حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ

   
الشریعہ اکادمی، ہاشمی کالونی، گوجرانوالہ
۲۷ جنوری ۲۰۱۳ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ گزشتہ نشست میں ہم نے حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمات اور ان کے دینی جدوجہد میں کردار کے حوالے سے بات کی تھی، آج کی گفتگو حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں ہوگی۔ ان دو بزرگوں کا نام جب بھی تاریخ میں آتا ہے تو اکٹھا ہی آتا ہے۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کا نام لیں تو حضرت گنگوہی کا تذکرہ ضروری ہو جاتا ہے اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کا نام لیں تو حضرت نانوتویؒ کا تذکرہ بھی ضروری ہوتا ہے۔ اللہ رب العزت نے ان دو بزرگوں سے ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی اور مسلمانوں کی ہمہ گیر بربادی کے بعد ملت اسلامیہ اور اسلامی سوسائٹی کی نشاۃ ثانیہ کی بنیاد کا کام لیا ہے۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کی بڑی بربادی کے بعد ازسرنو ایک سفر کا آغاز ہوا تھا جو فکری سفر بھی تھا، تحریکی سفر بھی تھا، تعلیمی سفر بھی تھا اور اصلاحی سفر بھی تھا، یہ دو بزرگ اس کی بنیاد اور اساس بنے ہیں۔ گویا اٹھارہ سو ستاون کے بعد اسلام کی ازسرنو دعوت اور مسلمانوں کے معاشرے کی ازسرنو تعمیر کا نقطہ آغاز یہ دونوں بزرگ مولانا محمد قاسم نانوتوی اور مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہما اللہ تعالی ہیں اور ۱۸۵۷ء کے بعد کی مسلم نشاۃ ثانیہ کا زیرو پوائنٹ ہیں۔

۱۸۵۷ کی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد جب مسلمانوں کا اقتدار چھن گیا اور ہر چیز ختم ہو گئی تو مسلمانوں کو اسلام کے ساتھ وابستہ رکھنے اور ماضی کے ساتھ جوڑے رکھنے کے لیے تعلیمی اور فکری محاذ پر دو تحریکیں سامنے آئی ہیں۔ ایک کو دیوبند کی تحریک کہا جاتا ہے اور دوسری کو علی گڑھ کی تحریک کہا جاتا ہے۔ مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، مولانا رشید احمد گنگوہی اور سر سید احمد خان مرحوم ایک ہی استاد کے شاگرد تھے۔ یہ تینوں حضرت مولانا مملوک علی نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد ہیں اور تینوں اپنے وقت کے بڑے جید اور پختہ علماء میں سے ہیں۔

سر سید احمد خان نے یہ لائن اختیار کی کہ چونکہ انگریزوں کا غلبہ ہو گیا ہے اور انگریزوں نے اس ملک میں ہر چیز پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے تو اب ہمارا مقابلہ ہندوؤں کے ساتھ ہو گا۔ اگر ہم نئے نظام میں شریک نہ ہوئے، جدید تعلیم حاصل نہ کی، یونیورسٹیوں کالجوں میں نہ گئے اور عدالت میں اور دفتروں میں نہ گئے تو ہندو اکثریت کی بنیاد پر اس ملک پر مسلط ہو جائے گا اور نئے نظام میں ہماری کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔ ان کا نقطہ نظر یہ تھا کہ ہمیں اب اس تبدیلی کو قبول کر لینا چاہیے اور اس میں شریک ہو کر اپنے مفادات کا تحفظ کرنا چاہیے۔ انہوں نے اس نقطہ نظر کی تبلیغ بھی کی اور تعلیم بھی دی کہ ہمیں نئے نظام میں شریک ہونا چاہیے۔ یہ نظام مسلط ہو گیا ہے تو اسے قبول کرنا چاہیے، نئی زبان سیکھنی چاہیے، جدید تعلیم حاصل کرنی چاہیے، ملازمتوں میں بھی جانا چاہیے اور سارے کاموں میں شریک ہو کر نظام کا حصہ بننا چاہیے۔ ان کے پیش نظر بڑا خطرہ یہ تھا کہ اگر ہم اس نظام میں نہیں جائیں گے اور ہندو اکثریت میں ہیں، وہ چلے جائیں گے تو پھر سارا نظام ان کے کنٹرول میں ہو گا، ہمارا کوئی حصہ نہیں ہو گا۔ ظاہر بات ہے اگر دفتروں میں اور عدالتوں میں سارے ہی ہندو ہوتے اور مسلمان ایک بھی نہ جاتا تو مسلمانوں کا حال بڑا کمزور ہوتا، ان کی یہ بات اس نقطۂ نظر سے ٹھیک تھی۔

جبکہ دوسری طرف حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہما اللہ تعالی اور ان کے ساتھ جو پوری ٹیم تھی، آگے یہ دو بزرگ تھے، پیچھے ان کے ساتھ علماء اور دانشوروں کی بڑی ٹیم تھی، ان کا خیال یہ تھا کہ اگر ہم اپنے دینی تعلیمی نظام کو اور اپنے پرانے معاشرتی طرز کو باقی نہیں رکھ سکیں گے تو ماضی سے بالکل کٹ جائیں گے، ہمارا اپنے ماضی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہو گا اور ہمارا حال وہی ہو گا جو اسپین کے مسلمانوں کا ہوا تھا کہ اسپین پر مسلمانوں نے آٹھ سو سال حکومت کی ہے، لیکن جب مسیحی اسپین پر قابض ہوئے تو اس کے بعد مسلمانوں کو اسپین میں نئے نظام کا حصہ نہ بن سکنے کی وجہ سے اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا کہ مسلمان آہستہ آہستہ بالکل منظر سے ہٹ گئے اور آبادی میں بھی آہستہ آہستہ ختم ہوتے چلے گئے اور آج اسپین میں مسلمان نظر نہیں آتے۔ چنانچہ ان بزرگوں نے یہ بنیادی فیصلہ کیا کہ دو چیزیں ہم نے باقی رکھنی ہیں۔ دینی تعلیم پرانی طرز پر باقی رکھنی ہے اور معاشرہ میں دینی ماحول بھی باقی رکھنا ہے کہ ہماری ثقافت، اٹھنے بیٹھنے، وضع قطع، لباس، تراش خراش کا جو پرانا دینی ماحول چلا آتا ہے ہم نے اسے باقی رکھنا ہے۔ ان کے سامنے سب سے بڑا ہدف یہ تھا کہ اگر ہم دینی تعلیم کا دوبارہ احیاء نہیں کریں گے تو ہماری مسجدوں میں امام، خطیب اور قرآن پاک پڑھانے والے استاذ مہیا نہیں ہوں گے، قاری، حافظ اور مفتی نہیں بنیں گے تو دو تین نسلوں کے بعد مسلمانوں کا دین کے ساتھ تعلق بالکل ختم ہو جائے گا۔

سر سید احمد خان کا دائرہ اور تھا، ان کا دائرہ اور تھا۔ ہم اس کو بظاہر ٹکراؤ سمجھتے ہیں جبکہ دراصل یہ ٹکراؤ نہیں تھا۔ دونوں اجتماعی ملی ضرورت کو تسلیم کرتے تھے لیکن دائرہ کار الگ الگ تھا۔ چنانچہ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ سر سید احمد خان نے جب علی گڑھ میں پہلا سکول بنایا تو اس سکول میں دینیات کی تعلیم کے لیے انہوں نے مولانا محمد قاسم نانوتویؒ سے آدمی مانگا۔ اور مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے داماد مولانا عبداللہ انصاری سر سید کی فرمائش پر اور حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے ہدایت پر وہاں گئے اور علی گڑھ کے دینیات کے شعبے کو انہوں نے سنبھالا۔ آپس میں ایک دوسرے کا تعارف اور احترام بھی تھا اور ایک دوسرے کی ضرورت کو تسلیم بھی کرتے تھے، مگر دائرہ کار الگ الگ تھا۔

سر سید احمد خان کی فکری جدوجہد کا راستہ بہت سے لوگوں نے قبول کیا ہے، مگر عقائد کی جو تعبیرات انہوں نے پیش کیں، ان میں سر سید اکیلے ہی تھے۔ اصل میں سر سید یہ کہتے تھے کہ میں تمہارے ساتھ بات نہیں کر رہا بلکہ آج کی دنیا کے لیے اسلامی عقائد کو قابل قبول بنانے کی کوشش کر رہا ہوں، لیکن ان کی یہ بات ہمارے لیے قابل قبول نہیں تھی۔ اس لیے سر سید احمد خان کی عقائد کی تعبیرات کو خود ان کے شاگردوں اور ان کے حلقے نے قبول نہیں کیا۔ حالی، نواب مہدی علی خان، محسن الملک اور شبلی نے اس کی وضاحت کی ہے کہ ہم عقائد اور ان کی تعبیرات میں جمہور کے ساتھ ہیں۔

دوسری طرف حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور ان کے بعد جن شخصیات کی سرپرستی میں دوسرے دائرہ کا کام عروج تک پہنچا ہے، اس میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کا نام بہت بڑا ہے، سب سے آگے آپ ہیں۔ ۱۸۶۵ء میں دیوبند کا مدرسہ شروع ہوا تھا، اس کے بعد حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کا تو آٹھ دس سال کے بعد انتقال ہو گیا، لیکن حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ دیوبند کا مدرسہ بننے کے بعد چالیس سال ۱۹۰۵ء تک حیات رہے ہیں اور اس پورے نظام کے نگران اور سرپرست رہے ہیں۔ دارالعلوم دیوبند اور مظاہر العلوم سہارنپور کے سرپرست اعلیٰ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ تھے اور تمام معاملات ان کی رہنمائی، سرپرستی اور نگرانی میں طے پاتے تھے۔

حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت ۱۱ مئی ۱۸۲۹ء کو گنگوہ میں ہوئی۔ گنگوہ ایک قصبے کا نام ہے، ضلع سہارنپور میں تھا۔ گنگوہ، تھانہ بھون، نانوتہ قریب قریب گاؤں ہیں۔ ان کے والد محترم حضرت مولانا ہدایت احمد انصاری رحمہ اللہ تعالیٰ اپنے وقت کے بڑے علماء اور مشائخ میں سے تھے۔ خاندان ولی اللہی کے شاگرد تھے اور حضرت شاہ غلام علی نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید اور خلیفہ مجاز تھے۔ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ ابھی اٹھ سال کے تھے کہ والد محترم کا انتقال ہو گیا۔ ان کی تعلیم و تربیت ان کے ماموں مولانا محمد نقوی کی سرپرستی میں ہوئی۔ حضرت گنگوہیؒ کے اساتذہ میں حضرت شاہ عبد الغنی محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت شاہ احمد سعید دہلوی رحمۃ اللہ علیہ، مفتی صدر الدین آزردہ رحمہ اللہ تعالیٰ اور ان کے ساتھ ساتھ حضرت قاضی احمد الدین جہلمیؒ شامل ہیں۔ آخر الذکر بزرگ جہلم کے تھے، دلی میں رہتے تھے، اپنے وقت کے بڑے علماء میں سے تھے۔ حضرت گنگوہیؒ نے زیادہ انہی سے پڑھا ہے اور حدیث کی سند حضرت شاہ عبد الغنی محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا احمد علی سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کی ہے اور اس کے بعد ایک عرصہ تک تعلیم و تدریس کرتے رہے ہیں۔ ان کی تدریس کی مدت تقریباً پچاس سال بتائی جاتی ہے۔

انہوں نے فراغت بعد مختلف علوم و فنون پڑھائے، جبکہ آخر میں انہوں نے اپنے ساری توجہات دورہ حدیث کی طرف مبذول کر دیں۔ برصغیر میں سب سے پہلے دورہ حدیث کا دورے کے طور پر آغاز حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے کیا ہے۔ صحاح ستہ اس طرز سے پڑھانا اس سے پہلے حضرت شاہ محمد اسحاق رحمۃ اللہ علیہ اور شاہ عبد الغنی محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے شروع کیا تھا۔ ان کے تسلسل میں ان کی مسند پر بزرگ عالم حضرت مولانا میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ آ گئے تھے، جو برصغیر میں پہلے غیر مقلد اہل حدیث عالم تھے، بڑے علماء اور بڑے محدثین میں سے تھے۔ شاہ عبد الغنی محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے بعد ان کی مسند پر وہ بیٹھے ہیں اور وہاں انہوں نے حدیث کی کتاب کئی سال تک پڑھائی ہے۔ میں نے ذکر کیا تھا کہ اس مسند پر ان کے آجانے کے بعد ہم نے متبادل راستہ یہ اختیار کیا تھا کہ ہم نے دیوبند میں مدرسے کا آغاز کیا۔ یہ تقسیم کار ہو گئی تھی۔

حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں حصہ لیا، جس میں ان کے علاوہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، حافظ ضامن شہیدؒ اور مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ سمیت علماء کا پورا گروہ تھا، جنہوں نے ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا، باقاعدہ جنگ لڑی، جنگ لڑ کر پورا علاقہ آزاد کروایا اور شاملی کے علاقے میں اپنی حکومت قائم کی۔ مولانا گنگوہیؒ اس جدوجہد میں عملاً شریک کار رہے ہیں۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ امیر المومنین تھے، حضرت مولانا محمد قاسم ناناتوی رحمۃ اللہ علیہ کمانڈر انچیف اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ چیف جسٹس اور قاضی القضاۃ تھے۔

بعد میں جب جدوجہد ناکام ہو گئی اور گرفتاریاں شروع ہوئیں تو حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کو تو وہ گرفتار نہیں کر سکے تھے، مولانا رشید احمد گنگوہیؒ گرفتار ہو گئے تھے اور تقریباً سات ساڑھے سات ماہ جیل میں رہے۔ ان پر بغاوت کا باقاعدہ مقدمہ چلا، لیکن ثبوت فراہم نہیں ہو سکے تو عدم ثبوت کی بنا پر بری ہو گئے تھے کہ پولیس کوئی واضح ثبوت مہیا نہیں کر سکی۔ لیکن بہرحال جنگ آزادی میں شریک رہے ہیں اور اس کے بعد گرفتار ہوئے ہیں، جیل کاٹی ہے اور اس کے بعد آزاد ہوئے ہیں۔ اس کی تفصیلات ”علمائے ہند کا شاندار ماضی“ میں دیکھی جا سکتی ہیں۔

میں یہ گزارش کرنا چاہوں گا کہ ہمارے ہاں دو تقسیمیں ۱۸۵۷ء کے بعد واضح ہوئی ہیں۔ اس سے پہلے سارے حنفی اور سارے اہل سنت کہلاتے تھے، دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث کی کوئی تقسیم نہیں تھی۔ یہ تقسیم ۱۸۵۷ء کے بعد کی ہے۔ چھوٹے موٹے اختلافات ہوتے ہوں گے، لیکن مجموعی طور پر سارا دائرہ اہل سنت حنفی کا تھا اور یہ جو اب تقسیم ہے اور برصغیر جنوبی ایشیا میں اہل سنت کے دائرے میں تین بڑے مذہبی فرقے دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث ہیں، یہ تقسیم ۱۸۵۷ء کے بعد سامنے آئی ہے اور اس تقسیم میں ہماری پہلی شخصیت حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ اس تقسیم کے آدمی نہیں تھے، وہ فکری رہنماؤں میں ہیں، ان کا دائرہ مختلف تھا اور وہ جلدی فوت بھی ہو گئے تھے۔ اس کے بعد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے دو کام کیے ہیں، جس کی وجہ سے دیوبندیت کا تشخص باقیوں سے الگ ہوا ہے۔ ان کے دو بڑے کارنامے سمجھے جاتے ہیں کہ دو کام انہوں نے شروع کیے اور پھر اللہ پاک نے ان کو وقت بھی دیا کہ تقریباً چالیس سال تک اس مشن پر کام کرتے رہے اور دیوبندیت کو دیوبندیت کی شکل دینے میں سب سے بنیادی کردار حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔

دو الگ الگ محاذ تھے۔ میں نے اوپر ذکر کیا ہے کہ دہلی میں حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی مسند پر ان کے بعد شاہ عبد العزیزؒ، ان کے بعد شاہ محمد اسحاقؒ اور ان کے بعد شاہ عبد الغنیؒ آئے ہیں۔ جب یہ حضرات شاہ محمد اسحاقؒ اور شاہ عبد الغنیؒ ہجرت کر کے مکہ مکرمہ چلے گئے تو پھر دہلی میں اس مسند پر حضرت مولانا میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ بیٹھے ہیں۔ وہ اہل حدیث، غیر مقلد ہو گئے تھے تو انہوں نے اپنے نئے مسلک کے تعارف کے لیے ایک نئی طرز کی بنیاد رکھی۔ بخاری و مسلم سمیت حدیث کی ساری کتابیں پڑھاتے تھے، مگر صحاح ستہ کی بنیاد پر انہوں نے یہ طرز شروع کی کہ وہ اپنے مسلک کے دلائل پیش کرتے تھے۔ چند مخصوص مسائل تھے، آج بھی وہی مخصوص مسائل ہے مثلاً رفع یدین، آمین بالجہر، فاتحہ خلف الامام اور تقلید وغیرہ۔ چونکہ بالکل نیا کام شروع ہو رہا تھا تو ان کی ضرورت تھی کہ وہ احادیث میں سے اپنے دلائل تلاش کریں اور اپنے شاگردوں کو پکا کریں کہ ہماری بنیاد حدیث پر ہے۔ چنانچہ انہوں نے یہ طرز شروع کی کہ احادیث پیش کرتے کہ یہ حدیث ہماری حمایت میں ہے، یہ بھی ہماری مؤید ہے، جیسے آج کل بھی وہی طرز چلی آ رہی ہے۔ انہوں نے تقریباً کچھ عرصہ تک یہ فضا قائم کر دی تھی کہ حدیث تو ہمارے پاس ہے، جبکہ حنفیوں کے پاس کوئی حدیث نہیں ہے۔ آج بھی اہل حدیث حضرات یہی کہتے ہیں۔ یہ طرز سب سے پہلے حضرت مولانا میاں نذیر حسینؒ نے شروع کیا۔ ان کی ضرورت تھی کہ انہوں نے اپنا تعارف کروانا تھا اور حلقہ بنانا تھا۔ حلقہ بنانے والے کو بہت کچھ کرنا پڑتا ہے، پھر بچانے والے کو بھی بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔

میں حنفی اور اہل حدیث کشمکش کا پس منظر بیان کر رہا ہوں کہ انہوں نے اپنا تعارف کروانا تھا تو انہوں نے شدت کی کہ حنفیوں کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے، کوئی حدیث نہیں ہے، جبکہ ہماری بنیاد حدیث پر ہے، ہماری بنیاد بخاری و مسلم پر ہے۔ انہوں نے جب مسلسل ایک عرصہ پڑھایا اور محنت کی تو یہ ماحول بننا شروع ہو گیا کہ حنفیوں کے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کے دفاع میں پہلی شخصیت حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ انہوں نے گنگوہ شریف میں اپنا حلقہ قائم کیا، صرف حدیث پڑھاتے تھے اور حدیث اس بنیاد پر پڑھاتے تھے کہ ہمارے پاس یہ دلائل ہیں، اس مسئلے پر یہ دلائل ہیں، اس مسئلہ پر یہ دلائل ہیں۔ حنفی اہل حدیث اختلافات کی بنیاد پر اس تناظر میں حدیث پڑھانا اس میں پہل حضرت مولانا میاں نذیر حسین دہلویؒ نے کی تھی تو جواب میں حنفیہ کی طرف سے پہل حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے کی ہے۔ یہ طرز انہوں نے شروع کی کہ یہ اس وقت ہماری ضرورت تھی کہ ہم نے اپنا حلقہ بچانا تھا اور انہوں نے حلقہ بنانا تھا، یہ کشمکش تھی۔ پھر بڑے علماء درمیان میں آئے، ادھر سے مولانا نواب صدیق حسن خانؒ، مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ اور مولانا محمد حسین بٹالویؒ وغیرہ سامنے آئے اور ادھر سے مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے بعد اس کام کو یعنی اس رخ پر جس نے عروج پر پہنچایا ہے وہ حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ انہوں نے محاذ گرم کیا اور ابھی تک دونوں طرف سے محاذ گرم ہے۔ حالانکہ چند جزوی مسائل ہیں، اولیٰ غیر اولیٰ کے مسائل ہیں کہ یہ بہتر ہے یا وہ بہتر ہے، یہ کرنا چاہیے یا وہ کرنا چاہیے، دونوں طرف دلائل ہیں، دونوں طرف احادیث ہیں، لیکن چونکہ کشمکش شروع ہو گئی تو کشمکش میں یہ باتیں آ جاتی ہیں۔

ایک تو حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ نے حدیث کو حنفیت کے دفاع کے انداز سے پڑھانے کا آغاز کیا، ورنہ اس سے پہلے ہمارے ہاں یہ طرز نہیں تھا۔ جیسے باقی اسباق پڑھائے جاتے ہیں، حدیث بھی پڑھائی جاتی تھی، کہیں ضمناً بات آ گئی تو کر دیتے تھے، لیکن موضوع بنا کر حنفیت کے دفاع میں سب سے پہلے حدیث حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ نے پڑھائی ہے اور پھر ان کے اس کام کو انتہا تک علامہ انور شاہ کاشمیریؒ نے پہنچایا۔

دوسری طرف دیوبندی بریلوی اختلاف میں بھی نقطہ آغاز حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ ہی ہیں۔ آپؒ دیوبندیوں کے دونوں طرف کے امام ہیں۔ دونوں طرف ہمارا زیرو پوائنٹ حضرت گنگوہیؒ ہیں۔ اس سے پہلے سارے حنفی اور سارے اہل سنت کہلاتے تھے، بریلوی حضرات کے ساتھ جو ہمارے اختلافات کا آغاز ہوا اور دیوبندیت و بریلویت کا تعارف الگ الگ ہوا، اس کا پس منظر یہ ہے کہ اصل میں تو یہ کام حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے سے شروع ہو گیا تھا۔ بدعات اور رسوم کی تردید اور عقائد کی شرکیہ تعبیرات کا رد، یہ دو باتیں الگ الگ ہیں، ایک رسوم و بدعات اور دوسرا عقائد کی شرکیہ تعبیرات کہ بعض تعبیرات ایسی ہوتی ہیں۔ آج بھی ہمیں اعتراض ہوتا ہے کہ بعض بریلوی حضرات عقائد کی ایسی تعبیر کرتے ہیں جو ہمارے نزدیک شرکیہ بنتی ہے، تو عقائد کی شرکیہ تعبیرات اور رسوم اور رواج جو بدعات کی شکل اختیار کر گئے۔ اس کے خلاف سب سے پہلی آواز حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے دور میں لگائی تھی۔ صرف یہی دو چار چیزیں نہیں ہے، بلکہ سنت کے احیاء پر، رسوم اور بدعات کے رد پر اور معاشرے کی اصلاح پر حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ کا بہت بڑا کام ہے۔ اگر وہ ۱۸۳۱ء میں شہید نہ ہو جاتے تو تاریخ بالکل مختلف ہوتی۔

مثلاً رواجات کی بات ذکر کرتا ہوں۔ ہمارے ہاں اس خطے میں چونکہ ہندو معاشرہ تھا، اور ہندوؤں میں بیوہ کا نکاح نہیں ہوتا تو ہمارے ہاں بھی بیوہ عورت کا نکاح نہیں ہوتا تھا، حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ نے اس رسم کو توڑا اور ترغیب دلا کر بیواؤں کے نکاح کروائے۔ اس کے علاوہ یہاں اس معاشرے میں دہلی وغیرہ میں سلام کا مسنون طریقہ ختم ہو گیا تھا، آداب آداب رہ گیا تھا تو اس رسم کا خاتمہ کیا۔ اس طرح کی بہت سی چیزیں جو ہندو معاشرے کے اثرات سے ہمارے ہاں رواج پا گئی تھیں اور جڑ پکڑ گئی تھیں ان کے خلاف تردید کا آغاز حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ نے کیا تھا۔ اس کی صدائے بازگشت میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ آ گئے، شاہ صاحبؒ کی یہ نسبت حضرت گنگوہیؒ کو منتقل ہوئی ہے۔ پھر انہوں نے بھی ۱۸۵۷ء کے بعد گنگوہ میں بیٹھ کر جہاں حدیث اور حنفیت کا کام کیا ہے، وہاں بدعات کی تردید اور شرکیہ تعبیرات کی تردید میں بھی بہت مضبوطی کے ساتھ کام کیا اور فتاویٰ، رسائل اور مواعظ کا سلسلہ شروع کیا جو ہماری بنیاد بنے ہیں۔

ان کا موقف اصلاح کا تھا، بدعات اور رسوم کے خاتمے کا تھا اور وہ بدعات و رسوم کا رد کر رہے تھے۔ دوسری طرف صورتحال کو جوں کا توں رکھنے یعنی ’’اسٹیٹس کو‘‘ برقرار رکھنے والے علماء تھے ان میں سے سب سے بڑے مولانا احمد رضا خانؒ تھے۔ انہوں نے سٹیٹس کو پر بات کی ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے، ٹھیک ہو رہا ہے، خواہ مخواہ مولوی ہمارے نظام کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔ وہ مولود، عرس وغیرہ چیزوں کے دفاع میں آ گئے کہ یہ سب کچھ ٹھیک ہو رہا ہے تو پھر یہ کشمکش بڑھی۔ دیوبندی بریلوی کشمکش اصل میں آغاز میں بدعات و رسوم اور روایات کی تردید اور ان کے دفاع پر تھی۔ ادھر سے سب سے نمایاں مولانا احمد رضا خان تھے، اور ادھر سب سے نمایاں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ تھے، اس لیے اگر مجھ سے کوئی پوچھتا ہے کہ دیوبندی بریلوی تقسیم تاریخی طور پر کہاں سے شروع ہوئی ہے؟ تو میں کہا کرتا ہوں کہ دیوبندی بریلوی جھگڑے کا آغاز دو شخصیتوں مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اور مولانا احمد رضا خانؒ کے اختلاف سے ہوا ہے۔

مولانا احمد رضا خانؒ بڑے فقیہ تھے، اس میں کوئی شک نہیں ہے، فقہی جزئیات کا ان کے دور میں ان سے بڑا حافظ کوئی نہیں تھا۔ بہت بڑے عالم اور فقیہ تھے، ریاضی میں اور فقہی جزئیات میں جتنا عبور ان کو تھا شاید معاصرین میں سے کسی کو نہ ہو۔ ان کی فتاویٰ رضویہ دیکھ لیں، لیکن ان کے مزاج میں شدت تھی۔ علم اپنی جگہ ہے، لیکن مزاج کی شدت کہ چھوٹی چھوٹی بات پر کفر کا فتویٰ لگا دیتے تھے، جزئیات کے حافظ تھے تو کہیں نہ کہیں سے جزیہ تلاش کر لاتے تھے اور فتویٰ صادر کر دیتے تھے۔ اس کا تعلق علم سے نہیں ہوتا، مزاج سے ہوتا ہے۔ دوسری طرف سنت کے ترویج میں مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کا مزاج بھی سخت تھا۔ انصاف کی بات یہ ہے کہ مزاج ان کا بھی سخت تھا لیکن زبان ٹھیک تھی۔ جبکہ مولانا احمد رضا خان کا مزاج بھی سخت تھا اور زبان بھی سخت ترین تھی، جس نے تفریق پیدا کی ہے۔

اس کے بعد مولانا احمد رضا خانؒ نے ایک کام تو یہ کیا کہ جو مروجہ بدعات تھیں ان کے دفاع میں دلائل دیے۔ ہر مسئلے پر ان کے رسالے ہیں، جن میں دلائل، جزئیات، فقہاء کے اقوال اور عبارات موجود ہیں۔ پھر اس بات کو مولانا احمد رضا خان نے آگے بڑھایا، جہاں سے دیوبندی بریلوی تقسیم اور لڑائی پکی ہو گئی۔ یہ بھی مزاج کی بات تھی کہ مولانا احمد رضا خان نے ہمارے بعض بزرگوں مثلاً مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ، شاہ اسماعیل شہیدؒ، مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، مولانا اشرف علی تھانویؒ اور مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کی عبارات تلاش کیں کہ کن عبارات پر کفر کا فتوی لگایا جا سکتا ہے۔ اگر اس موضوع کو پڑھنا ہو تو والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ”عباراتِ اکابر“ پڑھ لیں۔

دیکھیں، ہمیں اگر کسی کے خلاف فتوی لینا ہوتا ہے تو اس کی عبارات تلاش کرتے ہیں کہ اس نے یہ کہا ہے، وہ کہا ہے۔ بعض تعبیرات ہوتی بھی ہیں، بعض ہماری اپنی خود ساختہ بھی ہوتی ہیں۔ انہوں نے کچھ عبارات تلاش کیں اور ان عبارات کی بنیاد پر کفر کا فتوی دیا کہ یہ سارے کافر ہیں اور اس کفر کے فتوی کو حجاز شریف لے کر گئے۔ حرمین شریفین کے علماء سے ان کے تعلقات تھے۔ وہ عبارات انہیں دکھا کر ان سے بھی کفر کا فتویٰ لے لیا۔ ایسی عبارات دکھائیں گے تو وہ تو فتوی دے دیں گے۔ علمائے حرمین نے بھی ان کے فتوے ”حسام الحرمین“ پر دستخط کر دیے کہ ان عبارات کی بنیاد پر یہ سب کافر ہیں۔ علمائے حجاز، علمائے شام اور علماء مصر کی ایک لمبی فہرست ہے جن سے فتوے منگوائے اور یہاں آ کر کہا کہ عالم اسلام کے علماء نے ان علماء کو کافر قرار دے دیا ہے۔

اس کفر کے فتوے کے جواب میں اپنے دفاع کے لیے المہند علی المفند لکھی گئی ہے۔ جو کہ حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ نے لکھی اور اس میں ان عبارات اور متنازعہ مسائل میں اپنے موقف کی وضاحت کی کہ ہمارا موقف یہ ہے۔ پھر اس پر علماء حرمین کے دستخط لیے گئے ہیں۔ علماء حرمین سے تعلقات ان کے بھی تھے۔ الغرض یہ دو کتابیں ”حسام الحرمین“ اور ”المہند علی المفند“ بنیادی طور پر اس تقسیم کی پختگی کا باعث بنیں اور دیوبندی بریلوی تقسیم پختہ ہو گئی۔

پھر بات آگے بڑھتے بڑھتے جب جھگڑا بڑھا تو درمیان میں ایک مرحلہ میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے شیخ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ؒ کو ثالث بنا یا گیا۔ حاجی صاحبؒ سانجھے پیر ہیں، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اور حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ دونوں حاجی صاحبؒ کے خلیفہ ہیں اور بھی کئی بریلوی علماء حاجی صاحبؒ کے خلفاء میں سے ہیں۔ حضرت حاجی صاحبؒ کو معتدل بریلوی اہل علم آج بھی مانتے ہیں کہ ہمارے بزرگ ہیں۔ وہ قدر مشترک ہیں تو انہیں ثالث بنایا گیا تو انہوں نے ”فیصلہ ہفت مسئلہ“ لکھا۔ جس طرح ثالث فیصلہ کرتا ہے کہ ان کی جو بات قابل قبول ہو اس کو بھی اور ان کی جو بات قابل قبول ہو اس کو بھی لے کر ”فیصلہ ہفت مسئلہ“ میں حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے مسائل میں فرق کیا کہ اس حد سے آگے بڑھیں گے تو یہ شرک ہے، اور اس حد سے آگے بڑھیں گے تو گستاخی ہے اور درمیان کی حدود متعین کیں۔

حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے اس نئی تقسیم میں دارالعلوم دیوبند قائم ہونے کے بعد تقریباً چالیس سال تک علماء دیوبند کی سرپرستی کی، ان کی نگرانی میں کام آگے بڑھا ہے اس لیے دیوبندیت پر اصل چھاپ ان کی ہے۔ ان کے ”فتاویٰ رشیدیہ“ موجود ہیں، عقائد میں بھی اور احکام میں بھی۔ فقہی احکام میں وہ بڑے متصلب حنفی تھے اور عقائد کی تعبیر میں شاہ اسماعیل شہید ؒکی نسبت کے بزرگ تھے اور انہوں نے پوری وضاحت کے ساتھ کسی رو رعایت کے بغیر جہاں سمجھا کہ بدعت ہے تو صاف کہا کہ یہ بدعت ہے، جسے شرک سمجھا اسے صاف شرک کہا۔ ان کے فتاویٰ کا ایک مجموعہ تو ہمارے ہاں پہلے سے چلا آ رہا ہے۔ ان کے غیر مطبوعہ فتاویٰ ”باقیات فتاویٰ رشیدیہ“ کے نام سے نئی کتاب آئی ہے۔

حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کی برصغیر میں دینی جدوجہد کے بارے میں مختصر گزارش یہ ہے کہ جو مقام بریلویت میں مولانا احمد رضا خانؒ کا ہے وہی مقام دیوبندیت میں مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کا ہے۔ دیوبندیوں کے اصل رہنما، کلامی، فقہی اور اعتقادی رہنما حضرت گنگوہیؒ ہیں، وہ ہمارے اکابر میں سے، ہمارے بزرگوں میں سے ہیں اور ان کے طرز پر دیوبندیت ابھی تک چل رہی ہے۔

مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے ساتھ سارے دیوبندیوں کا تعلق ہے، مگر ہمارا بطور خاص ایک تعلق بھی ہے۔ مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے خلفاء اور شاگردوں میں رئیس الموحدین حضرت مولانا حسین علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہمارے اکابر میں سے ہیں، ان میں بھی شاہ اسماعیل شہیدؒ والی نسبت منتقل ہوئی ہے۔ آپؒ بھی کفر و شرک کے عقائد کی تعبیرات میں اور سنت اور بدعت کے فرق میں شاہ اسماعیل شہیدؒ اور حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کی طرح بالکل بے لچک بزرگ تھے۔ حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ ان کے متعلقین میں سے ہیں، ان کے شاگرد بھی ہیں اور ان کے مجاز بھی ہیں تو حضرت والد صاحبؒ میں بھی وہ نسبت تھی۔

میں ایک بات لطیفے کے طور پر کہا کرتا ہوں کہ ہمارے ماضی کے بزرگوں میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ اکبر حضرت شیخ محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ اپنے وقت کے اکابر علماء میں تھے۔ دونوں ایک دوسرے کے خلاف فتویٰ دیتے تھے۔ ہر ایک کی طرف سے دوسرے پر کفر کے فتاویٰ ہیں۔ ابن تیمیہؒ بہت سخت تھے اور ابن عربیؒ صوفی مزاج کے آدمی تھے، دونوں ہمارے بزرگ ہیں۔ حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ابن تیمیہ اور ابن عربی کو اکٹھا کر دیں تو دیوبندی بنتا ہے۔ دونوں کے امتزاج کا نام دیوبندیت ہے۔ میں کہا کرتا ہوں کہ ہم پکے دیوبندی ہیں کیونکہ ہمارے گھر میں ابن تیمیہ بھی تھا اور ابن عربی بھی تھا۔ ہمارے شیخینؒ میں سے ایک کی روحانی، علمی اور فکری نسبت ابن تیمیہ سے ملتی ہے، والد محترمؒ ابن تیمیہ تھے۔ اور ہمارے دوسرے بزرگ حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتی رحمۃ اللہ علیہ ابن عربی تھے۔ ہمارے گھر میں دونوں تھے اور ہم دونوں سے نسبت رکھتے ہیں اور دونوں کا امتزاج ہیں الحمد للہ۔

حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے تعارف، ان کی علمی خدمات اور برصغیر کی دینی اور مسلکی جدوجہد میں ان کے مقام کا مختصر تذکرہ کیا ہے۔ اگلی نشست ان شاء اللہ حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے بات ہو گی، جو ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے ایک بڑے مجاہد تھے، اپنے دور میں بہت بڑے مناظر تھے اور عرب دنیا میں ہمارے اس حلقے کے تعارف کا نقطہ آغاز تھے، آج بھی ان کا مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ میں موجود ہے۔

2016ء سے
Flag Counter