عصرِ حاضر کے حالات و مسائل: سیرتِ طیبہؐ سے رہنمائی کی ضرورت

   
جامعہ الہدٰی، نوٹنگھم، برطانیہ
ستمبر ۱۹۹۵ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ پوری نسلِ انسانی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی شخصیت ایسی نہیں ہے جس کے حالاتِ زندگی اور تعلیمات کو تاریخ نے اس قدر تفصیلات و جزئیات کے ساتھ اتنے اہتمام سے محفوظ رکھا ہو، اور نہ ہی کوئی دوسری شخصیت ایسی موجود ہے جس کی جدوجہد اور تعلیمات کا دائرہ انسانی زندگی کے ہر شعبہ کو محیط ہو۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے تکوینی نظام کا حصہ ہے کہ چونکہ نبی اکرمؐ نے قیامت تک نسل انسانی کی راہ نمائی کرنی ہے اور اولادِ آدمؑ کے لیے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی سب سے مکمل اور سب سے آخری آئیڈیل شخصیت ہیں، اس لیے صرف انہی کے حالاتِ زندگی اور تعلیمات کو تمام تر جزئیات و تفصیلات سمیت محفوظ رکھنے کا اہتمام ہوا، اور یہ بھی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے خلفائے راشدین نے قانون اور ضابطے کی پابند زندگی بسر کر کے یہ بات واضح کر دی ہے کہ اسلام میں ’’تھیاکریسی‘‘ اور خدا کی نمائندگی کے پردے میں مطلق العنان حکومت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ حتیٰ کہ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کو جب کسی نے خلیفۃ اللہ کہا تو انہوں نے یہ کہہ کر تھیاکریسی کی جڑ کاٹ دی کہ انہیں خلیفۃ اللہ نہیں بلکہ خلیفۃ رسول اللہ کہا جائے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ خدا کی براہ راست نمائندگی کا دعویٰ کر کے اپنے لیے غیر محدود اختیارات کی خواہش نہیں رکھتے تھے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت کے تصور کے ساتھ ان کی پیش کردہ تعلیمات کی پابندی کا نمونہ پیش کر رہے تھے، اور واضح آسمانی ہدایات و تعلیمات کی پابندی ہی اسلامی نظامِ خلافت کا طرۂ امتیاز ہے۔

آج کے دور میں تھیاکریسی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہمیں مغربی دانشوروں کی مجبوری کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ مغرب نے صدیوں تک ایک ایسے نظامِ حکومت کے مظالم برداشت کیے ہیں جس میں بادشاہ اور کلیسا خود کو خدا کے براہ راست نمائندے قرار دے کر خدا کے نام پر من مانیاں کرتے رہے ہیں، اس لیے جب بھی مذہبی حکومت کا ذکر ہوتا ہے، مغرب والوں کے ذہن میں تاریخ کا وہ منظر گھوم جاتا ہے اور وہ تھیا کریسی اور بنیاد پرستی کے نام پر اسلامی حکومت کی مخالفت پر کمر بستہ ہو جاتے ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ اسلامی حکومت کا تعارف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی براہ راست تعلیمات اور خلفائے راشدین کے طرز حکمرانی کے حوالہ سے کرایا جائے۔ اور اس نکتہ کو واضح کیا جائے کہ اسلامی حکومت ہدایت و تعلیمات کے ایک متعین دائرہ کی پابند ہوتی ہے اور خلافت و حکومت کے قیام کی بنیاد عوام کی براہ راست رائے اور مرضی پر ہوتی ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرہ کے ہر طبقہ کو مشاورت کے نظام میں شریک کیا اور اس کی رائے کو اہمیت دی جس سے عورتوں سمیت تمام طبقوں کو معاشرتی اعتماد حاصل ہوا۔ عورت کی رائے اور حق کو اس قدر اہمیت حاصل تھی کہ حضرت عائشہؓ کی آزاد کردہ لونڈی حضرت بریرہؓ نے اپنے نکاح کے بارے میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش کو قبول کرنے سے معذرت کر دی تھی اور اپنے حق کا آزادانہ استعمال کیا تھا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد اور عورت کے درمیان حقوق و فرائض کی فطری تقسیم کے ساتھ جو خاندانی نظام قائم کیا، وہ آج بھی پوری دنیا کے لیے مثالی نظام ہے۔ اور مغرب نے مرد و عورت میں مکمل مساوات اور یکساں حقوق کے نام پر مطلق آزادی کا تصور پیش کر کے خاندانی نظام کی جڑیں کھوکھلی کر دی ہیں، اور مطلق آزادی کے تلخ نتائج بھگتنے کے بعد مغربی دانش ور آج پھر ’’متوازن خاندانی نظام‘‘ کی طرف واپسی کا راستہ تلاش کر رہے ہیں۔

ہماری سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم قرآن اور سیرتِ نبویؐ کے مطالعے اور انہیں دنیا کے سامنے پیش کرنے کے بارے میں صدیوں پرانے روایتی انداز سے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ حالانکہ انداز اور طریق کار کا ہر دور کے تقاضوں کے مطابق بدلتے رہنا ضروری ہوتا ہے، ورنہ اگر قرآن کریم اور سنتِ نبویؐ کو آج کے مسائل و مشکلات اور حالات کے تناظر میں عالمی رائے عامہ کی نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے جدید اسلوب میں پیش کیا جائے تو قرآن و سنت کی وہ کشش اور قوت اب بھی زندہ ہے جو پورے انسانی معاشرہ کو راہِ راست پر لانے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔

ہم آج کی دنیا کو اسلام کا پیغام تو دینا چاہتے ہیں لیکن موجودہ انسانی معاشرہ کے ذہنوں کے ساتھ ’’فریکونسی‘‘ سیٹ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کر رہے جس کے بغیر پیغام کا پہنچانا ممکن نہیں ہے۔ مسلم علماء اور دانش وروں کو چاہئے کہ وہ پہلے فریکونسی سیٹ کریں، اس کے بعد وہ جو پیغام دینا چاہیں گے، نسلِ انسانی اسے سننے کے لیے تیار ہو گی۔ علماء اور دانش وروں کو چاہئے کہ وہ آج کے حالات و مسائل کے تناظر میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کریں اور نسلِ انسانی کو جو مشکلات درپیش ہیں، ان کا حل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں پیش کریں۔

(روزنامہ اوصاف، اسلام آباد ۔ ۱۰ ستمبر ۲۰۲۴ء)
2016ء سے
Flag Counter