امن اور معیشت : سیرت نبویؐ کی روشنی میں

   
مرکزی جامع مسجد امام اہل سنتؒ، گکھڑ
۷ اکتوبر ۲۰۲۲ء

(’’مشن رسالتؐ کانفرنس‘‘ سے خطاب)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ہم حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کے حوالے سے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تذکرے کے لیے، آپ کی باتیں سننے اور کرنے کے لیے جمع ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہماری یہ نسبت قبول فرمائے، مل بیٹھنا اور سننا سنانا قبول فرمائے اور جو باتیں سمجھ میں آئیں اللہ تعالی عمل کی توفیق سے بھی نوازیں۔

مشنِ رسالت کیا ہے؟ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ کا مشن کیا تھا؟ اس کے سینکڑوں پہلو ہیں، لیکن جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ایجنڈا، مشن اور پروگرام اور اس کے نتائج و ثمرات جو خود بیان فرمائے ہیں کہ میں اس کام کے لیے آیا ہوں اور اس کام کے نتائج یہ ہوں گے، اور میرے کام سے دنیا کو یہ ملے گا۔ ان سینکڑوں احادیث میں سے ایک کا ذکر کرنا چاہوں گا جس میں آپؐ نے اس کو بیان فرمایا ہے۔

پہلے بطور تمہید کے ایک بات کہنا چاہوں گا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہزاروں پہلو رکھتی ہے۔ آپ سیرت کی کوئی بھی متوسط کتاب اٹھا کر دیکھیں، اس کی فہرست دیکھیں تو اس کے عنوانات بیسیوں، سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں میں ہوں گے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات گرامی بھی سیرت کا ایک پہلو ہے۔ آپ کسی حدیث کی کتاب کی فہرست گن لیں۔ اس کے عنوانات بھی آپ کو ہزاروں میں ملیں گے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے ہزاروں پہلوؤں میں سے جس پہلو پر بھی بات کی جائے وہ سیرت ہے اور حضور کا مشن ہے۔ پھر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت، اپنے مشن اور ایجنڈے کے جو نتائج و ثمرات بیان فرمائے ہیں کہ جو تعلیمات میں لے کر آیا ہوں اس کا نتیجہ یہ نکلے گا، اس پر بھی سینکڑوں احادیث موجود ہیں، ان میں سے ایک کا ذکر کرتا ہوں۔

کوئی آدمی ایک بہت بڑے شاپنگ مال میں جاتا ہے، جہاں ہزاروں چیزیں اور چیزوں کی مختلف ورائٹیاں موجود ہوں تو آدمی اسی چیز کو تلاش کرتا ہے جس کی اس کو اس وقت ضرورت ہوتی ہے۔ آدمی ساری چیزیں نہیں خریدے گا بلکہ یہ تلاش کرے گا کہ میری اس وقت کی ضرورت کیا ہے اور وہاں سے وہی اپنی ضرورت کی چیز لے گا، یہ فطری بات ہے۔

اس وقت بحیثیت مسلمان، بحیثیت پاکستانی قوم اور بحیثیت امتِ مسلمہ ہماری ضروریات کی ترجیح میں سب سے پہلی ضرورت کیا ہے؟ اس کو سامنے رکھیں اور یہ جو واقعہ اور حدیث میں بیان کرنے لگا ہوں اسے غور سے سماعت فرمائیں۔ میں اکثر یہ واقعہ بیان کرتا رہتا ہوں۔ اس حوالے سے کہ اس وقت قومی طور پر پاکستانی قوم کی سب سے بڑی ضرورت کیا ہے؟ اور امتِ مسلمہ کی بحیثیت امت مسلمہ سب سے بڑی ضرورت کیا ہے؟ اور نسلِ انسانی کی بحیثیت انسانی معاشرہ سب سے بڑی ضرورت کیا ہے؟ اس کو ذہن میں رکھیں اور پھر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی محنت کے جو نتائج بیان فرما رہے ہیں، اس کو سامنے رکھیں۔

بخاری شریف کی روایت ہے۔ حضرت عدی بن حاتمؓ یہ واقعہ نقل فرماتے ہیں جو حاتم طائی کے بیٹے ہیں۔ حاتم طائی سخاوت کے حوالے سے مشہور آدمی ہے۔ سخاوت کا سمبل ہے، جہاں بھی سخاوت کا نام آئے گا تو حاتم طائی کا نام بھی آئے گا۔ حاتم طائی جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے گزرا ہے۔ حاتم طائی کا بیٹا صحابی ہے اور بیٹی بھی صحابیہ ہے۔ بیٹے کا نام حضرت عدیؓ ہے اور بیٹی کا نام حضرت سفانہؓ ہے۔ خطباء حضرات جو مشہور واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے ایک خاتون ننگے سر آئیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور اپنی چادر اس خاتون کے سر پر دی کہ عورت ننگے سر اچھی نہیں لگتی۔ یہ ان حضرت سفانہؓ کا ہی واقعہ ہے۔ اس وقت تک آپ کافر تھیں، مسلمان نہیں ہوئی تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرز عمل پر کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ تو کافر کی بیٹی ہے اور آپ اس کے سر پر چادر رکھ رہے ہیں۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جملہ ارشاد فرمایا کہ بیٹی بیٹی ہوتی ہے خواہ کافر ہی کی کیوں نہ ہو۔

ان کے بھائی حضرت عدی بن حاتمؓ عرب کے معمرین میں سے شمار ہوتے ہیں۔ لمبی عمر کے عربوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت عدیؓ نے ایک سو اسی سال عمر پائی ہے۔ اگر ایک سو اسی سال عمر پائی ہو تو وہ جب یہ واقعہ بیان کر رہے تھے تو اس وقت ان کی عمر ڈیڑھ سو سال کے لگ بھگ ہوگی۔ حضرت عدی یہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں تشریف فرما تھے، صحابہ کرام کی محفل لگی ہوئی تھی، میں بھی حاضر تھا کہ ایک شخص آیا، اس نے سلام کیا۔ سلام کے بعد عرض کرنے لگا کہ یا رسول اللہ! میں فلاں علاقے سے آیا ہوں۔ ہمارے علاقے میں بہت غربت اور فاقہ ہے، کچھ کھانے کو نہیں ملتا، لوگ علاقہ چھوڑ رہے ہیں، پیداوار نہیں ہو رہی، خشک سالی اور قحط سالی ہے، غلہ اور سبزہ نہیں ہے، بھوک، ننگ اور محتاجی ہے۔ یہ بات کہہ کر وہ بیٹھ گیا۔

جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی تبصرہ نہیں فرمایا۔ تھوڑی دیر بعد ایک اور آدمی آیا اور سلام عرض کرنے کے بعد کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! میں فلاں علاقے سے آیا ہوں۔ ہمارے علاقے میں قتل و غارت بہت ہے، ڈکیتیاں بہت ہوتی ہیں، عصمتیں لوٹی جاتی ہیں، ڈاکے پڑتے ہیں، نہ جان محفوظ ہے، نہ مال محفوظ ہے اور نہ ہی آبرو محفوظ ہے، بہت ہی برا حال ہے۔ یہ کہہ کر وہ صاحب بیٹھ گئے۔

حضرت عدیؓ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی کوئی جواب نہیں دیا، البتہ مجھے مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’ ھل رأیت الحیرۃ‘‘ کیا تم نے حیرہ دیکھا ہے؟

بسا اوقات بات کسی سے کہی جاتی ہے اور سنائی کسی اور کو جاتی ہے۔ گفتگو کا ایک اسلوب یہ بھی ہے کہ خطاب کسی اور سے کیا جاتا ہے اور سنانا کسی اور کو مقصود ہوتا ہے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی آنے والوں کو کوئی جواب نہیں دیا اور حضرت عدیؓ سے پوچھا عدی! کیا تم نے ’’حیرہ‘‘ دیکھا ہے؟ حیرہ اس زمانے میں بڑا شہر تھا، ایک ریاست کا دارالحکومت تھا۔ محل وقوع کے لحاظ سے اب وہ کوفہ کا کوئی محلہ ہوگا۔ حضرت عدیؓ نے جواب دیا کہ میں نے حیرہ دیکھا تو نہیں ہے لیکن اس کا نام بہت سنا ہے کہ بڑا اور بارونق شہر ہے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عدی! اگر تمہیں اللہ رب العزت کچھ اور عمر دیں تو تم اپنی آنکھوں سے یہ دیکھو گے کہ حیرہ سے ایک خاتون چلے گی، اونٹ کے کجاوے میں سفر کر رہی ہوگی، اس کا کجاوہ ساز و سامان سے لدا ہوا ہوگا، وہ خود بھی زیورات کے بوجھ میں ہوگی۔ اکیلے حیرہ سے چلے گی اور مکہ مکرمہ تک آئے گی اور پھر مکہ مکرمہ سے چلے گی اور اکیلی حیرہ واپس جائے گی، پورے راستے میں اس کو کسی کا کوئی ڈر نہیں ہوگا۔

حضرت عدیؓ کہتے ہیں کہ میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات پر حیران ہوا کہ آپؐ کیا ارشاد فرما رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پر ایمان تو تھا، لیکن بعض اوقات بات سمجھنا مسئلہ ہوتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہوگا۔ آپؓ کہتے ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال نہیں کیا لیکن میرے دل میں خیال آیا کہ حیرہ سے مکہ جانے کے راستے میں ہمارا قبیلہ بنو طے بھی پڑتا ہے اور میں اپنی قوم کے بدمعاشوں کو جانتا تھا کہ ان سے کوئی چیز نہیں بچتی۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ جب وہ خاتون حیرہ سے چلے گی، زیورات میں لدی ہوئی اور سامان سے کجاوا بھرا ہوا اور اکیلی سفر کر رہی ہوگی تو میری قوم کے غنڈے اس وقت کہاں ہوں گے؟ کیونکہ حیرہ سے مکہ جانے کا راستہ تو یہی ہے۔

ابھی یہ سوال میرے ذہن میں گردش کر رہا تھا کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اگلی بات ارشاد فرما دی کہ عدی! اگر تمہیں کچھ اور لمبی عمر ملی تو تم ایک اور منظر دیکھو گے کہ کسریٰ کے خزانے فتح ہوں گے، مدینہ منورہ میں لائے جائیں گے اور مدینہ منورہ میں تقسیم ہوں گے۔ اس زمانے میں دو بڑی طاقتیں تھیں روم اور فارس، فارس کا حکمران کسریٰ کہلاتا تھا۔ دنیا کی بڑی سپر طاقت کے حکمران کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ اس کے خزانے فتح ہوں گے، مال غنیمت مدینہ منورہ میں لایا جائے گا اور یہاں تقسیم ہوگا۔

حضرت عدی کہتے ہیں کہ پہلا سوال تو میرے ذہن میں ہی رہا، لیکن یہ سوال میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دیا کہ یا رسول اللہ! آپ کون سے کسریٰ کی بات کر رہے ہیں؟ ہرمز بادشاہ کے بیٹے کسریٰ کی بات کر رہے ہیں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے اطمینان سے سر ہلایا کہ ہاں اسی کی بات کر رہا ہوں۔ میں حیران تھا اور میرا دماغ متحیر تھا کہ حضورؐ کیا فرما رہے ہیں، لیکن جو فرما رہے تھے اس پر ایمان تھا کہ ضرور ایسا واقع ہوگا۔

اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری بات ارشاد فرما دی کہ عدی! اگر تمہیں کچھ اور لمبی عمر ملی تو تم ایک اور منظر دیکھو گے کہ تم لوگ ہاتھوں پر سونا چاندی اٹھا کر بازاروں میں جا کر اعلان کرو گے کہ یہ میرے ہاتھ میں سونا اور چاندی کی زکوٰۃ ہے۔ میرے قبیلے، محلے اور علاقے میں زکوٰۃ کا کوئی مستحق زکوٰۃ وصول کرنے والا نہیں ہے۔ اس لیے کوئی مستحق میری بات سن رہا ہو تو آ کر زکوٰۃ وصول کر لے اور مجھے فارغ کر دے۔ تم بازاروں میں کھڑے ہو کر اعلان کرو گے اور تمہیں زکوٰۃ وصول کرنے والا کوئی نہیں ملے گا۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تین باتیں حضرت عدیؓ سے ارشاد فرمائیں۔

محدثینؒ کہتے ہیں کہ یہ دراصل ان دو آنے والے شخصوں کے سوالوں کا جواب تھا۔ ان میں سے ایک کا مسئلہ یہ تھا کہ یا رسول اللہ! ہمارے علاقے میں غربت اور محتاجگی ہے، کھانے پینے کو کچھ نہیں ملتا، غلّہ اور سبزہ نہیں ہے، لوگ بھوکے ہیں۔ اور دوسرے کا مسئلہ یہ تھا کہ یا رسول اللہ! ہمارے علاقے میں بدامنی ہے، قتل و غارت بہت ہے، جان، مال اور آبرو محفوظ نہیں ہے۔

یہاں تھوڑا رک کر ہم ذرا یہ سوچیں کہ آج ہمارے مسائل کیا ہیں؟ آج کے ہمارے تمام مسائل کا نچوڑ بھی کیا یہی دو مسئلے نہیں ہیں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہ جواب دیا کہ جو بات میں کہہ رہا ہوں اور جو دعوت اور مشن لے کر آیا ہوں، اگر اس مشنِ رسالت کو قبول کر لو اور اس پر عمل کرو تو اس درجہ کا امن ہوگا کہ ایک خاتون اکیلی کوفہ سے مکہ اور مکہ سے کوفہ تک کا سفر کرے گی، اور پورے راستے میں اس کو یہ اندیشہ نہیں ہوگا کہ کوئی مجھے قتل کر دے گا یا مجھ سے مال لے لے یا میری عزت لوٹ لے گا۔ پورے امن کے ساتھ آئے گی اور امن سے واپس جائے گی۔ اور اس درجے کی خوشحالی ہوگی کہ تم ہاتھوں میں سونا اور چاندی لے کر بازاروں میں گھومتے پھرو گے کہ کوئی زکوۃ کا مستحق مل جائے تو تمہیں کوئی زکوٰۃ لینے والا نہیں ملے گا۔ یہ ان دو سوالوں کا جواب تھا کہ تمہاری مشکلات کا حل میرے مشن، میری تعلیمات، میرے پروگرام، میری دعوت اور میری اطاعت میں ہے۔

حضرت عدیؓ اس کے بعد خاصا عرصہ حیات رہے ہیں۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم! حضرت عمرؓ کے زمانے میں ان میں سے دو باتیں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں اور تیسری کے انتظار میں ہوں جیسے کسی آدمی کو رات کے بعد صبح سورج نکلے کا انتظار ہوتا ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف مثال نہیں بیان فرمائی تھی بلکہ میں نے ایک خاتون کو دیکھا کہ وہ حیرہ سے چلی اور میں نے اسے اسی کیفیت میں جاتے ہوئے دیکھا کہ اونٹ کے کجاوے میں سفر کر رہی ہے، کجاوہ سامان سے لدا ہوا اور وہ خود زیورات سے لدی ہوئی ہے، وہ حیرہ سے چلی، مکہ مکرمہ آئی۔ یہاں حج کیا اور پھر مکہ سے حیرہ واپس گئی۔ پورے راستے میں اس کو کہیں خطرہ محسوس نہیں ہوا کہ کوئی مجھ سے سامان لوٹ لے گا یا کوئی مجھے قتل کر دے گا۔

جبکہ دوسری چیز بھی میں نے دیکھ لی، میں نے کسریٰ کے خزانے فتح ہوتے ہوئے، مدینہ میں آتے ہوئے اور مدینہ منورہ میں تقسیم ہوتے دیکھے ہیں۔ بلکہ فتح کرنے والوں میں، اٹھا کر لانے والوں اور تقسیم کرنے والوں میں میں خود بھی شامل تھا۔ میں اپنی آنکھوں سے یہ دونوں منظر دیکھ چکا ہوں۔

کسریٰ کے خزانے فتح ہوئے اور مدینہ منورہ لائے گئے۔ اس پر ایک اور واقعہ ذکر کر دیتا ہوں۔ جب حضرت عمرؓ کے زمانے میں فارس کو شکست ہوئی اور مالِ غنیمت کے خزانے مدینہ منورہ لائے گئے تو روایات میں مذکور ہے کہ کسریٰ کی غنیمت کے خزانے مدینہ منورہ میں لائے گئے۔ کسریٰ کے خزانے کیسے ہوں گے کچھ اندازہ ہے؟ دو چار پوٹلیاں نہیں تھیں، بلکہ بہت زیادہ ساز و سامان تھا۔ حضرت عمرؓ وہ سامان چیک کر رہے تھے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمرؓ کو دیکھا کہ کبھی ایک گٹھڑی کھولتے ہیں اور کبھی دوسری۔ جیسے کوئی چیز تلاش کر رہے ہوں اور مل نہ رہی ہو۔ آپ سارا دن کچھ تلاش کرتے رہے، اور گٹھڑیاں کھول کھول کر دیکھتے رہے۔ اگلا دن بھی ایسے ہی گٹھڑیاں کھول کھول کر دیکھتے رہے۔ جب دو دن گزر گئے تو میں نے عرض کیا کہ امیر المومنین! کیا پریشانی ہے، آپ کل سے سامان کھول کھول کر دیکھ رہے ہیں اور پریشان ہیں۔ آپ کیا چیز تلاش کر رہے ہیں اور ساتھ کہتے جا رہے ہیں کہ یہ ہو نہیں سکتا یہ ہو نہیں سکتا۔ کیا نہیں ہو سکتا؟ اور کیا ماجرا ہے ذرا وضاحت فرمائیں۔

حضرت عمرؓ نے جواب دیا کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے سفر میں حضرت سراقہ بن مالکؓ سے ایک وعدہ کیا تھا۔ جب سراقہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ روکا تھا اور پھر امان مانگی تھی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا کہ سراقہ! میں تمہارے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن دیکھ رہا ہوں۔ جبکہ آپ کی اپنی کیفیت یہ تھی کہ چھپ چھپا کر جا رہے تھے اور ان کو خوشخبری دے رہے تھے کہ میں تمہارے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن دیکھ رہا ہوں۔ اب حضرت سراقہؓ بھی موجود ہیں اور کسریٰ کے خزانے بھی آگئے ہیں۔ میں کل سے کسریٰ کے کنگن تلاش کر رہا ہوں لیکن وہ مجھے نہیں مل رہے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کسریٰ کے خزانے آئیں اور ان میں وہ کنگن نہ ہوں، یہ نہیں ہو سکتا۔ اس لیے میں کل سے تلاش کر رہا ہوں لیکن کسریٰ کے کنگن نہیں مل رہے۔ تیسرا دن بھی گزر گیا، حضرت عمرؓ کی پریشانی بڑھتی جا رہی تھی اور ساتھ ساتھ یہ جملہ بار بار کہہ رہے ہیں کہ یہ نہیں ہو سکتا یہ نہیں ہو سکتا اور تلاش کرتے جا رہے تھے، لیکن کنگن نہیں مل رہے تھے۔

روایات میں مذکور ہے کہ تیسرے دن پچھلے پہر کے وقت ایک سپاہی ہانپتا کانپتا ہوا حضرت عمرؓ کی خدمت میں آیا، اس نے کچھ سامان اٹھایا ہوا تھا، آکر سلام عرض کیا اور کہا یا امیر المومنین! میں فارس کی فوج کا سپاہی ہوں، میں واپسی پر راستے میں بیمار ہوگیا تھا، اور دو تین دن ایک گاؤں میں ٹھہر گیا تھا، ابھی یہاں پہنچا ہوں۔ میرے پاس ایک امانت ہے، مال غنیمت میں سے کچھ میرے پاس تھا، وہ آپ کی خدمت میں پیش کرنے آیا ہوں۔ جب اسے کھولا تو وہ وہی کسریٰ کے کنگن تھے۔ چنانچہ حضرت عمر ؓنے حضرت سراقہؓ کو بلایا اور فرمایا کہ سراقہ! حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کا سفر یاد ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ فرمایا تھا کیا تمہیں یاد ہے؟ انہوں نے کہا حضرت! کیا وہ بات بھولنے والی ہے؟ اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ویسے تو مرد کے لیے سونے کا زیور پہننا جائز نہیں ہے، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی پوری کرنے کے لیے تمہیں پہنا رہا ہوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میں تمہارے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن دیکھ رہا ہوں۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور آپ نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ عبدالرحمٰنؓ! جس قوم کے سپاہی اتنے دیانت دار ہوں اس قوم کو کون شکست دے سکتا ہے؟

اس سپاہی کے پاس سونے کے کنگن تھے، سونے کے کنگن ہونے کی اپنی مالیت اور کسریٰ کے کنگن ہونے کی اپنی مالیت تھی۔ اس نے فارس سے وہ کنگن اٹھائے اور مدینہ منورہ لا کر حضرت عمرؓ کی خدمت میں پیش کیے۔ اس لیے حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ جس قوم کے سپاہی اتنے دیانت دار ہوں، اس قوم کو کون شکست دے سکتا ہے۔ اس پر حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے کہا کہ حضرت! جس امت کا امیر اور حکمران آپ جیسا عادل اور امانت دار ہو، تو اس کے سپاہی بھی ایسے ہی ہوں گے کیونکہ ’’الناس علی دین ملوکھم‘‘۔

حضرت عدیؓ حضرت عمرؓ کے زمانے میں فرما رہے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمائی ہوئی دو باتیں تو اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں اور تیسری بات کے انتظار میں ایسے ہوں جیسے رات کو آدمی سوتا ہے اور اسے یقین ہوتا ہے کہ میں اٹھوں یا نہ اٹھوں، سورج صبح ضرور نکلے گا۔

جبکہ تیسری بات بھی حضرت عمرؓ کے زمانے میں پوری ہو گئی تھی۔ اسلامی معاشیات کی معروف کتاب ’’کتاب الاموال‘‘ میں روایت مذکور ہے۔ میں پڑھے لکھے دوستوں سے عرض کرتا ہوں کہ ہمارا ایک المیہ یہ ہے کہ ہم پڑھتے نہیں ہیں اور اگر پڑھتے بھی ہیں تو اپنی کتابیں نہیں پڑھتے، ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بھی مستشرقین سے پڑھتے ہیں کہ ولیم میور نے یہ لکھا ہے اور واٹ اور فلپ کے حتیٰ نے یہ لکھا ہے۔ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بھی مستشرقین سے پڑھتے ہیں، اپنی کتابیں نہیں پڑھتے۔ انگریزی زیادہ پڑھ جاتے ہیں، اردو پڑھنی نہیں آتی اور عربی تو بالکل آتی ہی نہیں ہے۔ انگلش میں جس قدر ڈوب جاتے ہیں وہاں اردو بھی یاد نہیں رہتی۔ اس لیے ہم سیرت بھی انگریزی میں پڑھتے ہیں اور قرآن بھی انگریزی میں پڑھتے ہیں اور مستشرقین ولیم میور، واٹ اور منٹگمری کو پڑھتے ہیں کہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کیا لکھا ہے اور جو انہوں نے لکھا ہے آمنا و صدقنا ہم اسے تسلیم کر لیتے ہیں۔

ہماری نئی نسل کا یہ المیہ ہے کہ اپنی کتابیں پڑھتے نہیں ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ یہ کیسے ہے اور وہ کیسے ہے؟ ہمارا معاشی نظام کیا ہے؟ ہم پڑھیں گے تو پتہ چلے گا۔ اس پر تیسری صدی کی دو کتابوں کا حوالہ دیتا ہوں جو معاشیات کے موضوع پر آج بھی کلاسیکل اور سٹینڈرڈ کتابیں ہیں۔ ایک امام ابو یوسفؒ کی کتاب الخراج اور دوسری امام ابو عبیدؒ کی کتاب الاموال جو کہ اصل عربی میں ہیں اور دونوں کا اردو اور انگلش ترجمہ بھی موجود ہے۔ میں ماہرین معیشت سے کہا کرتا ہوں اور آج بھی پورے شرح صدر سے کہتا ہوں کہ یہ دو کتابیں پڑھ لو، اس کے بعد اگر معیشت کے بارے میں کوئی سوال ذہن میں آئے تو مجھ سے پوچھ لینا۔ میں بتاؤں گا کہ کیا ہے؟ ہم نے اپنا لٹریچر پڑھنا ہی چھوڑ دیا ہے اور اسلام اور سیرت نبوی بھی انگریزوں سے پڑھتے ہیں۔ ہمیں اپنا لٹریچر پڑھنا چاہیے اور اس پر میں نے دو کتابوں کا حوالہ دیا ہے: ایک امام ابو یوسف کی کتاب الخراج جو انہوں نے عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے تقاضے پر تحریر کی تھی۔ ہارون الرشید نے امام ابو یوسف سے تقاضہ کیا تھا کہ ہمارا مالیات کا نظام کیسا ہونا چاہیے۔ مالیات کہاں سے وصول کیے جائیں، کہاں خرچ کیے جائیں۔ اس پر ایک قانون تحریر کریں۔ چنانچہ امام ابو یوسف نے اس پر کتاب الخراج کے نام سے پورا سسٹم لکھ کر دیا جو کہ عباسی دور میں نافذ العمل قانون رہا ہے۔ اسی طرح کتاب الاموال امام ابو عبید کی معیشت کے باب میں کلاسیکل کتاب ہے۔

یہ میں نے درمیان میں عرض کر دیا کہ پڑھنے کی عادت ڈالو اور پڑھنا ہے تو اسلام کو انگریزوں سے نہ پڑھو بلکہ اپنے بزرگوں سے پڑھو۔ کیا انگریز تمہیں اسلام کے بارے میں صحیح بات بتائیں گے؟ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ولیم میور اور واٹ سے پڑھو گے تو صحیح پڑھو گے؟ اس لیے اپنی کتابیں پڑھنے کی عادت ڈالو اور پڑھنے کا ذوق پیدا کرو۔ امام ابو عبیدؒ کی کتاب الاموال جو تیسری صدی کی کتاب ہے اور تینوں زبانوں عربی، اردو، انگلش میں موجود ہے، بلکہ شاید جرمن میں بھی ہے اور میری خواہش ہے کہ کوئی چائنہ میں اس کا ترجمہ کر دے کیونکہ آنے والا دور چائنہ کا ہے۔

انہوں نے اپنی کتاب میں یہ واقعہ نقل کیا ہے، جو میں اس پر عرض کر رہا ہوں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مشن، اپنی دعوت اور اپنی تعلیمات کے جو نتائج بیان فرمائے تھے، حضرت عدیؓ فرماتے ہیں کہ ان تین صورتوں میں سے دو تو میں دیکھ چکا ہوں اور تیسری کے انتظار میں ہوں۔ یہ تیسری بات بھی حضرت عمرؓ کے زمانے میں پوری ہو گئی تھی۔

امیر المومنین حضرت عمر بن خطابؓ کے زمانے میں یمن کے گورنر حضرت معاذ بن جبلؓ تھے۔ حضرت معاذ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی یمن کے گورنر رہے ہیں اور حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے دور میں بھی یمن کے گورنر رہے ہیں۔ امام ابو عبیدؒ ؒنے کتاب الاموال میں یہ واقعہ لکھا ہے کہ حضرت معاذ بن جبلؓ نے ایک سال اپنے صوبے سے زکوۃ، جزیہ، خراج اور عشر وغیرہ وصول کیا، جس کو ہم ریوینیو کہتے ہیں جس طرح حکومت کے محکمے ریوینیو لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں ریوینیو وصول کرنے والے دو محکمے ہیں۔ زمینداروں سے وصول کرنے والا محکمہ مال ہے تحصیلدار وغیرہ۔ اور شہریوں سے وصول کرنے والا انکم ٹیکس آفیسر ہے جو تاجروں اور صنعتکاروں سے ٹیکس وصول کرتا ہے۔ حضرت معاذؓ کو اپنے صوبے سے سال بھر کا جو ریوینیو وصول ہوا۔ انہوں نے اس کا تیسرا حصہ مرکز کے کسی مطالبے کے بغیر مرکز کو بھیج دیا۔ حالانکہ صوبہ مرکز سے لیا کرتا ہے، لیکن یہاں صوبہ ایک تہائی بجٹ مرکز کے مطالبے کے بغیر مرکز کو بھیج رہا ہے۔ اس پر مرکز کو خوش ہونا چاہیے، مگر حضرت عمرؓ ناراض ہوئے اور حضرت معاذؓ کو خط لکھا کہ معاذ تم تو عالم آدمی ہو، تمہیں پتہ ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مالیات کا یہ اصول بیان فرمایا ہے ’’تؤخذ من اغنیائھم وترد الی فقرائھم‘‘ کہ زکوۃ اور صدقات جس علاقے کے مالداروں سے وصول کیے جائیں، اسی علاقے کے مستحقین پر تقسیم کیے جائیں تاکہ بیلنس ہو جائے۔ یہ بیلنس کا الگ مسئلہ ہے، اسلام معیشت میں توازن قائم کرتا ہے، قرآن مجید میں ایک جگہ ارشاد ہے ’’کی لا یکون دولۃ بین الاغنیاء منکم‘‘ معیشت کی بنیاد کے طور پر قرآن مجید نے یہ جملہ بیان فرمایا ہے کہ دولت کو مالداروں میں ہی نہیں گھومتے رہنا چاہیے، بلکہ نیچے بھی آنا چاہیے۔ حضرت عمرؓ نے حضرت معاذؓ سے کہا کہ تم نے یہ رقم مجھے کیوں بھیجی ہے، یہ تو یمن کے لوگوں کا حق ہے۔ اس پر حضرت معاذؓ نے جواب دیا کہ اپنے صوبے کے اخراجات پورے کرنے کے بعد یہ فاضل بجٹ تھا جو بچ گیا اور میں نے آپ کو بھیج دیا۔ اس رقم کا میرے پاس کوئی مصرف نہیں تھا اس لیے آپ کو بھیجی ہے۔

اگلے سال حضرت معاذؓ نے اپنے صوبے کا نصف ریوینیو مرکز کو بھیج دیا اور ساتھ لکھا کہ یہ رقم بچ گئی ہے۔ اس سے اگلے سال دو تہائی مرکز کو بھیج دیا اور اس سے اگلے سال پورے کا پورا بجٹ مرکز کو بھیج دیا کہ اللہ کے قانون کی برکت سے اور آپ جیسے عادل حکمران کے عدل کی برکت سے آج میرے صوبے میں ایک بھی مستحق نہیں ہے جس پر خرچ کر سکوں، لہٰذا سارا ریوینیو آپ کو بھیج رہا ہوں۔

اس دور میں ایک اسلامی حکومت کی ضروریات کیا ہوتی تھیں، اس کی ایک جھلک بھی دیکھ لیں۔ ایک اسلامی ریاست کے مصارف کیا ہیں؟ اس پر بیسیوں واقعات میں سے ایک واقعہ ذکر کرتا ہوں۔ مؤرخین نے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ حضرت عمرؓ بازار میں جا رہے تھے کہ ایک بوڑھے آدمی کو دیکھا جو دکانوں سے بھیک مانگ رہا تھا۔ حضرت عمرؓ کھڑے ہوگئے، غور سے دیکھا، اور اپنے ایک ساتھی سے ایک جملہ کہا اور یہ جملہ حضرت عمرؓ ہی کہہ سکتے ہیں کہ ’’ہم نے تو اپنے سسٹم میں کوئی ایسی کمزوری نہیں رہنے دی کہ کسی کو کسی سے مانگنے کی ضرورت پڑے۔‘‘ میں یہ جملہ پڑھ کر کانپ جاتا ہوں کہ ہم نے تو اپنے نظم میں کوئی ایسا جھول نہیں رہنے دیا کہ کسی کو کسی سے مانگنا پڑے، پھر یہ بزرگ کیوں مانگ رہا ہے۔ اس کو بلاؤ یہ کون ہے؟ اسے بلا کر پوچھا کہ کون ہو؟ اس نے بتایا کہ میں یہودی ہوں۔ اس سے پوچھا کہ کہاں ہوتے ہو؟ اس نے علاقہ بتایا۔ اس سے پوچھا کہ تم مانگ رہے ہو؟ اس نے کہا جی۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا کہ کیا تمہیں بیت المال سے وظیفہ نہیں ملتا؟ اس نے کہا کہ وظیفہ ملتا ہے؟ اس پر حضرت عمرؓ نے اس سے پوچھا کہ وہ وظیفہ تمہاری ضروریات کے لیے کافی نہیں ہوتا؟ اس نے بتایا کہ کافی ہوتا ہے۔ اس پر حضرت عمرؓ نے اس سے پوچھا کہ پھر مانگ کیوں رہے ہو؟ اس نے کہا کہ مجھے سال کے بعد جزیہ دینا ہے۔ اور میرے پاس جزیہ دینے کی گنجائش نہیں ہے، اس لیے مانگ رہا ہوں۔

جزیہ یہ ہے کہ غیر مسلم مسلمان فوج میں بھرتی نہیں ہوں گے، فوجی ذمہ داریوں سے مستثنیٰ ہوں گے، ان کی حفاظت ریاست کے ذمے ہے۔ وہ حفاظت کے نظام کے لیے فوج میں شریک نہیں ہوں گے۔ اس کے عوض وہ ٹیکس دیں گے، یہ ٹیکس جزیہ ہے۔ وہ فوجی بھرتی سے مستثنیٰ ہیں، کیونکہ اسلامی جنگ جہاد ہے اور وہ تو جہاد پر یقین نہیں رکھتے، وہ اپنے عقیدے کے خلاف کیونکر جنگ کریں گے۔ اس لیے اسلامی ریاست میں غیر مسلم شہری فوجی ذمہ داریوں سے مستثنیٰ ہے، کیونکہ اپنے عقیدے کے خلاف کیسے لڑیں گے، ان کو بھرتی کرنا ان کو لڑائی کے لیے مجبور کرنا ہے۔ اس بھرتی سے استثناء کے عوض میں ان پر ٹیکس لازم ہے۔ جسے جزیہ کہتے ہیں۔

اس یہودی نے کہا کہ بیت المال سے جو وظیفہ مجھے ملتا ہے اس سے میرا سال بھر کا خرچہ تو پورا ہو جاتا ہے، لیکن میں نے سال کے بعد جزیہ بھی دینا ہوتا ہے اور جزیہ کے لیے میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ اس لیے کچھ لوگوں سے مانگ کر اپنے جزیہ کی رقم جمع کرا دوں گا، اس لیے مانگ رہا ہوں۔

اس پر حضرت عمرؓ نے ایک جملہ کہا اور یہ بھی وہ ہی کہہ سکتے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے ساتھی سے کہا کہ یہ انصاف کی بات نہیں ہے کہ ان کی جوانی کی کمائی ہم کھائیں اور بڑھاپے میں ہم ان کو لوگوں کے دروازوں پر ہاتھ پھیلانے کے لیے چھوڑ دیں۔ ایسا نہیں ہوگا۔ اس بزرگ سے کہا کہ مانگنا چھوڑو، صبح آنا تمہارا مسئلہ حل کروں گا۔ حضرت عمر نے صبح شورٰی بلا لی کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ یہ لوگ جوانی میں کماتے ہیں، ہمیں ٹیکس کے ذریعے کھلاتے ہیں اور بڑھاپے میں یہ مانگ کر گزارا کرتے ہیں۔ اس لیے قانون بدل دیا کہ جو غیر مسلم کمانے کے قابل نہیں رہے گا اس کا جزیہ ختم کر دیا۔ یہ میں آسمان کی کہانیاں بیان نہیں کر رہا، زمینی واقعات بیان کر رہا ہوں۔ فرشتوں کے ماحول کی بات نہیں کر رہا بلکہ انسانوں کے ماحول کی بات کر رہا ہوں۔ یہ تاریخ کے ریکارڈ پر ہیں، لیکن ہم پڑھیں تو سہی۔

حضرت عدی بن حاتمؓ نے فرمایا کہ جو باتیں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی تھیں وہ میں نے اپنی زندگی میں دیکھ لی ہیں۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیمات پر عمل کے نتیجے کے طور پر آخرت کی نجات کا وعدہ تو کیا ہے، دنیا کے نظام کی اصلاح بھی بیان فرمائی ہے۔ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں یہ ارشاد فرمایا ہے: ’’ولو ان اھل القرٰی اٰمنوا واتقوا لفتحنا علیھم برکات من السماء والارض‘‘ کہ بستیوں والے اگر ایمان لے آئیں اور تقوٰی اختیار کر لیں تو ہم آسمان اور زمین سے رحمتوں اور برکتوں کے دروازے کھول دیں گے۔ اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی تعبیر فرمائی کہ میری تعلیمات پر عمل کر کے تو دیکھو، دنیا کا امن، دنیا کی خوشحالی، دنیا کا سکون بھی اسی میں ہے۔

اس لیے آج جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا میرے، آپ کے لیے، پاکستانی قوم، امت مسلمہ اور پوری نسل انسانی کے لیے یہی پیغام ہے کہ صحیح ٹریک پر واپس آؤ، ورنہ لڑھکتے رہو گے اور برباد ہوتے رہو گے۔ اس لیے صحیح ٹریک پر آنا ہوگا اور صحیح ٹریک اللہ اور اس کے رسول کے احکامات، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائیں۔

(ماہنامہ نصرۃ العلوم، گوجرانوالہ ۔ نومبر ۲۰۲۲ء)
2016ء سے
Flag Counter