بعد الحمد والصلوٰۃ۔ اللہ رب العزت نے انسانوں کو مزاج مختلف دیے ہیں، عقلیں مختلف دی ہیں، طبیعتیں مختلف دی ہیں، اور ان کی نفسیات الگ الگ ہے۔ احکام تو سب کے لیے ہیں لیکن کسی کے بارے میں فیصلہ کرتے وقت اور رائے قائم کرتے وقت اس کا مزاج، ذوق اور نفسیات بھی دیکھنا پڑتی ہے۔ اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کا لحاظ فرماتے تھے۔ ایک آدمی کے ساتھ رویہ کچھ اور ہے، دوسرے سے ذرا مختلف ہے، بیسیوں واقعات ہیں۔
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ ذکر کیا کہ ’’حبب الی من الدنيا ثلاث‘‘ مجھے پوری دنیا میں سے تین چیزیں زیادہ پسند ہیں: (۱) ’’النظر الیٰ وجہ رسول اللہ‘‘ رسول اللہ کا چہرہ سامنے ہو اور میں دیکھتا رہوں۔ (۲) ’’ انفاق مالی علیٰ رسول اللہ‘‘ میں جو کماؤں اسے حضورؐ خرچ کریں، میرا مال رسول اللہ کے کام آئے۔ (۳) ’’وان يکون ابنتی تحت رسول اللہ‘‘ اور میری بیٹی حضورؐ کے نکاح میں ہو۔
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنا ذوق ذکر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہوں اور میں سامنے بیٹھا دیکھتا رہوں، میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے۔ اللہ پاک نے انہیں اس کا موقع بھی دیا۔ زندگی میں بھی رفاقت، قبر میں بھی رفاقت، حشر میں بھی ہو گی، اور جنت میں تو ہو گی ہی۔ لیکن یہ ذوق کی بات ہے کہ ’’النظر الیٰ وجہ رسول اللہ‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت صدیق اکبرؓ کے یہ تینوں ذوق پورے کر دیے کہ حضورؐ کا چہرہ ہو اور میں دیکھتا رہوں، میرا مال حضورؐ پر خرچ ہو، اور میری بیٹی حضورؐ کے نکاح میں ہو۔
ایک واقعہ بخاری شریف میں آتا ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں جا رہے تھے، دوپہر کا وقت تھا، پہاڑی پر ایک چرواہا لڑکا دیکھا تو اس سے دودھ مانگا۔ اس نے ایک بکری کا دودھ نکالا۔ فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس مٹی کا ایک پیالہ تھا، اس کے اردگرد پانی ڈال کر کچھ ٹھنڈا کیا کہ تازہ تازہ دودھ گرم ہوتا ہے۔ پھر میں نے یہ دودھ حضورؐ کو پیش کیا۔ آپؐ نے پیا۔ میں نے کہا یا رسول اللہ اور پئیں۔ حضورؐ نے میرے اصرار پر اتنا پیا کہ ’’حتیٰ رضیت‘‘ میں راضی ہو گیا۔ یہ بھی ذوق کی بات ہے کہ دودھ حضورؐ نے پیا اور خوش حضرت صدیق اکبرؓ ہو گئے۔
اس کے بعد ایک ذوق یہ بھی ہے کہ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرۂ انور کیسا تھا؟ فرمایا کہ میں نہیں بیان کر سکتا۔ پوچھا گیا کہ اس کی کیا وجہ ہے؟ وجہ یہ بیان کی کہ جب میں دشمن تھا تو اتنی نفرت تھی کہ دیکھنے کو جی نہیں چاہتا تھا اس لیے غور سے دیکھا نہیں۔ اور اسلام قبول کر کے آپؐ کے قدموں میں آیا تو اتنا رعب تھا اور اتنی ہیبت تھی کہ کبھی یوں آنکھ اٹھا کر دیکھنے کا حوصلہ ہی نہیں ہوا۔ اس لیے میں نہیں بیان کر سکتا کہ حضورؐ کا چہرہ مبارک کیسا تھا۔ یعنی دشمنی میں اُس وجہ سے نہیں دیکھ سکے، اور محبت میں اِس وجہ سے نہیں دیکھ سکے۔ اب یہ نہ دیکھنا بھی ذوق ہے، یہ بھی محبت کا تقاضا ہے۔ دیگر صحابہ کرامؓ نے بیان کیا ہے کہ حضورؐ کا ناک کیسا تھا، کان کیسے تھے، اور باقی تفصیل۔
محبت کا ایک اور ذوق بھی دیکھ لیں کہ مدینہ منورہ میں کوئی فوت ہو اور حضورؐ حیات ہوں تو کسی کا جی چاہتا ہے کہ حضورؐ اس کے جنازے میں نہ آئیں؟ ایک صحابی مدینہ میں یہودیوں کے علاقے میں رہتے تھے، انصاری خاندان تھا، فوت ہوتے ہوئے کہہ گئے کہ میرا جنازہ رات کو ہوا تو حضورؐ کو نہیں بلانا۔ کسی نے پوچھا کیوں؟ لوگوں نے سمجھا شاید منافق ہو گیا ہے۔ کہا، میں منافق نہیں ہوں یار۔ رات کا وقت ہے اور دشمنوں کا علاقہ ہے، ایسا نہ ہو کہ حضورؐ کو کوئی دشمن تکلیف پہنچا دے اور اس کی وجہ میں بن جاؤں۔ اب ایک مسلمان یہ کہہ رہا ہے کہ رات کے وقت حضورؐ کو نہیں بتانا اور میرا جنازہ حضورؐ سے نہیں پڑھوانا۔ یہ بھی محبت کی علامت ہے کہ حضورؐ جنازے کے لیے ضرور تشریف لائیں گے، تو کوئی دشمن نقصان نہ پہنچا دے۔
میں عرض کیا کرتا ہوں کہ ذوق اور طبعیتیں اللہ پاک نے مختلف بنائی ہیں، کسی آدمی کے بارے میں شخصی فیصلہ کرتے ہوئے اس کا ذوق و مزاج اور اس کی نفسیات کا لحاظ بھی کریں گے کہ یہ کام اس نے کیوں کیا ہے، ویسے ہی فتویٰ نہیں لگا دیں گے۔