عرب دنیا میں اسلامی حمیت کی تازہ لہر

   
دسمبر ۲۰۰۱ء

سعودی عرب نے دہشت گردی سے مبینہ طور پر منسلک گروپوں کے اکاؤنٹس منجمد کرنے کے لیے امریکی درخواست کو رد کر دیا ہے۔ سعودی حکام نے کہا ہے کہ وہ بغیرثبوت کے کارروائی نہیں کر سکتے، امریکی ثبوت ناکافی ہیں۔جبکہ شہزادہ سلطان نے خیال ظاہر کیا ہے کہ افغان جنگ کسی بھی کروٹ بیٹھے، ہمارا موقف مسلمانوں کے خلاف نہیں ہوگا۔ ثبوت کے بغیر کسی عرب یا مسلمان کو مورد الزام ٹھہرانا حق وانصاف کے خلاف ہے۔ عرب لیگ نے بھی اپنی دو روزہ کانفرنس میں کہہ دیا ہے کہ اگر امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تو وہ مخالفت کرے گی۔یوں لگتا ہے کہ افغانستان پر حملے کی آڑ میں جس مختلف النوع انداز سے امریکہ پوری دنیا میں اسلام اورمسلمانوں پر حملہ آور ہوا ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ بتدریج مسلم امہ میں بیداری اور اسلامی حمیت کی ایک لہر سی اٹھی ہے۔

سعودی عرب وہ واحد عرب ملک ہے جس کے باشندوں کی تذلیل وتوہین مغربی میڈیا پر سب سے بڑھ کر کی جا رہی ہے، اگرچہ سعودی عرب عسکری لحاظ سے اتنا مضبوط نہیں اور نہ اس کے پاس ایٹمی اسلحہ موجود ہے لیکن اس کے باوجود اس نے دہشت گردی سے مبینہ طور پر منسلک گروپوں کے اثاثے منجمد کرنے سے صاف انکار کر کے جرات مندانہ اقدام کیا ہے۔ شاید سعودی حکمرانوں نے بالآخر امریکی تیور بھانپ کر ہی یہ فیصلہ کیا اور یہی وجہ ہے کہ بش انتظامیہ فوری طور پر بات چیت کے لیے وزارت دفاع، خزانہ اور قومی سلامتی کونسل کے حکام پر مشتمل ایک وفد سعودی عرب روانہ کر رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ امریکہ سعودی حکمرانوں پر اس وفد کے ذریعے سے عملی تعاون کے لیے دباؤ ڈالے گا لیکن آثار بتا رہے ہیں کہ شاید اب سعودی حکومت اس سلسلے میں امریکہ کی تابع داری کے اثر سے نکل آئے گی۔ جس طرح عرب لیگ نے بھی اپنی کانفرنس میں ٹی وی چینل اور عرب رابطہ قائم کرنے کے ساتھ عراق پر ممکنہ حملے کی صورت میں اپنی مخالفت کا عندیہ ظاہر کر دیا ہے، وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ عرب ملت اجتماعی لحاظ سے اب اس دام ہم رنگ زمین سے آگاہ ہو گئی ہے جو جگہ جگہ عالم عرب میں امریکہ نے پھیلا رکھا ہے۔ بہرصورت اب عراق جو ایک عرب ملک ہے تو عرب لیگ کی رگ حمیت پھڑکی ہے۔ خدا کرے کہ عرب خود کو بھی امریکہ کے حصار سے نکال لیں، غنیمت ہوگا۔ ابھی تو شاید یہ ممکن نہ ہو لیکن جلد ہی آنے والا وقت بتائے گا کہ اگر مسلم امہ طالبان کو اپنے ایک پیشگی دفاع کے طور پر مضبوط کرتی اور انہیں تنہا امریکی بموں کا ایندھن نہ بننے دیتی تومسلمان دشمنی کی صلیبی آگ افغانستان میں ہی بھسم ہو جاتی اور اس کے شعلے یہاں سے ہو کر ملت بیضا کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ملکوں تک پہنچنے کا خطرہ پیدا نہ ہوتا۔ ہم پر امید ہیں کہ شاید طالبان کی قربانیاں قبول ہو جائیں اور عالم اسلام صلیبیوں کے ہاتھوں اپنی اجتماعی بربادی سے بچ جائے۔

   
2016ء سے
Flag Counter