دینی مدارس کی جہدِ مسلسل اور درپیش چیلنجز

   
الشریعہ اکادمی، ہاشمی کالونی، گوجرانوالہ
۷ نومبر ۲۰۱۳ء

(دعوۃ اکیڈمی اسلام آباد سے الشریعہ اکیڈمی گوجرانوالہ آنے والے علماء کرام کے وفد سے گفتگو)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ہم نے الشریعہ اکیڈمی کے نام سے یہ ٹھکانہ بنا رکھا ہے جس میں چھوٹے موٹے کام کرتے رہتے ہیں۔ ہمارا بنیادی کام یہ ہے کہ دینی حلقوں میں آج کے عصری تقاضوں کا احساس اجاگر کرنا اور جہاں تک ہو سکے بریفنگ مہیا کرنا۔ آج کے عصری تقاضے کیا ہیں، دینی حوالے سے آج کی ہماری ضروریات کیا ہیں اور ہم نے ان کو کیسے پورا کرنا ہے؟ ان تقاضوں کی نشاندہی، احساس اور ہلکی پھلکی بریفنگ ہم نے اپنے کام کو اس دائرے میں محدود کر رکھا ہے۔ میں آج کی ضروریات اور تقاضوں کے حوالے سے دو تین باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔ آپ ماشاء اللہ علماء کرام ہیں اور بڑے ادارہ کے علماء کرام ہیں۔ جہاں سے آپ کا تعلق ہے وہ علاقائی تناظر، قومی تناظر اور دینی تناظر میں بڑا اہم، بڑا نازک اور حساس خطہ ہے۔ اس لیے جو آج کے تقاضے اور ضروریات ہیں ان سے ہم سب کا آگاہ ہونا ضروری ہے، لیکن آپ حضرات کے لیے زیادہ ضروری ہے۔

آج اس وقت ہم دنیا میں جس فکری کشمکش سے دوچار ہیں، یہ مختلف نوع کی ہے، عالم اسلام اور عالم کفر، پھر عالم کفر کی اپنی ترجیحات ہیں مغرب اور مشرق۔ لیکن اس وقت جو بات ہم سب کی زبان پر ہے کہ مغرب اور اسلام کی کشمکش، اس کشمکش کے بہت سے دائرے ہیں لیکن جو بات زبان زد عوام ہے اور جو ہم میں سے تقریباً ہر پڑھا لکھا اور مسائل کو سوچنے والا آدمی کہتا ہے کہ اسلام اور مغرب کی کشمکش ہے۔ اس کشمکش کو ہمیں سمجھنا چاہیے کہ یہ کشمکش کیا ہے؟ اس کا ایک دائرہ تو سیاسی ہے کہ مغرب کی سیاسی اجارہ داری نہیں، بلکہ جکڑ بندی ہے۔ عالم اسلام اس وقت مغرب کے مکمل سیاسی شکنجے میں ہے۔

یہ بحث مستقل گفتگو کی متقاضی ہے لیکن میں آپ سے یہ بات عرض کرنا چاہوں گا کہ آج دنیا میں ساٹھ کے لگ بھگ مسلمان ملک شمار ہوتے ہیں، ہماری حکومتیں بھی ہیں، لیکن کہیں بھی ہم اپنے فیصلے خود کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں ہے جہاں مسلمان ملک ہو، حکومت ہو اور پارلیمنٹ بھی ہو، سب کچھ ہو، لیکن وہ اپنے قومی فیصلے اپنی مرضی سے کر سکیں۔ مجھے تو اس زمین پر کوئی ایسا خطہ دکھائی نہیں دیتا کہ ہم اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہوں۔ سیاسی دباؤ ہے یا معاشی دباؤ ہے اور کچھ نہیں تو بین الاقوامی معاہدات ہیں جس کے حوالہ سے میں ایک بات یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ اس وقت ہم پر حکومتوں کی حکومت نہیں بلکہ بین الاقوامی معاہدات کی حکومت ہے۔ ہمارا جو بھی کوئی معاملہ ہوتا ہے کسی نہ کسی بین الاقوامی معاہدے سے ٹکراتا ہے اور ہم پسپا ہو جاتے ہیں۔ بیسیوں بین الاقوامی معاہدات ہیں سیاسی بھی، ثقافتی، تعلیمی اور قانونی بھی۔ آج دنیا میں حکومتیں تو بس نام کی حکومتیں ہیں، اصل حکومت ہم پر بین الاقوامی معاہدات کی ہے، اور اگر ان معاہدات کے پیچھے کار فرما ایجنڈا دیکھیں تو یہودی پروٹوکول نظر آ جائے گا کہ حکومت کس کی ہے؟ ہم کوئی سیاسی فیصلہ کرتے ہیں تو کوئی نہ کوئی بین الاقوامی معاہدہ ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ نفاذ شریعت کی بات کرتے ہیں، اپنی ثقافت کی بات کرتے ہیں، یا کوئی تعلیمی بات کرتے ہیں، تو کوئی نہ کوئی بین الاقوامی معاہدہ ہمارے راستے کی رکاوٹ بن جاتا ہے۔ تمام اہم معاملات میں بین الاقوامی طور پر معاہدات کی حکومت ہے۔ ہماری حکومتیں ایک کارندے کی حیثیت رکھتی ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں۔

معاشی طور پر آپ صورتحال دیکھیں کہ معاشیات کے وسائل ہمارے پاس ہیں تیل، معدنیات اور یورینیم ہمارے پاس ہے، لیکن اس کا کنٹرول کسی اور کے پاس ہے۔ ہمارے پاس کاغذ کے ٹکڑے یعنی نوٹ اور کرنسی ہیں، اور اس کاغذ کے ٹکڑے کا کنٹرول بھی ورلڈ بینک کے پاس ہے کہ میری جیب میں ہزار کا نوٹ ہے، آج ہزار کا ہی ہے یا نو سا کا رہ گیا ہے؟ ہماری بے بسی کا حال یہ ہے کہ نوٹ میری جیب میں ہے، لیکن اس کاغذی کرنسی کا کنٹرول میرے پاس نہیں ہے۔ یہ نو سو کا رہ گیا ہے یا گیارہ سو کا ہو گیا ہے، مجھے کچھ پتہ نہیں۔ میں تو جب مارکیٹ میں جاؤں گا تو پتہ چلے گا کہ یہ ہزار کا نہیں رہا۔ اسی طرح بہت سے معاشی وسائل ہمارے ہیں اور کنٹرول کسی اور کا ہے۔ دولت ہماری ہے لیکن کنٹرول کسی اور کا ہے۔ یہ ہماری معاشی صورتحال ہے۔

عسکری صورتحال بھی آپ دیکھ رہے ہیں۔ مجھے ایک عرب صحافی کا چبھتا ہوا جملہ نہیں بھولتا اس نے کہا کہ دنیا کے ایٹم بم اپنے ملکوں کی حفاظت کر رہے ہیں اور پاکستان اپنے ایٹم بم کی حفاظت کر رہا ہے۔ یعنی ہماری جکڑ بندی حال یہ ہے کہ ہم ایٹمی قوت ہیں لیکن ایٹمی قوت ہوتے ہوئے بھی ہماری بے بسی یہ ہے۔ مجھے تفصیل بتانے کی ضرورت نہیں، آپ کو نظر آ رہی ہے کہ ہماری بے بسی کی انتہا کیا ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں۔ یہ میں نے صرف حوالے کے لیے بات کی ہے، اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کہ ہماری سیاسی جکڑ بندی اور معاشی جکڑ بندی کا حال کیا ہے۔ عسکری طور پر بھی ہم بے بس ہیں۔ اسلامی ممالک میں سب سے زیادہ عسکری قوت پاکستان ہے۔ ہمارا حال یہ ہے تو باقی غریب ملکوں کا کیا حال ہوگا ان کے پاس تو یہ کچھ بھی نہیں ہے۔

لیکن ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ایک ہے فلسفے کی جنگ، ثقافت اور سولائزیشن کی جنگ، علمی اور فکری جنگ۔ اگر آج ہم دنیا میں دنیائے مغرب کے ساتھ یا دنیائے کفر کے ساتھ کسی شعبے میں برسر جنگ ہیں تو وہ صرف علمی اور ثقافتی جنگ ہے جہاں ہم ابھی تک سرنڈر نہیں ہوئے اور ان شاء اللہ نہیں ہوں گے۔ دو سو سال سے مغرب لگا ہوا ہے اپنا پورا زور لگا رہا ہے، لیکن دنیا کے کسی خطے میں بعض مسلمان طبقات سرنڈر ہوئے ہوں گے، حکمران سرنڈر ہوئے ہوں گے لیکن مسلمان سوسائٹی کہیں بھی سرنڈر نہیں ہوئی اور نہیں ہوگی۔ طبقات ضرور سرنڈر ہوئے ہیں۔ ہماری جورولنگ کلاس ہے وہ مرعوب ہے، لیکن جسے سوسائٹی کہتے ہیں، سوسائٹی ابھی تک قائم ہے۔ مصر میں چلے جائیں یا مراکش میں، انڈونیشیا میں چلے جائیں یا ملائشیا میں، نائیجیریا میں چلے جائیں یا تاشقند میں، جہاں بھی جا کر دیکھ لیں سوسائٹی ابھی تک دین کی بنیادوں پر کھڑی ہے، سٹینڈ کر رہی ہے اور سرنڈر ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یہ علمی اور فکری دنیا میں مغرب کی بڑی شکست ہے جس پر وہ تلملا رہے ہیں اور ان کی جھنجھلاہٹ نظر آتی ہے۔ دو سو سال میں انہوں نے ہمارے خاندانی نظام کو تباہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، ہماری علمی بنیادوں کو تباہ کرنے کی کوشش کی، ہمارے فکری ورثے کو تباہ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن دو سو سال گزرنے کے باوجود وہ اپنے مشن میں کامیاب نہ ہو سکے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ وہ کچھ نہیں کر سکے، انہوں نے بہت کچھ کیا ہے، لیکن میں اساس کی بات کر رہا ہوں۔

میں جب مغرب والوں سے بات کرتا ہوں تو یہ بات کہتا ہوں کہ تم وقت ضائع کر رہے ہو اپنا بھی اور ہمارا بھی۔ تمہاری تمام تر کوششوں کے باوجود دنیا کا کوئی مسلمان کہیں کسی خطے میں بھی قرآن پاک سے تعلق توڑنے کے لیے تیار نہیں ہے دو حوالوں سے۔ (۱) آپ دنیا کے کسی خطے کے مسلمان سے کہیں کہ قرآن پاک نے یہ بات کہی ہے اور صحیح نہیں کہی تو وہ اس بات کو نہیں سنے گا۔ اس کو اصل بات کا پتا نہیں ہے، وہ ایک لفظ کا ترجمہ بھی نہیں جانتا، لیکن یہ بات کوئی مسلمان سننے کے لیے تیار نہیں ہو گا کہ قرآن پاک نے ایک بات کہی ہے اور صحیح نہیں کہی۔ (۲) اور دوسرا کوئی مسلمان قرآن پاک کی بے حرمتی کبھی بھی برداشت نہیں کرے گا۔ یہی صورتحال جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے ساتھ ہے۔ دنیا کے کسی خطے کے کسی مسلمان سے آپ یہ کہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات فرمائی تھی نعوذ باللہ وہ صحیح نہیں ثابت ہوئی تو کیا کوئی مسلمان یہ بات سنے گا؟ اس کو بات کا پتا نہیں ہے، لیکن وہ نہ روایت پوچھے گا، نہ سند پوچھے گا، نہ متن پوچھے گا اور نہ حوالہ پوچھے گا بس یہ جملہ وہ برداشت نہیں کرے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی بات کی ہے اور وہ صحیح نہیں ہے۔ اسی طرح کوئی مسلمان جناب رسول اللہ کی شان اقدس میں گستاخی برداشت نہیں کرے گا۔ چاہے اس نے حضور نبی کریمؐ کی سیرت پڑھی ہے یا نہیں، حضورؐ کی حدیث جانتا ہے یا نہیں، سنت سے واقف ہے یا نہیں، جو مسلمان ہے وہ حضور نبی کریمؐ کی شان اقدس میں گستاخی کبھی برداشت نہیں کرے گا۔ جس کے دل میں ایمان ہے وہ یہ چیز برداشت نہیں کر سکتا۔

مغرب اس کا کئی دفعہ تجربہ کر چکا ہے۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ تم کئی دفعہ تجربہ کر چکے ہو، دیکھ چکے ہو لیکن پھر بھی ہر دس بارہ سال کے بعد چھیڑتے ہو، کوئی مسئلہ چھیڑ کر مسلمان کا ٹمپریچر چیک کرتے ہو کہ کم ہوا ہے یا نہیں۔ یہ ٹمپریچر سیٹ ہے کم نہیں ہوگا۔ قرآن پاک کے حوالے سے اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے مسلمان کے جذبات کا ٹمپریچر ایک جگہ سیٹ ہے یہ اوپر جا سکتا ہے لیکن نیچے نہیں آ سکتا۔ میں نے کہا تم اس بات کو نہیں سمجھو گے۔ اس کو ایمانیات کہتے ہیں۔ تم وقت ضائع کرتے ہو ہر دس بارہ سال کے بعد کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا کر دیتے ہو، پھر مسلمان سڑکوں پر ہوتے ہیں اور پھر جو کچھ ہوتا ہے سو ہوتا ہے اور پھر تم سوچتے ہو کہ یہ مسلمان ابھی تک ایسے ہی ہیں۔ یہ ایسے ہی رہیں گے۔

دوسری بات یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ یہ بھی ایک حقیقت ہے اور گزشتہ دو سو سال کی علمی اور فکری حقیقتوں میں سے ہے کہ مغرب کے مستشرقین نے جو راستہ اختیار کیا تھا، انہوں نے مسلمان کو دین سے ہٹانے کے لیے جو پینترے بدلے تھے کہ مسلمان کافر تو نہیں بنتا تو اسے مسلمان بھی نہ رہنے دیا جائے۔ استشراق کا سب سے بڑا ایجنڈا یہ تھا کہ یہ کافر تو نہیں ہو گا لیکن مسلمان بھی نہ رہنے دو۔ میں نے کہا تم نے دو سو سال محنت کی ہے اور قرآن پاک کی نئی تعبیرات اور حدیث کی نئی تعبیرات پر بیسیوں فکری حلقے کھڑے ہوئے ہیں۔ میں نے کہا ان کی عمر زیادہ سے زیادہ بیس پچیس سال ہی ہوتی ہے۔ کسی ایسی فکری تحریک کی اس سے زیادہ عمر میں نہیں جانتا۔ گزشتہ دو سو سال میں جس نے بھی قرآن پاک اور حدیث کی تعبیر نو کی بات کی، وہ بات ایک نسل تک چلی ہے۔ دوسری نسل بھول بھال گئی کہ کوئی صاحب ہوتے تھے جو ایسی باتیں کیا کرتے تھے۔ اس لیے تم بلا وجہ وقت ضائع کر رہے ہو۔

میری ایک دانشور سے بات ہوئی تو میں نے اسے کہا کہ دیکھو قرآن پاک جس زبان میں ہے وہ زندہ زبان ہے، دنیا کی رائج الوقت بین الاقوامی زبانوں میں سے ہے۔ اس زبان تک ایک عام آدمی کی رسائی ہے، کروڑوں لوگوں کی رسائی ہے، اور جو کوئی قرآن پاک کی زبان تک رسائی حاصل کرنا چاہتا ہے، رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث و سنت تک کوئی بھی مسلمان رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ اگر رسائی حاصل کرنا چاہے تو اس کے لیے کیا رکاوٹ ہے؟ خود ہی رکاوٹ بن جائے تو بن جائے۔ اسی طرح تعامل صحابہ سے واقفیت کوئی حاصل کرنا چاہے تو کر سکتا ہے، کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ یہ دو باتیں ہوتے ہوئے کہ قرآن پاک کی زبان زندہ زبان ہے، اس کے محاورے، اس کی ضرب الامثال، اس کے پس منظر، اس کا ادب اور اس کا لٹریچر دنیا میں ہر جگہ موجود اور میسر ہے۔ ہر آدمی کو رسائی کی سہولت حاصل ہے اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن پاک کی تشریح میں حدیث اور سنت، قول اور عمل کی صورت میں جو بے پناہ ذخیرہ ہے وہ بھی میسر ہے۔ ان دو باتوں کے ہوتے ہوئے تم سوچ کیسے لیتے ہو کہ ہم قرآن پاک کی کوئی نئی تعبیر مسلمانوں کو منوا لیں گے؟ یہ کیسے ممکن ہے؟

جب ایک عام مسلمان کی اس تک رسائی ہے کہ قرآن پاک کی اس آیت کا معنی حضورؐ نے یہ فرمایا ہے یا اس آیت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل یہ تھا اور صحابہ کا اجماعی عمل یہ تھا۔ جس مسلمان کی رسائی میں یہ دو باتیں ہیں اس کو قرآن پاک کی کوئی نئی تعبیر کیسے منوائی جا سکتی ہے؟ میں نے کہا تم خواہ مخواہ اپنا بھی اور ہمارا بھی وقت ضائع کر رہے ہو۔ یہ نہیں ہو گا۔ تم جو بھی فکر کھڑا کرو گے وہ بیس پچیس سال سے زیادہ نہیں چلے گا، صرف وقتی طور پر ایک نسل میں شخصی اثرات ہوں گے۔ میں نے دو تین نسلیں دیکھی ہیں کئی بلبلے اٹھے اور بیٹھ گئے۔ قرآن پاک وہیں کھڑا ہے، سنت رسول وہیں کھڑی ہے، قرآن پاک اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسلمان کی کمٹمٹ وہیں کھڑی ہے، امت کا اجتماعی تعامل بھی وہیں کھڑا ہے، امت کا علمی ذخیرہ بھی وہیں کھڑا ہے اور اس تک رسائی اور مسلمان کی کمٹمٹ قائم ہے۔ یہ زندہ حقائق ہیں۔ میں کوئی آسمان کی بات نہیں کر رہا، زمین کی بات کر رہا ہوں۔ بہت سے دوست گھبرا جاتے ہیں، میں کہتا ہوں کہ گھبرانے کی بات نہیں ہے، سامنا کرنا چاہیے، گھبرانا نہیں چاہیے۔ بسا اوقات جو فتنے سامنے آتے ہیں ہم ان سے گھبرا جاتے ہیں میں کہتا ہوں کہ گھبراؤ نہیں، یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ دین نے اپنی اصلی شکل میں رہنا ہے اور قیامت تک رہنا ہے۔

ایک صاحب سے بات ہو رہی تھی، ان کا تجزیہ یہ ہے کہ قرآن پاک اور سنت کی تعلیم اور دینی تعلیم مسلم سوسائٹی میں باقی رہنے کا ذریعہ مدارس ہیں۔ اس لیے مغرب کو مدارس پر غصہ بھی زیادہ آتا ہے کہ ان کو ختم کرو کیونکہ یہ ذریعہ ہیں۔ ان کے نزدیک قرآن پاک کی تعلیم اور سنت رسول کی تعلیم کے باقی رہنے اور مسلمانوں کو اپنے علمی اور فکری ماضی کے ساتھ وابستہ رکھنے کا ذریعہ مدارس ہیں۔ یہ حقیقت ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مسلمان جو قرآن پاک اور سنت رسول کے ساتھ علمی طور پر وابستہ ہے، اپنے ماضی کے علمی پس منظر اور علمی ذخیرے کے ساتھ وابستہ ہے تو اس کا ظاہری سبب مدرسے ہی ہیں۔ وہ یہ بات سمجھتے ہیں اس لیے مدرسوں پر ان کو غصہ آتا ہے اور ان کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں نے کہا تمہارا یہ مغالطہ ہے۔ مدرسے کی وجہ سے قرآن نہیں ہے، قرآن کی وجہ سے مدرسہ ہے۔ میں نے کہا جتنی جلدی یہ مغالطہ دور کر لو گے تمہیں فائدہ ہوگا کہ مدرسے کی وجہ سے قرآن نہیں ہے قرآن کی وجہ سے مدرسہ ہے۔ قرآن تو رہے گا اور میں نے گزشتہ صدی کے دوران وہ مناظر دیکھے ہیں کہ دو جگہ پر مدارس اور دینی تعلیم کا سلسلہ ختم کیا گیا ایک جگہ جبر کے ذریعے اور ایک جگہ قانون کے ذریعے۔ وسطی ایشیا میں جبر کے ذریعے اور ترکی میں قانون کے ذریعے۔ عمل دونوں جگہ ایک ہی ہوا کہ مدرسے بند، مسجدیں بند، تکیے (خانقاہیں) بند، عربی کی تعلیم ختم اور قرآن پاک کی تعلیم ختم۔ وسطی ایشیا میں اس مرحلے نے ہمارے سامنے تقریبا پون صدی گزاری ہے اور ترکی میں بھی تقریبا پون صدی ہی ہوئی ہے۔ لیکن پون صدی کی اس کوشش کے بعد نتیجہ کیا ہوا؟ کیا بات ختم ہو گئی؟ نہیں بلکہ قرآن پاک وہیں کھڑا ہے، حدیث بھی وہیں کھڑی ہے اور مسلمان بھی وہیں کھڑا ہے۔

میں آپ سے اپنے مشاہدہ کی ایک بات عرض کرتا ہوں۔ جب وسطِ ایشیا کی ریاستیں آزاد ہوئی ہیں ان میں ازبکستان بھی تھا۔ میں علماء کے ایک وفد کے ساتھ ازبکستان گیا، تاشقند اور سمرقند بھی گیا اور امام بخاریؒ کی قبر پر خرتنگ میں بھی حاضری دی۔ ہم آٹھ دس دن وہاں گھومتے پھرتے رہے۔ میرا ذوق ہے مشاہدہ، تجزیہ، وجہ معلوم کرنا کہ وجہ کیا ہے؟ ہم یہاں سے گئے تو ہمارے ذہن میں یہ بات تھی کہ پون صدی کے دوران تین نسلیں گزر جاتی ہیں، تیسری نسل آ جاتی ہے، جوان ہو جاتی ہے۔ وہاں اس کیفیت میں تین نسلیں گزر گئی ہیں تو ان کا سب سے بڑا تقاضہ کیا ہو گا۔ میں اپنے ذہن میں یہ تصور لے کر گیا کہ علماء کا وفد ہے ہم جا رہے ہیں تو وہ ہم سے تقاضا کریں گے کہ ہماری مسجدیں نئی نئی کھلی ہیں، ہمیں عارضی طور پر امام فراہم کریں، قاری فراہم کریں، حافظ فراہم کریں جو ہمیں نماز سکھائیں اور ہمیں قرآن پاک کی تعلیم دیں۔ جب تک ہم اس پوزیشن میں نہیں آ جاتے ہمیں عارضی طور پر امام، قاری اور خطیب فراہم کریں۔ ہم خدمت کی غرض سے گئے تھے کہ ہم کیا خدمت کر سکتے ہیں تو ذہن میں یہ تھا کہ ان کا سب سے بڑا تقاضا یہ ہو گا کہ افراد چاہئیں۔ لیکن کہیں سے بھی یہ تقاضا نہیں کیا گیا۔ مسجدیں آباد ہو گئیں، امام بھی مل گئے، مدرس بھی مل گئے، مدرسے بھی آباد ہو گئے۔ ہم نہیں سمجھ پا رہے تھے کہ یہ کیا ہوا اور کیسے ہوا؟

تاشقند میں استاد ذاکر جان سے، جو ہمارے میزبان دوست تھے، ان سے پوچھا کہ استاد! کیا معاملہ ہے کہ تم اتنی اچھی عربی بول رہے ہو کہ ہم اٹکتے ہیں اور تم صاف بول رہے ہو جبکہ تم تاشقند کی پیداوار ہو۔ تم نے کہاں پڑھا ہے؟ وہ ہنس پڑا اور کہا یہیں تاشقند میں پڑھا ہے۔ میں نے کہا تاشقند میں کہاں پڑھا ہے؟ وہاں تو صورتحال یہ تھی کہ ہم وہاں کے یہ قصے سنا کرتے تھے کہ سکول میں ماسٹر نے بچے سے پوچھا کہ کسی کو قرآن پاک کی سورت یاد ہے؟ ایک بچے نے ہاتھ کھڑا کیا کہ مجھے یاد ہے۔ استاد نے کہا سناؤ۔ بچے نے سنائی تو اس سے پوچھا تم نے یہ کس سے پڑھی ہے؟ بچے نے استاد کا نام لیا تو دوسرے دن استاد غائب ہو جاتا تھا۔ ایسے واقعات وہاں عام ہوتے تھے یہ کیفیت تھی۔ ایک مولانا صاحب نے خود ہم سے بیان کیا کہ ہم دو بھائی چکی میں مزدوری کرتے تھے۔ دوپہر کو کھانے کے وقفے کے لیے گھر آتے تھے تو ہم نے ظہر کی نماز پڑھنی ہوتی تھی۔ ہم جماعت کے ساتھ نماز نہیں پڑھ سکتے تھے بلکہ چھپ کر نماز پڑھتے تھے۔ ایک بھائی دروازے پر کھڑا ہوتا تھا اور دوسرا نماز پڑھتا تھا۔ وہ پہرہ دینے والا اگر خطرہ محسوس کرتا تو آواز دیتا یا کوئی اشارہ کرتا تو دوسرا بھائی نماز چھوڑ کر چائے کی پیالی پر بیٹھ جاتا۔ یہ خود صاحب واقعہ نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ ہم باری باری پہرہ دیتے تھے اور پہرے میں نماز پڑھتے تھے کہ ہمیں کوئی نماز پڑھتا دیکھ نہ لے۔

جب ہم تاشقند گئے تو وہاں لوگوں کے دو ہی تقاضے تھے۔ ایک یہ کہ قرآن پاک کا نسخہ چاہیے، مصحف شریف چاہیے۔ ہم جہاں بھی گئے انہوں نے کہا مصحف شریف۔ ہم وہاں قرآن پاک کے نسخے تقسیم کرنے کے لیے ہی گئے تھے۔ ہمارے پاس کچھ نسخے تھے جو ہم نے تقسیم کیے۔ اور ان کا دوسرا مطالبہ تسبیح کا تھا کہ قرآن پاک چاہیے یا تسبیح چاہیے۔ کسی تیسری چیز کا انہوں نے تقاضہ نہیں کیا۔ میں نے ذاکر جان سے پوچھا کہ یہ ہماری توقع کے بالکل برعکس بات ہے۔ تم عربی بول رہے ہو۔ اور میں نے جہاں جمعہ پڑھا ہے وہ مولوی صاحب اچھی خاصی عربی میں تقریر کر رہے تھے، خطبہ بھی انہوں نے عربی میں پڑھا۔ یہ قصہ کیا ہے؟ اس نے کہا میرے ساتھ آؤ۔

علماء کرام! یہ دین کا اعجاز ہے۔ وہ مجھے اور مولانا فداء الرحمن درخواستیؒ کو اپنے گھر کے پچھواڑے میں لے گیا۔ وہاں ایک چھوٹا سا باغیچہ تھا۔ اس نے کہا نیچے دیکھیں یہ آپ کو کیا نظر آرہا ہے ؟ ہم نے دیکھا تو وہاں ایک سرنگ کھودی ہوئی تھی۔ اس نے ہمیں کہا کہ نیچے اتریں۔ ہم نیچے اترے تو تقریبا بیس فٹ کے فاصلے پر زمین کے اندر ایک ہال تھا۔ جو تقریبا اٹھارہ بیس فٹ کا ہال ہو گا۔ اس نے کہا کہ ہم نے یہاں پڑھا ہے۔ جو اصول الشاشی آپ نے زمین کے اوپر پڑھی ہے ہم نے زمین کے نیچے پڑھی ہے۔ اس نے اصول الشاشی کا نام لیا اور کہا آپ دن کی روشنی میں پڑھتے تھے، ہم رات کی تاریکی میں پڑھتے تھے۔ ہمارے مدرسے رات بارہ بجے سے دو بجے تک ہوتے تھے۔ استاد بھی چھپ چھپا کر آتا تھا اور شاگرد بھی چھپ چھپا کر آتا تھا۔ یہاں ہماری کلاس لگتی تھی۔ وہی درس نظامی جو تم نے زمین کے اوپر چٹائیوں پر بیٹھ کر پڑھا ہے ہم نے یہاں پڑھا ہے اور اس نے کہا کہ آپ کو سمرقند شہر میں اس قسم کے سینکڑوں مدرسے ملیں گے۔ اس کو کون روک سکتا ہے؟ یہ تو میں اپنے مشاہدے کی بات کر رہا ہوں۔

آپ حضرات سے ایک بڑا عجیب سا مشاہدہ عرض کرنا چاہوں گا کہ جب ہم خرتنگ میں تھے وہاں مشہور ہو گیا تھا کہ پاکستان سے علماء آئے ہوئے ہیں اور قرآن پاک تقسیم کر رہے ہیں۔ ہم اسی کام کے لیے گئے تھے لیکن ہمارے پاس محدود نسخے تھے۔ ہمارے پاس ایک بڑی ویگن تھی۔ جب ہم امام بخاریؒ کی قبر پر حاضری دینے کے بعد واپس آرہے تھے تو خرتنگ کے بازار میں ایک عورت چیختی چلاتی آئی اور آ کر گاڑی کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ تقریباً ستر پچھتر سال کی بڑھیا ہوگی۔ وہ کانپتی کانپتی آئی اور آ کر کچھ کہا۔ ہم نے اپنے ترجمان سے پوچھا کہ یہ کیا کہتی ہے؟ تو اس نے بتایا کہ مصحف شریف مانگ رہی ہے کہ مجھے قرآن دو۔ تم قرآن بانٹنے آئے ہو تو مجھے بھی قرآن دو۔ ہم نے آپس میں مشورہ کیا کہ ہمارے پاس نسخے زائد نہیں ہیں تو ہم نے اسے نسخہ دینے سے انکار کر دیا۔ جس پر وہ بڑھیا سامنے لیٹ گئی کہ میں مصحف شریف لے کر جاؤں گی مجھے مصحف شریف دو۔ ہم نے کہا کہ اس کا اتنا جذبہ ہے تو اسے ایک نسخہ دے دیتے ہیں۔ جب ہم نے قرآن مجید کا نسخہ نکالا اور اس کو دیا تو وہ سینے سے لگا کر زار و قطار رونے لگ گئی۔ واویلا کر رہی ہے، رو رہی ہے، آنسو بہہ رہے ہیں اور سڑک پر آلتی پالتی مار کر بیٹھی ہوئی ہے اور کہہ رہی ہے یہ میرا ہے یہ میرا ہے۔ یعنی اس کو یہ یقین نہیں آرہا کہ یہ میرا قرآن پاک ہے۔ ہم نے اپنے ترجمان سے کہا کہ اس سے پوچھو کہ اب اس کو کیا ہو گیا ہے؟ ہم نے اسے قرآن مجید تو دے دیا ہے اب یہ چلی جائے، اب کیوں بیٹھی ہوئی ہے اور کیا کر رہی ہے؟ جب ترجمان نے اس سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ مجھے آج ستر سال کے بعد قرآن پاک کی زیارت نصیب ہوئی ہے۔ میں اپنی نانی کے ہاں قرآن مجید دیکھا کرتی تھی۔ جب میری نانی قرآن مجید پڑھتی تھی تو میں گود میں بیٹھ کر سنا کرتی تھی۔ اس کے بعد ہم سے قرآن چھین لیا گیا اور آج میں ستر سال کے بعد پہلی مرتبہ قرآن مجید کی زیارت کر رہی ہوں اور اس کا وہ جذبہ کہ بار بار کہتی تھی یہ میرا ہے یہ میرا ہے۔ میں وہ منظر زندگی بھر نہیں بھول سکتا۔

میں یہ بات عرض کر رہا ہوں کہ یہ ہماری فکری اور ثقافتی جنگ چل رہی ہے۔ ہم اس وقت حالت جنگ میں ہیں۔ فکری دنیا میں، ثقافت ، تہذیب اور علم کی دنیا میں ہم ابھی آزاد ہیں اور آزادی کے ساتھ جنگ لڑ رہے ہیں۔ باقی معاملات میں ہم جکڑے گئے ہیں لیکن اس دنیا میں ہم آزاد ہیں۔ میرا اور آپ کا محاذ یہی ہے۔ اس میں ہم اہل دین اور عام سوسائٹی مغرب سے مرعوب نہیں ہوئے۔ میں کچھ طبقات کی بات نہیں کر رہا۔

دیکھیں میں ایک چھوٹی سی مثال سے بات کرتا ہوں کہ ان کا سب سے بڑا ہدف ہماری دینی تعلیم اور ہمارا خاندانی نظام ہے۔ خاندانی نظام کو توڑنے کی کوشش میں ہیں کہ اس کو کسی طریقے سے توڑیں۔ اس کے لیے انہوں نے بڑی کوشش کی ہے بہت کچھ ہوا ہے اس کی تفصیلات میں جائیں تو اس کے لیے چند نشستیں چاہئیں، لیکن میں ایک بات کرتا ہوں کہ ہمارے ہاں بھی بڑے بڑے حیلے ہوتے ہیں۔ ایک چھوٹا سا حیلہ بتاؤں گا جو ہم نے کیا لیکن سوسائٹی کی عمومی حالت کیا ہے۔ ۱۹۶۲ء میں ایوب خان مرحوم نے بین الاقوامی دباؤ پر عائلی قوانین نافذ کیے اور اس میں اور بہت سی باتوں کے علاوہ مغرب کا یہ مطالبہ بھی تھا کہ عورت کو طلاق کا حق دو۔ یہ بین الاقوامی مطالبہ اور انسانی حقوق کے چارٹر کا تقاضہ ہے کہ عورت کو بھی طلاق کا حق دو۔ کیونکہ مرد اور عورت میں مساوات ہے تو جس طرح مرد کو طلاق کا حق ہے اسی طرح عورت کو بھی ہونا چاہیے۔ ہم نے اس سے بچنے کے لیے ایک حیلہ اختیار کیا جو ۱۹۶۲ء سے چل رہا ہے کہ نکاح کے فارم میں ہم نے تفویض طلاق کا خانہ شامل کر دیا۔ ہم نے تفویض طلاق کا مسئلہ قدوری سے نکالا اور نکاح کے فارم میں ڈال دیا کہ تفویض طلاق کا حق مرد کو ہے جس سے عورت کو طلاق تفویض ہو جاتی ہے۔ ہم نے مغرب سے کہا کہ ہم نے عورت کو نکاح کے فارم میں طلاق کا حق دے دیا ہے۔ ہم نے مغرب سے جان چھڑانے کے لیے یا دباؤ کے تحت ایسا کیا۔

لیکن جو بات میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ کیا یہ تفویض طلاق کا خانہ ۱۹۶۲ء سے لے کر ۲۰۱۳ء تک پاکستانی سوسائٹی کو ہضم ہوا ہے؟ کسی کو پتا بھی ہے کہ یہ خانہ کیا ہے؟ نہ میاں کو پتا ہے، نہ بیوی کو پتا ہے، نہ نکاح خوان کو پتا ہے اور نہ رجسٹر کرنے والے کو پتا ہے۔ کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ یہ خانہ کیا ہے۔ یہ ہم سے ابھی تک ہضم نہیں ہوا۔ میری عادت ہے کہ میں نکاح میں دیکھتا ہوں کہ لکھنے والا یہاں کیا لکھتا ہے۔ میں ایک شادی میں موجود تھا وہاں لکھنے والا جب اس خانے پر آیا تو میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اس سے پوچھا کہ کیا کرنے لگے ہو؟ اس نے کہا کہ کراس لگانے لگا ہوں۔ میں نے کہا کہ یہ کیا لکھا ہوا ہے؟ اس نے کہا لکھا ہوا ہے کہ ”کیا خاوند نے عورت کو طلاق کا حق تفویض کر دیا ہے؟“ تو میں نے اسے کہا کہ اس کا جواب تم اپنی طرف سے کیوں لکھ رہے ہو؟ کیا تم خاوند ہو؟ کیا یہ سوال تم سے کیا گیا ہے؟ اس نے کہا نہیں! تو میں نے کہا کہ تمہارا کیا اختیار ہے کہ تم تفویض طلاق کرتے ہو یا نہیں۔ یہ تو خاوند بتائے گا، اس سے پوچھو تو سہی کہ وہ کیا کہتا ہے۔ اس پر اس نے کہا کہ ٹھیک ہے آئندہ میں ایسے نہیں کروں گا۔

آپ سمجھیں کہ میں آپ کو حوصلہ دلانے کی بات کر رہا ہوں کہ مسلم سوسائٹی مغرب کی ہتھکنڈوں کے سامنے ابھی تک سرنڈر نہیں ہوئی اور ان شاء اللہ نہیں ہوگی۔ میں یہ ساری باتیں کر کے آپ سے یہ عرض کرنا چاہ رہا ہوں کہ سیاست دان لڑتے پھریں، آپ اس کو چھوڑیں۔ ہماری جو فکری اور علمی جنگ ہے آج کی زبان میں آج کے ہتھیاروں کو سمجھ کر، مغرب کے ہتھکنڈوں کو سمجھ کر دین کی بات کرنا، قرآن پاک اور سنت رسول کی وضاحت کرنا اور مغرب کے فکری ہتھکنڈوں کا سامنا کرنا ہمارا کام ہے۔ یہ ہمارا میدان ہے۔ اس میں ہمیں چوکنا اور چوکس رہنا چاہیے اور واقف ہونا چاہیے۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ہم ادراک حاصل کریں اور یہی ہمارا مشن ہے۔ ہم ہر جگہ یہی واویلا کر رہے ہیں کہ آج کی ضروریات کو سمجھو، آج کی لڑائی ، آج کے ہتھیار، آج کی زبان اور آج کا اسلوب سمجھو اور یہ جو ہماری علمی، فکری، ثقافتی اور تہذیبی جنگ ہے اس میں بات کو سمجھ کر اور آج کے دلائل اور ہتھکنڈوں کو جان کر اس کے مطابق ہم اپنی لڑائی لڑیں۔ یہی ہماری آواز ہے اور یہی الشریعہ اکیڈمی گوجرانوالہ کا مقصد ہے۔ اسی کے لیے ہم سارا شور مچا رہے ہیں۔

؏ شاید کے اتر جائے کسی دل میں میری بات
2016ء سے
Flag Counter