’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘ (۷)

   
۱۱ اپریل ۱۹۶۹ء

(مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی کی تصنیف ’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘ کی تلخیص۔ قسط ۷)

(۱) تالاب، کھیتیاں، جوہڑ، کنوئیں اور چشمے اگر شخصی ملکیت نہیں ہیں تو ان میں تمام پبلک کا یکساں حقِ انتفاع ہے اور وہ کسی بھی حال میں شخصی ملکیت نہیں بن سکتے۔

(۲) اگر یہ ’’پانی‘‘ شخصی ملکیت میں بھی ہو تب بھی عام حالات میں پینے اور استعمال کرنے کے لیے دوسروں کو اس سے یکساں فائدہ اٹھانے کا حق ہے۔ البتہ انسانوں اور حیوانوں کے پینے اور نہانے جیسی ضرورتوں کے علاوہ آبپاشی کے لیے مالکِ زمین سے اجازت حاصل کرنا ضروری ہے۔

(۳) آبپاشی کے لیے کثرت سے نہریں کھدوائی جائیں اور اس کا تمام خرچ بیت المال (سرکاری خزانہ) پر لازم ہے۔ اور اگر بیت المال میں گنجائش نہیں ہے تو اہل دُوَل پر جبر کیا جائے کہ وہ حکومت کو اس معاملہ میں مدد دیں۔

(۴) جو چھوٹی چھوٹی نہریں عام مصالح آبپاشی کے لیے نہ بنائی جائیں بلکہ ان کو اہلِ شہر اپنی ضروریات کے لیے بنانا چاہیں، تو اگر اس میں مصالح عامہ کو نقصان نہ پہنچتا ہو، اور جس دریا اور بڑی نہر سے پانی لیا جائے گا اس کو نقصان پہنچ کر عام ضروریات کے لیے حرج پیدا نہ کرتا ہو، تو امام ایسی خصوصی نہروں کی اجازت دے سکتا ہے۔ البتہ ان کے اخراجات کا بار مطالبہ کرنے والوں پر پڑے گا، حکومت کا خزانہ ذمہ دار نہ ہو گا۔

(۵) آبپاشی کی نہریں اور کنوئیں پبلک کی مصالح عامہ اور معاشی وسائل کی ترقی کے لیے ہیں۔ حکومت کے محاصل میں اضافہ کرنے کے لیے نہیں۔ اس لیے حکومت کی نہروں سے آبپاشی کرنے والوں سے یا تو قطعاً محصول آبپاشی نہ لیا جائے، یا صرف اس قدر لیا جائے جس قدر ان نہروں اور کنوؤں کی بقا کے لیے ضروری ہو۔ باقی انتظامات کا کل خرچ بیت المال پر ڈالا جائے۔

زمین سے متعلق خصوصی احکام

اسلام نے اپنے معاشی نظام میں زمین کی انفرادی ملکیت کو چند شرائط و قیود کے ساتھ ایک حد تک تسلیم کیا ہے۔ لیکن زمین کے متعلق انفرادی ملکیت کے جواز کو مان لینے کے باوجود اسلام کے معاشی نظام میں کیا زمینداری کی موجودہ ظالمانہ روش کو صحیح تسلیم کیا گیا ہے؟ سو اس کا جواب یہ ہے کہ نہیں۔ اسلام موجودہ زمینداری سسٹم کے جابرانہ اور غلط طریقہ ہائے کار کو کیسے جائز قرار دے سکتا ہے، جبکہ وہ اس مباح زمینداری کو بھی غیر پسندیدہ سمجھتا ہے جو انصار اور مہاجرین کے درمیان ’’اجارہ‘‘ (لگان) اور مزارعۃ (بٹائی) کی صورت میں رائج تھی۔

زمانۂ نبوت سے زمانۂ خلافتِ راشدہ تک زمین کو نقد لگان یا بٹائی پر دینا اگرچہ معمول بہ رہا ہے، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بوضاحت اس کا اظہار فرمایا ہے کہ وہ زمینداری کے اس معمولی اور سادہ طریق کو بھی غیر پسندیدہ اور اخلاق و مروت سے نازل (گرا ہوا) سمجھتے ہیں۔ یا ایسے حالات میں کہ اس سلسلہ میں باہمی مناقشات کی کثرت افرادِ امت کے درمیان بغض و عداوت اور جنگ و جدل کی صورت پیدا کر دے، امام کو اس کی اجازت مرحمت فرماتے ہیں کہ وہ اس سسٹم کو جماعتی مصلحت کے پیش نظر ممنوع قرار دے دے۔ پس اسلام کے اقتصادی نظام میں زیادہ سے زیادہ ایسی زمینداری کے جواز کی شکل تو پائی جاتی ہے جس میں زمیندار اور کاشتکار معاملۂ زمینداری میں دو شریکِ کار کی حیثیت سے شمار ہوتے ہوں۔ مگر دنیا کے دورِ قدیم اور دورِ جدید کا یہ جاگیردارانہ سسٹم جس میں زمینداری، تعلقہ داری، جاگیر داری جابرانہ نظام کی شکل میں نظر آتی اور بڑے بڑے زمیندار کاشتکاروں کی جان و مال تک پر متصرف نظر آتے ہیں، اسلامی معاشی نظام سے دور کا بھی واسطہ نہیں رکھتا۔ اور اسلام کا اقتصادی قانون اس سسٹم کو ناجائز قرار دیتا ہے۔ علاوہ ازیں اسلام کے نظامِ حکومت سے معلوم ہوتا ہے کہ اقتصادی نظام میں اسلام کا نمایاں امتیاز رہا ہے کہ ’’زمین‘‘ کے متعلق ۔۔ (جاگیر) اور عطیہ (مربعہ جات) کے ثبوت کے باوجود ملکیتِ مفتوحہ کی زمینوں کا بہت بڑا حصہ حکومت کے ہاتھ میں تھا، پبلک کے ہاتھ میں نہیں رکھا گیا۔

تجارت

وسائلِ معیشت میں سے دوسرا اہم وسیلہ تجارت ہے۔ اس لیے ان کے ذرائع کی توسیع بھی اقتصادی نظام کا جزوِ اعظم ہے اور حکومت کے فرائض میں داخل ہے۔ اسلام نے بھی اپنے معاشی نظام میں اس کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے: (۱) صحیح اصولِ تجارت (۲) فاسد اصولِ تجارت۔ پہلے حصہ کے بارے میں وہ افرادِ ملک و ملت کو ترغیب بھی دیتا ہے، اور اِن کے انسداد کے لیے احکام بھی بیان کرتا ہے۔ اقتصادی نظام کی ترقی و برتری کا راز سب سے زیادہ تجارت میں مضمر ہے۔ جو قوم یا ملت جس قدر اس سے دلچسپی لیتی ہے وہ اسی قدر اپنی اقتصادی بہبود کی زیادہ کفیل بنتی ہے۔ اسلام کے اقتصادی نظام میں تجارت اور باہمی کاروبار کی صحت اور درستی کا مدار حسبِ ذیل اصولوں پر مبنی ہے:

(۱) تجارت کا جواز چونکہ باہمی تعاون پر قائم ہے اس لیے تمام معاملاتِ تجارت میں جانبین سے تعاون کا وجود ضروری ہے۔ یعنی یہ نہ ہونا چاہیے کہ متعاقدین (دو معاملہ داروں) میں سے ایک کا زیادہ سے زیادہ نفع اور دوسرے کا زیادہ سے زیادہ نقصان پر موقوف ہو۔

(۲) معاملہ میں جانبین سے حقیقی رضا کا وجود ضروری ہے، اضطراری رضا معتبر نہیں۔ یعنی یہ نہ ہو کہ ایک شخص برضا و رغبت اس معاملہ کے لیے آمادہ نہیں ہے مگر اس کی اضطراری کیفیت اس کی رضا کی قائم مقام بن گئی ہے۔

(۳) اہلِ معاملہ، معاملہ کی اہلیت بھی رکھتے ہوں یعنی عاقل، بالغ یا ممیز (یعنی اگرچہ بالغ نہ ہو مگر کاروبار کی سمجھ رکھتا ہو) اور آزاد ہوں۔ یعنی نا سمجھ، بچہ، مجنون، معتوہ اور مجبور و مکروہ نہ ہوں۔

(۴) معاملہ میں کسی قسم کا دھوکہ، خیانت، ضرر و نقصان اور معصیت کا دخل نہ ہو۔ یعنی ان اشیا کا کاروبار نہ ہو جن کا استعمال شریعتِ اسلامی نے معصیت اور حرام قرار دیا ہے، اور ان اصول کے خلاف حسبِ ذیل اصولِ تجارت کے مقصد کو فاسد اور باطل کرتے ہیں، اور اس لیے اسلام کے معاشی نظام میں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے اور نہ ان اصول کے ماتحت کاروبارِ تجارت کو فاسد اور باطل قرار دیتا ہے۔

(۱) افزونی مال اور حصولِ نفع کا ایک ایسا معاملہ جس میں باہمی تعاون قطعاً مفقود ہو، اور ایک جانب کا فائدہ دوسری جانب کے یقینی نقصان پر مبنی ہو۔ مثلاً جوا (میر) لاٹری اور سٹہ کے تمام انواع و اقسام۔

(۲) مالی نمو اور حصولِ نفع کا وہ معاملہ جس میں جانبین سے کسی ایک جانب میں حقیقی رضا نہ پائی جاتی ہو، بلکہ اضطراری اور جبری رضا کو حقیقی رضا کے قائم مقام رکھا گیا ہو۔ مثلاً سود (بیاج) یا کسی اجیر کی اس کی محنت کے مقابلہ میں غیر واجبی اجرت۔

(۳) ایسا کاروبار جو اسلام کی نگاہ میں معصیت ہو۔ مثلاً شراب، مردار، اصنام (بت)، خنزیر وغیرہ کی بیع و شراء، یا ان اشیا کی خرید و فروخت جو اپنی ذات میں نجس اور ناپاک ہوں۔

(۴) وہ معاملات کہ جن میں جانبین سے عقد ہو جانے کے باوجود بھی نزاع اور مناقشہ کی صورتیں باقی رہیں اور کسی بھی فریق کے لیے ضرر و نقصان کا باعث ثابت ہوں۔ مثلاً بیع یا ثمن دونوں کو ابہام میں رکھا گیا ہو، یا نقد اور ادھار کی صورت میں الگ الگ قیمت تجویز کی گئی ہو، یا مال دیکھے بغیر بیع کر لی جائے۔

(باقی آئندہ)
   
2016ء سے
Flag Counter