عامر چیمہ کی شہادت نے وہ زخم ایک بار پھر تازہ کر دیے ہیں جو یورپ کے بعض اخبارات میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت پر مسلمانانِ عالم کے دلوں پر لگ گئے تھے اور مسلمانوں نے احتجاج اور جذبات کے پرجوش اظہار کے ساتھ ان زخموں پر کسی حد تک مرہم رکھ لی تھی، مگر عامر چیمہ کی جرمن پولیس کی حراست میں المناک موت نے ان زخموں کو پھر سے ہرا کر دیا اور ان زخموں سے ٹیسیں ایک بار پھر اٹھنے لگی ہیں۔
عامر چیمہ کا تعلق ضلع گوجرانوالہ کے ایک گاؤں ساروکی چیمہ سے ہے اور اس کے والد پروفیسر نذیر چیمہ محکمہ تعلیم میں استاذ رہے ہیں۔ اب ان کی رہائش راولپنڈی میں بتائی جاتی ہے اور ان کا خاندان تا دم تحریر اپنے اکلوتے فرزند کی لاش کا انتظار کر رہا ہے۔ عامر چیمہ تعلیم کے لیے جرمنی گیا ہوا تھا، توہینِ رسالت پر مشتمل کارٹونوں کی اشاعت پر دوسرے مسلمانوں کی طرح اس کے جذبات بھی مجروح ہوئے اور موقع ملنے پر اس نے ان جذبات کا عملی اظہار بھی کر دیا جو اس کی غیرت ایمانی کا تقاضا تھا۔ اس نے گستاخانہ خاکے شائع کرنے والے ایک اخبار کے مدیر پر حملہ کر دیا جس سے وہ زخمی ہوا۔ اس کی پاداش میں عامر چیمہ کو گرفتار کر لیا گیا اور اب بتایا گیا ہے کہ پولیس کی حراست میں اس کی موت واقع ہو گئی ہے، جس کے بارے میں جرمنی کی پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے خود کشی کر لی ہے۔ عامر چیمہ کے والد پروفیسر نذیر چیمہ نے خود کشی کی بات کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے اور اخباری بیانات کے مطابق انہوں نے کہا ہے کہ انہیں اپنے بیٹے پر فخر ہے کہ اس نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی محبت کا عملی اظہار کیا اور بالآخر اپنی جان بھی نچھاور کر دی، لیکن وہ یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ ان کے بیٹے نے خود کشی کی کیونکہ وہ ایسا کر ہی نہیں سکتا تھا۔ اخبارات میں سامنے آنے والی قیاس آرائیوں کے مطابق عمومی طور پر یہی سمجھا جا رہا ہے کہ عامر چیمہ کی ہلاکت جرمن پولیس کے تشدد سے ہوئی ہے اور اس پر پردہ ڈالنے کے لیے اسے خود کشی کا رنگ دیا جا رہا ہے۔
جہاں تک حرمتِ رسولؐ پر کٹ مرنے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس پر جان قربان کر دینے کا تعلق ہے، یہ کسی بھی مسلمان کے لیے معراج سے کم نہیں ہے اور موقع آنے پر کوئی بھی مسلمان اس سے گریز کرنے کے لیے تیار نہیں ہو گا، لیکن یہ قربانی خود کشی کی صورت میں نہیں ہو سکتی اور عامر چیمہ کی شہادت کو خود کشی قرار دینے والے اس سلسلے میں مسلمانوں کی نفسیات اور جذبات سے ناواقفیت کا ثبوت دے رہے ہیں۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے ساتھ مسلمانوں کا جذباتی تعلق مغرب کی سمجھ میں آنے والا نہیں ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مغرب نے اپنے سر سے خدا، رسول اور مذہب و کتاب کا بوجھ (وہ اسے بوجھ ہی سمجھتے ہیں) کب سے اتار رکھا ہے، اس لیے یہ تعلق بھی مغرب والوں کی سمجھ سے بالاتر ہے، لیکن مسلمان تو اسے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز سمجھتے ہیں اور ایک لمحہ کے لیے بھی اس سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
ایک مسلمان جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتا ہے تو اس کے ذہن میں یہ تصور نہیں ہوتا کہ وہ مجبوراً ایسا کر رہا ہے یا اسے ایسا نہ کرنا پڑے تو زیادہ بہتر ہو، مسلمان تو اس سعادت کو اپنی خوش نصیبی تصور کرتا ہے۔ اس کی ایک جھلک دورِ نبی کے ایک واقعہ میں دیکھی جا سکتی ہے کہ ایک نوجوان انصاری صحابی حضرت حبیب بن زید رضی اللہ عنہ مسیلمہ کذاب کی قید میں تھے۔ مسیلمہ کے بھرے دربار میں انہیں ایک مجرم کے طور پر پیش کیا گیا۔ مسیلمہ نے ان سے سوال کیا کہ تم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا رسول مانتے ہو؟ حضرت حبیب بن زید رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ہاں میں ایمان رکھتا ہوں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ مسیلمہ نے پھر سوال کیا کہ کیا تم مجھے بھی اللہ تعالیٰ کا رسول تسلیم کرتے ہو؟ اس کا سادہ سا جواب یہ بھی ہو سکتا تھا کہ میں تمہیں اللہ کا رسول نہیں مانتا، لیکن اتنے سے جواب سے اس نوجوان صحابی کے جذبات کی تسکین نہیں ہو رہی تھی، اس لیے حضرت حبیب بن زید رضی اللہ عنہ نے جواب میں کہا کہ ”ان فی اذنی صمما عن سماع ما تقول“
میں نے کئی بار اس جملے کے ترجمے کی کوشش کی ہے، لیکن اس کا ایسا ترجمہ کرنے میں آج تک کامیاب نہیں ہو سکا جس سے اس جملے کے قائل کے جذبات کی صحیح ترجمانی ہو سکتی ہو۔ اس لیے عام طور پر اس محاورے کا ترجمہ کر دیا کرتا ہوں کہ ”میرے کان تمہاری یہ بات سننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔“
مؤرخین نے لکھا ہے کہ اس جواب پر مسیلمہ کذاب نے جلاد کو حکم دیا کہ اس نوجوان کا دایاں بازو کاٹ دیا جائے۔ بازو کے کٹ جانے کے بعد پھر مسیلمہ کذاب نے سوال کیا تو حضرت حبیب بن زید رضی اللہ عنہ کا جواب وہی تھا، جس پر بایاں بازو بھی کاٹ دیا گیا۔ حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ نے ”الاستیعاب“ میں لکھا ہے کہ اس باغیرت انصاری صحابی کے دونوں بازو اور دونوں ٹانگیں ایک ایک کر کے کاٹ دی گئیں، مگر اس کا جواب وہی رہا۔ حتیٰ کہ جب آخر میں حضرت حبیب بن زید رضی اللہ عنہ کا سر کاٹنے کا حکم دیا گیا تو اس وقت بھی ان کی زبان پر یہی جملہ تھا کہ ”میرے کان جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر کسی اور شخص کے لیے نبوت کا لفظ سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔“
مسلمان جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت اور ناموس پر جان قربان کرتا ہے تو اس کا انداز معذرت خواہانہ نہیں، بلکہ والہانہ ہوتا ہے اور وہ اسے اپنی موت نہیں، بلکہ حیاتِ جاودانی سمجھ کر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا کرتا ہے۔ یہ صرف ایک جھلک ہے، اس قسم کے سینکڑوں واقعات اسلامی تاریخ کے صفحات میں بکھرے ہوئے ہیں کہ جب کسی مسلمان کو یہ علم ہوا کہ اس کی جان جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس اور عزت کی خاطر لی جا رہی ہے تو اس کے جذبات میں ہلچل مچ جاتی ہے، چہرے پر بشاشت آ جاتی ہے اور وہ یکدم زمین سے جنت کی فضاؤں کی طرف پرواز کرنے لگتا ہے۔
ماضی قریب میں غازی علم دین شہیدؒ کا واقعہ کس کے علم میں نہیں ہے، جس نے ہندو مصنف راج پال کو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی پر جہنم رسید کیا۔ اسے گرفتار کر کے مقدمہ چلایا گیا تو اسے ملک کے چوٹی کے قانون دانوں نے مشورہ دیا کہ اگر وہ اپنے ”جرم“ سے انکار کر دے تو اس کے خلاف ایسی کوئی گواہی موجود نہیں ہے جس کی بنیاد پر اسے پھانسی دی جا سکے، اس لیے اس کی جان بچ سکتی ہے۔ لیکن مشورہ دینے والوں کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ انکار ”جرم“ سے کیا جاتا ہے اور غازی علم دین نے یہ کام ”جرم“ سمجھ کر نہیں کیا تھا، بلکہ وہ اسے اپنا فریضہ تصور کرتا تھا اور کوئی فرض شناس اپنے ”فرض“ سے کبھی انکار نہیں کیا کرتا ۔
اس لیے عامر چیمہ کے بارے میں یہ کہنا کسی طرح بھی درست نہیں سمجھا جا سکتا کہ اس نے خود کشی کی ہے اور اگر اس نے خود کشی کرنا ہوتی تو وہ گستاخِ رسول ایڈیٹر پر حملہ کی کارروائی ہی نہ کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف عامر چیمہ کے والد پروفیسر نذیر چیمہ بلکہ ملک کی دینی قیادت بھی اسے خود کشی کا کیس ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں متحدہ مجلس عمل کے رہنماؤں قاضی حسین احمد اور مولانا فضل الرحمٰن اور دیگر دینی جماعتوں کے قائدین نے بالکل صحیح موقف اختیار کیا ہے اور خود کشی کے موقف کو مسترد کر کے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنا کردار صحیح طریقہ سے ادا کرے اور جرمنی حکومت کو اس بات پر آمادہ کرے کہ وہ صحیح صورتحال اور حقائق تک رسائی کے مواقع فراہم کر کے دنیا کو اصل واقعات سے آگاہ کرے۔
عامر چیمہ کی شہادت نے توہینِ رسالت کے کیس کو پھر سے زندہ کر دیا ہے اور دینی حلقے اس سلسلے میں رفتہ رفتہ منظم ہو رہے ہیں۔ البتہ حکومت پاکستان کا موقف اور ضروری عمل سمجھ میں نہیں آ رہا، اس لیے کہ توہینِ رسالت کے معاملات سے قطع نظر بھی ایک پاکستانی نوجوان کی جرمن پولیس کی تحویل میں ہلاکت ایسا مسئلہ نہیں ہے جسے آسانی سے ہضم کیا جا سکے۔ یہ واقعہ کسی مسلمان ملک میں کسی مغربی ملک کے باشندے کے ساتھ پیش آیا ہوتا تو اب تک نہ جانے کیا کچھ ہو چکا ہوتا، مگر نہ حکومت پاکستان ٹس سے مس ہو رہی ہے اور نہ ہی مغربی حکومتیں بالخصوص جرمنی کی حکومت اس سلسلہ میں اپنی اخلاقی اور قانونی ذمہ داریوں کا احساس کر رہی ہے۔
اس لیے ملک کی دینی و سیاسی جماعتوں کو ایک بار پھر تحفظ ناموسِ رسالت کے لیے عوامی جذبات کو منظم کرنا ہو گا اور عوامی دباؤ کے ذریعے حکومت کو مجبور کرنا ہو گا کہ وہ اپنی اخلاقی اور قانونی ذمہ داریوں کا احساس کرے اور عامر چیمہ کی شہادت کے پس پردہ حقائق کو بے نقاب کرتے ہوئے اس کی تلافی کے لیے عوامی جذبات کی پاسداری کا اہتمام کرے۔