عثمانیہ میڈیا آفیشل کا انٹرویو

   
عثمانیہ میڈیا آفیشل
۹ فروری ۲۰۲۱ء

تمہید

اینکر: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ السلام علیکم ناظرین! آج ہماری خوش قسمتی کہ ہمارے ساتھ نامور مذہبی اسکالر حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب موجود ہیں۔ آپ جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے شیخ الحدیث ہیں۔ مولانا کا ایک تعارف تو مذہبی حیثیت سے ہے اور ایک تعارف جو نوجوان نسل کو حضرت کے بارے میں معلومات نہیں کہ اپنی جوانی میں سیاسی کردار بھرپور ادا کر چکے ہیں۔ مولانا زاہد الراشدی صاحب جمعیت علماء اسلام پاکستان کے سیکرٹری اطلاعات رہے، اس کے بعد ۱۹۸۰ء سے ۱۹۹۰ء تک ڈپٹی سیکرٹری جنرل رہے۔ اسی طرح جو ایک مشہور جمہوری سیاسی اتحاد بنا تھا جسے آئی جی آئی کہا جاتا ہے، اسلامی جمہوری اتحاد، اس کے پنجاب کے نائب صدر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ مولانا زاہد الراشدی صاحب نے ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت اور ۱۹۷۷ء کی تحریک نظام مصطفیٰ، پھر ۱۹۸۴ء کی تحریک ختم نبوت اور ۱۹۸۷ کی تحریک شریعت بل میں سرگرم کردار ادا کیا اور مختلف اوقات میں کئی ماہ جیل میں گزارے۔ تنظیمی طور پر مولانا زاہد الراشدی صاحب پاکستان شریعت کونسل کے ۱۹۹۸ء سے لے کر تا حال سیکرٹری جنرل ہیں اور ورلڈ اسلامک فورم لندن کے بانی اور سرپرست ہیں، جس کا قیام ۱۹۹۵ء میں عمل لایا گیا، تاحال اس کے سرپرست ہیں۔ اسی طرح آپ ۱۹۸۵ء سے ۱۹۹۰ء تک متحدہ علماء کونسل کے سیکرٹری اطلاعات رہے ہیں اور صحافت میں بھی حضرت کی شاندار خدمات ہیں، ۱۹۶۵ء سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ سب سے پہلے روزنامہ وفاق لاہور کے رپورٹر رہے، پھر ہفت روزہ ترجمان اسلام کے مدیر رہے اور ہفت روزہ خدام الدین میں بھی مضمون لکھتے رہے اور آج کل روزنامہ اسلام اور اوصاف کے مستقل کالم نگار ہیں۔ اسی طرح حضرت کا سب سے بڑا ایک اور اعزاز بھی ہے کہ تعلیم و تدریس کے شعبوں میں شاندار خدمات انجام دینے پر حکومت پاکستان نے آپ کو تمغہ امتیاز عطا کیا ہے تو آج ہم حضرت کی موجودگی کو سعادت سمجھتے ہوئے حضرت سے حالات حاضرہ پر گفتگو کریں گے۔

انٹرویو

سوال: حضرت! سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ وقف املاک ایکٹ ۲۰۲۰ء کیا ہے؟ آپ اس حوالے سے ہمارے ناظرین کی رہنمائی فرمائیں۔

جواب: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ اللہم صل علیٰ سیدنا محمد النبی الامی واٰلہ واصحابہ وبارک وسلم۔ وقف املاک ایکٹ جو اسلام آباد کی حدود کے دائرے میں پارلیمنٹ نے پچھلے دنوں منظور کیا ہے اور نافذ ہو گیا ہے، اس کے بارے میں ملک بھر میں ہر سطح پر اور ہر دائرے میں تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں مختلف دینی جماعتوں کے اور وفاقوں کے نمائندوں کا ایک بہت بڑا کنونشن ہوا ہے، میں بھی اس میں شریک تھا اس میں بھی اس پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس کو اصولی طور پر مسترد کرنے کا اعلان کیا گیا ہے، جبکہ اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کے قائدین کا کہنا یہ ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی اور دوسرے حکومتی رہنماؤں سے ان کے مذاکرات ہوئے ہیں، انہوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے، ترامیم تجویز کی ہیں اور حکومت کے ذمہ دار حضرات نے اس میں ترامیم کا وعدہ کیا ہے۔ لیکن اس کی کوئی عملی شکل ابھی تک سامنے نہیں آئی۔ اس تناظر میں موجودہ صورتحال میں وقف املاک ایکٹ قابل قبول نہیں ہے۔ اس کی تین بنیادی وجہیں ہیں۔

(۱) ایک تو یہ ہے کہ میں ذرا تھوڑا ماضی میں جانا چاہوں گا۔ مجھے ذاتی طور پر یہ بل اس کا تسلسل نظر آتا ہے کہ ۱۸۵۷ء کے بعد پورے جنوبی ایشیا میں دینی مدارس کی بڑی تعداد تھی، ہزاروں کی تعداد میں مدارس تھے، وہ مدارس بند ہو گئے تھے۔ ان کے بند ہونے کے پیچھے کیا عناصر تھے؟ میں تاریخ کے اور تحریک آزادی کے طلباء اور اسکالرز سے عرض کروں گا کہ اس کا جائزہ لیں۔ تقریباً تیس ہزار مدارس کی تعداد تو حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے کسی مضمون میں ملتی ہے، بہرحال ہزاروں مدارس بند ہو گئے تھے، ان مدارس کے بند ہونے کے پیچھے وجہ کیا تھی؟ کوئی قبضہ نہیں کیا گیا تھا، بلکہ وقف کے قانون میں تبدیلی کر دی گئی تھی۔ وقف کا نیا قانون نافذ کر دیا گیا تھا، اوقاف کے پرانے قوانین ختم ہو گئے تھے، سسٹم بدل گیا تھا تو مدارس بند ہو گئے تھے۔ مجھے یہ اس کا دوسرا راؤنڈ نظر آتا ہے۔ اس وقت ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی گورنمنٹ نے یہ کردار ادا کیا تھا، اب فیٹف (FATF) اور دیگر بین الاقوامی مالیاتی ادارے مختلف عنوانات سے یہ ماحول پیدا کر رہے ہیں اور مجھے یوں نظر آرہا ہے کہ اگر یہ اسی طرح نافذ رہا اور اس کو صوبوں میں لایا گیا جیسا کہ سننے میں آیا ہے کہ پنجاب میں لایا جا رہا ہے تو اس سے آٹھ دس سال میں مدارس کا وجود ختم ہو جائے گا جو اس وقت مختلف وفاقوں کے تحت ہزاروں کی تعداد میں ملک میں کام کر رہے ہیں۔ مجھے تو اس کا پس منظر یہ دکھائی دے رہا ہے اور میں اس کو ۱۸۵۷ء کے بعد کے وقف قوانین میں تبدیلی کا دوسرا ایڈیشن عرض کیا کرتا ہوں۔ یہ تو میرا تاثر ہے۔

لیکن علماء کرام نے جن تحفظات کا اظہار کیا ہے ان میں ایک یہ ہے، کیونکہ شرعی قانون اور شرعی اصول یہ ہے کہ وقف میں واقف کی مرضی کے مطابق تصرف ہوگا۔ جس نے زمین یا جگہ یا کوئی چیز وقف کی ہے تو واقف کی مرضی بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ جبکہ اس میں وقف کے تمام معاملات کو ایڈمنسٹریشن کے حوالے کر دیا گیا ہے اور واقف کی مرضی اور اس کے شرعی اختیار کو ختم کر دیا گیا ہے۔ شرعی طور پر یہ بات محل نظر نہیں بلکہ قابل رد ہے کہ واقف کی مرضی کو نظر انداز کرتے ہوئے، اس کو کراس کرتے ہوئے وقف کے تمام انتظامی اور ادارتی معاملات ایڈمنسٹریشن کے حوالے کر دیے گئے ہیں، یہ بات شرعاً درست نہیں ہے۔

(۲) دوسری بات یہ ہے کہ دینی مدارس اور اوقاف کا جو موجودہ رول ہے، اوقاف میں سارے وقف شامل ہیں رفاہی ادارے، تعلیمی ادارے، مدارس اور مساجد، ان کے سارے اختیارات کسی فرد واحد یا کسی ادارے کے کنٹرول میں دے دینا ہمارے تسلسل کے بھی خلاف ہے۔ ہمارے ہاں مساجد، مدارس آزاد چلے آ رہے ہیں۔ مدارس، مساجد اور ہمارے بے شمار رفاہی ادارے پبلک انتظامات کے تحت آ رہے ہیں، اس سے وہ سب ختم ہو جائیں گے اور پبلک سیکٹر میں وقف، رفاہ عامہ، ایجوکیشن اور عبادت کا وجود بالکل ختم ہو جائے گا اور یہ سب وقف کے ادارے رفاہ عامہ، ایجوکیشن اور عبادت ایڈمنسٹریشن کے کنٹرول میں چلے جائیں گے، اور ایڈمنسٹریشن کی اس وقت صورتحال قابل اعتماد نہیں ہے۔

میں اس پر مثال دینا چاہوں گا۔ ہم نے اس سے پہلے ایڈمنسٹریشن کے حوالے ادارے کیے تھے۔ میں سب کو غور کی دعوت دوں گا کہ ایوب خان مرحوم کے زمانے میں بہاولپور کا سب سے بڑا دینی ادارہ جامعہ عباسیہ محکمہ تعلیم کے کنٹرول میں گیا، اس کو اسلامی یونیورسٹی بنایا گیا، جامعہ اسلامیہ بنایا گیا اور دونوں تعلیمیں اکٹھی کچھ عرصہ جاری رہیں، مولانا شمس الحق افغانی، مولانا احمد سعید کاظمی اور مولانا عبدالرشید نعمانی جیسے اکابر علماء کرام وہاں گئے، لیکن رفتہ رفتہ دینی تعلیم خارج کر دی گئی اور آج بہاولپور یونیورسٹی جو جامعہ عباسیہ کی جانشین ہے اور جس کو جامعہ عباسیہ کی ہیئت تبدیل کر کے مشترک دینی تعلیم کے لیے بنایا گیا تھا وہ سب تبدیل ہو گئی ہے اور یہ ہمارے تجربات میں ہے۔ ایڈمنسٹریشن کا ایجنڈا، ایڈمنسٹریشن کا طریقہ کار اور ہماری سول بیوروکریسی کا طریقہ کار ہم بھگت چکے ہیں۔ جب محکمہ اوقاف بنا تھا تو جامعہ عباسیہ کے علاوہ بھی بہت سے دینی مد ارس محکمہ اوقاف کے تحت پبلک سے لے کر محکمے کے حوالے کیے گئے تھے۔ میں بالکل دو ٹوک بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آج ان مدارس کا کوئی وجود نہیں ہے۔ میں چیلنج کا لفظ بولنے پر بھی تیار ہوں کہ اس وقت کی فہرست نکالی جائے کہ محکمہ اوقاف نے کتنے مدارس تحویل میں لیے تھے اور آج ان مدارس کی پوزیشن کیا ہے؟ آج ان کا وجود، ان کی کیفیت اور ان کا سٹیٹس کیا ہے؟ بلکہ میں وفاقوں کو دعوت دوں گا کہ وہ اپنی تحقیقاتی انکوائری کے کمیٹی مقرر کریں کہ وہ جائزہ لے کہ جامعہ عباسیہ کو اسلامی یونیورسٹی بنانے کا اعلان ہوا تھا تو اب کیا صورتحال ہے؟ اور ایوب خان مرحوم کے زمانے میں تشکیل پانے والے محکمہ اوقاف نے جو بیسیوں مدارس تحویل میں لیے تھے تو کیوں تحویل میں لیے تھے اور اب ان کی کیا صورتحال ہے؟ اس پر ایک انکوائری رپورٹ آنی چاہیے۔

اصل حق تو یہ ہے کہ جوڈیشنل انکوائری ہو، سپریم کورٹ کے جسٹس کی سربراہی میں اس ساری صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے کمیشن بنایا جائے اور اگر گورنمنٹ نہیں کرتی اور نہیں کرے گی تو کم از کم وفاقوں کو ایک آزاد انکوائری کمیشن ذمہ دار حضرات میں بنانا چاہیے جو اس ساری صورتحال کو قوم کے سامنے لائے۔ ہم محکمہ اوقاف بھی بھگت چکے ہیں اور محکمہ تعلیم بھی بھگت چکے ہیں، ہمیں اسی چکی میں دوبارہ پھینکا جا رہا ہے، یہ بات ہمارے تاریخی تسلسل کے خلاف ہے۔

(۳) تیسری بات یہ ہے کہ آج کی ہیومن رائٹس پر دیکھ لیں۔ چلیں ہمارا ماضی ایک طرف رہا، آج کے جو مسلمہ ہیومن رائٹس ہیں، ایجوکیشن، رفاہ عامہ اور وقف کے بین الاقوامی قوانین کو آج کے فلسفے کے تناظر میں دیکھ لیں اور چیک کر لیں کہ کیا یہ وقف املاک ایکٹ ہیومن رائٹس کے مروجہ نظام، فلسفے اور سسٹم کے تحت صحیح ہے؟ اس کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ این جی اوز کہاں چلی گئی ہیں؟ انسانی حقوق کی بات کرنے والی، آزادی رائے کی بات کرنے والی، تعلیم کی آزادی اور مذہب کی آزادی کی بات کرنے والی این جی اوز کہاں آرام فرما رہی ہیں؟ میری ان کو دعوت ہے آئیں اور جائزہ لیں۔ ساری باتیں چھوڑ کر موجودہ انسانی حقوق کے بین الاقوامی سٹرکچر اور اقوام اور طبقات کے اختیارات اور حقوق کی بنیاد پر وقف املاک ایکٹ کا جائزہ لیں کہ یہ کہاں تک درست ہے اور کہاں تک درست نہیں۔

میں تو بہرحال یہ سمجھتا ہوں کہ جو وفاقوں نے موقف اختیار کیا ہے وہ بالکل درست ہے۔ یہ قابل قبول نہیں ہے۔ وفاقوں نے قابل ترمیم کہہ دیا تو کہہ دیا میں تو اس کو قابل ترمیم بھی نہیں سمجھتا۔ میں اسلام آباد کے علماء کے کنونشن کے اس موقف کے ساتھ ہوں کہ اس کو مکمل طور پر مسترد کیا جائے اور حکومت بلکہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور فیٹف سے میں پوچھنا چاہوں گا کہ ہمیں کہاں تک دیوار سے لگانا چاہتے ہیں؟ ہم دیوار سے لگے ہوئے بھی تمہارے ایجنڈے پر فٹ نہیں بیٹھیں گے ان شاءاللہ العزیز۔ ہمارا دینی تعلیم کا، مذہبی آزادی کا اور اسلامی حقوق اور انسانی حقوق کا ایجنڈا جاری ہے اور جاری رہے گا۔ ہم پہلے بھی دو سو سال سے مقابلہ کر رہے ہیں، اب بھی کریں گے۔ پہلے اداروں کے نام اور تھے اب اداروں کے نام اور ہیں، ایجنڈا پہلے بھی یہی تھا آج بھی یہی ہے۔ ہم آخر وقت تک مقابلہ کریں گے اور یہ کوشش کامیاب نہیں ہونے دی جائے گی، ان شاءاللہ العزیز

سوال: کیا علماء کا یہ موقف درست ہے کہ وقف املاک ایکٹ ۲۰۲۰ء قرآن و سنت، شریعت اسلامیہ، آئین پاکستان اور بنیادی انسانی حقوق کے سراسر منافی ہے اور آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟

جواب: میں یہ عرض کر چکا ہوں کہ وقف میں واقف کی مرضی کو نظر انداز کرنا شریعت کے اصولوں کے خلاف ہے، ہمارے ماضی کے تسلسل کے خلاف ہے اور آج کے مروجہ انسانی حقوق کے تصور کے بھی خلاف ہے۔ تینوں حوالوں سے یہ وقف املاک بل ٹھیک نہیں ہے۔

سوال: وقف املاک ایکٹ کی وجہ سے تمام اسلامیان پاکستان بالخصوص دین کا درد رکھنے والوں میں تشویش و اضطراب کا پایا جانا ایک فطری عمل ہے، اس ایکٹ کے اثرات اور نتائج کیا ہو سکتے ہیں؟ اس بارے میں آپ کا کیا موقف ہے؟

جواب: یہ ایکٹ ابھی تو اسلام آباد میں ہے اور اس پر اسلام آباد کے علماء سامنے کھڑے ہیں۔ میرے خیال میں ملک بھر میں اس موومنٹ کو خالصتاً شرعی احکام اور انسانی حقوق کی بنیاد پر منظم کرنا ہوگا اور میں اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ سے کہوں گا کہ صرف مذاکرات پر اکتفا نہ کریں، مذاکرات ضروری ہیں، لیکن مذاکرات کے پیچھے پبلک کی قوت، عوام، رائے عامہ اور سول سوسائٹی آپ کے ساتھ ہے، اسے منظم کریں اور دینی حلقوں کو مضبوط کریں۔ میں اس کو ختم نبوت کے مسئلے سے کم اہمیت کا مسئلہ نہیں سمجھتا، اس کو بھی اور سود کو بھی۔ میرے نزدیک ختم نبوت کا مسئلہ، سود کے انسداد کا مسئلہ اور وقف املاک ایکٹ کا مسئلہ نوعیت کے اعتبار سے تقریباً یکساں ہیں۔ جس طرح تحریک ختم نبوت اور ناموس رسالت کی تحریک میں ہم نے اتحاد کے ساتھ اور عوامی قوت کے ساتھ مزاحمت کی ہے، یہ بھی وحدت کے ساتھ مزاحمت کا میدان ہو سکتا ہے، لیکن پرامن، قانون اور دستور کے دائرے میں رہتے ہوئے، اپنے انسانی، سیاسی اور شہری حقوق استعمال کرتے ہوئے ہوش مندی کے ساتھ ہمیں اس کے لیے محنت کرنا ہوگی اور یہ محنت اگر منظم ہو گئی تو ان شاءاللہ العزیز کوئی چیز بھی آگے نہیں بڑھ سکے گی۔

سوال: وقف ایکٹ کا خلاصہ آسان الفاظ میں جو مجھے سمجھ آیا کہ کوئی بھی چیز وقف کرنے سے پہلے رجسٹریشن کی شرط لگا دی گئی ہے یا آئندہ کے لیے وقف کا کام ہی ختم کرنے کا انتظام کیا گیا ہے، اس بارے میں آپ کیا محسوس کرتے ہیں؟

جواب: میں نے یہی بات عرض کی ہے لیکن میں نیت کے حوالے سے بات نہیں کرتا، نتائج کے حوالے سے بات کرتا ہوں کہ اگر یہ نافذ ہوگیا تو اس کے نتیجہ میں مساجد، مدارس، اوقاف اور رفاہی اداروں کی آزادی سلب ہو جائے گی۔

سوال: اس ایکٹ میں اوقاف کی جائیداد کی نیلامی اور فروخت کا پورا نظام ذکر کیا گیا ہے، یہاں تک کہ فصلیں تک ضبط کرنے اور عمارتیں منہدم کرنے کی بات کی گئی ہے، شریعت کا اس بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب: شریعت اور شرعی قوانین اس سے مختلف ہیں۔ یہ شرعی احکام کی روشنی میں نہیں بنایا گیا، یہ اس سے متصادم ہے، لیکن میں وہ بات پھر دہراؤں گا کہ سارے معاملات کو ایڈمنسٹریشن کے حوالے کرنے سے پہلے جامعہ عباسیہ، بہاولپور یونیورسٹی اور ایوب خان کے زمانے میں محکمہ اوقاف کی تحویل میں آنے والے مدارس کو دیکھ لیجیے، نتیجہ اس سے زیادہ مختلف نہیں ہوگا اور ہمیں اس میں اتحاد اور قوت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

اینکر: مولانا صاحب کا بہت بہت شکریہ، جن لوگوں کو وقف املاک ایکٹ کے بارے میں معلومات نہیں تھیں یا اس کو بہتری کی طرف کوئی قدم سمجھتے تھے، امید ہے ان لوگوں کو اب اس ایکٹ کے مفاسد سمجھ آ گئے ہوں گے۔ اللہ حافظ۔

2016ء سے
Flag Counter