میں ۱۵ مئی سے چنیوٹ میں ہوں، جامعہ اسلامیہ امدادیہ چنیوٹ کی ختم بخاری شریف کی تقریب میں شرکت کے لیے حاضری ہوئی ہے۔ مگر میں نے مولانا محمد الیاس چنیوٹی کو مبارکباد بھی دینا تھی، جو حالیہ انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر بھاری اکثریت سے صوبائی اسمبلی کے دوسری بار ممبر منتخب ہوئے ہیں۔ وہ گزشتہ ٹرم میں بھی ایم پی اے تھے، جبکہ ان کے والد محترم حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی رحمہ اللہ تعالیٰ اس سیٹ پر تین بار ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ مولانا محمد الیاس چنیوٹی کی کامیابی مختلف حوالوں سے میرے لیے خوشی کی بات تھی، چنانچہ میں نے چنیوٹ پہنچتے ہی سب سے پہلے انہیں تلاش کیا اور یہ معلوم کر کے میری خوشی دوبالا ہو گئی کہ وہ شیخ محمد سلیم پانی پتی رحمہ اللہ کے گھر میں موجود ہیں، جو میرے انتہائی قریب دوستوں اور جمعیت علمائے اسلام کے شعوری اور نظریاتی کارکنوں میں سے تھے۔ ہمارے متحرک دور میں مولانا سعید الرحمٰن علویؒ، شیخ محمد سلیم چنیوٹیؒ اور راقم الحروف کی بے تکلف دوستی معروف تھی۔ وہ ایک زمانے میں مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کے دست راست سمجھے جاتے تھے، پھر دونوں میں اختلاف کا دور آیا اور سیاسی طور پر مختلف کیمپوں میں آمنے سامنے نظر آنے لگے۔ اس الیکشن میں ان کے بیٹوں شیخ محمد نعیم ایڈووکیٹ اور شیخ محمد امین کے ساتھ مولانا محمد الیاس کی صلح ہو گئی ہے اور دونوں بھائیوں نے ان کے لیے بھرپور انتخابی مہم چلائی ہے۔
شیخ محمد سلیم چنیوٹیؒ کے گھر میں مولانا محمد الیاس چنیوٹی کی انتخابی مہم چنیوٹ کے علمائے کرام نے اجتماعی طور پر چلائی ہے اور کم و بیش دو سو علمائے کرام اس انتخابی مہم میں شریک رہے ہیں۔ اس دور میں جبکہ سینکڑوں حلقوں میں دینی جماعتوں کے راہنما ایک دوسرے کے مد مقابل رہے ہیں، چنیوٹ کے علمائے کرام کا یہ اتفاق بے حد خوشی کا باعث بنا اور اس کا ثمرہ بھی اللہ تعالیٰ نے یوں عطا فرمایا کہ مولانا محمد الیاس چنیوٹی کم و بیش ستائیس ہزار ووٹوں کی اکثریت سے جیتے ہیں۔ جبکہ ان کے خلاف الیکشن لڑنے والوں اور مخالف امیدواروں کے اسٹیجوں کو رونق بخشنے والوں میں سے بعض ناموں کا تذکرہ کروں تو زبان یہ شعر گنگنانے لگتی ہے کہ ؎
کسی بت کدے میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی ہری ہری
مولانا موصوف کو اور شیخ سلیم مرحوم کے بیٹوں کو باہمی صلح اور الیکشن میں کامیابی پر مبارک باد دے کر محلہ ٹبہ کانگراں میں واقع مدرسہ خدیجہ الکبریٰؓ کی تقریب ختم بخاری میں حاضری تھی۔ طالبات کو آخری سبق پڑھانے کا شرف حاصل ہوا، جبکہ مخدوم زادہ مکرم حضرت صاحبزاده مولانا خلیل احمد آف کندیاں شریف نے دعا فرمائی اور ان سے ملاقات کی سعادت بھی مل گئی۔
جامعہ اسلامیہ امدادیہ میں ختم بخاری شریف کے لیے مخدوم و محترم حضرت مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب مدظلہ تشریف لائے ہوئے تھے۔ بخاری شریف کا آخری سبق انہوں نے پڑھایا، جبکہ مجھے بھی دوسرے مقررین کے ساتھ کچھ گزارشات پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مبلغ مولانا غلام مصطفیٰ نے میری گفتگو سے پہلے اپنے خطاب میں اس علاقہ میں قادیانیوں کے ہزاروں ووٹوں کے مسلمانوں کے فہرست میں اندراج اور پھر اس سازش کو ناکام بنانے کے لیے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی جدوجہد کا تذکرہ کر کے مجھ سے اس بارے میں کچھ عرض کرنے کے لیے کہا، تو میں نے اسی پر گفتگو کی اور الیکشن سے قبل تحریک انصاف کے ایک وفد کی مرزا مسرور احمد کے ساتھ ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے عرض کیا کہ انتخابی مہم کے دوران اس کے صرف ایک پہلو پر علمائے کرام نے بات کی ہے، جس سے تحریک انصاف کے وفد کا مرزا مسرور احمد سے ملنا موضوعِ بحث بن گیا اور انتخابی مہم میں صرف اسی کا تذکرہ ہوتا رہا۔ حالانکہ میرے نزدیک اس کا دوسرا پہلو زیادہ اہم اور قابلِ توجہ ہے کہ تحریک انصاف کے وفد کی طرف سے الیکشن میں تعاون اور ووٹ دینے کے اس مبینہ سوال پر قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا مسرور احمد نے کیا جواب دیا ہے اور موجودہ حالات کے تناظر میں اس کی اہمیت کیا ہے؟
میں مرزا مسرور احمد کے جواب پر بات کرنا زیادہ ضروری سمجھتا ہوں، کیونکہ اس نے ایک بار پھر علی الاعلان یہ کہہ دیا ہے کہ قادیانی جماعت پاکستان کے دستور کی متعلقہ دفعات اور منتخب پارلیمنٹ کے متفقہ فیصلے کو تسلیم نہیں کرتی اور جب تک یہ فیصلہ تبدیل نہیں ہو جاتا وہ ملک کے انتخابات میں حصہ لینے اور اپنے ووٹوں کے اندراج کے لیے تیار نہیں ہو گی۔ یہ صراحتاً پاکستان کے دستور اور پارلیمنٹ کے متفقہ فیصلے کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے اور میں اسے حالیہ الیکشن میں منتخب ہونے والی پارلیمنٹ کے لیے مرزا مسرور احمد کا پیغام سمجھتا ہوں، جس کا نہ صرف پارلیمنٹ کو نوٹس لینا چاہیے بلکہ سپریم کورٹ کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ دستور کی بالادستی اور قانون کی عملداری کا اہتمام کرے اور قادیانی جماعت کی طرف سے گزشتہ چالیس سالوں سے دستور سے مسلسل انحراف اور اس کے خلاف کھلم کھلا عالمی مہم کا نوٹس لے۔ یہ مسئلہ عالم اسلام کے اجماعی عقیدے اور فیصلے کے ساتھ ساتھ دستور پاکستان کی بالادستی سے بھی تعلق رکھتا ہے اور دینی جماعتوں کو نئی پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کو اس طرف سنجیدہ توجہ دلانے کے لیے محنت کرنا ہو گی۔
مرزا مسرور احمد نے کہا ہے کہ وہ چونکہ کلمہ طیبہ پڑھتے ہیں، اس لیے خود کو غیر مسلم ووٹر کے طور پر درج نہیں کرائیں گے۔ میں نے اس پر عرض کیا کہ کلمہ طیبہ تو مسیلمہ کذاب بھی پڑھتا تھا اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کا نہ صرف خود اقرار کرتا تھا ، بلکہ اپنے ماننے والوں سے بھی اس کا اقرار کراتا تھا۔ اس لیے کہ وہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں نہیں، بلکہ مرزا غلام احمد قادیانی کی طرح جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار کرتے ہوئے ان کی اتباع میں اپنے لیے نبوت و رسالت کا دعویٰ کرتا تھا۔ اس لیے اس کے ساتھ جو معاملہ امت مسلمہ نے کیا تھا قادیانیوں کو اسے پیش نظر رکھنا چاہیے۔
آج جمعرات کو فجر کی نماز میں نے مسجد بلالؓ میں ادا کی ہے، جہاں ہمارے عزیز شاگرد حافظ محمد عمیر چنیوٹی کا فجر اور عشاء کی نماز میں تسلسل کے ساتھ قرآن کریم پڑھنے کا معمول ہے اور انہوں نے پانچویں مرتبہ اس طرح قرآن کریم مکمل کیا ہے۔ اس ذوق پر انہیں اور مسجد کے نمازیوں کو مبارک باد دی اور کچھ گزارشات پیش کیں۔ اللہ تعالیٰ اس ذوق میں برکت اور ترقی نصیب فرمائے، آمین یا رب العالمین۔