حالات و واقعات

   
۔

ضلع ہزارہ کے جنگلات

کسی اخبار میں ضلع ہزارہ کی کسی ماتحت جمعیۃ علماء اسلام کا یہ مطالبہ نظر سے گزرا ہے کہ ضلع کے وسیع جنگلات کی آمدنی میں سے خوانین کو لاکھوں روپے کے حساب سے جو سالانہ حصہ بلا استحقاق ملتا ہے، وہ ان مفت خوروں کو دینے کی بجائے سرکاری خزانہ میں جمع رکھا جائے۔ یہ مطالبہ جائز اور معقول ہے مگر کسی حد تک ادھورا ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ ان خوانین کو لاکھوں روپیہ سالانہ ملتا ہے، ان کے پاک اس کے لیے کوئی معقول استحقاق نہیں، اور جابر حکمرانوں کی غلط بخشی کے سوا اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ اس لیے یہ رقم انہیں دینے ہیں ملک و قوم کا کوئی مفاد نہیں۔

لیکن اس خطیر رقم کو سرکاری خزانہ میں جمع رکھنے کی بجائے اگر ضلع کی ترقی پر خرچ کیا جائے تو زیادہ بہتر رہے گا۔ مثلاً اس رقم سے علاقہ بٹگرام، کاغان اور پکھلی میں لکڑی کے کارخانے قومی سطح پر قائم کیے جا سکتے ہیں۔ اس سے ایک طرف تو غریب عوام کے روزگار کا مسئلہ کافی حد تک حل ہو جائے گا اور ساتھ ہی ساتھ قومی آمدن میں اضافہ ہوگا اور ضلع بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔

ہماری رائے میں ضلع ہزارہ کے عوام کو اس سلسلہ میں مؤثر آواز اٹھانی چاہیئے اور ایک عوامی تحریک کے ذریعہ یہ مطالبہ حکام متعلقہ تک پہنچانا چاہیئے۔ اس کے لیے جمعیۃ علماء اسلام ضلع ہزارہ کے مخلص راہنما اور انتھک کارکن خصوصاً حضرت مولانا عبد الحکیم صاحب ممبر قومی اسمبلی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ امید ہے کہ یہ معاملہ کوتاہی کی نذر نہیں ہو جائے گا۔

پشاور پانی کی زد میں

ایک اخباری اطلاع کے مطابق وارسک ڈیم کا پانی پشاور کی زمین سرایت کر رہا ہے اور پانی کی سطح اس حد اوپر آگئی ہے کہ بعض مقامات پر ایک فٹ زمین کھودنے پر بھی پانی ابلنے لگتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پانی کے نکاس کا معقول بندوبست نہ کیا گیا تو دس سال کے اندر پشاور شہر جھیل میں تبدیل ہو جائے گا۔

پشاور ملک کے تاریخی شہروں میں شمار ہوتا ہے اور شمال مغربی سرحدی صوبہ کا صدر مقام ہے۔ اس کی آبادی لاکھوں سے متجاوز ہے۔ اس لیے یہ خبر بے حد تشویشناک ہے، اور نہ صرف پشاور بلکہ جہاں جہاں بھی ڈیم بنے ہیں ان کے قریب آبادیوں کے لیے اسی نوعیت کے خطرہ کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ماہرین کی کمیٹی مقرر کر کے پشاور شہر اور ڈیموں کے قریب دوسری آبادیوں کو پیش آمدہ اس خطرہ کا مکمل جائزہ لے اور جلد از جلد ان خطرات کے سدباب کا معقول انتظام کرے۔

بیرونی ممالک کو ناقص مال کی سپلائی

سیالکوٹ سے ایک اخباری نمائندہ نے خبر دی ہے کہ پاکستانی تاجر بیرونی ممالک کو جو مال سپلائی کرتے ہیں، اس کا نوے فیصد حصہ بیرونی کمپنیاں یہ کہہ کر واپس کر رہی ہیں کہ مال نمونہ کے مطابق تیار نہیں کیا گیا اور ناقص ہے۔ چنانچہ اس وقت بھی ناقص مال کے بہت سے بنڈل پوسٹ آفسوں میں پڑے ہوئے ہیں۔

بیرونی تجارت پاکستان کی معیشت میں بے حد اہمیت رکھتی ہے، اور زرِ مبادلہ کے حصول کا شاید واحد بڑا ذریعہ ہے۔ قومی زندگی کے اس اہم شعبہ کو اس طرح نقصان پہنچانا اور ملک کی صنعتی ساکھ کو بین الاقوامی منڈی میں اس دیدہ دلیری کے ساتھ گرانے کی کوشش انتہائی شرمناک اور ناقابل معافی قومی جرم ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ بیرونی ممالک ناقص مال کی سپلائی کے اس الزام کے بارہ میں تحقیقات کرائے اور جو کمپنیاں اس سلسلہ میں ملوث ہیں ان کے خلاف تادیبی کارررائی کی جائے۔ اور بیرونی ممالک کو سپلائی کیے جانے والے مال کی نگرانی کا ایسا معقول اور خود کار طریقہ کار وضع کیا جائے جس کے بعد کوئی کمپنی بال سپلائی کرنے میں اس قسم کی حرکت کی جرأت نہ کر سکے۔

امیر زادوں کے لیے علیحدہ تعلیمی ادارے

لائلپور سے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے کچھ ممبران نے ایک بیان میں مطالبہ کیا ہے کہ امیر لوگوں کی اولاد کے لیے اونچے درجے کے تعلیمی اداروں کے سلسلہ میں جو دو نئے ادارے قائم کیے جا رہے ہیں ان کا پروگرام منسوخ کیا جائے۔ کیونکہ اتنی رقم سے عوام کے لیے کم از کم آٹھ ہائی سکول جاری کیے جا سکتے ہیں۔

دراصل فرنگی بہادر نے نوابزادوں کے لیے علیحدہ تعلیمی اداروں کا نظام قائم کیا تھا تاکہ نوابوں، جاگیرداروں اور امیروں کی اولاد اپنے مخصوص ماحول ہی میں رہے اور عوام گھل مل نہ سکے۔ بدقسمتی سے قیامِ پاکستان کے بعد اس نظامِ تعلیم میں کسی ردوبدل کی ضرورت ہمارے حکمرانوں نے محسوس نہیں کی۔ اور ابھی تک سارے معاملات اسی ڈگر پر چل رہے ہیں جس پر انگریز چھوڑ کر گیا تھا۔ لائلپور کے ان نمائندوں کا مطالبہ بالکل بجا ہے، بلکہ ہم تو چاہتے ہیں کہ سارے نظامِ تعلیم میں یکسر تبدیلی کر کے امیروں اور غریبوں کا امتیاز کلیۃً مٹا دیا جائے اور قوم کے تمام طبقوں کے لیے ایک ہی تعلیمی نظام ہو۔

انتہائی افسوسناک

گزشتہ ہفتہ کے ترجمان اسلام میں یہ خبر پڑھ کر بے حد صدمہ ہوا کہ آزاد کشمیر کی اسمبلی کے اسپیکر منظر مسعود اور سردار عبد القیوم صاحب کی صدارتی کابینہ کے دو رکن ڈاکٹر سلام الدین نیاز اور شیخ بشارت احمد برطانوی سامراج کے خودکاشتہ پودے مرزا غلام احمد قادیانی کے پیروکار ہیں۔

اس ٹولہ نے برصغیر اور کشمیر کی آزادی کی تحریکات میں جو منافقانہ کردار ادا کیا ہے اور کشمیر کے مسئلہ کو الجھانے کے لیے جو سازشیں کی ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں۔ علی الخصوص پاکستان کے اعلیٰ کلیدی عہدوں پر فائز ہو کر اس گروہ کے افراد نے ملک کو اقتصادی اور سیاسی طور پر جس خطرناک بحران کا شکار بنایا ہے، اس کے پیش نظر ہم اس گروہ کو ملک و ملت کے لیے مار آستین سے کم نہیں سمجھتے۔ اور سردار عبد القیوم صاحب اور ان کی مسلم کانفرنس کے دیگر زعماء سے اور خصوصاً آزاد کشمیر کے بہادر اور غیور علماء سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس فتنہ کو اپنی قومی و حکومتی زندگی پر مسلط نہ ہونے دیں، کیونکہ آزادی کی کٹھن راہوں سے گزرنے والی مظلوم کشمیری قوم ایسے سازشیوں کی عیاشیوں کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

   
2016ء سے
Flag Counter