا۔ ثانوی تعلیم کی تکمیل کے بعد ۱۹۳۷ء میں جب ان کی عمر ۱۹ برس تھی، وہ ملٹری اکیڈمی میں داخل ہوئے جہاں سے تکمیل پا کر نکلے تو جولائی ۱۹۳۸ء میں انفنٹری میں سیکنڈ لیفٹیننٹ کی حیثیت سے کمشن مل گیا۔ بعد ازاں تھرڈ کیولری بٹالین سے منسلک ہو گئے اور ان کا تقرر ملک آباد میں ہوا۔ یہیں ان کی ملاقات زکریا محی الدین انور السادات اور احمد انور سے ہوئی اور ان لوگوں سے تبادلۂ خیالات کا موقع ملا۔

صدر جمال عبد الناصر کی تصنیف ’’فلسفۂ انقلاب‘‘ کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سکول کے زمانے ہی سے مصر کی سیاسی صورتحال سے مطمئن نہ تھے، اور اسے بدلنے کی خواہش ہمیشہ ان کے دل میں موجزن رہی۔

۱۹۳۹ء میں دوسری جنگ عالمگیر کے آغاز پر ان کا تبادلہ سکندریہ ہو گیا۔ یہاں ان کی ملاقات عبد الحکیم عامر سے ہوئی۔ بعد میں انہیں العالمین اور سکندریہ کے درمیان ایک فوجی کیمپ میں متعین کر دیا گیا۔ وہاں سے دو برس کے لیے سوڈان بھیج دیے گئے۔

۱۹۴۲ء میں انہیں ملٹری اکیڈمی میں انسٹرکٹر مقرر کیا گیا۔ کچھ عرصہ بعد وہ جنرل اسٹاف کالج میں داخل ہو گئے اور وہاں سے گریجویشن کرنے کے بعد لیکچرر کی حیثیت سے فرائض انجام دینے لگے۔

۱۹۴۸ء میں جنگِ فلسطین شروع ہوئی تو ناصر نے فوج سے استعفیٰ دے دیا تاکہ وہ رضاکار کی حیثیت سے جنگ میں شریک ہو سکیں، لیکن ان کا استعفیٰ منظور نہ ہوا۔ جب مصر نے جنگِ فلسطین میں شامل ہونے کا فیصلہ کر لیا تو انہیں جنگ پر بھیج دیا گیا۔ جنگ کے دوران وہ شدید زخمی ہو گئے۔ چنانچہ وہ کچھ عرصہ غزہ کے فوجی ہسپتال میں زیر علاج رہے۔ اس جنگ میں انہیں دو مرتبہ فوجی اعزاز ’’فواڈ سٹار‘‘ ملا۔ وہیں انہوں نے آزاد خیال افسروں کی تنظیم کا خاکہ مرتب کیا۔

اس تنظیم نے صدر ناصر کی قیادت میں ۲۳ جولائی ۱۹۵۳ء کو مصر میں انقلاب بپا کیا تھا۔

۹ ستمبر ۱۹۵۴ء کو زرعی اصلاحات کا قانون منظور ہوا جس کے تحت حدِ ملکیت دو سو ایکڑ تک مقرر کی گئی۔ اس طرح مصر میں پہلی مرتبہ فلاحین (مزارعوں) کو، جو صدیوں سے جاگیرداری نظام میں پستے چلے آئے تھے، معاشی آزادی حاصل ہوئی۔ زرعی اصلاحات کے ساتھ ہی امداد باہمی کی تحریک کو فروغ دیا گیا۔ اس عرصے میں نئی حکومت معاشرتی اصلاحات اور قومی ترقی کے مسائل پر بھی متوجہ رہی اور ایک نئے معاشرے کی تشکیل کے لیے ایک حقیقت پسندانہ طرز عمل اختیار کیا گیا۔

۱۹ اکتوبر ۱۹۵۴ء کو مصر سے برطانوی افواج کے انخلا کے سلسلہ میں ایک معاہدے پر دستخط ہوئے اور قرار پایا کہ بیس ماہ میں تمام برطانوی افواج مصری علاقے سے نکل جائیں۔ اس طرح مصر کو تین ربع صدی کے غیر ملکی تسلط سے نجات مل گئی۔

جون ۱۹۵۶ء میں جمال عبد الناصر جمہوریہ مصر کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ صدر ناصر نے اہلِ مصر ہی نہیں پوری دنیائے عرب کے عوام کے دلوں پر حکمرانی کی۔ وہ عربوں کی بیداری کا نشان بنے۔ انہوں نے عربوں کو آزادی کی راہ دکھائی اور اس پر ثابت قدم رہنے کا چلن سکھایا۔ ان کا دورِ اقتدار مسلسل آزمائش میں گزرا۔

نہر سویز پر ۱۹۵۶ء میں اینگلو فرانسیسی اور اسرائیلی حملے نے مصر کو نہایت ہی نازک صورت حالات سے دوچار کر دیا۔ لیکن صدر ناصر کے پائے استقلال نے لغزش نہ کی۔ انہوں نے کمال جرأت و پامردی کا مظاہرہ کیا اور اس امتحان سے سرخرو نکلے۔

انہیں دوسری بڑی آزمائش کا سامنا جون ۱۹۶۷ء میں اس وقت ہوا جب اسرائیل نے عربوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی اور صحرائے سینائی سمیت کئی عرب علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ نہر سویز بند ہو گئی، جس سے مصر کے لیے چند در چند اقتصادی مشکلات پیدا ہو گئیں۔ صدر ناصر نے اسرائیل کے ہاتھوں عربوں کی شکست کی ذمہ داری اپنے سر لے لی اور صدارت کے منصب سے استعفیٰ دے دیا۔ لیکن عرب عوام اور دوست عرب ممالک کے اصرار پر انہوں نے استعفیٰ واپس لے لیا۔

انہوں نے اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لیے مصر کی طاقت میں نمایاں اضافہ کیا اور اسے اس قابل بنا دیا کہ وہ اسرائیل کی کسی آئندہ جارحیت کا مؤثر سدباب کر سکے۔ وہ تا دمِ واپسیں مقبوضہ عرب علاقوں کو واگزار کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ شبانہ روز محنت، نا مساعد حالات، اسرائیلی جارحیت اور اردن میں فدائیوں اور حکومت کے درمیان بڑھتے ہوئے اختلافات کے باعث ان کی صحت بری طرح متاثر ہوئی۔

۲۸ ستمبر ۱۹۷۰ء کو دنیائے عرب کا یہ بطلِ جلیل اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا۔ صدر ناصر نے مصر کے اقتصادی استحکام کے لیے دور رس اقدامات کیے۔ اسوان ڈیم کی تعمیر ان کا ایک ناقابل فراموش کارنامہ تصور ہوتا رہے گا۔ انہوں نے مصری عوام کا معیارِ زندگی بلند کرنے کے لیے ہمہ جہتی اصلاحات نافذ کیں جو دوائر پر محیط ہیں۔

غازی مرحوم نے عرب عوام کو اتحاد کا سبق دینے کے ساتھ ساتھ ان کی فکری رہنمائی بھی کی، اور انہیں بتایا کہ عرب دنیا اور ملتِ اسلامیہ کی فلاح مغرب کی تقلید میں نہیں بلکہ اسلام کی اعلیٰ تعلیمات اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ قدم پر چلنے میں ہے۔ ناصر مرحوم نے ایک کتاب ’’العدالۃ الاجتماعیہ و حقوق الفرد‘‘ کا دیباچہ لکھتے ہوئے کیا اچھی بات کہی ہے کہ

’’ہم مسلمان اور عرب عوام آج دنیا کو اس مسئلہ پر حیران و سرگرداں دیکھتے ہیں کہ فرد اور معاشرہ کا آپس میں کیا تعلق ہے اور معاشرہ کا انتظام کیا ہونا چاہیے، تو ہمیں تعجب ہوتا ہے۔ کیونکہ جس مسئلہ پر آج دنیا کی حکومتیں اور جماعتیں لڑ رہی ہیں، اس کا حل اسلام نے آج سے تیرہ سو برس پہلے پیش کر دیا تھا۔ اور ہمارا یقین ہے کہ آج بھی انسانی مشکلات کا واحد اور آخری حل یہی ہے کہ قرآن کریم اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش کردہ تعلیمات پر انسانی اجتماعیت کی بنیاد رکھی جائے۔‘‘

   
2016ء سے
Flag Counter