مغربی تمدن اور علاقائی ثقافتوں کے درمیان اسلامی تعلیمات کی معتدل راہ

   
ادارۃ الحسنات میڈیا آفیشل
۳۰ جولائی ۲۰۲۵ء

حافظ عمر فاروق بلال پوری:

استاذ جی، ایک طرف مغربی کلچر جو آزادی کے نام پر بے حیائی اور خاندانی نظام کی تباہی کا سبب بن رہا ہے، اور دوسری طرف جہالت پر مبنی فرسودہ رسم و رواج، ظلم، جبر، اور انسانی حقوق کی پامالی کو غیرت کا نام دیتے ہیں، تو ان دونوں انتہاؤں سے بچ کر قرآن و سنت کی معتدل راہ کیا ہو سکتی ہے؟

مولانا زاہد الراشدی:

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ مذہب اور کلچر میں فرق کیا ہے؟ دین کی بنیاد ہوتی ہے وحی پر، آسمانی تعلیمات پر۔ کلچر کی بنیاد ہے سوسائٹی کی روایات پر، جو کسی بھی معاشرے میں روایات قائم ہو جاتی ہیں، کسی وجہ سے، علاقائی کی وجہ سے، موسم کی وجہ سے، اپنی ضروریات کی وجہ سے۔ کلچر کی بنیاد سوسائٹی ہے اور دین کی بنیاد وحی الٰہی ہے۔

اب کلچر جو ڈیویلپ ہوتا ہے، علاقائی روایات سے، قبیلے کی روایتیں ہیں جی، برادری کی روایات ہیں جی، یہ کیا قابلِ قبول ہے یا نہیں؟ اس میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوۂ حسنہ یہ ہے کہ جب حضورؐ تشریف لائے تو عرب معاشرہ ایک کلچر پہ چل رہا تھا، جس کو قرآن پاک نے جاہلیت سے تعبیر کیا ہے، جاہلی کلچر، اور وہاں سے نکالا ہے۔ میں ایک بات عرض کیا کرتا ہوں کہ کیا کلچر کی ساری باتیں حضورؐ نے رد کی ہیں، یا ساری قبول کی ہیں؟ نہیں، چھانٹی کی ہے۔

کلچر کی بنیاد یہ ہے کہ جو روایت کسی برادری کی، قبیلے کی، خاندان کی، علاقے کی بن جائے، اگر وہ عقائد سے متصادم نہیں ہے تو حضورؐ نے بہت سی چیزیں قبول کی ہیں، میں بیسیوں کی مثالیں دے سکتا ہوں، اور بہت سی بالکل رد کی ہیں۔ ایک مثال یہ ہے کہ عربوں میں ٹونا ٹوٹکا، یہ دم درود بہت ہوتا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرما دیا، بالکل پابندی، کوئی دم وم نہیں، کوئی تعویذ نہیں، کچھ نہیں۔ جب دیکھا کہ منع کی عادت پڑ گئی ہے، فرمایا ’’اعرضوا علیّ رقاکم‘‘ آؤ مجھے بتاؤ بھئی کیا کیا پڑھتے ہو؟ یہ ٹھیک ہے، یہ ٹھیک نہیں۔ یہ پڑھ لیا کرو، یہ نہیں پڑھا کرو۔ یہ شرکیہ ہے، یہ صحیح ہے۔

تو ہماری بنیاد یہ ہے کہ روایات میں سے جو روایات عقیدے کے خلاف نہیں ہیں، ہمارے اصول کے خلاف نہیں ہیں، ان روایات کو ہم نے ایڈجسٹ کیا ہے۔ لیکن جو عقیدے کے خلاف ہیں، جو دین کے خلاف ہیں، ان کو حضورؐ نے قبول نہیں کیا اور نہ ہی قبول کیا جا سکتا ہے۔ ایک تو یہ اصولی بات ہے۔

آج کل کیا ہو رہا ہے؟ مغرب ہٹ دھرمی پہ آ گیا ہے۔ مغرب جس کو عالمی نظام کہتا ہے نا، انسانی حقوق کا چارٹر یا بین الاقوامی قانون؛ علاقائی روایات اور کلچر کے تحفظ کی وہاں بھی ضمانت ہے، کہ قوموں کو اپنے کلچر کی حفاظت (کا حق ہے) جو بین الاقوامی قانون سے نہ ٹکرائیں، یہاں بھی مسئلہ یہ ہے کہ بعض جگہ کلچر ضد کر جاتا ہے، بعض جگہ بین الاقوامی ادارے ضد کر جاتے ہیں۔

ہمارے بارے میں ان کا رویہ بالکل مختلف ہے، متضاد ہے۔ وہ اسلام کو بطور عقیدہ اور مذہب تو برداشت کرتے ہیں، بطور سماجی نظام کے برداشت نہیں کرتے۔ ہمارے بارے میں مغرب کا رویہ یہ ہے کہ ٹھیک ہے نماز پڑھو، توحید کی بات کرو، رسالت کی بات کرو، لیکن اس کا عملی زندگی سے تعلق کوئی نہ ہو، اس کا معاشرے میں کہیں (بطور نظام کے کردار نہ ہو)۔ لیکن ہمارا الحمد للہ ماحول یہ ہے کہ آپ دنیا میں جہاں کہیں بھی چلے جائیں، مسلمان اپنے معاملات کے لیے قرآن و سنت پر یقین بھی رکھتے ہیں، اور قرآن و سنت کو ترجیح بھی دیتے ہیں۔ بالخصوص آج کل سب سے بڑا موضوع خاندانی نظام ہے۔ خاندانی نظام میں نکاح، طلاق، وراثت، یہ بنیادی مسائل ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی جائیں، یہ فرق تو ہو گا کہ یہ شافعی فقہ ہے، یہ حنبلی فقہ ہے، یہ ظاہری فقہ ہے، یہ حنفی فقہ ہے، لیکن مسلمان یہ معاملات اپنے مذہب کے مطابق طے کرتے ہیں۔ مغرب کی کوشش یہ ہے کہ یہ مذہب سے دستبردار ہو جائیں۔ یہ قابلِ قبول ہمارے لیے نہیں ہے۔

اور تیسری بات میں یہ عرض کروں گا کہ اصل میں اس کو کنٹرول کرنے کا کام ہے ریاستوں کا۔ تیسری گزارش میں نے یہ کی ہے کہ اصل میں ان سارے معاملات کو چیک کرنا اور کنٹرول کرنا ریاستوں کا کام ہے۔ ریاستیں اپنا کردار ادا نہیں کر رہیں۔ ہمارے ریاستی نظام جو ہیں، یا ریاستی طبقات، حکمران طبقات، یہ مغرب کے تعلیم یافتہ ہیں، مغرب سے متاثر ہیں، عقیدہ قرآن پہ رکھتے ہیں، اور عمل مغرب سے سیکھا ہے، تو وہ اپنا کردار ادا نہیں کر رہے، جو ان کا فرض بنتا ہے۔ بالخصوص پاکستان کی بنیاد، دستور کی بنیاد قرآن و سنت پر ہے، کہ مغرب سے آنے والی وہ چیزیں جو قرآن و سنت کے خلاف ہیں ان کو رکاوٹ ڈالی جائے، ان پہ پابندی لگائی جائے۔ ہم اپنے مفاد سے ٹکرانے والی چیزوں پر پابندی لگاتے ہیں، تو قرآن و سنت سے ٹکرانے والی چیزوں پر پابندی کیوں نہیں لگاتے؟ جو چیز ہمارے حکمران طبقات، رولنگ کلاس کے مفادات سے ٹکراتی ہے، پابندی لگا دیتے ہیں۔ جو بات بین الاقوامی قانون سے (ٹکراتی ہے) پابندی لگا دیتے ہیں۔ تو قرآن و سنت سے ٹکرانے والی باتوں پر پابندی کیوں نہیں لگاتے؟

اصل یہ کہ ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے، وہ پوری نہیں کر رہے، اسلامی روایات اور دینی تعلیمات کی حفاظت میں جو ان کا کردار ہے وہ ادا نہیں کر رہے، اس لیے یہ ذمہ داری بھی اہلِ علم پر، اہلِ دین پر، اہلِ دعوت پر، مدارس پر، دینی جماعتوں پر، کہ نگرانی کریں اور پبلک طور پر اس کو روکنے کی قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کوشش کریں۔ یہ صورتحال ہے اس وقت۔ اور دینی اداروں کو، دینی جماعتوں کو، دینی حلقوں کو اسے اپنے فرائض میں اور ذمہ داریوں میں شامل کر کے اس پر غور و فکر بھی کرنا چاہیے، کوئی راستہ بھی طے کرنا چاہیے۔

2016ء سے
Flag Counter