انیق احمد: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، ما ننسخ من اٰیۃ او ننسھا نات بخیر منھا او مثلھا، الم تعلم ان اللہ علیٰ کل شیئ قدیر۔
محترم خواتین و حضرات! السلام علیکم پیام صبح میں ایک بار پھر حاضر، میں ہوں آپ کا میزبان انیق احمد۔ سورۃ البقرۃ پر بات ہو رہی ہے۔ ہم روزانہ گفتگو میں ایک یا دو آیتیں لاتے ہیں اور ہمارے ملک کے ممتاز علماء، دانشور اور اسکالرز تشریف لاتے ہیں اور ہم ان سے قرآن کریم سیکھتے ہیں اور قرآن کریم کو آج کے حالات اور واقعات سے جوڑتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان آیات قرآنی میں ہمارے لیے کیا پیغام، کیا حکم، کیا نصیحت اور کیا عبرت رکھتے ہیں۔ خواتین و حضرات! آج کراچی سٹوڈیو میں محترم علامہ زاہد الراشدی صاحب تشریف فرما ہیں وہ تفصیل سے بات کریں گے۔ میرے لیے خوش بختی کی بات ہے کہ آج دنیا ٹی وی کے کراچی سٹوڈیوز میں ایک نابغہ شخصیت موجود ہے جو اس عہد کے جید عالم ہیں، ہمیشہ آپ سے سیکھا ہے، آپ قرآن کریم کو قرآن کریم سے بیان کرتے ہیں، گوجرانوالہ سے تشریف لائے ہیں، میں آپ کی کیا تعریف کروں، میں آپ کے سامنے خود کو چھوٹا پاتا ہوں، میں کیا الفاظ ادا کروں۔
سوال: علامہ صاحب! اس آیت سے قبل جو آیت ہے اس پر آپ بات کرنا چاہیں تو وہاں سے بات شروع کریں اور جو آیات منسوخ ہوتی ہیں وہ کیا ہیں، نسخ کسے کہتے ہیں، نسخ کے دو معنی قرآن کریم میں آئے ہیں وہ آپ ہم سے بہتر جانتے ہیں ایک بھلا دینا اور منسوخ کر دینا، آپ ذرا ارشاد فرمائیے۔
جواب: الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید المرسلین وعلی الہ واصحابہ واتباعہ اجمعین اما بعد انیق بھائی! سب سے پہلے تو میں شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ اس بابرکت اور معلوماتی دینی پروگرام میں وقتاً فوقتاً مجھے بھی شرکت کا موقع دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر سے نوازیں۔ یہ آیات کریمہ جو آپ نے تلاوت فرمائی ہیں اور جن کا ترجمہ آپ نے سنایا ہے، ان کا ایک پس منظر ہے۔ اگر پوری سورہ بقرہ کو سامنے رکھیں تو سورہ بقرہ میں اللہ رب العزت نے بنی اسرائیل کو خطاب کر کے ان کی ہسٹری، مذہبی تاریخ بیان فرمائی ہے اس تناظر میں کہ چونکہ ہم اہل اسلام نے وحی میں، آسمانی تعلیمات میں اور دنیا کی مذہبی رہنمائی میں بنی اسرائیل کی جگہ لی ہے، ہم سے پہلے یہ منصب بنی اسرائیل کے پاس تھا، ابتدا میں یہودیوں کے پاس تھا پھر عیسائیوں کے پاس تھا اور وہاں سے ہمیں منتقل ہوا۔ اللہ رب العزت نے سورۃ البقرۃ میں یہود کی پوری تاریخ اور آل عمران میں نصاریٰ کی تاریخ ہماری رہنمائی کے لیے بیان فرمائی ہے کہ جن حالات سے گزر کر اور جن اعمال کی وجہ سے وہ غیر المغضوب علیہم اور الضالین ہوئے ہیں تم ان سے بچنا۔ وہ ساری ہسٹری اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی کہ انہوں نے یہ یہ کیا، اور یہ اسباب تھے ان کے مغضوب علیہم ہونے کے، اور یہ اسباب تھے ان کے ضالین ہونے کے، تو ہماری رہنمائی کے لیے اللہ رب العزت نے سارا پس منظر اور ان کی پوری تاریخ اور ہسٹری بیان کی، تاکہ ہم قدم قدم پر محتاط رہیں اور چوکنے رہیں۔
یہود کے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے اعتراضات بھی تھے اور اشکالات بھی اور ان کو دشمنی بھی تھی کہ جبریل علیہ السلام ہمارے بارے میں آ کر ان کو بتاتے ہیں اور ہمارا کچا چٹھا بالکل کھول رہے ہیں، جبریلؑ سے دشمنی کے اظہار تک بھی بات ہوتی تھی، لیکن دو باتیں بطور خاص ان کے لیے پریشانی کی تھیں، جس کی بنیاد پر وہ اعتراض کرتے تھے۔ ایک یہ کہ وہ خود جناب نبی کریمؐ کی تشریف آوری کے انتظار میں تھے، ایک طویل تاریخ ہے، یہودی بھی انتظار میں تھے اور عیسائی بھی مسلسل انتظار میں تھے اور اس انتظار کے تاریخی شواہد بالکل ریکارڈ پر ہیں۔ خود مدینہ منورہ کے یہودی اسی تناظر میں یثرب آ کر آباد ہوئے تھے کہ یہ علاقہ وہ لگتا ہے جو پیغمبر آخر الزمان کا علاقہ ہے، لیکن ان کو اشکال ہوا کہ آنحضرتؐ بنی اسرائیل میں سے نہیں آئے، بلکہ بنی اسماعیل میں سے آگئے ہیں۔ یہ یہود کے حسد اور انکار کی بنیادی وجہ تھی۔ وہ انتظار میں تھے کہ وہ نبی بنی اسرائیل میں سے ہوں گے اور ہمارا خاندانی پس منظر بھی قائم رہے گا۔ انہوں نے آپؐ کو پہچان تو لیا، قرآن پاک کہتا ہے کہ انہوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانا ”الذین اٰتیناھم الکتاب یعرفونہ کما یعرفون ابنائھم“ انہیں وحی کو پہچاننے میں، حضورؐ کو پہچاننے میں اور قرآن پاک کو پہچاننے میں غلطی نہیں لگی، بات یہ ہوئی کہ حضورؐ بنی اسماعیل میں آگئے۔ یہ بات یہود کے لیے قابل قبول نہیں تھی، کیوں کہ ان کی ساری بنیاد نسلی تفاخر پر ہے” نحن ابناء اللہ واحبائہ“ وہ کہتے کہ ہم انبیاء کی اولاد ہیں، ہم وی آئی پی ہیں، تو ان کو یہ بات ہضم نہیں ہو رہی تھی کہ یہ وحی بنی اسرائیل سے ہٹ کر بنی اسماعیل میں یا کسی اور میں کیوں آ گئی ہے۔ ایک تو ان کو یہ اعتراض تھا کہ یہ شریعت موسوی کی منسوخی کی بات کر رہے ہیں اور یہ نئی وحی اور نیا قانون آیا ہے جس نے پچھلا قانون منسوخ کر دیا ہے۔
دوسرا وقتی طور پر ان کے لیے اعتراض کی بات بنی جب قبلہ کی تبدیلی ہوئی ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے ہیں تو اللہ رب العزت نے حکم دیا کہ آپ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھیں، مسلمان سترہ مہینے ادھر منہ کر کے نماز پڑھتے رہے، اس کے بعد قبلہ تبدیل ہو گیا تو یہ ان کے لیے وقتی بہانہ بنا کہ جناب! یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پہلے ایک حکم دے دیا، پھر دوسرا حکم دے دیا۔ ان کی یہ بات علم کی بنیاد پر نہیں تھی، بلکہ یہ ان کے لیے بات کہنے کا ایک بہانہ بن گیا کہ انہوں نے نسخ پر اعتراض کیا۔
اصل بات یہ ہے کہ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نسخ کیا چیز ہے اور نسخ کا دائرہ کیا ہے؟ یہ بات ہمیں ذہن میں رکھنی چاہیے کہ انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام سے لے کر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے بھی آئے ہیں ایک لاکھ سے تو زیادہ ہی ہیں عام طور پر ایک لاکھ چوبیس ہزار بیان کیے جاتے ہیں، عقیدہ، اخلاقیات اور حلال حرام کے بنیادی ضابطے سب کے ایک رہے ہیں۔ یہ نسخ کا دائرہ نہیں ہے۔ جھوٹ سچ اور محرمات قطعیہ سب کے ہاں ایک جیسی رہی ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر بحث کی ہے کہ عقیدے میں کوئی نسخ نہیں ہے جو عقائد آدم علیہ السلام کے تھے وہی جناب نبی کریم کے عقائد تھے۔ عقائد نسخ کے دائرے میں نہیں ہیں، اسی طرح انسانی اخلاقیات اور مذہبی اخلاقیات نسخ کے دائرے میں نہیں ہیں۔ ایسا نہیں ہوا کہ نعوذ باللہ کسی پیغمبر کے ہاں جھوٹ جائز ہوا ہو، یا کسی کے ہاں چوری جائز ہوئی ہو۔ معاشرتی اخلاقیات سب کے ہاں مشترک رہے ہیں اور حلال حرام کے ضابطے بھی مشترک رہے ہیں۔ نسخ احکام میں ہوا ہے۔ احکام میں نسخ بھی وہ جس کو آپ تدریج کہہ لیں یا ارتقا کہہ لیں۔ یہ ایک ارتقا ہے کہ زمانے کے حالات بدل رہے تھے، انسانی سوسائٹی آگے بڑھ رہی تھی اور اس پر ارتقا اور تدریج کے مراحل تھے تو اپنے اپنے دور کے تقاضوں کے حوالے سے اللہ رب العزت نے احکام میں نسخ فرمایا۔ ان کی نمازوں کا زاویہ اور تھا ہماری نمازوں کا زاویہ اور ہے، ان کی تعداد اور تھی، ہمارے ہاں اور ہے، وغیرہ۔ احکام میں نسخ ہوا ہے، اور قبلہ کا نسخ بھی حکم کا نسخ ہے کہ آپ کا قبلہ یہ ہے یا وہ ہے۔ یہ احکام کی بات تھی۔
احکام کے نسخ سے یہ مطلب نہیں لیا جا سکتا جو منکرین ہر زمانے میں لیتے رہے کہ جناب !یہ پہلے صحیح نہیں تھا تو یہ صحیح کیسے ہے؟ اور یہ صحیح ہے تو وہ کیوں صحیح نہیں تھا۔ حالانکہ یہ صحیح اور غلط کی بات نہیں ہے، یہ تجویز کی بات ہے۔ اس وقت وہ صحیح تھا اب یہ صحیح ہے، یہ ارتقا کا مرحلہ ہے۔ اللہ رب العزت نے فرمایا کہ ہم نے احکام دیے ہیں تو متبادل بھی دیا ہے۔ اس کا متبادل یا اس کے برابر ہے یا اس سے بہتر ہے۔ نسخ کا دائرہ احکام ہیں اور ہر زمانے میں احکام ہی کے دائرے میں نسخ ہوتا رہا ہے۔ جوں جوں انسان آگے بڑھتا گیا تو انسانی ذہن، انسانی نفسیات، ماحول اور معاشرتی ضروریات کو ملحوظ رکھ کر احکام دیے گئے۔ اس کو آپ ارتقا اور تدریج کہہ لیں۔ دیکھیں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں اپنی دعوت کا آغاز کیا تو مکہ کے حالات اور تھے، جوں جوں آگے بڑھے اور مدینہ منورہ پہنچے تو تکمیل حجۃ الوداع پر ہوئی ہے، اور فرما دیا گیا ”الیوم اکملت لکم دینکم“
سوال: علامہ صاحب! دین مکمل ہو گیا، احکام آ گئے، پاکستان میں سود کا معاملہ آیا، پاکستان جو کلمہ طیبہ کے نام پر وجود میں آیا، اور کہا گیا کہ دس سال میں سود کا خاتمہ ہوگا یہ ایٹ وَنس کیوں نہیں ہوا؟
جواب: گزارش یہ ہے کہ تدریج کی بات جو میں نے کی ہے، یہ نفاذ کے حوالے سے تدریج کی بات نہیں کی، بلکہ نزول کے حوالے سے بات کی ہے کہ نزول میں تدریج اور ارتقا تھا اور جب ’’الیوم اکملت لکم دینکم‘‘ آگیا تو وہ تدریج و ارتقا مکمل ہو گیا۔ اب کوئی نیا حکم آئے یا پرانے حکم کی منسوخی ہو، ہم تو اس میں اتھارٹی نہیں ہیں، کسی کے پاس اتھارٹی نہیں ہے۔ اب تو جو مکمل سٹرکچر ہے یا پورا پیکج ہے وہی نافذ ہوگا اور اسی کے نفاذ سے بات آگے چلے گی، اس لیے میں یہ مغالطہ دور کرنا چاہتا ہوں کہ یہ مراد نہیں ہے۔ مراد یہ ہے کہ ارتقا تھا کہ آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور حجۃ الوداع پر آ کر مکمل ہو گیا، اب جو شریعت کا پورا نظام ہے وہی جب نافذ ہوگا نافذ ہوگا۔ سود کا معاملہ دس سال کے لیے آگے بڑھا وہ حکمت عملی کی بات ہے۔
سوال: کیا ہم قرآنی احکام کو معطل کر سکتے ہیں؟
جواب: میں یہ بات عرض کرنا چاہوں گا کہ بسا اوقات تطبیق میں الجھن ہو جاتی ہے۔ ایک ہے نفاذ وہ تو ہماری ذمہ داری ہے، بسا اوقات بعض احکام کی تطبیق میں الجھن ہو جاتی ہے۔ مثلاً ایک حکم موجود ہے، منسوخ نہیں ہوا، نہ منسوخ ہو سکتا ہے، لیکن اس کے حالات نہیں ہیں۔ میں اس کی مثال دوں گا قرآن پاک نے صلوٰۃ الخوف کا طریقہ بیان فرمایا ہے کہ صف بندی ہو اور ایک جماعت امام کے پیچھے ایک رکعت پڑھے اور دوسری جماعت دوسری رکعت امام کے ساتھ پڑھے، یہ تفصیل جو قرآن پاک نے بیان کی ہے آج کی جنگ اس کا محل نہیں ہے کیونکہ آج کی جنگ مورچوں کی جنگ ہے، صف بندی کی جنگ نہیں ہے لہٰذا تطبیق نہیں ہے۔ بسا اوقات فقہاء کے سامنے یہ الجھن آ جاتی ہے کہ تطبیق کا محل ہے یا نہیں ہے؟ تو اس میں تھوڑی حکمت عملی اختیار کرنا پڑتی ہے اس کا نام نسخ نہیں ہے، اس کو تطبیق کا محل بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
سود کے بارے میں تو سچی بات ہے کہ ہم قومی طور پر مجرم ہیں۔ ہمیں پاکستان بننے کے فورا ًبعد اپنا معاشی نظام اس وقت سے تبدیل کر لینا چاہیے تھا جب قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ نے یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو سٹیٹ بینک کے افتتاح کے موقع پر یہ کہا تھا کہ میں پاکستان کا معاشی نظام مغربی اصولوں پر نہیں چاہتا، بلکہ اسلامی اصولوں پر چاہتا ہوں اور آپ کو پاکستان کو اسلامی نظام معیشت کی تجربہ گاہ اور اس کے نمونہ بنانا چاہیے۔ اس میں ہم سب درجہ بدرجہ مجرم ہیں اور ہم سے ابھی تک یہ کوتاہی ہو رہی ہے۔ سود تو صراحتاً اللہ اور رسول سے جنگ ہے میں اس میں ارتقا اور تدریج کا قائل نہیں ہوں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم نے کرنا ہے یا نہیں کرنا، ہماری نیت ہے یا نہیں ہے اور ہمارا قبلہ درست ہے یا نہیں ہے۔ اس میں ہمیں قومی سطح پر دو ٹوک موقف اختیار کرنا ہوگا۔ موقف کی حد تک دیکھیں، ابھی پچھلے دنوں جو معاشیات پر گول میز کانفرنس ہوئی ہے جس میں وزیراعظم بھی تشریف لائے ہیں، اس میں ہمارے سٹیٹ بینک کے گورنر نے کہا ہے کہ ہمارا آئین ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم ملک کے نظام معیشت کو اسلامی بنیادوں پر استوار کریں۔ جب آئین تقاضا کرتا تو عمل کیوں نہیں کرتے؟ یہ مسئلہ الگ ہے، لیکن میں نے وہ بات عرض کی۔
نسخ کے بارے میں ایک اور بات میں عرض کرنا چاہوں گا۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ مفسرین کے ہاں بعض کے ہاں ابتدا میں پانچ سو آیات منسوخ کہی گئیں، امام سیوطیؒ آئے تو انہوں نے بیس تک محدود کیا اور شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ پانچ آیات منسوخ ہیں، باقی منسوخ نہیں ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ نسخ کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نسخ کس کو کہتے ہیں۔ بسا اوقات جزوی ترمیم کو بھی نسخ کہہ دیا گیا ہے۔ ایک کام کو خاص کر دیا گیا یا اس کی اصلاح کر دی گئی تو اسے بھی نسخ کہہ دیا گیا۔ شاہ ولی اللہؒ اس پر تفصیلی بحث کرتے ہیں کہ متقدمین کے ہاں منسوخ آیات کی کثرت اس لیے ہے کہ ایک ہے حکم کو منسوخ کر دینا اور ایک ہے اس میں کوئی جزوی ترمیم کر دینا۔ متقدمین جزوی ترمیم کو، عام کی تخصیص کو، اور استثناء کو نسخ قرار دیتے ہیں، جبکہ وہ نسخ نہیں ہے۔ ایک قانون میں جزوی ترمیم ہوئی، قانون وہی ہے تو وہ نسخ نہیں، ہاں اگر ایک قانون ختم کر دیا گیا ہے تو یہ نسخ ہے۔ شاہ صاحبؒ کہتے ہیں کہ اگر اس اصول پر دیکھیں گے تو پانچ سے زیادہ آیات منسوخ نہیں ہیں، جن میں قانون ختم کر کے نیا لایا گیا ہے، اس کے علاوہ کوئی استثنا ہے، کوئی تخصیص ہے اور کوئی جزوی ترمیم ہے۔ قانون کا ڈھانچہ وہی ہے، اس میں جزوی ترمیم ہوئی ہے، وہ نسخ نہیں ہے۔
سوال: علامہ صاحب! میں چاہتا ہوں کہ ذرا اس پر بات کریں، یحییٰ صاحب کا ایک سوال بہت اہم تھا کہ قرآن کریم کی آیات کی تنسیخ اہم نہیں ہے، اس وقت آج لمحہ موجود میں آیات کے معنی اور مفاہیم تبدیل کیے جا رہے ہیں یا اپنے اپنے مطلب کے لیے جاتے ہیں، جس میں میں نے ایک بات یہ کہی تھی کہ مسلک پیش نظر، دین پیچھے ڈال دیا۔
جواب: میرے خیال میں صرف مسلک نہیں ہوتا، یہ مسلک کا زاویہ بھی ہے، لیکن اس سے بڑا زاویہ ہے قرآن پاک کے احکام کو اپنے مطلب میں ڈھالنے کا، جو ہمارے ہاں بین الاقوامی جدید فلسفے سے ایڈجسٹمنٹ کا جوش ہے کہ ہم نے اس کو مغربی فلسفے کے ساتھ اور مغربی نظام کے ساتھ بہرحال ایڈجسٹ کرنا ہے، یہ ایڈجسٹمنٹ کا جذبہ زیادہ گڑبڑ کراتا ہے۔ اسے مرعوبیت یا فکری غلامی کہہ لیں، یہ جو ذہن پیدا ہو گیا کہ ہم نے اسلام کو آج کے مغربی فلسفے کے مطابق ہی بیان کرنا ہے، میرے خیال میں زیادہ آیات اور احکام میں رد و بدل کی وجہ یہ بن رہی ہے۔ مسلکی بھی ہے، میں اس سے انکار نہیں کر رہا، لیکن زیادہ یہ ہے کہ ہم اس کو مغرب کے لیے قابل قبول بنانے کی کوشش میں قرآن پاک کی آیات اور احکام کی ایسی تشریح کرتے ہیں جو ہمارے اصل تناظر میں نہیں ہے۔ اس لیے تفسیر قرآن پاک، حدیث اور اجتہاد کے جو اصول طے ہیں ان اصولوں کے دائرے سے ہٹ کر اگر بات ہوگی تو وہ قابل قبول نہیں ہے اور کبھی قابل قبول نہیں رہی۔
سوال: علامہ صاحب! ایک سوال بہت اہم آیا تھا کہ ایک عورت اپنی عزت بچانے کے لیے جان دے دیتی ہے اسے کیا کہیں گے؟ کیا وہ شہید کے درجے پر ہوگی؟
جواب: بالکل وہ شہید ہو گی۔