ایک اور آپ بیتی

   
۹ مارچ ۲۰۰۹ء

روزنامہ ”پاکستان“ کے کالم نگار پروفیسر ڈاکٹر قاری محمد طاہر لدھیانوی ہمارے بزرگ دوستوں میں سے ہیں، انہوں نے اپنے ایک حالیہ کالم میں شکوہ کیا ہے کہ راقم الحروف کے کالم میں بسا اوقات آپ بیتی کا عنصر ضرورت سے زیادہ ہوتا ہے۔ مگر میں اپنے ذوق کے ہاتھوں مجبور ہوں کہ جو کچھ دیکھتا یا بھگتتا ہوں، اس کے تاثرات میں اکیلا نہیں رہنا چاہتا اور کوشش کرتا ہوں کہ اس میں زیادہ سے زیادہ احباب کو شریک کر سکوں، بلکہ بعض قارئین کا کہنا ہے کہ وہ میرے کالموں کو اہتمام کے ساتھ اس لیے بھی پڑھتے ہیں کہ انہیں بہت سے علاقوں اور حلقوں کے بارے میں معلومات حاصل ہو جاتی ہیں اور واردات و کیفیات کا کچھ ماحول بھی تصور و خیال کی نگاہ سے دیکھنے میں آ جاتا ہے۔ اس لیے ڈاکٹر صاحب سے معذرت کے ساتھ آج پھر آپ بیتی اور ذاتی تاثرات کے حوالے سے ہی کچھ گفتگو کرنا چاہتا ہوں، مگر اس سے قبل ڈاکٹر صاحب اور دیگر قارئین و احباب سے دعا کی درخواست کے ساتھ اپنے ایک ذاتی اور خاندانی صدمے کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں۔

گزشتہ دنوں میرے بہنوئی مولانا قاری خبیب احمد عمر کا انتقال ہو گیا ہے جو ایک متحرک دینی جماعت ’’تحریک خدام اہل سنت‘‘ کے صوبہ پنجاب کے امیر اور ملک کے معروف دینی ادارہ’’ جامعہ تعلیم الاسلام‘‘ جہلم کے مہتمم تھے۔ وہ ایک ماہ قبل برطانیہ کے تبلیغی دورے پر گئے اور نوٹنگھم میں اپنی بیٹی کے ہاں قیام پذیر تھے کہ انہیں نمونیہ کی تکلیف ہو گئی۔ اسی حالت میں تکلیف کے باوجود انہوں نے بریڈفورڈ کی ایک مسجد میں جمعہ پڑھایا جس سے تکلیف بڑھ گئی۔ انہیں برمنگھم کے ایک ہسپتال میں لے جایا گیا۔ بلڈ پریشر میں بہت زیادہ کمی ہو جانے کے باعث گردوں، جگر اور پھیپھڑوں نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ مصنوعی تنفس کی مشین لگا دی گئی مگر مقدور بھر مساعی کے باوجود وہ جانبر نہ ہو سکے اور اتوار کو برطانیہ کے وقت کے مطابق سوا چار بجے کے لگ بھگ ان کا انتقال ہو گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

وہ جہلم کے بزرگ عالم دین حضرت مولانا عبد اللطیف جہلمی (فاضل دیوبند) کے فرزند و جانشین تھے۔ میرے بہنوئی ہونے کے علاوہ سمدھی بھی تھے کہ میرا بیٹا حافظ محمد عمار خان ناصر ان کا داماد ہے۔ میرے بچپن کے دوستوں میں سے تھے۔ بہت سی دینی تحریکات میں رفاقت رہی ۔ معاملہ فہم، خود دار، باحمیت اور جہد مسلسل کے خوگر علمائے کرام میں سے تھے اور دینی حمیت کے ساتھ مسلکی صلابت اور پختگی بھی انہیں ورثے میں ملی تھی۔

منگل کو ان کی میت پاکستان لائی گئی۔ جہلم کے سٹیڈیم میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی اور مقامی حضرات کے مطابق یہ جہلم میں پڑھے جانے والے چند بڑے جنازوں میں سے تھا۔ اس کے بعد انہیں آبائی گاؤں لے جایا گیا اور ان کے والد محترم حضرت مولانا عبد اللطیف جہلمی کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔ قارئین سے درخواست ہے کہ ان کی مغفرت اور جنت الفردوس میں اعلیٰ درجات کے لیے دعاؤں کے ساتھ ساتھ ان کے ہونہار فرزند و جانشین مولانا قاری ابوبکر صدیق سلمہ کے لیے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے والد مرحوم اور دادا مرحوم کی دینی جدوجہد کا تسلسل جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔

اس سے اگلے روز میرا ایک بیرونی سفر کا پروگرام طے شدہ تھا اور مجھے رات کو ساڑھے گیارہ بجے اسلام آباد کے ایئر پورٹ سے ہانگ کانگ کے لیے روانہ ہونا تھا، اس لیے بدھ کو ظہر کے بعد جہلم میں اپنی ہمشیرہ، بھانجوں، بھانجیوں اور دیگر افراد خاندان کے ساتھ ایک اجتماعی تعزیتی ملاقات کے بعد ان سے اجازت لے کر سفر کا آغاز کیا۔

تین برس قبل کی بات ہے کہ ڈھاکہ میں ورلڈ اسلامک فورم کے ایک سیمینار میں شرکت کے لیے گیا۔ الامارات کے طیارے پر ڈھاکہ کی فضا میں پہنچے تو نیچے دھند ہی دھند تھی، کافی دیر تک طیارہ فضا میں چکر کاٹتا رہا، پھر پائلٹ نے اعلان کیا کہ شدید دھند کی وجہ سے ڈھاکہ کے ایئر پورٹ پر اترنے میں دشواری پیش آ رہی ہے، اس لیے اگر ہم یہاں نہ اتر سکے تو ہمیں طیارہ کلکتہ یا بنکاک میں سے کسی جگہ اتارنا پڑے گا۔ یہ سن کر جہاز کے دیگر مسافروں کو تو پریشانی ہوئی کہ خدا جانے کتنا وقت لگ جائے، مگر مجھے ایک گونہ خوشی ہو رہی تھی کہ کلکتہ یا بنکاک کا شہر نہ سہی، مگر ان کی ایک فضائی جھلک اور ایئر پورٹ کا منظر تو دیکھنے کو مل جائے گا۔ میں ایک نئے منظر سے مفت لطف اندوز ہونے کی ذہنی طور پر تیاری ہی کر رہا تھا کہ پائلٹ نے اعلان کیا کہ ڈھاکہ میں اترنے کی گنجائش مل گئی ہے اور ہم تھوڑی دیر میں ڈھاکہ ایئر پورٹ پر اترنے والے ہیں۔ اس کی ایک ہلکی سی کسک تب سے دل میں تھی جو اب پوری ہوئی ہے۔

مجھے ہانگ کانگ کی ایک بڑی مسجد ”کولون مسجد“ کی انتظامیہ کی طرف سے ان کے سالانہ اجتماع میں شرکت کی دعوت ملی، جو ”سیرت خیر الوریٰ کانفرنس“ کے عنوان سے اتوار کو صبح دس بجے سے نماز عصر تک منعقد ہو گی۔ ویزے کے ساتھ ان کی طرف سے ٹکٹ بھی مجھے آخری روز موصول ہوا، جس کے مطابق مجھے بدھ کی رات ساڑھے گیارہ بجے اسلام آباد ایئر پورٹ سے تھائی ایئرویز کے ذریعے سفر کرنا تھا۔ اس کی پہلی منزل بنکاک تھی، جہاں ایئر پورٹ پر چار گھنٹے کا قیام تھا، ٹکٹ پر بنکاک کا نام پڑھ کر مجھے وہ ڈھاکہ والا سفر یاد آ گیا اور خیال ہوا کہ بنکاک ایئر پورٹ پر کچھ وقت گزارنے کا موقع مل جائے گا۔

میرا دوپہر کو کھانے کا معمول نہیں ہے، شام کو اسلام آباد کے مختلف مقامات سے ویزے اور ٹکٹ کی وصولی کی بھاگ دوڑ میں کھانا کھانے کا موقع نہ ملا، ایئر پورٹ پہنچا تو وہاں کے ایک بڑے افسر نے پہچان کر پروٹوکول کے چکر میں ڈال دیا اور پورے اکرام کے ساتھ تمام مراحل سے جلدی جلدی گزار کر وی آئی پی لاؤنج کے پرتکلف صوفوں پر جا بٹھایا۔ انہوں نے دو تین مرتبہ چائے کی پیشکش کی، مگر مجھے بھوک نے تنگ کر رکھا تھا اس لیے چائے پینے سے معذرت کر دی۔ وی آئی پی لاؤنج میں نماز ادا کی اور سوچ میں پڑ گیا کہ اب کیا کروں؟ میں اپنے طبعی ذوق کے باعث وی آئی پی ماحول اور سفر میں بلاضرورت پہچانے جانے سے ہمیشہ گریز کرتا ہوں، مگر اب تو جو ہونا تھا، ہو چکا تھا۔ پریشانی یہ تھی کہ اگر یہاں کے کھانے پر ہاتھ ڈال لیا تو کہیں جیب میں موجود پیسوں کے ساتھ کپڑے بھی اتار کر نہ دینے پڑ جائیں، اس لیے چپ چاپ پروٹوکول سے ہی دل بہلاتا رہا۔ مگر جب بات حد سے زیادہ بڑھنے لگی تو وہاں سے نکل کر عام لاؤنج میں آ گیا اور ایک کاؤنٹر سے چائے کا ایک کپ اور دو سادہ سے سینڈوچ لیے، جن کا جرمانہ مجھے ڈیڑھ سو روپے ادا کرنا پڑا۔

خیال ہوا کہ جہاز میں سوار ہو کر وہاں کی خوراک سے گزارا ہو جائے گا، لیکن جہاز میں سوار ہونے کے بعد یاد آیا کہ تھائی ایئر ویز والوں کو ”حلال فوڈ“ کے بارے میں ٹکٹ خریدنے والوں نے تو کچھ نہیں کہہ رکھا کہ یہ بات متعلقہ حضرات سے میں پہلے دریافت کر چکا تھا، کھانے کی ٹرالی آئی تو میں نے پوچھا کہ ویجیٹیرین فوڈ ہے؟ جواب میں فضائی میزبان خاتون نے نفی میں سر ہلا دیا۔ میں نے پوچھا کہ فش مل جائے گی؟ اس کا جواب بھی نفی میں تھا، اس لیے کوک اور جوس پر گزارا کرتا رہا اور کھانے کی شکل اگلے دن ہانگ کانگ پہنچنے پر دیکھنا نصیب ہوئی۔

صبح چھ بجے کے لگ بھگ بنکاک ایئر پورٹ پر اترے تو جیب میں چند ڈالر تو موجود تھے، مگر یہ معلوم نہیں تھا کہ حلال کی کون سی چیز کھانے کو ملے گی، اس لیے ایئر پورٹ پر ایک چکر لگانے کے بعد فلائٹ شیڈول چیک کیا اور یہ معلوم کر کے کہ ہمارے والی فلائٹ ساڑھے دس بجے E9 گیٹ سے روانہ ہو گی، چیکنگ کے مراحل سے گزر کر روانگی کے گیٹ کے ساتھ ایک بنچ پر لیٹ گیا کہ روانگی کے وقت رش بھی ہو گا اور اعلان وغیرہ بھی ہو گا، اس لیے دو گھنٹے نیند لے لوں۔ مگر روانگی کے وقت کم و بیش ایک گھنٹہ پہلے ایک نوجوان نے، جو راولپنڈی سے تعلق رکھتا ہے، مجھے سوتا دیکھ کر جگایا اور پوچھا کہ بزرگو! آپ نے ہانگ کانگ تو نہیں جانا؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تو کہا کہ فلائٹ کا گیٹ تبدیل ہو گیا ہے اور وہاں سے نہیں، بلکہ C9 گیٹ سے روانہ ہو گی۔ نوجوان نے میرا بیگ بھی اپنی ٹرالی میں رکھا اور ہم لمبی واک کر کے وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہاں سے بھی نہیں، بلکہ C4 سے جہاز نے اڑنا ہے۔ میں نے خدا کا شکر اور نوجوان کا شکریہ ادا کیا کہ اگر وہ رحمت کا فرشتہ بن کر وقت پر نہ آ جاتا تو میں تو وہیں بنچ پر سویا رہتا۔

بہرحال اب میں ہانگ کانگ میں ہوں اور مزید تفصیلات کے لیے اگلے کالم میں قارئین کی خدمت میں حاضری دوں گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

   
2016ء سے
Flag Counter