بعد الحمد والصلوٰۃ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم میں مختلف ذوق ودیعت فرمائے تھے جو آگے چل کر امت میں مستقل طبقات کی بنیاد بنے ہیں۔ آج جو دین کے مختلف بیسیوں شعبے نظر آ رہے ہیں، کوئی کسی شعبے میں کام کر رہا ہے اور کوئی کسی شعبے میں، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تکوینی تقسیم صحابہ کرامؓ کے دور میں ہو گئی تھی۔ اور صحابہ کرامؓ میں سے مختلف حضرات کے مختلف ذوق آگے چلتے چلتے امت میں پورے طبقات کی بنیاد بنے ہیں۔
مثال کے طور پر ہم قرآن مجید پڑھتے اور سنتے ہیں۔ سارے صحابہ کرامؓ ہی پڑھتے تھے لیکن چار پانچ حضرات ایسے قراء ہیں جن کو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بڑے قراء فرمایا۔ جن کے پڑھنے کی تعریف کی، جن سے ذوق سے سنا، اور جن کے قاری ہونے کا حضورؐ نے ذکر فرمایا۔ آج امت میں حافظوں اور قاریوں کا ایک لمبا سلسلہ ہے۔ ابتدا میں یہ شوق آپ کو چار پانچ بزرگوں میں بہت نمایاں دکھائی دے گا۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کی قراءت، پڑھنے اور سننے کے حوالے سے جن حضرات کا بطور خاص ذکر کیا ہے ان میں ایک حضرت ابی ابن کعبؓ ہیں، جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’اقرأھم‘‘ فرمایا کہ میرے صحابہ میں سب سے بڑا قاری اُبی ہے۔ امت کے قاریوں کے سردار کا لقب حضورؐ نے ارشاد فرمایا اور صحابہ کرام بھی اس کا اعتراف کرتے تھے۔ بخاری کی روایت ہے کہ حضرت عمرؓ کا اپنی خلافت کے زمانے میں حضرت اُبیؓ سے کسی مسئلے میں اختلاف ہوگیا تو حضرت عمرؓ نے فرمایا دیکھیں! میں آپ کو سب سے بڑا قاری مانتا ہوں لیکن جس مسئلے میں میرا آپ سے اختلاف ہے اس میں آپ کی بات میں نہیں مانتا۔
حضرت ابی ابن کعبؓ کا قرآن مجید پڑھنے، سننے، سنانے کا خاص ذوق تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ اعزاز بخشا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ان کو بلا کر کہا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تجھے قرآن سناؤں۔ انہوں نے تعجب سے پوچھا: کیا اللہ تعالیٰ نے میرا نام لیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں تیرا نام لیا ہے اور سورت بھی بتائی ہے کہ سورۃ البینۃ سناؤں۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت ابی بن کعبؓ کو یہ اعزاز بھی بخشا کہ جو بیس تراویح اہتمام سے جماعت کے ساتھ پڑھی جاتی ہیں اور تراویح میں قرآن مجید سنایا جاتا ہے، اس کا آغاز انہوں نے کیا تھا۔ سب سے پہلا مصلیٰ حضرت عمرؓ کے زمانے میں حضرت عمرؓ کے حکم پر حضرت ابی بن کعبؓ نے سنایا تھا۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور قاری کے ایک سرٹیفکیٹ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کو بھی دیا تھا۔ وہ بھی امت کے بڑے قاریوں میں سے تھے۔ جناب رسول اللہ نے فرمایا کہ جو آدمی قرآن مجید کو اس طرح تر و تازہ پڑھنا چاہتا ہے جس طرح کہ وہ نازل ہوا، تو اسے چاہیے کہ وہ ابن ام عبد یعنی عبد اللہ بن مسعودؓ کی قراءت کے مطابق پڑھے۔
حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ بھی امت کے بڑے قاری تھے۔ حضور نبی کریمؐ نے ان سے فرمایا کہ تیری گردن میں تو حضرت داؤد علیہ السلام کا گلہ فٹ ہو گیا ہے۔ ان کی بڑی اچھی لے اور سُر تھی۔ اور حضرات انبیاء کرامؑ میں حضرت داؤدؑ کی لے اور سُر بہت اچھی تھی۔ زبور ویسے بھی حمد کی کتاب ہے، نثر کی کتاب نہیں ہے۔ زبور آج بھی گیتوں کی شکل میں ہے۔ ہمارے والے گیت نہیں، اللہ کی حمد کے گیت۔ روایات میں آتا ہے کہ جب حضرت داؤد علیہ السلام زبور پڑھتے تھے تو پرندے فضا میں رک جایا کرتے تھے، سمندر کے کنارے پر ہوتے تو مچھلیاں سمندر کی سطح پر آ جایا کرتی تھیں، اور پہاڑوں میں پڑھتے تو پہاڑ ساتھ ساتھ پڑھا کرتے تھے۔
ایک دن جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے فرمایا کہ ابو موسیٰ! رات کو میں اور عائشہؓ دونوں میاں بیوی تمہارے محلے کسی کام سے گئے تھے، واپس آتے ہوئے جب تمہارے گھر کے سامنے سے گزرے تو تم اندر بیٹھے قرآن مجید پڑھ رہے تھے، گلی میں آواز آ رہی تھی، ہم دونوں وہیں رک گئے اور کافی دیر گلی میں کھڑے کھڑے تمہارا قرآن سنتے رہے۔ میں عرض کیا کرتا ہوں کہ کیسی تلاوت ہو گی جس نے جناب نبی کریمؐ اور ام المومنین حضرت عائشہؓ کے قدم روک لیے۔ حضرت ابو موسٰیٰؓ حسرت سے کہنے لگے یا رسول اللہ! مجھے پتہ ہی نہیں چلا، ورنہ میں اور زیادہ لَے اور زیادہ سُر میں پڑھتا۔
ان کے علاوہ حضرت معاذ بن جبلؓ اور حضرت سالم مولیٰ ابی حذیفہؓ بھی بڑے قاری تھے۔
جب یمن حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کنٹرول میں آیا تو آپ نے اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا: ایک حصے کا گورنر حضرت معاذ بن جبلؓ کو بنایا اور دوسرے حصے کا حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کو۔ ابو موسٰیؓ ویسے بھی یمنی تھے۔ یہ دونوں آپس میں ملتے رہتے تھے۔ ایک دن بیٹھے بیٹھے ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہوئے حضرت معاذ بن جبلؓ نے حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے پوچھا کہ آپ قرآن مجید کیسے پڑھتے ہیں، کیا ذوق ہے، پڑھنے کی ترتیب کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا میں تو پڑھتا ہی رہتا ہوں۔ کھڑے، بیٹھے، چلتے پھرتے، ہر حال میں پڑھتا رہتا ہوں۔ پھر انہوں نے حضرت معاذ بن جبلؓ سے پوچھا کہ آپ کیسے پڑھتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ مجھ سے تو اس طرح نہیں پڑھا جاتا۔ میرا جب پڑھنے کا ارادہ ہوتا ہے تو اس کے لیے وقت فارغ کرتا ہوں، کاموں سے فارغ ہو کر باوضو ہو کر بیٹھ کر تسلی سے پڑھتا ہوں۔ مجھ سے تو چلتے پھرتے نہیں پڑھا جاتا۔
حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ والا ذوق بھی صحیح ہے اور حضرت معاذ بن جبلؓ والا ذوق بھی صحیح ہے۔ ہمارے گوجرانوالہ میں ایک بزرگ گزرے ہیں مولانا حافظ شفیق الرحمٰن صاحبؒ۔ انہوں نے ہماری جامع مسجد (شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ) میں تقریباً پچیس سال قرآن مجید سنایا ہے، اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی اور پچیس سال میں نے بھی سنایا ہے۔ وہ کاروبار کرتے تھے، کریانہ کی دکان تھی۔ ان کے پاس بچے بھی دکان پر آکر پڑھتے تھے۔ کاروبار بھی کر رہے ہیں اور ساتھ پڑھا بھی رہے ہیں۔
حافظ صاحب مرحوم بازار میں چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے ہر وقت پڑھتے ہی رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی دین تھی۔ میں نے انہیں جس حالت میں بھی دیکھا وہ قرآن مجید پڑھ رہے ہوتے تھے۔ ایک دن میں نے ان سے دو سوال کیے۔ ایک سوال ذرا سیریس تھا اور دوسرا دل لگی تھی۔
میں نے ان سے پوچھا حضرت! آپ ہر وقت قرآن مجید پڑھتے رہتے ہیں، کاروبار بھی کرتے ہیں، پڑھاتے بھی ہیں، اس سب کچھ کے ساتھ روزانہ کتنا پڑھ لیتے ہیں، دیگر مصروفیات کے ساتھ آپ کا تلاوت کا کیا معمول ہے؟ وہ فرمانے لگے اٹھارہ پارے تلاوت تو میرا معمول ہے، کبھی انیس، بیس ہو جاتے ہیں، تئیس تک گیا ہوں۔ یہ تو سیریس سوال تھا۔
دوسرا سوال دل لگی کا میں نے ان سے یہ کیا کہ حضرت! آپ ہر وقت پڑھتے رہتے ہیں، تو کہیں بیت الخلاء میں بھی تو نہیں پڑھتے رہتے۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں کبھی کبھی ایسا ہو جاتا ہے، پھر اچانک خیال آتا ہے تو میں زبان پکڑ لیتا ہوں کہ میں یہ کیا کر رہا ہوں، کہاں قرآن مجید پڑھ رہا ہوں!
میں نے عرض کیا کہ حضرات صحابہ کرامؓ میں سے چند حضرات کو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے قاری کہا۔ اس زمانے میں چار پانچ بڑے قاری دکھائی دیں گے، اور اب تو پوری دنیا میں قاریوں کی بہار ہے۔ ایک بین الاقوامی امریکی ادارے کا چند سال پہلے ایک سروے ہوا، اس کے مطابق دنیا میں حافظوں کی تعداد تیرہ ملین یعنی ایک کروڑ تیس لاکھ ہو چکی ہے، جو کہ اب سولہ سترہ ملین ہو گئے ہوں گے۔ یہ قرآن مجید پڑھنے، پڑھانے، سننے، سنانے کا ایک ذوق تھا۔ آج پوری دنیا میں کوئی علاقہ اس سے خالی نہیں ہے۔
حضرات صحابہ کرامؓ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا الگ ذوق تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو حدیث کا ذوق عطا فرمایا تھا۔ احادیث کے سب سے بڑے راوی حضرت ابوہریرہؓ ہیں، ہزاروں حدیثیں روایت کی ہیں۔ جہاں بھی کوئی بات نکالو، حضرت ابوہریرہؓ سے کوئی نہ کوئی روایت نظر آجاتی ہے۔ حدیثیں یاد کرنے، حدیثیں سننے اور سنانے کا ذوق تھا۔ آخر عمر میں ان پر اعتراضات بھی ہونے لگ گئے۔ کیونکہ برابر کے لوگوں کو تو ذوق اور محنت کا پتہ ہوتا ہے، لیکن بعد والوں کو سمجھ نہیں آتی کہ بابا کیا کر رہا ہے۔
اس وقت بھی لوگوں کو تشویش ہوئی کہ حضرت ابوہریرہؓ ہر بات پر حدیث سنا دیتے ہیں۔ ایک اور اشکال کی بات یہ تھی کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کو زمانہ تو صرف چار سال کا ملا ہے، جبکہ وہ ہر بات پر حدیث سناتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ جب یمن سے جناب نبی کریمؐ کی خدمت میں آئے تو خیبر کی غنیمت تقسیم ہو رہی تھی۔ ساڑھے تین، چار سال سے زیادہ عرصہ انہیں حضورؐ کے ساتھ رہنے کا نہیں ملا۔ اس پر نوجوانوں کو اشکال ہوا کہ آپ اتنی حدیثیں کیسے بیان کرتے ہیں۔
مدینہ منورہ میں مروان بن الحکمؒ امیر تھے۔ حضرت ابوہریرہؓ ان کے دوست تھے۔ امیر صاحب کبھی شہر سے باہر جاتے تو حضرت ابوہریرہؓ کو اپنا قائم مقام بنا جاتے تھے، اور وہ جمعہ پڑھایا کرتے تھے۔ آخری زمانے میں حضرت ابوہریرہؓ نے مسجد نبوی میں بہت سے جمعہ پڑھائے ہیں۔ ایک دن جمعہ کے خطبہ میں حضرت ابوہریرہؓ غصہ میں آ گئے، ہلکا پھلکا غصہ تھا۔ فرمانے لگے کہ تم نے بہت زیادہ باتیں شروع کر دی ہیں۔ آج میں تمہیں بتاتا ہوں کہ میں حدیثیں زیادہ کیوں بیان کرتا ہوں۔ فرمایا اس کی دو وجہیں ہیں:
ایک وجہ یہ ہے کہ تمہارے چاچے مامے کوئی ایک نماز میں آتا تھا، کوئی دو نمازوں میں آتا تھا، کوئی تیسرے دن آتا تھا، کوئی جمعہ میں آتا تھا۔ جبکہ میں نے جب سے حضور نبی کریمؐ کے ہاتھ میں ہاتھ دیا تب سے لے کر حضورؐ کے وصال تک آپؐ سے حدیثیں سننے کے سوا کوئی کام نہیں کیا۔ میں چوبیس گھنٹے کا حاضر باش شاگرد تھا۔ میں نبی کریمؐ کو گھر کے دروازے پر چھوڑ کر آتا تھا، اور مجھے پتہ ہوتا تھا کہ آپ کب تشریف لائیں گے، چنانچہ میں آپؐ کو گھر کے دروازے سے وصول کرتا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ راستے میں آپؐ کوئی بات فرما دیں اور میں سن نہ سکوں۔ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عرصہ تھوڑا ملا ہے لیکن میں نے اس میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا۔ میں حضور نبی کریم کے ساتھ جڑا رہتا تھا اور مسلسل شب و روز یہی کام تھا کہ حضور کی باتیں سنوں اور یاد کروں۔ جبکہ باقی حضرات میں سے کوئی کاروبار کرتا تھا اور کوئی کھیتی باڑی کرتا تھا۔ میں نے تو کوئی اور کام کیا ہی نہیں، میرا ایک ہی شوق تھا کہ حضورؐ کی باتیں سنوں، یاد کروں اور لوگوں کو سناؤں۔
حضرت ابوہریرہؓ نے حدیثیں زیادہ بیان کرنے کی دوسری وجہ یہ ذکر فرمائی کہ میرے پیچھے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ہے۔ فرماتے ہیں کہ میرا کوئی کاروبار، روزگار نہیں تھا۔ اصحابِ صفہ کے ساتھ پڑا رہتا تھا۔ لوگ آکر کھجوریں رکھ جاتے تھے، کوئی پانی اور کوئی ستو رکھ جاتا، ہم وہ کھا کر گزارہ کر لیتے۔ کبھی کھانے کو کچھ مل جاتا اور کبھی کچھ نہ ملتا۔ دو دو دن فاقہ ہوتا تھا اور کبھی میں بے ہوش ہو کر گر پڑتا تھا۔ لوگ کہتے تھے کہ ابوہریرہؓ کو مِرگی کا دورہ پڑ گیا ہے۔ لوگ ٹونے ٹوٹکے کے طور پر میری گردن پر پاؤں رکھتے تھے۔ حالانکہ اللہ کی قسم مجھے کوئی مِرگی وغیرہ نہیں ہوتی تھی، صرف بھوک ہوتی تھی جس کی شدت کی وجہ سے گر پڑتا تھا۔ اس کیفیت میں بھی میں نے صفہ نہیں چھوڑا، مسجد نہیں چھوڑی، اور حضورؐ کی مجلس نہیں چھوڑی۔
فرماتے ہیں کہ ایک دن ایسا ہوا کہ میں بھوک کی شدت سے بے چین تھا، دو تین دن سے فاقہ چل رہا تھا، اور یہ بھی طے کر رکھا تھا کہ کسی سے مانگنا نہیں ہے، کسی سے اپنا حال بیان نہیں کرنا۔ یہ بھی عزیمت کا ایک بڑا مقام ہوتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ میرے سامنے سے گزرے تو میں نے سلام کہہ کر کسی آیت کا مطلب پوچھا۔ جب چالیس سال کے بعد یہ روایت بیان کر رہے ہیں تو کہتے ہیں کہ آیت کا مطلب مجھے معلوم تھا، میں نے حضرت ابوبکرؓ سے اس لیے پوچھا تھا کہ شاید گفتگو میں انہیں اندازہ ہو جائے اور کچھ کھلا دیں۔ انہوں نے آیت کا مطلب بتایا اور چلے گئے۔
پھر فرماتے ہیں کہ تھوڑی دیر بعد حضرت عمرؓ وہاں سے گزرے، میں نے انہیں بھی سلام کہا اور ایک آیت کا مطلب پوچھا۔ فرماتے ہیں کہ آیت کا مطلب مجھے معلوم تھا، لیکن میں ساتھ ساتھ چل پڑا کہ گھر کے دروازے تک بات پوچھتے پوچھتے جاؤں گا، گھر کے دروازے پر آدمی اخلاقاً پوچھ لیتا ہے کہ کچھ کھا پی جاؤ۔ لیکن دروازے پر پہنچے تو حضرت عمرؓ نے نے سلام کہا اور دروازہ بند کر کے گھر چلے گئے۔
فرماتے ہیں میں پھر پریشان کہ یا اللہ یہ کیا ہوا۔ یہ بات بھی نہیں بنی۔ تھوڑی دیر کے بعد جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہاں سے گزر ہوا۔ میں نے سلام کہا۔ حضورؐ مجھے دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا ابوہریرہ! بھوک لگی ہے؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! جی بھوک لگی ہے۔ آپؐ نے فرمایا میرے ساتھ چلو۔ میں آپ کے ساتھ چل پڑا۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لے گئے۔ ازواجِ مطہرات کے نو حجرے تھے۔ آپؐ نے ایک حجرے سے پوچھا کہ کچھ کھانے پینے کو ہے؟ جواب ملا کچھ نہیں ہے۔ دوسرے اور تیسرے حجرے سے بھی یہی جواب ملا۔ چوتھے یا پانچویں حجرے سے ایک دودھ کا پیالا ملا۔
حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ جب حضورؐ دودھ کا پیالہ لے کر باہر تشریف لائے تو میری جان میں جان آ گئی کہ میرا آج گزارا ہو جائے گا کیونکہ پیالا بڑا تھا۔ دودھ کا پیالہ دیکھ کر میں خوش ہو گیا، لیکن جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صفہ والوں کو بلا لاؤ۔ یہ سن کر میری وہ بات بھی گئی۔ صفہ میں چالیس پچاس اور کبھی ستر تک آدمی ہوتے تھے۔ مجھے یہ خیال آیا کہ صفہ والے آئیں گے تو مجھے اس دودھ میں سے کیا ملے گا۔ بہرحال حضور نبی کریمؐ کا حکم تھا، میں صفہ والوں کو بلا لایا۔ آپؐ نے فرمایا بیٹھ جاؤ۔ وہ تمام بیٹھ گئے۔ مجھے حضورؐ نے فرمایا کہ ان کو پلاؤ۔ میں نے کانپتے کانپتے ہاتھوں سے ان کو باری باری پلانا شروع کیا۔ جب وہ پی رہے تھے تو مجھے کچھ اطمینان ہو رہا تھا کیونکہ پیالا ویسے کا ویسا ہی بھرا ہوا تھا۔
جب وہ سب پی چکے تو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا ابو ہریرہ! تم پیو۔ میں نے پیا۔ آپؐ نے فرمایا پھر پیو۔ میں نے پھر پیا۔ آپؐ نے فرمایا پھر پیو۔ میں نے پھر پیا۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اتنا دودھ پیا اتنا پیا کہ مجھے آج بھی دودھ حلق میں اچھلتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس کے بعد جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی دودھ نوش فرمایا۔
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اس کیفیت میں بھی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس نہیں چھوڑی اور اپنا ذوق نہیں چھوڑا، میرا ایک ہی کام تھا، حدیثیں سننا، یاد رکھنا اور آگے لوگوں کو سنانا۔ یہ ذوق کی بات ہوتی ہے۔ اور ذوق کبھی بہت آگے بڑھ جاتا ہے۔
ہمارے ہاں جو جمعہ کا خطبہ ہوتا ہے اس سے پہلے علماء کرام تقریر کرتے ہیں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صرف خطبہ ہوتا تھا۔ خطبہ سے پہلے تقریر حضرت ابوہریرہؓ کی سنت ہے۔ حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت میں ایک دن حضرت ابو ہریرہؓ نے حضرت عثمانؓ سے کہا اے امیر المومنین! جمعہ کے دن لوگ جلدی آ جاتے ہیں اور آپ اپنے وقت پر آتے ہیں۔ لوگ فارغ بیٹھے رہتے ہیں، اجازت ہو تو کچھ حدیثیں سنا دیا کروں۔ حضرت عثمانؓ نے فرمایا، ہاں سنا دیا کرو۔ چنانچہ حضرت عثمانؓ کے آنے سے پہلے کچھ دیر حضرت ابو ہریرہؓ حدیثیں بیان کیا کرتے تھے۔ یوں عہدِ عثمانی سے جمعہ کی پہلی تقریر حضرت ابوہریرہؓ کی سنت چلی آرہی ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجدِ نبوی میں تشریف لائے۔ ہم کچھ دوست بیٹھے ہوئے حدیثوں کا مذاکرہ کر رہے تھے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں دیکھ کر خوش ہوئے اور فرمایا کہ آج تم میں سے جو آدمی اپنا دامن پھیلائے گا، میں کچھ پڑھوں گا، اور وہ اپنے سینے سے لگا لے گا، تو اللہ تعالیٰ اس کو ایسی یادداشت دے گا کہ کبھی کوئی بات نہیں بھولے گا۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے فوراً چادر پھیلائی۔ حضورؐ نے کچھ دعا فرمائی اور میں نے چادر سینے سے لگا لی۔ فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم! اس چادر کی ٹھنڈک آج بھی سینے میں محسوس ہو رہی ہے، اور اس دن کے بعد سے آج تک ایسا نہیں ہوا کہ میں نے کوئی بات یاد کی ہو اور بھول گئی ہو۔
حضرت ابوہریرہؓ ایک اور موقع کا ذکر کرتے ہیں کہ حضور نبی کریمؐ نے مجھ سے پوچھا ابوہریرہ! تمہارے لیے کیا دعا کروں؟ کیفیت یہ ہے کہ کھانے کو کچھ نہیں ہے، دو دو دن فاقہ سے گزرتے ہیں۔ لیکن عرض کیا یا رسول اللہ! ایک دعا کی درخواست ہے، اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میری یادداشت کو اتنا مضبوط کر دیں کہ آپ سے سنی ہوئی کوئی بات زندگی بھر کبھی نہ بھولوں۔
چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ میں حدیثیں سب سے زیادہ بیان کرتا ہوں تو اس کی ایک وجہ میری محنت اور ذوق ہے، اور دوسری وجہ یہ ہے کہ میرے پیچھے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس کے بعد کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے حضورؐ سے کوئی بات سنی ہو اور پھر کبھی میں وہ بات بھول گیا ہوں۔
امت میں حفاظِ حدیث ہر زمانے میں گزرے ہیں۔ محدثین کی ایک بڑی تعداد ہے جو دنیا میں ہر زمانے میں رہے ہیں۔ اگر ان کا شجرۂ نسب جوڑا جائے تو حضرت ابو ہریرہؓ کے ساتھ جا کر جڑے گا۔
ایک اور صحابی کے ذوق کا ذکر کرنا چاہوں گا، ان کا ذوق سب سے الگ تھا۔ حضرت حذیفہ بن الیمانؓ کا منفرد ذوق ہے۔ بخاری شریف میں وہ اپنا ذوق یوں بیان کرتے ہیں کہ لوگ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کی باتیں پوچھا کرتے تھے اور میں شر کی باتیں پوچھا کرتا تھا۔ ان کا ذوق تھا کہ پوچھتے یا رسول اللہ! خرابیاں کیسے پیدا ہوتی ہیں، ان کا علاج کیسے ہوتا ہے، فتنے کیسے کھڑے ہوں گے، جب فتنے آجائیں تو ہم نے کیا کرنا ہے؟ فرماتے ہیں میں شر کے بارے میں پوچھا کرتا تھا، اس ڈر سے کہ کہیں شر کا زمانہ مجھ پر آ جائے تو میں کیا کروں گا؟ اگر مجھے کسی فتنے کا سامنا کرنا پڑ جائے تو میں کیا کروں گا؟
بلکہ بخاری شریف کی روایت ہے کہ حضرت عمرؓ کی خلافت کا زمانہ ہے، لوگ بیٹھے ہوئے ہیں، حضرت حذیفہ بن الیمانؓ بھی تشریف فرما ہیں۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا کہ تم میں سے فتنوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ باتیں کس نے سنی ہیں کہ امت میں فتنے اور خرابیاں کیسے پیدا ہوں گی اور ان سے کیسے نمٹنا ہے؟
حضرت حذیفہؓ نے فرمایا: میں نے۔
حضرت عمرؓ نے فرمایا: مجھے پہلے ہی پتہ تھا تم یہ کہو گے۔
حضرت عمرؓ نے پوچھا کہ حضور نبی کریمؐ نے اس بارے میں کیا فرمایا تھا؟
حضرت حذیفہؓ نے کہا کہ حضورؐ نے فرمایا تھا کہ لوگوں میں خرابیاں پیدا ہوں گی، لیکن خرابیوں کے ساتھ ساتھ اصلاح بھی ہوتی رہے گی۔ آدمی گناہ کرے گا پھر نماز پڑھے گا تو نماز کی برکت سے گناہ معاف ہو جائے گا۔ کوئی شر کا کام کرے گا، اس کے بعد خیر کا کام کرے گا تو خیر کی برکت سے شر ختم ہو جائے گا۔ نیکیاں اور بدیاں چلتی رہیں گی۔ قرآن مجید کا قانون ہے ’’ان الحسنات یذہبن السیئات‘‘ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔
حضرت عمرؓ نے فرمایا: میں آپ سے یہ نہیں پوچھ رہا، یہ تو ہوتا رہتا ہے کہ نماز، روزہ اور حج گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔ میں ان فتنوں کے بارے میں پوچھ رہا ہوں جو امت میں سمندر کے طوفان کی طرح موج ماریں گے، یعنی اجتماعی فتنوں کے بارے میں پوچھ رہا ہوں۔
حضرت حذیفہؓ نے جواب دیا کہ آپ کو کوئی ڈر نہیں ہے۔ کیونکہ آپ کے اور فتنوں کے درمیان ایک بڑا مضبوط دروازہ ہے اور دروازہ بھی مغلق ہے۔ یعنی صرف بند نہیں ہے بلکہ لاک ہے۔ اس لیے آپ پریشان نہ ہوں، آپ مت گھبرائیں۔
حضرت عمرؓ ان کی بات سمجھ گئے۔ ان کی بات کا مطلب یہ تھا کہ آپ کے ہوتے ہوئے فتنے نہیں آئیں گے، آپ ان فتنوں کے لیے بڑی رکاوٹ ہیں۔
پھر حضرت عمرؓ نے ان سے پوچھا: یہ بتاؤ کہ وہ دروازہ کھولا جائے گا یا توڑا جائے گا؟ کوڈورڈ میں بات ہو رہی تھی۔ مطلب یہ کہ میری طبعی موت ہوگی یا شہادت ہو گی؟
حضرت حذیفہؓ نے کہا: وہ دروازہ توڑا جائے گا۔
اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اگر وہ دروازہ توڑ دیا گیا تو قیامت تک کبھی بند نہیں ہوگا۔
بعد میں کسی نے حضرت حذیفہؓ سے پوچھا کہ آپ آپس میں کیا باتیں کر رہے تھے، ہمیں سمجھ نہیں آرہی تھی؟ تو انہوں نے بتایا کہ میں نے حضرت عمرؓ سے کہا تھا کہ آپ کے ہوتے ہوئے کوئی فتنہ نہیں آئے گا۔ پھر انہوں نے پوچھا کہ میں طبعی موت مروں گا یا شہید ہوں گا تو میں نے کہا آپ شہید ہوں گے۔
بہرحال حضرت حذیفہؓ اپنا ذوق بیان کرتے ہیں کہ میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیشہ شر کے بارے میں پوچھا کرتا تھا۔
یہ بھی دین کا ایک مستقل شعبہ ہے۔ یہ ذوق کیا ہے؟ سوسائٹی میں، امت میں خرابیوں کو محسوس کرنا، ان کی نشاندہی کرنا، اس کا علاج تجویز کرنا اور متعلقہ لوگوں کو توجہ دلانا۔ میں اس کی ایک مثال دیتا ہوں کہ آج قرآن مجید کتابی شکل میں موجود ہے۔ قرآن مجید کو کتابی شکل میں کب لکھا گیا؟ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تو کتابی شکل میں نہیں تھا۔ قرآن مجید حضرت صدیق اکبرؓ کے زمانے میں لکھا گیا۔ رسول اللہ کے زمانے میں حفاظ بہت زیادہ تھے۔ جنگِ یمامہ میں ستر حفاظ شہید ہوئے تھے۔ اس وقت کوئی خطرہ بھی نہیں تھا۔
جب حضرت صدیق اکبرؓ کے زمانے میں جنگوں میں حفاظ صحابہ کرامؓ کی شہادت کی خبریں کثرت سے ملنے لگیں تو حضرت عمرؓ کو خطرہ محسوس ہوا کہ حفاظ شہید ہوتے جا رہے ہیں۔ قرآن مجید لکھا ہوا موجود نہیں ہے تو کل کہیں کوئی مسئلہ نہ کھڑا ہو جائے، کوئی الجھن نہ پیدا ہو جائے۔ چنانچہ آپؓ حضرت صدیق اکبرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا خلیفہ رسول اللہ! مجھے خطرہ محسوس ہو رہا ہے کہ حفاظ شہید ہوتے جا رہے ہیں، اور قرآن مجید لکھا ہوا موجود نہیں ہے تو کل کوئی پریشانی ہو سکتی ہے۔ اس لیے قرآن مجید کا ایک نسخہ لکھوا کر ریکارڈ میں رکھ لیں۔
حضرت صدیق اکبرؓ نے پہلے تو انکار کیا کہ جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا، میں بھی نہیں کرتا۔ لیکن حضرت عمرؓ نے کہا میں ٹھیک کہہ رہا ہوں۔ ضروریات ضروریات ہوتی ہیں اور خطرات خطرات ہوتے ہیں۔ ایک نسخہ لکھوا کر رکھ لیں، اگر خدانخواستہ کوئی الجھن پیش آ جائے تو ہم کیا کریں گے؟ بالآخر حضرت صدیق اکبرؓ مان گئے اور حضرت زید بن ثابت انصاریؓ، جو جناب نبی کریمؐ کے زمانے میں بھی وحی کے سب سے بڑے کاتب تھے، ان کو بلایا اور ان سے فرمایا کہ آپ عہدِ نبوی میں وحی لکھا کرتے تھے۔ اب قرآن مجید کا ایک نسخہ لکھ دیں۔ پہلے ان کو بھی بات سمجھ نہیں آئی۔ انہوں نے عرض کیا کہ حضرت! آپ یہ کیا کر رہے ہیں۔ لکھوانا ہوتا تو حضور نبی کریمؐ خود لکھوا لیتے۔ حضرت صدیق اکبرؓ نے فرمایا، میں ٹھیک کہہ رہا ہوں۔ حضرت عمرؓ نے تجویز دی ہے، میری سمجھ میں آگئی ہے۔ لہٰذا آپ ایک نسخہ لکھ دیں۔ چنانچہ حضرت زید بن ثابتؓ نے قرآن مجید کا سب سے پہلا نسخہ لکھا۔
مسجد نبوی میں ایک ستون کا نام ہے ’’اسطوانۃ المصحف‘‘ قرآن مجید کا ستون۔ اسے ’’اسطوانۃ المصحف‘‘ اس لیے کہتے ہیں کہ حضرت صدیق اکبرؓ نے حضرت زید بن ثابتؓ سے قرآن مجید کا ایک مکمل نسخہ لکھوا کر اس ستون کے ساتھ رکھوا دیا تھا، اور اعلان کر دیا تھا کہ جس کو قرآن مجید کی کسی آیت یا سورت کے بارے میں کوئی شبہ ہو تو وہ یہاں آکر اپنا شبہ دور کر لے، یہ معیاری نسخہ ہے۔ حضرت صدیق اکبرؓ کے دور میں اور حضرت عمرؓ کے دور میں وہ نسخہ وہاں موجود رہا۔ لوگ آتے تھے، تسلی کرتے تھے اور پھر وہاں رکھ دیتے تھے۔ اور اس بات کی بھی ضمانت تھی کہ قرآن مجید کا نسخہ لکھا ہوا موجود ہے، لہٰذا خطرے کی بات نہیں ہے۔ اگر کسی کو کسی آیت کے بارے میں کوئی شبہ ہو تو وہ یہاں سے دور کر سکتا ہے۔ حضرت عمرؓ کی شہادت کے بعد یہ نسخہ ام المومنین حضرت حفصہؓ کے پاس ان کی امانت میں چلا گیا۔
حضرت عثمانؓ کے دور میں قرآن مجید دوبارہ لکھا گیا۔ دوبارہ لکھنے کی کیا ضرورت پیش آئی؟ اس کا بڑا دلچسپ واقعہ ہے۔ پہلا نسخہ لکھوانے کا باعث حضرت عمرؓ بنے تھے اور دوسرا نسخہ لکھوانے کا باعث حضرت حذیفہ بن الیمانؓ بنے۔ وہ حضرت عثمانؓ کے زمانے میں آذربائیجان کے گورنر اور کمانڈر تھے۔ آذربائیجان ایران اور روس کے درمیان ایک ریاست ہے۔ اپنا لشکر لے کر سفر پر جا رہے تھے، راستے میں ایک جگہ قیام کیا۔
ایک روز صبح کی نماز پڑھی اور اس کے بعد اپنے معمولات میں مشغول تھے کہ تھوڑی دیر بعد ساتھ والے خیمے میں جھگڑا ہوگیا۔ آواز سن کر وہاں گئے اور دیکھا کہ دو آدمی گتھم گتھا ہیں، آپ نے ان کو چھڑایا اور پوچھا کہ کیا ہوا ہے خیر تو ہے؟ ان میں سے ایک نے کہا کہ میں قرآن مجید صحیح پڑھ رہا تھا اور یہ مجھے غلط بتا رہا تھا۔ حضرت حذیفہؓ نے دوسرے آدمی سے پوچھا، تو اس نے کہا کہ یہ غلط پڑھ رہا تھا اور میں صحیح بتا رہا تھا، یہ میری بات مانتا ہی نہیں تھا، اس پر ہمارا جھگڑا ہو گیا۔
ان کا جھگڑا کس نوعیت کا تھا؟ اس کو سمجھنے کے لیے دیکھیں کہ آپ بڑے قراء سے جب سنتے ہیں تو وہ مختلف قراءات میں قرآن مجید پڑھتے ہیں۔ یہ قراءات کا اور لغت کا اختلاف ہوتا ہے، قرآن مجید میں اختلاف نہیں ہوتا۔ ایک جملہ اس طرح بھی پڑھا جا سکتا ہے اور دوسری طرح بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ ان جھگڑنے والوں کا بھی اسی نوعیت کا اختلاف تھا۔ لڑنے والے دونوں عجمی تھے۔ زبان والوں کو تو لفظ کا فرق محسوس نہیں ہوتا، جبکہ دوسروں کو محسوس ہوتا ہے۔
میں اس کی چھوٹی سی مثال دیتا ہوں کہ ’’پشتو‘‘ اور ’’پختو‘‘ زبان والوں کے نزدیک ایک ہی ہے، ان میں کوئی فرق نہیں ہے، صرف تلفظ کا فرق ہے۔ لیکن دوسروں کے لیے یہ فرق ہے کہ پختو اور چیز ہے اور پشتو اور چیز ہے۔ اس طرح بہت سے چھوٹے موٹے فرق زبان والوں کے لیے کچھ نہیں ہوتے لیکن غیر زبان والوں کے لیے مسئلہ بن جاتے ہیں۔
میں اس کی ایک پنجابی کی مثال دیا کرتا ہوں کہ ایک لفظ ہے ’’کیویں‘‘۔ ہمارے گوجرانوالہ میں یہ لفظ اس طرح بولا جاتا ہے کہ ’’ایہہ گل کیویں اے یار‘‘۔ شکرگڑھ میں بولتے ہیں ’’کداں اے‘‘۔ جہلم میں بولتے ہیں ’’کنجو اے‘‘۔ آپ کے ٹیکسلا میں بولتے ہیں ’’کیاں‘‘۔ بعض جگہ بولتے ہیں ’’ککن‘‘۔ اب کیویں، کداں، کنجوں، کیاں، ککن، یہ زبان والوں کے لیے ایک ہی لفظ ہے، ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ لیکن کسی دوسری زبان والے کو کہیں گے تو وہ کہے گا کہ یہ ایک لفظ نہیں ہے۔
ان کا بھی کسی ایسی ہی بات پر جھگڑا تھا۔ ایک کہتا تھا یہ غلط پڑھ رہا تھا اور دوسرا کہتا کہ یہ مجھے غلط بتا رہا تھا۔ دونوں کی دلیل بھی بہت مضبوط تھی۔ ایک نے کہا میں کیسے غلط پڑھ سکتا ہوں، میں نے یہ آیت حضرت ابو الدرداءؓ سے شام میں خود پڑھی تھی، انہوں نے خود مجھے اس طرح پڑھائی تھی، میرا استاد کیسے کمزور ہو سکتا ہے؟ دوسرے نے کہا نہیں جناب! میں نے یہ آیت حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے کوفہ میں پڑھی تھی اور انہوں نے مجھے یوں پڑھائی تھی۔
حضرت حذیفہؓ نے ایک سے کہا کہ پڑھو کیا پڑھتے ہو؟ اس نے پڑھا تو آپ نے فرمایا کہ ٹھیک پڑھ رہے ہو۔ دوسرے سے کہا کہ اب تم پڑھو۔ اس نے پڑھا تو اسے بھی فرمایا کہ تم بھی ٹھیک پڑھ رہے ہو۔ فرمایا کہ آپس میں مت جھگڑو ،کوئی مسئلہ نہیں ہے، دونوں طرح پڑھنا درست ہے۔ گویا پختو اور پشتو کا فرق ہے۔
حضرت حذیفہؓ نے ان کا مسئلہ تو نمٹا دیا لیکن دل میں خیال پیدا ہوا کہ یہ چھوٹے چھوٹے فرق عربوں کے لیے تو فرق نہیں ہیں، لیکن عجمیوں کے لیے یہ بہت بڑے فرق ہیں۔ وہ تو ایک ایک لفظ پر لڑ کر مر جائیں گے اور قیامت تک لڑتے رہیں گے۔ حضرت حذیفہؓ کو یہ خطرہ محسوس ہوا۔
جب آپؓ مدینہ منورہ واپس گئے تو حضرت عثمانؓ کی خدمت میں رپورٹ پیش کی۔ عرض کیا کہ حضرت! میں نے یہ جھگڑا دیکھا ہے اور مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ عجمی لوگ قرآن مجید کے ایک ایک لفظ پر لڑیں گے، بڑا قتل و قتال ہوگا۔ اس لیے آپ امت کو سنبھال لیجیے اس سے پہلے کہ قرآن مجید کے جملوں اور لفظوں پر لڑنا شروع کر دیا جائے۔
یہ ایک مستقل ذوق ہے، میں اس کو ’’حذیفی ذوق‘‘ کہا کرتا ہوں۔ یعنی خطرہ محسوس کرنا کہ یہ خرابی پیدا ہونے لگی ہے، فلاں خرابی پیدا ہوتی نظر آ رہی ہے۔ اس لیے اس کا حل سوچنا اور متعلقہ لوگوں کو توجہ دلانا۔ حضرت عمرؓ نے بھی یہی کہا تھا کہ یہ خطرہ ہو سکتا ہے، اور حضرت حذیفہؓ نے بھی یہی کہا کہ یہ خطرہ ہو سکتا ہے۔
میں اس کی مثال یوں دیا کرتا ہوں کہ دنیا کے ہر ملک میں ماحولیات کا محکمہ ہوتا ہے۔ جو ہوا کو سونگھتا ہے، پانی اور مٹی چیک کرتا ہے اور جراثیم اور وائرس کی اطلاع کرتا ہے۔ یہ جراثیم اور وائرس دوسرے لوگوں کو نظر نہیں آرہے ہوتے، لیکن ان کو نظر آ رہے ہوتے ہیں اور وہ نشاندہی کرتے ہیں کہ فلاں وائرس بڑھ رہا ہے، اس لیے اس کو کنٹرول کریں ورنہ فلو کا خطرہ ہے۔ فلاں وبا اور بیماری کا خطرہ ہے۔ حالانکہ وہ پانی، فضا اور زمین چیک کرتے ہیں، اسی پانی اور فضا میں ہمیں تو جراثیم نظر نہیں آرہے ہوتے، ان کو نظر آ رہے ہوتے ہیں۔ اور یہ بھی غور کرنے کی بات ہے کہ اگر ماحولیات والے کسی ملک میں ایک مہینے کے لیے ہڑتال کر دیں تو شہروں کا کیا حشر ہو۔ فتنوں کی نشاندہی کرنے والے دینی محاذ پر ماحولیات والے ہیں۔ وہ سونگھتے رہتے ہیں کہ کہاں سے خطرہ پیدا ہو رہا ہے، کہاں سے خرابی پیدا ہو رہی ہے اور اس کا تدارک کیسے ممکن ہے۔
چنانچہ حضرت حذیفہ بن الیمانؓ نے حضرت عثمانؓ سے کہا امیرالمومنین! امت کو سنبھال لیجیے، اس سے پہلے کہ امت قرآن مجید کے ایک ایک لفظ پر لڑنے لگ جائے۔ حضرت عثمانؓ نے اس کا حل یہ نکالا کہ دوبارہ حضرت زید بن ثابتؓ کو بلایا اور ان سے فرمایا آپ نے پہلے قرآن مجید لکھا تھا، اب دوبارہ لکھیں۔ ان کے ساتھ دو تین حضرات اور شامل کر دیے اور فرمایا کہ آپ قرآن مجید دوبارہ لکھیں، لیکن ایک فرق کے ساتھ کہ اب آپ نے قرآن مجید مختلف لغات کا لحاظ کرتے ہوئے نہیں لکھنا، بلکہ قریش کی لغت اور لہجے میں لکھنا ہے۔ باقی لغات اور لہجے بھی ٹھیک ہیں لیکن وہ قرآن مجید کے متن کا حصہ نہیں بنیں گے، اور امت کو قرآن مجید کا یہ نسخہ ملے گا کیونکہ قرآن مجید قریش کی لغت پر نازل ہوا ہے۔
حضرت زید بن ثابتؓ قریشی نہیں بلکہ انصاری تھے۔ اس لیے ان کے ساتھ حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کو لگایا کہ جہاں آپ کا کسی لفظ کے تلفظ یا لہجے میں اختلاف ہو تو آپ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی مرضی پر لکھیں گے کیونکہ یہ قریشی ہیں۔ چنانچہ حضرت عثمانؓ نے قرآن مجید کے چھ سات نسخے دوبارہ لکھوائے جنہیں ’’مصحفِ عثمانی‘‘ کہا جاتا ہے، اور دنیا کے مختلف علاقوں میں بھجوا دیے کہ یہ ’’معیاری نسخے‘‘ ہیں۔ بلکہ امیر المومنین حضرت عثمانؓ نے حکم دیا کہ ان کے علاوہ اگر کسی کے پاس کوئی نسخہ لکھا ہوا ہو تو وہ اسے جلا دے۔ ان اسٹینڈر نسخوں میں سے، جو دنیا کے مختلف علاقوں میں بھجوائے تھے، آج بھی ، ان کی کاپیاں نہیں بلکہ اوریجنل نسخے موجود ہیں۔ قرآن مجید کے جس نسخے کی تلاوت کرتے ہوئے حضرت عثمانؓ شہید ہوئے تھے، استنبول کے توپکاپی میوزیم میں وہ اصل نسخہ موجود ہے۔
۱۹۸۵ء کی بات ہے میں ایک دفعہ لندن جاتے ہوئے چوبیس گھنٹے کے لیے قرآن مجید کا وہ نسخہ دیکھنے کے لیے استنبول میں رکا تھا، لیکن اللہ کی قدرت کہ میرے مقدر میں نہیں تھا، ان دنوں وہ میوزیم مرمت کے لیے ایک ہفتے کے لیے بند تھا، اس لیے میں نہیں دیکھ سکا۔ اب کبھی اللہ تعالیٰ موقع دیں تو اس کی زیارت کرنے کی نیت ہے۔ ان اصل نسخوں میں سے ایک نسخہ لندن میں ہے اور اسے دیکھنے کی سعادت مجھے حاصل ہوئی۔ قریب کے زمانے میں ہمارے معروف بزرگ گزرے ہیں حضرت سید نفیس الحسینی شاہؒ بڑے باذوق بزرگ تھے۔ کتاب کا ذوق بھی بہت عمدہ تھا اور کتابت کا ذوق بھی بہت عمدہ تھا۔ آپؒ چلتی پھرتی لائبریری تھے اور دنیا کے بڑے خوش نویسوں میں سے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ سعادت عطا فرمائی کہ حضرت شاہ صاحبؒ کی رفاقت میں وہاں گئے اور قرآن مجید کا وہ نسخہ ہاتھوں میں اٹھا کر دیکھا۔ اس کی ورق گردانی کی اور اس کے آخر میں مَیں نے پانچ چھ بادشاہوں کی مہریں دیکھی ہیں۔ وہ نسخہ سلطان سلیم اول کے پاس رہا، پھر دو صفوی بادشاہوں کے پاس تھا، پھر یہاں جہانگیر اور شاہ جہاں کے پاس آیا۔ اس پر ان سب کی مہریں موجود ہیں۔
جب انگریزوں نے برصغیر پر قبضہ کیا تو یہاں سے نوادرات اٹھا کر لے گئے اور وہاں محفوظ کر دیے تھے، ان میں قرآن مجید کا وہ نسخہ بھی شامل ہے۔ میں نے واپس آ کر اس پر کالم لکھا تھا۔ میں نے کہا کہ میں برٹش گورنمنٹ کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے وہ نسخے سنبھال لیے ہیں ورنہ ہم سے کہاں سنبھلنے تھے، ہمارا تو یہ ذوق ہی نہیں ہے۔
اور میں نے اس میں یہ لفظ خود پڑھے ’’کتبہ عثمان بن عفان‘‘ یہ قرآن وہ ہے جو عثمان بن عفان نے خود لکھا ہے۔ حضرت عثمانؓ کے ہاتھ کا لکھا ہوا قرآن مجید آج بھی موجود ہے۔ جب وہ قرآن مجید کا نسخہ میرے ہاتھوں میں تھا تو میں آسمان کی طرف دیکھ کر کہنے لگا کہ اے اللہ! تیری بے نیازی پر قربان کہ تو قرآن مجید کے اوریجنل نسخے کی حفاظت کن سے کروا رہا ہے، صرف حفاظت نہیں بلکہ جس طاقچے میں وہ قرآن مجید کا وہ نسخہ رکھا ہوا ہے اس کے اوپر انگریزی زبان میں لکھا ہوا ہے کہ یہ قرآن پاک کا وہ نسخہ ہے جو مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ ’’اوتمان‘‘ نے لکھا تھا، فلاں فلاں ذرائع سے ہوتا ہوا ہم تک پہنچا ہے، اور ہم اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔ ساتھ اس کی پوری سند متصل بیان کی ہوئی ہے۔ میں نے کہا یا اللہ! تو کس سے اس کی حفاظت کروا رہا ہے اور اس کے اوریجنل ہونے کی گارنٹی بھی کس سے دلوا رہا ہے، اللہ پاک بہت بے نیاز ذات ہے۔
میں نے صحابہ کرامؓ کے بیسیوں ذوقوں سے چند ایک کا ذکر کیا۔ امت کے سب سے بڑے قراء کرام کا ذکر کیا۔ پھر حدیث کے ذوق اور پھر فتنوں سے آگاہی کے حذیفی ذوق کا ذکر کیا۔ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ایمان اور اعمال میں ان کی طرف دیکھو، وہیں سے رہنمائی ملے گی اور اعتماد بھی وہیں سے ملے گا کیونکہ وہی اتھارٹی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحابہ کرامؓ کے کسی ذوق کی کوئی چھوٹی سی جھلکی نصیب فرما دیں تو ہمارا کام بن جائے گا۔