گزشتہ دنوں ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت کے شہداء کی یاد میں لاہور میں ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں مختلف مکاتب فکر کے زعماء نے عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا اور تحریک ختم نبوت کے حوالہ سے معروضی حالات اور تقاضوں پر روشنی ڈالی۔ تقریب کا اہتمام مجلس احرار اسلام پاکستان نے اپنے مرکزی دفتر میں کیا تھا اور اس کی صدارت امیر احرار پیر جی سید عطاء المہیمن شاہ بخاری نے کی۔ جبکہ خطاب کرنے والوں میں پروفیسر خالد شبیر احمد، چودھری ثناء اللہ بھٹہ، مولانا سید کفیل شاہ بخاری، سردار محمد خان لغاری، مولانا ریاض الرحمان یزدانی، مولانا سیف الدین سیف، پروفیسر ناظم حسنین، مولانا قاری محمد اکرام، چودھری ظفر اقبال ایڈووکیٹ اور عبد اللطیف خالد چیمہ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
پاکستان کے قیام کے بعد جب معروف قادیانی راہنما چودھری ظفر اللہ خان کو وزارت خارجہ کا منصب سونپا گیا تو دینی حلقوں میں اضطراب اور تشویش پیدا ہوئی کہ اس انتخاب کا فائدہ ان عالمی طاقتوں کے سوا کسی کو نہیں ہوگا جن کی نمائندگی قادیانی جماعت کرتی ہے اور ملک کے اندر بھی قادیانی جماعت کے اثر و رسوخ میں مزید اضافہ ہوگا جو دینی حوالوں سے پاکستان کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ چنانچہ ۱۹۵۲ء تک اس کے نتائج اس حد تک سامنے آچکے تھے کہ بیرون ملک پاکستان کے بہت سے سفارت خانے قادیانی مذہب کے فروغ اور ان کے اثر و نفوذ میں اضافے کا ذریعہ بن چکے تھے، اندرون ملک فوجی اور سول دونوں شعبوں میں قادیانی افسران نے کلیدی مناصب کا ایک اچھا خاصا حصہ کنٹرول کر لیا تھا اور قادیانی جماعت کے اس وقت کے سربراہ مرزا بشیر الدین محمود کی زبان پر بلوچستان کو قادیانی صوبہ بنانے کی بات کھلے بندوں آنے لگی تھی۔
اس پس منظر میں مجلس احرار اسلام نے اس سمت پیش رفت کی کہ تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء کو جمع کیا جنہوں نے باہمی مشاورت سے کل جماعتی ختم نبوت ایکشن کمیٹی تشکیل دی۔ وزیرخان مسجد لاہور کے بزرگ خطیب حضرت مولانا ابوالحسنات قادریؒ مجلس عمل کے سربراہ منتخب ہوئے اور مجلس عمل کے قائدین میں امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ، حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ، حضرت مولانا سید محمد داؤد غزنویؒ، حافظ کفایت حسین اور دیگر زعماء شامل تھے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے بھی قادیانی مسئلہ کے عنوان سے ایک مقالہ میں مسلمانوں کے موقف کی علمی انداز میں وضاحت کی جس پر ان کے خلاف بغاوت کے الزام میں مقدمہ درج ہوا اور انہیں سزائے موت سنائی گئی۔ کل جماعتی ختم نبوت ایکشن کمیٹی کے دو بنیادی مطالبے تھے:
- ایک یہ کہ قادیانیوں کو دستوری طور پر ملک میں غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے،
- اور دوسرا مطالبہ یہ تھا کہ چودھری ظفر اللہ خان کو وزارت خارجہ سے برطرف کیا جائے۔
اس وقت مرکز میں خواجہ ناظم الدین مرحوم وزیراعظم تھے اور پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا منصب میاں ممتاز محمد خان دولتانہ کے پاس تھا۔ ان کے درمیان اندرون خانہ کشمکش کی باتیں پریس میں آرہی تھیں اس لیے بعض حلقوں میں یہ تاثر بھی عام ہوا کہ اس تحریک کے پیچھے میاں ممتاز احمد خان دولتانہ کا ذہن کار فرما ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ محض قیاس آرائی تھی اصل بات قادیانی گروہ کی اندرون ملک اور بیرون ملک سرگرمیوں میں مسلسل اضافے اور اس کے لیے ریاستی مشنری اور وسائل کے استعمال پر دینی حلقوں کا بڑھتا ہوا اضطراب تھا جس نے انہیں سڑکوں پر لا کھڑا کیا۔ ایکشن کمیٹی نے اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے راست اقدام کے نام سے سول نافرمانی کا آغاز کیا اور حکومت نے تشدد کا راستہ اختیار کیا حتیٰ کہ عوام اور حکومت سڑکوں پر آمنے سامنے آگئے۔ لاہور میں مارشل لاء لگا دیا گیا اور عوام کو کنٹرول کرنے کا کام جنرل محمد اعظم خان کی قیادت میں فوج کے سپرد کر دیا گیا۔ اس کے باوجود عوام کو قابو میں نہ لایا جا سکا اور عوام کے مشتعل ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے اندھا دھند فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد شہید ہوگئے۔
لاہور کے پرانے بزرگوں کا کہنا ہے کہ عقیدۂ ختم نبوت اور ناموسِ رسالت کے تحفظ کے جذبہ سے سرشار نوجوان ختم نبوت زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہوئے سامنے آتے تھے اور سینہ تان کر گولی کا نشانہ بنتے تھے۔ اس تحریک کے بعد ملک بھر میں ہزاروں علماء کرام اور دینی کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا، بے شمار لوگ تشدد کا نشانہ بن کر شہید ہوئے اور اس کے ساتھ ہی مرکز اور صوبہ کی حکومتیں رخصت ہوگئیں۔ جسٹس محمد منیر کی سربراہی میں انکوائری کمیشن بنا جس نے کئی ماہ کی تحقیقات کے بعد اس تحریک کے اسباب و عوامل اور نتائج کے حوالہ سے رپورٹ پیش کی۔ خود میرے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر اور چچا محترم مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتی اس تحریک میں گرفتار ہوئے۔ میری عمر اس وقت پانچ برس کے لگ بھگ تھی لیکن مجھے والد محترم کی گرفتاری اور رہائی کے بعد گھر آنے کے واقعات اچھی طرح یاد ہیں بلکہ یہ نقشہ بھی ذہن میں ابھی تک موجود ہے کہ گکھڑ میں چھوٹے چھوٹے بچے ٹولیوں کی شکل میں گلیوں میں ’’خواجا ناجا (خواجہ ناظم الدین) ہائے ہائے‘‘ قسم کے نعرے لگایا کرتے تھے، ایک اور نعرہ مرزا غلام احمد قادیانی کے حوالہ سے ذہن میں ابھی تک گونج رہا ہے مگر شاید یہ سطور اس نعرہ کی متحمل نہ ہوں اس لیے اس کے تذکرہ سے گریز ہی مناسب ہے۔
اس تحریک کے بارے میں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ ناکام ہوگئی تھی لیکن تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میری رائے یہ ہے کہ اس تحریک نے اپنے مقاصد اس حد تک ضرور حاصل کر لیے تھے کہ قادیانی مسئلہ جو اس سے قبل صرف احراریوں کا مسئلہ سمجھا جاتا تھا وہ پورے ملک کے مسلمانوں کا مسئلہ بن گیا تھا اور تمام مکاتب فکر کے علماء کرام اور دینی کارکنوں نے اس کی اہمیت سے آگاہی حاصل کر کے اس میں شمولیت کو اپنی ذمہ داری قرار دے لیا تھا۔ اس کے علاوہ اس سے قبل قادیانی مسئلہ کو صرف مذہبی عقائد کے اختلاف کا مسئلہ اور فرقہ وارانہ معاملہ قرار دیا جاتا تھا لیکن ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت نے قادیانی مسئلہ کے سیاسی، معاشرتی اور قومی پہلوؤں کو اجاگر کر کے قوم کے تمام طبقات کو اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا۔
چنانچہ یہ اسی تحریک کے شہداء اور مجاہدین کی قربانیوں کا ثمرہ ہے کہ بالآخر ۱۹۷۳ء میں پوری قوم اور اس کی منتخب پارلیمنٹ نے اس موقف کو دستوری طور پر تسلیم کر لیا جس موقف کے کھلے بندوں اظہار پر اکیس برس قبل لوگوں پر گولیاں برسائی جاتی تھیں۔ ۱۹۷۴ء میں اسی موقف کو عوام کی منتخب پارلیمنٹ نے متفقہ فیصلے کے ذریعے ملک کے دستور کا حصہ بنا دیا اور دستور پاکستان میں ترمیم کر کے قادیانی گروہ کو غیر مسلم اقلیت کا درجہ دے دیا جسے قادیانی گروہ نے ابھی تک تسلیم نہیں کیا اور وہ پارلیمنٹ کے اس متفقہ دستوری فیصلے سے مسلسل منحرف ہے۔
مجلس احرار اسلام پاکستان ہر سال اس عظیم اور مقدس تحریک کے شہداء کی یاد مناتی ہے اور مختلف مکاتب فکر کے زعماء کو جمع کر کے شہداء ختم نبوت کو خراج عقیدت پیش کرنے کا اہتمام کرتی ہے جس سے عقیدہ ختم نبوت اور اس کے تحفظ کے تقاضوں کے ساتھ دینی حلقوں کی وابستگی بھی تازہ ہو جاتی ہے۔ راقم الحروف نے بھی اس تقریب میں اظہار خیال کیا اور جس بات پر سب سے زیادہ زور دیا وہ یہ تھی کہ آج ہم امریکہ کی ریموٹ کنٹرول غلامی کے جس شکنجے میں جکڑے ہوئے امریکی احکامات و خواہشات کے آگے بے بسی کی تصویر بن کر رہ گئے ہیں، یہ شکنجہ تیار کرنے کا کام سب سے پہلے چودھری ظفر اللہ خان نے ہی شروع کیا تھا جنہیں ملک کا وزیرخارجہ بنانے پر دینی حلقے شروع سے معترض تھے اور جن کی برطرفی کا مطالبہ ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت کے اہم اہداف میں شامل تھا۔
ہم اپنی خارجی پالیسی کے حوالہ سے آج جس مقام پر کھڑے ہیں اور ہمیں اس میں آگے بڑھنے، پیچھے مڑنے یا دائیں بائیں دیکھنے کا بھی کوئی راستہ نہیں مل رہا، اس خارجہ پالیسی کے اولین معمار آنجہانی چودھری ظفر اللہ خان ہیں اور ان کی بوئی ہوئی فصل آج پوری قوم کو کاٹنا پڑ رہی ہے۔ اس سے جہاں قومی اور بین الاقوامی سطح پر قادیانیوں کے سیاسی کردار کے صحیح رخ کی نشاندہی ہوتی ہے وہاں اس دور کی دینی قیادت کی بصیرت و فراست کا بھی اندازہ ہو جاتا ہے جنہوں نے ان تلخ نتائج سے قوم کو بروقت آگاہ کر دیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم نے کسی موقع پر بھی دینی قیادت کی بصیرت و سیاست کو اپنے قومی فیصلوں کی بنیاد نہیں بنایا اور ہر بار تلخ نتائج بھگتنے کے باوجود ہم اب بھی اپنی روش پر نظرثانی کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں۔