(مرکزی جامع مسجد اہلِ سنتؒ گکھڑ میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام بعد نمازِ مغرب ’’ختم نبوت سیمینار‘‘ سے خطاب)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ابھی حضرت مولانا محمد اسماعیل شجاع آبادی نے ۲۸ ستمبر ۲۰۲۵ء کو منی اسٹیڈیم گوجرانوالہ میں عالمی مجلس تحفظِ ختمِ نبوت کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی عظیم الشان ختمِ نبوت کانفرنس کی تیاریوں کا ذکر کیا ہے اور آپ سب حضرات کو اس میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ میں بھی ان کی تائید کرتے ہوئے اور کانفرنس میں شرکت اور اس کی کامیابی کے لیے بھرپور جدوجہد کی گزارش کرتے ہوئے چند معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتیازات و خصوصیات میں تین باتوں کا بطور خاص ذکر کیا جاتا ہے: ایک یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پوری نسلِ انسانی کے لیے ہے، جبکہ پہلے انبیاء کرام علیہم السلام اپنی اپنی اقوام اور علاقوں کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ دوسری یہ کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کا دور قیامت تک ہے۔ اور تیسری یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور آپؐ کی تشریف آوری کے ساتھ ہی نبوت و رسالت کا سلسلہ مکمل ہو گیا تھا، اب قیامت تک کوئی نبی یا رسول نہیں آئے گا اور نہ ہی وحی نازل ہو گی۔
اس پس منظر میں دو تین کام امت کے ذمے منتقل ہو گئے ہیں اور چونکہ کوئی نیا نبی نہیں آئے گا اس لیے وہ کام امت نے ہی کرنے ہیں:
پہلا کام تو دعوت و تبلیغ کا ہے کہ پوری نسلِ انسانی تک دین کی دعوت اور پیغام، جیسا کہ ہمارے تبلیغی دوست فرمایا کرتے ہیں، امت نے ہی پہنچانا ہے اور یہ امت کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔
دوسرا کام یہ کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی وحی اور تعلیمات کی حفاظت اور انہیں پوری طرح اگلی نسلوں تک پہنچانے کا کام پہلے بھی امتیں ہی کیا کرتی تھیں اور انہی کے ذمہ یہ کام لگایا گیا تھا ’’بما استحفظوا من کتاب اللہ‘‘ مگر یہ سہولت موجود تھی کہ اگر کہیں کوئی گڑبڑ ہو جاتی تو نبوت کا سلسلہ جاری ہونے کی وجہ سے آنے والے پیغمبر اس کی اصلاح کر دیا کرتے تھے۔ اب یہ سہولت موجود نہیں ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی وحی اور اس کی تعبیر و تشریح میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعبیرات و تشریحات اور اسوہ حسنہ کی حفاظت اور اسے ہر حالت میں مکمل طور پر محفوظ رکھنا اور اگلی نسل تک پورے کا پورا منتقل کرنا امت ہی کے ذمہ ہے۔
جبکہ تیسرا کام دین کا دفاع ہے کہ اسلامی عقائد و تعلیمات اور احکامات پر ہونے والے حملوں اور اعتراضات کا مقابلہ کرنا اور دین کی ہر بات کا دفاع کرنا ہے، عالم اسباب میں دین کے تسلسل اور حفاظت کے لیے لازمی ہے۔
ہمارے آج کے ماحول میں یہ تین بڑے کام تین دائروں میں تقسیم ہیں اور امت کے طبقات نے ان کاموں کو سنبھال رکھا ہے۔ مثلاً دین کی دعوت و تبلیغ کا کام تبلیغی جماعت اور اس نوعیت کی محنت کرنے والے دیگر حلقوں نے سنبھال رکھا ہے۔ وحی الٰہی اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و تشریحات کو محفوظ رکھنے اور اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کا کام دینی مدارس اور علماء کرام کر رہے ہیں۔ جبکہ دینی عقائد، احکام اور روایات و اقدار کے دفاع اور ان پر کیے جانے والے حملوں اور اعتراضات کے دفاع میں دینی جماعتیں اور حلقے ہر دور کی طرح آج بھی متحرک ہیں اور قیامت تک ان شاء اللہ تعالیٰ متحرک رہیں گے۔
دین کے دفاع کے اس دائرہ میں آج ہمارا سب سے بڑا مورچہ عقیدۂ ختمِ نبوت کے تحفظ کا ہے، اس لیے کہ جو بھی نبوت کا دعویٰ کر کے وحی کی بات کرتا ہے وہ دین کی جڑوں کو ہلا دینے کی آواز لگاتا ہے کیونکہ نبی کے تبدیل ہونے سے دین بدل جاتا ہے اور مرکزِ اطاعت تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس محاذ پر بہت سی جماعتیں کام کر رہی ہیں مگر ہمارا سب سے بڑا مورچہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ہے جو خود بھی کام کرتی ہے اور بوقت ضرورت دیگر جماعتوں اور مسالک کو جمع کر کے متحدہ جدوجہد کا ماحول بھی فراہم کرتی ہے۔ ۲۸ ستمبر کی کانفرنس اس سلسلہ میں ہو رہی ہے جس میں ہم سب کو تعاون اور شرکت کا اہتمام کرنا چاہیے۔
اس سلسلہ میں ایک اور بات کی طرف بھی توجہ دلانا چاہوں گا کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت میں نبوت اور وحی کے عنوان سے کھڑے ہونے والے فتنوں اور افراد کو جہاں کذاب کہا ہے وہاں ان کے لیے دجال کی اصطلاح بھی ارشاد فرمائی ہے، اس کو سمجھنا ہم سب کے لیے بہت زیادہ ضروری ہے۔ ’’دجل‘‘ کا معنی سب جانتے ہیں کہ ہیر پھیر اور دھوکے سے کام کرنا، دجال کبھی سیدھی بات نہیں کرے گا بلکہ وہ گول مول اور ہیر پھیر کی باتیں کر کے لوگوں کو اپنے فریب کا شکار بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس لیے قادیانیوں کے دعاوی اور محنت کو صحیح طور پر سمجھنے اور ان کا پوری طرح مقابلہ کرنے کے لیے ان کے دجل و فریب کو سمجھنا بھی ضروری ہے کہ ان کا طریق واردات کیا ہے۔ کام کے میدان کون کون سے ہیں ان کے پشت پناہ اور سہولت کار کون ہیں اور ان کے ہتھیار کیا کیا ہیں؟ اللہ تعالیٰ ہم سب کو پورے شعور اور حوصلہ کے ساتھ اس جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالنے اور کردار ادا کرنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔