بعد الحمد والصلوٰۃ۔ حضرت مولانا قاری سیف اللہ سیفی صاحب یاد فرماتے ہیں تو حاضری ہو جاتی ہے، علماء کرام کی زیارت و ملاقات ہوتی ہے اور ایک اچھے ماحول میں کچھ وقت گزر جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارا مل بیٹھنا قبول فرمائیں، اس ادارے اور اس کے پروگرام میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائیں، اور یہ چند لمحے جو ملے ہیں، کچھ مقصد کی باتیں کہنے سننے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین۔ فاروقی صاحب نے جہاں اختتام کیا ہے میں وہاں سے گفتگو کا آغاز کروں گا، انہوں نے ستمبر کے حوالے سے بات کی ہے، تھوڑی سی بات میں کروں گا۔
آج کل قادیانیوں کا مسئلہ چل رہا ہے اور لگتا ہے کہ کچھ عرصہ چلے گا۔ ایک بات تو میں آپ کی وساطت سے قادیانیوں سے کرنا چاہوں گا، ایک بات حکومت سے کرنا چاہوں گا، اور دو باتیں آپ سے کرنا چاہوں گا خود کو آپ میں شامل سمجھ کر۔
(۱) پہلی بات قادیانیوں سے کہ ان کا بھی حق بنتا ہے کہ ان سے بات کی جائے، میں چناب نگر گیا تھا وہاں بھی جلسے میں ان سے بات کی تھی۔ میں قادیانیوں سے کہتا ہوں کہ یار! جانے دو، ضد چھوڑ دو، واپس آ جاؤ، کب تک لڑو گے، کب تک ضد کرو گے؟ یہ بات دوٹوک اور طے شدہ سمجھو کہ موجودہ کیفیت میں امتِ مسلمہ تمہیں قبول نہیں کرے گی۔ تصور بھی نہ کرو، سوچو بھی نہیں، تمہیں بہرحال اپنے موقف پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔ میں اس کی مثال دیتا ہوں۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چار آدمیوں نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا (۱) مسیلمہ (۲) اسود عنسی (۳) طلیحہ اور (۴) سجاح۔ مسیلمہ جنگ میں مقابلہ کرتے ہوئے مارا گیا تھا۔ اسود عنسی اپنے محل میں چھاپہ مار کمانڈر مجاہدین کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ طلیحہ نے توبہ کر کے اسلام قبول کیا تھا، اور سجاح نے بھی توبہ کی تھی اور اسلام قبول کیا تھا۔ میں ان دو کا تھوڑا سا واقعہ عرض کروں گا۔
طلیحہ بن خویلد اسدی بنو اسد میں سے تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نبوت کا دعویٰ کیا، تگڑا آدمی تھا، لشکر اکٹھا کیا۔ حضرت ضرار بن ازور رضی اللہ عنہ مقابلے پر آئے، جنگ ہوئی، طلیحہ اور اس کے چچا زاد حضرت عکاشہ بن محصنؓ کا آمنا سامنا ہوا۔ حضرت عکاشہؓ طلیحہ کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔ البتہ جنگ میں طلیحہ کو شکست ہوئی اور وہ بھاگ گیا۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں طلیحہ پھر اٹھ کھڑا ہوا اور لشکر اکٹھا کر لیا، حضرت خالد بن ولیدؓ سے مقابلہ ہوا، اس میں بھی شکست ہوئی اور پھر بھاگ گیا۔ یہ سارا واقعہ حافظ ابن عساکرؒ نے تاریخِ دمشق میں تفصیل سے ذکر کیا ہے، میں اس کا خلاصہ بیان کر رہا ہوں۔ طلیحہ اس کے بعد بھاگتا پھرتا رہا۔
جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں مصر فتح ہو گیا، شام فتح ہو گیا، فلسطین بھی فتح ہو گیا، اور بھاگنے کی جگہ نہ رہی تو اس نے دوستوں سے مشورہ کیا کہ واپس جانا چاہیے۔ لیکن واپسی کے لیے اور سرنڈر ہونے کے لیے حضرت عمرؓ کے سامنے پیش ہونا تھا، تو اسے فکر لاحق ہوئی کہ کوئی گارنٹڈ ساتھ ہونا چاہیے کہ امیر المومنین میری بات سن تو لیں۔ آج کل بھی کسی بڑے مجرم نے ہتھیار ڈالنے ہوتے ہیں تو ویسے ہی نہیں جاتا، کوئی ضامن ساتھ لے کر جاتا ہے۔ طلیحہ حضرت عمرو بن العاصؓ سے ملا، آپؓ مصر کے فاتح بھی تھے اور گورنر بھی۔ کمال کی شخصیت تھے، اے ون کلاس کے جرنیل، اے ون کلاس کے ڈپلومیٹ، اور اے ون کلاس کے ایڈمنسٹریٹر تھے۔ طلیحہ ان سے ملا کہ حضرت! میں ہتھیار ڈالنا چاہتا ہوں، حضرت عمرؓ کے سامنے سرنڈر ہونا چاہتا ہوں تو میرے ساتھ چلیے۔ انہوں نے کہا، چلتا ہوں۔ چنانچہ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ طلیحہ کو، جو مسلمانوں سے دو جنگیں لڑ چکا تھا، لے کر مدینہ منورہ آئے۔
حضرت عمرؓ کی خدمت میں پیش کیا تو انہوں نے پوچھا کون ہے؟ بتایا طلیحہ اسدی۔ پوچھا کیسے آیا ہے؟ بتایا ہتھیار ڈالنے، سرنڈر ہونے اور توبہ کرنے آیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے کہا یہ تو توبہ کر لے گا لیکن میں عکاشہؓ جیسے خوبصورت نوجوان کو کیسے بھولوں گا جو اس کے ہاتھوں شہید ہوا تھا، اس کو جب دیکھوں گا تو عکاشہؓ یاد آئے گا۔ یہاں میں ایک جملہ کہا کرتا ہوں کہ زندہ قومیں اپنے شہیدوں کو یاد رکھتی ہیں۔ طلیحہ بھی سمجھدار آدمی تھا، کہنے لگا حضرت! آپ کو یہ بات اچھی نہیں لگی کہ اللہ رب العزت نے عکاشہؓ کو میرے ہاتھوں جنت بھیج دیا اور مجھے اس کے ہاتھوں جہنم جانے سے بچا لیا۔ یعنی ہمارا آمنا سامنا ہوا تھا، میں مارا جاتا تو جہنم میں جاتا، وہ شہید ہوا ہے تو جنت میں گیا ہے۔ حضرت عمرؓ تھوڑا سا مسکرائے تو طلیحہ سمجھ گیا کہ کام بن گیا ہے۔ اس نے دوسری بات کہی کہ کل قیامت کے دن جب عکاشہؓ اور میں ہم دونوں بھائی قاتل مقتول ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر جنت میں جا رہے ہوں گے، آپ کو وہ منظر کیسا لگے گا؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا کلمہ پڑھو۔ کلمہ پڑھا، توبہ کی، مسلمان ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قادسیہ کی جنگ میں تشکیل کی، ایرانیوں کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہو گیا۔ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ اور دوسرے محدثین نے اس کا شمار صحابہ میں کیا ہے، شہداء میں کیا ہے اور حضرت طلیحہ بن خویلد اسدی شہید رضی اللہ عنہ کہہ کر کیا ہے۔
سجاح نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا تھا، بڑے لوگ اکٹھے کر لیے تھے، مسیلمہ سے شادی بھی کر لی تھی، وہ ایک الگ لَو سٹوری ہے۔ پھر جنگ بھی لڑی تھی، مسیلمہ تو مارا گیا جبکہ یہ اپنے قبیلے میں بھاگ گئی۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں قحط پڑا۔ قحط میں لوگ علاقہ چھوڑتے ہیں، نقل مکانی کرتے ہیں۔ اس کا بنو تغلق کا علاقہ تھا، اپنا علاقہ چھوڑ کر دمشق آ گئی جہاں امیر المومنین حضرت امیر معاویہؓ کی حکومت تھی، ان کے سامنے پیش ہوئی کہ حضرت! میں سجاح ہوں، توبہ قبول فرمائیے۔ ان کے ہاتھ پر توبہ کی اور اسلام قبول کیا۔ حضرت معاویہؓ نے سجاح کو کوفہ بھیج دیا۔ سمرہ بن جندبؓ وہاں کے گورنر تھے، انہیں ہدایت کی کہ اس خاتون کو سنبھالیں اور عزت سے رکھیں۔ کچھ عرصہ وہاں رہی، بڑی عابدہ زاہدہ خاتون تھی، کوفہ میں انتقال ہوا اور سمرہ بن جندبؓ نے اس کا جنازہ پڑھایا۔
میں قادیانیوں سے کہا کرتا ہوں یار! مسیلمہ بننا ضروری ہے؟ طلیحہ بن جاؤ۔ اسود عنسی بننا ضروری ہے؟ سجاح بن جاؤ۔ واپسی کا راستہ موجود ہے۔ قادیانیوں سے تو میں کئی دفعہ چناب نگر میں کھڑے ہو کر بھی کہہ چکا ہوں کہ واپس آ جاؤ۔ اور اگر واپس آئیں گے تو ہم غصہ نہیں نکالیں گے بلکہ سینے سے لگائیں گے۔ یہ بات قادیانیوں سے ہمیشہ کہتا ہوں، آج بھی کہہ رہا ہوں۔ اگر کوئی سن رہا ہے یا پہنچا رہا ہے تو ان تک بات پہنچنی چاہیے کہ واپس آؤ، ہم بالکل حضرت عمرؓ کی طرح سینے سے لگائیں گے اور حضرت معاویہؓ کی طرح قبول کریں گے۔
(۲) دوسری بات حکومت سے کرنا چاہتا ہوں۔ فاروقی صاحب ۱۹۷۴ء کی بات کر رہے تھے جب قادیانیوں کو پارلیمنٹ نے دستوری طور پر غیر مسلم قرار دیا تھا۔ یہ پوری قوم کا مطالبہ تھا، صرف علماء کا مطالبہ نہیں تھا۔ وکلاء، تاجر، اساتذہ، طلبہ، مزدور، کسان، سب عوام سڑکوں پر تھے اور اسمبلی میں بھی صرف مولوی نہیں تھے، بھٹو صاحب، دولتانہ صاحب، ولی خان صاحب اور ایئر مارشل اصغر صاحب کے نمائندے سب اسمبلی میں تھے۔ اس لیے میں یہ بات حکومت سے کہنا چاہتا ہوں کہ یہ ہمارا مذہبی لوگوں کا فیصلہ نہیں تھا بلکہ قوم کا متفقہ فیصلہ تھا۔ اسمبلی میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، نیشنل عوامی پارٹی، تحریک خاکسار، قوم پرستوں، مذہبی جماعتوں، سب کا متفقہ فیصلہ تھا۔ یہ بات میں یاد دلانا چاہتا ہوں کہ اس کو مذہبی مطالبہ سمجھ کر نہیں بلکہ قوم کا فیصلہ سمجھ کر ڈیل کریں۔
اگلی بات یہ ہے کہ قادیانیوں نے قوم کا فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا اور پچاس سال سے انکاری ہیں۔ بڑی نازک بات کرنے لگا ہوں کہ جو لوگ قوم کے فیصلے کو، سپریم کورٹ کے فیصلے کو، پارلیمنٹ کے فیصلے کو اور دستور کے فیصلے کو نہیں مانتے، ریاست ان کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے؟ جو طبقہ ریاست کی رٹ کو چیلنج کرتا ہے تو پھر ریاست اس کے خلاف آپریشن کرتی ہے۔ ریاست نے کتنے آپریشن کیے ہیں اور کر رہی ہے، ہم بھی ساتھ ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ اگر کوئی پارہ چنار میں دستور اور ریاست کی رٹ کو چیلنج کرے تو آپریشن ہوتا ہے، اور اگر چناب نگر میں دستور کو چیلنج کرے تو آپریشن کیوں نہیں ہوتا؟ پارہ چنار میں دستور کا انکار ہے اور چناب نگر میں دستور کا انکار نہیں ہے؟ پیمانہ ایک رکھو، ترازو ایک رکھو اور انصاف کا معیار ایک رکھو۔ اگر دستور کی رٹ سے انکار بنوں میں جرم ہے تو چناب نگر میں بھی جرم ہے، اور جس درجے کا وہاں جرم ہے یہاں بھی جرم ہے۔
اس کے بعد حکومت سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ قادیانی صرف دستور کے فیصلے کو ماننے سے انکار نہیں کر رہے، بلکہ پوری دنیا میں دستور کے فیصلے کے خلاف مورچہ باندھ کر لڑائی لڑ رہے ہیں۔ اقوام متحدہ میں، یورپی یونین اور جنیوا ہیومن رائٹس کمیشن میں قادیانی جاتے ہیں اور کمپین کر رہے ہیں۔ اس کو فیس کرنا کس کا کام ہے؟ حکومت سے گزارش ہے کہ دستور کی رٹ کو چیلنج کرنا اور اس کے خلاف محاذ آرائی کرنا، پارلیمنٹ اور عدالت کے فیصلے سے انکار کرنا اور اس کے خلاف دنیا بھر میں مہم چلانا، اس کا نوٹس کس نے لینا ہے؟ یہ کس کی ذمہ داری ہے؟ لہٰذا انصاف کا ترازو ایک رکھو، اپنا پیمانہ ٹھیک کرو، معیار درست کرو، اور جو ریاست اور ریاستی اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے وہ پوری کرو۔ یہ دوغلی پالیسی ٹھیک نہیں ہے۔
(۳) اور دو باتیں آپ حضرات سے کرنا چاہتا ہوں۔ ۱۹۷۴ء میں یہ فیصلہ ہوا تھا، اس کے بعد اس فیصلے کو ناکام بنانے کے لیے کئی بار مہم چلی ہے۔ اسمبلی میں اور اسمبلی سے باہر مختلف دائروں میں بارہا کوشش ہوئی ہے۔ چار پانچ دفعہ تو میں بھی مقابلہ پر شریک تھا، الحمد للہ ہر کوشش ناکام ہوئی ہے۔ اب یہ آخری کوشش بھی ناکام ہو گئی ہے اور قوم نے سات ستمبر کو مینارِ پاکستان پر ایک دفعہ پھر اکٹھے ہو کر بتا دیا ہے کہ ہم جہاں ۷ ستمبر ۱۹۷۴ء کو کھڑے تھے وہیں ۷ ستمبر ۲۰۲۴ء کو کھڑے ہیں۔ اور اسے ناکام بنایا ہے آپ کی وحدت نے۔ اس مسئلے پر جب بھی ضرورت پیش آئی تمام مکاتبِ فکر کسی تفریق کے بغیر اکٹھے پیش ہوئے ہیں۔ وحدت، اجتماعیت، مشترکہ جدوجہد اور یک آواز ہو کر اس قوت نے ہمیشہ قادیانیوں کی ہر سازش کو ناکام بنایا ہے۔ آئندہ بھی آپ اکٹھے رہیں گے تو کامیابی ہو گی ورنہ کوئی نہ کوئی شرارت ہو جائے گی۔
(۴) آخری بات یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ دیکھیے ہمارے بڑوں نے محنت کی تھی تو ہمیں پتہ چلا کہ قادیانیت کیا ہے۔ تھوڑی سی ہم محنت کر رہے ہیں تو ہمارے ماحول کو پتہ چل رہا ہے۔ اگلی نسل کو کچھ پتہ نہیں ہے کہ قادیانیت کیا ہے، بالخصوص کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ کو۔ دینی مدارس کے طلبہ کو جذباتی حوالے سے سہی، کچھ پتہ ہے، نعرے وغیرہ تو لگاتے ہیں لیکن تفصیل انہیں بھی نہیں پتہ، بہرحال کچھ نہ کچھ جانتے ہیں۔ لیکن کالج یونیورسٹی میں، جدید تعلیم یافتہ حلقوں میں، بار اور چیمبر میں وہ ماحول نہیں ہے جو ۱۹۷۴ء میں اور ۱۹۸۴ء میں تھا۔ نئی نسل کو آخر کس نے بتانا ہے؟ اور اگر نئی نسل کو ہم باخبر نہیں کریں گے تو کون کرے گا؟
ایک بات علماء کرام سے عرض کرتا ہوں کہ نئی نسل سے ہمیں شکایتیں بہت ہیں لیکن کیوں ہیں؟ جب میں نے برتن لا کر چوک میں خالی رکھ دیا ہے، اور کسی آنے جانے والے نے اس میں گند ڈال دیا ہے، تو برتن کا کیا قصور ہے؟ آج نئی نسل سے ہمیں بہت شکایتیں ہیں، مجھے بھی ہیں، لیکن اس کا قصور کیا ہے؟ یونیورسٹی اور کالج تک پہنچنے والا لڑکا اور لڑکی دین کے بارے میں خالی الذہن ہے، اور یہ بلا (موبائل) اس کی جیب میں ہے جس میں دنیا بھر کا گند ہے۔ ”ذٰلک مبلغھم من العلم“ ہم نے ہر چیز یہاں سے دیکھنی ہے۔ حدیث بھی بخاری میں نہیں دیکھیں گے، کسی شیخ الحدیث سے نہیں پوچھیں گے، گوگل سے پوچھیں گے، اور جو (معلومات کا ذریعہ) گوگل نے بتانا ہے وہی ہمارا ایمان ہے۔ ہم نے کسی مسئلے پر شوافع کا موقف کس سے پوچھنا ہے؟ کسی مسئلے میں جائز ناجائز کس سے پوچھنا ہے؟ محترمہ گوگل صاحبہ سے کہ آج کی بڑی مفتیہ یہی ہے۔ میں جو بات کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہماری نئی نسل دین سے خالی ہے اور یہ اس کی جیب میں ہے تو وہ اگر گمراہ ہوتا ہے تو اس کا قصور کیا ہے؟
علماء کرام کو بطور خاص توجہ دلانا چاہوں گا کہ ان کو خالی الذہن رہنے دینا، یہ ہمارا قصور ہے۔ میری علماء کرام سے درخواست ہوتی ہے کہ نئی نسل کو جاہل سمجھ کر نہیں بلکہ بے خبر سمجھ کر ڈیل کریں۔ ہمارا لہجہ یہ ہوتا ہے کہ جاہل بے وقوف آدمی ہے۔ یہ لہجہ اس کو اِدھر نہیں لائے گا بلکہ اُدھر دھکیلے گا۔ اس لیے علماء کرام سے میری خاص گزارش ہوتی ہے کہ آج کی نئی نسل کو اور کالج یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کو بے خبر سمجھ کر اور نو مسلم کے دائرے میں ڈیل کریں، ان کی بے خبری کا خاتمہ ہو گا تو سب ٹھیک ہو جائے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ بہت سے مسائل کے حوالے سے، خصوصاً قادیانیت کے حوالے سے نئی نسل باخبر نہیں ہے۔ ان کو عقیدۂ ختم نبوت کی تفصیلات کا پتہ نہیں ہے، حضرت عیسٰی علیہ السلام کی حیات کے بارے میں انہیں پتہ نہیں ہے، قادیانی کیا کرتے آ رہے ہیں، ان کی سازشیں کیا ہیں اور وہ کہاں کہاں پاکستان کے خلاف کام کر رہے ہیں، وہ بے خبر ہیں۔ اور یہ سب نئی نسل کو کس نے بتانا ہے؟
میں نے چار باتیں کی ہیں۔ ایک بات قادیانیوں سے کی ہے کہ یار! مہربانی کرو، واپس آ جاؤ، ضد چھوڑو، جھگڑا ختم کرو۔ دوسری بات حکومت سے کی ہے کہ آپ اپنی ذمہ داری پوری کریں، یہ کام ہم کریں گے تو کام خراب ہو جائے گا۔ اور ہم کریں گے بھی نہیں کہ یہ آپ کی ذمہ داری بنتی ہے، اسے آپ نے ہی پورا کرنا ہے۔ تیسری بات آپ حضرات سے کی ہے کہ جس طرح ہماری وحدت و اجتماعیت اور مشترکہ جدوجہد نے قادیانیوں کی ہر سازش کو ناکام بنایا ہے۔ آئندہ بھی آپ اکٹھے رہیں گے تو کامیابی ہو گی۔ اور آخری بات یہ کی ہے کہ عقیدۂ ختم نبوت اور قادیانیت کے حوالے سے اپنی نئی نسل کو آگاہ کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔