نئے ہجری سال کا آغاز ہو گیا ہے، محرم الحرام شروع ہے اور ہمارے ہاں محرم الحرام کا آغاز سیدنا حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی شہادت کے تذکرے سے ہوتا ہے کہ یکم محرم ان کا یوم شہادت ہے۔ ان کا عقیدت کے ساتھ، محبت کے ساتھ تذکرہ کیا جاتا ہے اور ان کی اتباع اور پیروی کا عزم کیا جاتا ہے۔ اس مناسبت سے میں چند باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔
سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ایک تو ہم مسلمانوں کی عقیدت اور محبت ہے الحمد للہ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اور ان کے بعد فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ، پھر حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، پھر حضرت علیٰ مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، یہ ہمارے چار بڑے بزرگ ہیں جو ترتیب سے امت کے خلفائے راشدین ہیں اور امت کے سردار ہیں۔ لیکن میں اس سے تھوڑا سا ہٹ کر عالمی ماحول میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا تعارف کیا ہے، اور آج کی گلوبل دنیا میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کس حوالے سے یاد کیا جاتا ہے، اس پر دو تین شہادتیں ذکر کرنا چاہوں گا۔
(۱) ہمارے ہاں پاکستان بننے سے پہلے جب انگریزوں کا دور تھا، متحدہ پاکستان نہیں بنا تھا، سارا ہندوستان اکٹھا تھا اور انگریزوں کی حکومت تھی، تو انہوں نے ۱۹۳۷ء-۱۹۳۶ء میں صوبوں میں الیکشن کروائے تھے۔ بڑی پارٹیاں دو تھیں: کانگریس اور مسلم لیگ۔ کچھ صوبوں میں کانگریس کی حکومت قائم ہوئی تھی، کچھ میں مسلم لیگ کی (اتحادی)۔ کانگریس کی حکومتیں (گیارہ میں سے) سات صوبوں میں قائم ہوئی تھیں۔ کانگریس کے لیڈر تھے گاندھی جی۔ اس وقت ان کا رسالہ ’’ہریجن‘‘ باقاعدہ چھپتا تھا اور ان کا پارٹی آرگن تھا۔ اس میں گاندھی جی نے اپنی حکومتوں کو ہدایات دیں کہ یہ کرنا ہے، یہ کرنا ہے، یہ کرنا ہے۔ اس میں ایک بات یہ تھی کہ اگر تم انصاف کے ساتھ حکومت کرنا چاہتے ہو اور لوگوں کے تقاضے انصاف کے ساتھ پورے کرنا چاہتے ہو تو دو شخصیتوں کا مطالعہ بھی کرو اور فالو بھی کرو: حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ بطور آئیڈیل کے ان کو دیکھو کہ انہوں نے کیسے حکومت کی تھی، ان کو سامنے رکھ کر حکومت کرو گے تو انصاف کے تقاضے پورے کرو گے۔ ایک شہادت یہ ہمارے ریکارڈ پر ہے۔
(۲) یورپ میں سوشل بینیفٹس کا سسٹم نافذ ہے جس کو ویلفیئر سٹیٹ کہتے ہیں، فلاحی ریاست کہتے ہیں کہ حکومت اپنی ریاست میں امن و امان، انصاف کے تقاضے، ان کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے ساتھ ساتھ کفالت کی ذمہ داری بھی سنبھالتی ہے کہ جن کو زندگی کے اسباب نہیں ملیں گے انہیں ہم مہیا کریں گے۔ ویلفیئر سٹیٹ کا مطلب یہ ہے کہ ملک کے جن لوگوں کو وسائل میسر نہیں ہیں حکومت ان کی کفالت کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ جیسے برطانیہ ہے، اور ملک بھی ہیں۔ تو یہ ویلفیئر سٹیٹ کا جو سسٹم ہے اس کے حوالے سے ایک شہادت میں عرض کرنا چاہوں گا۔
ہمارے وزیر آباد کے سابق ایم این اے چوہدری افتخار چیمہ ہمارے دوست ہیں، حیات ہیں، اللہ پاک سلامت رکھے۔ انہوں نے یہ واقعہ خود بیان کیا کہ پاکستان بننے کے بعد وہ کیمبرج میں قانون کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ بعد میں وہ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک پرانا انگریز تھا، چند طلباء اس سے ملنے کے لیے گئے، پاکستان نیا نیا بنا تھا، وہ کوئی نوے سال کی عمر کا پرانا انگریز تھا، پارلیمنٹ کا سابق ممبر تھا۔ اس نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کے حوالے سے ان کو ایک واقعہ سنایا کہ دیکھو، برطانیہ میں یہ جو سوشل بینیفٹس کا سسٹم ہے، وظیفوں کا، مزدوروں کو، بے روزگاروں کو، محتاجوں کو حکومت جو خرچہ دیتی ہے، ان کے وسائل مہیا کرتی ہے، ذمہ داری اٹھاتی ہے، تو یہ سوشل بینیفٹس کا سسٹم برطانوی پارلیمنٹ کی جس کمیٹی نے مرتب کیا تھا، میں اس کا چیئرمین تھا، آپ پاکستان سے آئے ہو تو میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہ فلاحی ریاست کا سسٹم ہم نے حضرت عمرؓ سے لیا تھا۔ سوسائٹی میں جو لوگ اپنی ضروریات پوری نہیں کر سکتے، وہ ریاست کو پوری کرنی چاہئیں۔ اور ہم نے اپنا سارا سسٹم حضرت عمرؓ کے اس سسٹم کو سامنے رکھ کر ڈیزائن کیا تھا جو آج برطانیہ میں چل رہا ہے۔ یہ حضرت عمرؓ کی فلاحی ریاست، حضرت عمرؓ کی جو ویلفیئر سٹیٹ کا جو نظام تھا، آج کی دنیا میں اس کا تعارف یہ ہے۔
(۳) پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے ہیں جناب محمد رفیق صاحب مرحوم، اللہ پاک مغفرت فرمائے۔ پنجاب یونیورسٹی کے ایک پروگرام میں، میں بھی اس میں موجود تھا، انہوں نے یہ کہا کہ وہ جب ایک دفعہ ناروے گئے اپنے کسی معاملے میں تو ناروے میں دیکھا کہ بچوں کو جو وظیفہ ملتا ہے اس کو ’’’عمر الاؤنس‘‘ کہتے ہیں۔ مجھے تعجب ہوا کہ یہ عمر الاؤنس! پھر پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ ناروے کے دستور میں جو سوشل بینیفٹس کا سسٹم ہے اس کو عمر الاؤنس کہتے ہیں۔ تو کہتے ہیں مجھے تجسس ہوا، میں نے پتہ کیا، انہوں نے کہا بات یہ ہے کہ یہ ویلفیئر سٹیٹ کا اور لوگوں کی ضروریات کی کفالت کرنے کا جو سلسلہ ہے، یہ ہم نے جنرل عمرؓ سے لیا ہے، تو ہم نے کہا کہ جس سے لیا ہے پھر نام بھی اس کا، ٹائٹل بھی اسی کا ہونا چاہیے، تو یہاں یہ ’’عمر الاؤنس‘‘ کہلاتا ہے اور ’’عمر لاء‘‘ کہلاتا ہے۔
یہ تو میں نے آج کی دنیا کی تین بین الاقوامی اور عالمی سطح کی شہادتیں پیش کی ہیں، ایک شہادت اپنی بھی شامل کروں گا۔
(۴) ہمارے سابق چیف جسٹس، جسٹس افتخار چوہدری، حیات ہیں، اللہ پاک سلامت رکھے، انہوں نے اپنے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ہونے کے حوالے سے اس زمانے میں ایک کیس کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے جو ریکارڈ پر ہیں، انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہمارا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے، اور ہماری سب سے بڑی ضرورت گڈ گورننس کی ہے۔ انہوں درست فرمایا، ان کی بات آج کی ہماری معاشرتی اور معروضی صورتحال کی صحیح عکاسی کرتی ہے، ہمارا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے، ہر لیول پر، ہر دائرے میں، ہر شعبے میں، اور ہماری سب سے بڑی ضرورت گڈگورننس کی ہے۔ اگلا جملہ ان کا یہ تھا کہ گڈگورننس سیکھنے کے لیے ہمیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو فالو کرنا ہوگا۔ وہیں سے گڈ گورننس ملے گی اور وہیں سے پتہ چلے گا کہ انصاف کیا ہوتا ہے۔
یہ میں نے عرض کیا ہے کہ آج کی دنیا میں حضرت عمرؓ کا تعارف کیا ہے اور آج کی گلوبل انسانی سوسائٹی میں حضرت عمرؓ کو کس نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اللہ پاک ہماری حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی محبت و عقیدت میں اضافہ فرمائے اور ہمیں ان کی خدمات کی پیروی کرنے کی اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)