حافظ تقی الدین مرحوم کی وفات اور پرانی وضع کے کچھ لوگ

   
۷ جنوری ۲۰۱۱ء

گزشتہ روز ہمارے شہر کے ایک بزرگ سیاسی کارکن حافظ تقی الدین صاحب انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کا تعلق حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ کے خاندان سے تھا اور کسی زمانے میں لیفٹ کے معروف سیاسی کارکن رہے ہیں۔ ان کے والد بزرگوار حضرت مولانا عبد العزیزؒ محدثِ پنجاب کہلاتے تھے اور علماء دیوبند کی مسلمہ علمی شخصیات میں شمار ہوتے تھے، شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے شاگرد اور خاتم المحدثین حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ کے ساتھیوں میں سے تھے، گوجرانوالہ میں دیوبند کے حوالے سے آنے والے وہ پہلے بزرگ تھے۔ مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں ان کی تشریف آوری کا پس منظر بہت دلچسپ ہے، جو میں نے حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ سے متعدد بار سنا۔

گوجرانوالہ کی مرکزی جامع مسجد ۱۳۰۱ھ میں تعمیر ہوئی۔ اس وقت شہر کے بڑے عالم دین حضرت مولانا سراج الدین احمدؒ تھے، جو بازار تھانیوالہ کی عقبی گلی کی ایک مسجد میں جمعہ پڑھایا کرتے تھے، جو اس وقت شہر کی جامع مسجد کہلاتی تھی۔ اب وہ گلی اور مسجد دونوں مولانا سراج الدینؒ کے نام سے موسوم ہیں۔ وہ مسجد تنگ پڑ گئی تو چمڑا منڈی کے دو تاجر بھائیوں شیخ صاحب دینؒ اور شیخ نبی بخشؒ نے آبادی سے باہر شیرانوالہ باغ کے ساتھ یہ بڑی مسجد تعمیر کروائی، جو مغل طرزِ تعمیر کا عمدہ نمونہ ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ راولپنڈی کی مرکزی جامع مسجد، جس میں صاحبزادہ سید فیض علی فیضیؒ خطیب رہے ہیں، وہ بھی انہی دونوں بھائیوں کی کوششوں سے تعمیر ہوئی تھی اور دونوں مسجدوں کے بنیادی ڈھانچے کا نقشہ ایک ہی ہے۔

مولانا سراج الدین احمدؒ اپنے دور کے بڑے فقہاء میں شمار ہوتے تھے اور ”فقیہِ پنجاب“ کے لقب سے یاد کیے جاتے تھے۔ انہوں نے فارسی زبان میں ہدایہ کا ترجمہ اور شرح بھی لکھی تھی، جس کے بارے میں مولانا مفتی عبد الواحدؒ کا کہنا تھا کہ شاید قلمی نسخے کے طور پر ”سراج الہدایہ“ کے نام سے پنجاب یونیورسٹی کی لائبریری میں موجود ہے۔ ۱۳۰۱ھ میں تعمیر ہونے والی جامع مسجد میں وہ پہلے خطیب تھے۔

ان کی وفات کے بعد ان کے فرزند مولانا نذیر حسینؒ ان کے جانشین تھے، وہ بھی بڑے ذی وجاہت عالم دین تھے اور انہیں اس دور میں سرکاری طور پر آنریری مجسٹریٹ کی حیثیت حاصل تھی۔ ۱۹۱۹ء میں امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں جلسہ عام پر انگریزی فوج کی فائرنگ اور سینکڑوں افراد کے مقتول اور زخمی ہونے کے بعد جب پنجاب کے مختلف شہروں میں نوآبادیاتی برطانوی حکومت کے خلاف بغاوت کے شعلے بھڑکے تو ان میں گوجرانوالہ بھی پیش پیش تھا۔ مارشل لاء اور کرفیو کے ذریعے بھی جب عوامی بغاوت پر قابو نہ پایا جا سکا تو باقاعدہ فضائیہ استعمال کی گئی اور طیاروں کے ذریعے بمباری کر کے شہروں کی بغاوت کو کچل دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں سرکاری مناصب اور اعزازات سے دست برداری کی تحریک چلی اور مولانا نذیر حسینؒ سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ آنریری مجسٹریٹ کا منصب سرکار کو واپس کر دیں، جس سے انہوں نے انکار کر دیا اور کشمکش اس حد تک آگے بڑھی کہ انہیں مرکزی جامع مسجد کی خطابت سے سبکدوش ہونا پڑا۔

مولانا عبد العزیزؒ اس وقت گوجرانوالہ شہر کے ایک ہائی اسکول کے ٹیچر تھے۔ کسی مستقل خطیب کے انتظام تک انہیں عارضی طور پر جامع مسجد کی خطابت سپرد کی گئی اور چند ہی دنوں میں لوگوں کو ان کی علمی حیثیت اور مقام کا اندازہ ہوا تو ان سے جامع مسجد کی خطابت اور امامت مستقل طور پر قبول کرنے کی درخواست کی گئی اور وہ گزشتہ صدی کے تیسرے عشرے کے آغاز میں گوجرانوالہ کی مرکزی جامع مسجد کے خطیب کے طور پر متعارف ہوئے۔ انہوں نے مرکزی جامع مسجد کے ساتھ ”مدرسہ انوار العلوم“ کے نام سے دینی درسگاہ قائم کی۔ ۱۹۲۶ء میں قائم ہونے والی یہ درسگاہ گوجرانوالہ کی اولین دینی درسگاہ ہے، جس کا میں ”ام المدارس“ کے نام سے ذکر کیا کرتا ہوں۔ اسی مدرسے میں میرے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ نے تعلیم حاصل کی ہے اور قلعہ دیدار سنگھ کے حضرت مولانا قاضی عصمت اللہ صاحب بھی اسی مدرسہ کے فضلاء میں سے ہیں۔ حضرت مولانا عبد العزیزؒ کے علاوہ حضرت مولانا قاضی شمس الدینؒ، حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ اور حضرت مولانا عبد القدیرؒ جیسے بزرگوں نے مدرسہ انوار العلوم میں تدریس کے فرائض سرانجام دیے ہیں۔

حضرت مولانا عبد العزیزؒ کی وفات کے بعد ان کے بھتیجے حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ مدرسہ انوار العلوم کے مہتمم اور مرکزی جامع مسجد کے خطیب بنے اور ۱۹۸۲ء تک خدمات سرانجام دیتے رہے۔ ان کے آخری دور میں ۱۹۷۰ء سے راقم الحروف نے جامع مسجد کی خطابت میں ان کی نیابت کی اور مدرسہ انوار العلوم کے صدر مدرس مولانا قاضی حمید اللہ خان (سابق ایم این اے) رہے۔ ۱۹۸۲ء میں حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ کی وفات کے بعد سے منصب دو حصوں میں بٹ گیا، جامع مسجد کی خطابت میرے سپرد ہوئی اور مدرسہ انوار العلوم کا اہتمام مولانا قاضی حمید اللہ خان کے پاس چلا آ رہا ہے۔ میں نے ۱۹۷۰ء میں مدرسہ نصرۃ العلوم سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد تدریس کا آغاز مدرسہ انوار العلوم سے کیا اور کم و بیش بیس سال تک مختلف کتابوں کی تدریس ہر سال میرے ذمے ہوتی تھی۔

حضرت مولانا عبد العزیزؒ کا ذوق خالصتاً محدثانہ تھا۔ انہوں نے بخاری شریف کے اطراف پر ”النبراس الساری“ کے نام سے کتاب لکھی، جو ایک بار طبع ہوئی اور علمی حلقوں میں خاصی معروف ہوئی۔ انہوں نے طحاوی شریف کی روایات کی تخریج بڑی محنت اور عرق ریزی کے ساتھ کی، جو طبع نہ ہو سکی اور علامہ زیلعیؒ کی معروف کتاب ”نصب الرایہ“ پر، جو ہدایہ کی احادیث کی تخریج پر سب سے مفصل اور مستند کتاب ہے، حاشیہ نویسی میں اپنے وقت کے معروف محدث حضرت مولانا بدر عالم میرٹھیؒ کی معاونت کی۔ انہوں نے ”العدل“ کے نام سے ایک دینی جریدہ بھی کئی سال تک شائع کیا، جو حنفیت کے دفاع کے محاذ پر ایک وقیع اور مؤثر جریدہ تھا اور معروف اہل حدیث عالم دین حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ کے ساتھ ان کا مناظرہ، مکالمہ اور نوک جھونک چلتی رہتی تھی۔ ایک بار فاتحہ خلف الامام کے حوالے سے مسلم شریف کی ایک روایت کے بارے میں دونوں میں طویل علمی اور عملی بحث ہوئی، جس پر علامہ مولانا سید سلیمان ندویؒ کو ثالث تسلیم کیا گیا اور انہوں نے دونوں حضرات سے تحریری موقف لکھوا کر حضرت مولانا عبد العزیزؒ کے حق میں فیصلہ دے دیا کہ ان کا موقف علمی طور پر درست ہے۔

ان کے جانشین حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ بھی بڑی علمی شخصیت کے حامل تھے، مگر ان کا زیادہ تر تعلق سیاسی جدوجہد سے رہا۔ وہ ایک دور میں گوجرانوالہ میں کانگریس کے صدر رہے ہیں، جمعیت العلماء ہند کے سرگرم راہنماؤں میں سے تھے، تحریکِ آزادی میں سرگرم حصہ لیا اور متعدد بار گرفتار ہوئے۔ گوجرانوالہ کے علماء کرام میں مولانا مفتی عبد الواحدؒ اور اہل حدیث عالم دین مولانا محمد اسماعیل سلفیؒ کانگریس اور جمعیت العلماء ہند کے متحرک راہ نماؤں میں شمار ہوتے تھے، دونوں میں گہری دوستی تھی اور بہت سے کام وہ باہمی مشورے سے کیا کرتے تھے۔

میں نے کالم کا آغاز حافظ تقی الدین صاحب سے کیا تھا، مگر بات ان کے خاندانی پس منظر کی طرف چل نکلی۔ حافظ صاحب مرحوم حضرت مولانا عبد العزیزؒ کے سب سے بڑے بیٹے تھے، علمی دنیا میں نہ آ سکے اور کاروباری ماحول میں چلے گئے۔ وہ بھی کانگریس، جمعیت علماء ہند اور پاکستان بننے کے بعد سرخ پوش تحریک اور نیشنل عوامی پارٹی کے ساتھ مختلف ادوار میں وابستہ رہے ہیں اور لیفٹ کے شعوری اور نظریاتی راہ نماؤں میں سے تھے۔ انہوں نے اپنی یادداشتوں کے حوالے سے ایک کتاب بھی لکھی ہے، ہمارے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور عم مکرم حضرت مولانا عبد الحمید سواتیؒ کے طالب علمی کے دور کے دوستوں میں سے تھے اور کبھی کبھی اس دور کی باتوں کا کسی نہ کسی حوالے سے ذکر کرتے رہتے تھے۔ جب تک تندرست رہے جمعہ کی نماز ہمیشہ مرکزی جامع مسجد میں پڑھتے تھے اور بسا اوقات نماز جمعہ کے بعد میرے پاس بیٹھ کر خطبے پر مثبت و منفی دونوں قسم کا تبصرہ بھی کرتے تھے۔ مجلسی آدمی تھے، گفتگو بے تکلفی سے کرتے تھے اور ان کا تبصرہ بے لاگ ہوتا تھا۔

اس پرانی طرز اور وضع کے لوگ اب آہستہ آہستہ ناپید ہوتے جا رہے ہیں، وضع داری کی روایات قصۂ پارینہ بنتی جا رہی ہیں، قدریں بدل رہی ہیں، روایات مدھم ہوتی جا رہی ہیں اور ان کی جگہ تکلف، تصنع اور بناوٹ کی دھند سوسائٹی کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ ایسے ماحول میں حافظ تقی الدین مرحوم کا دم غنیمت تھا، ان کے پاس بیٹھ کر پرانے دور اور پرانے بزرگوں کی باتیں سننے کو مل جایا کرتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو جوارِ رحمت میں جگہ دیں اور پسماندگان کو صبرِ جمیل کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter