بعد الحمد والصلوٰۃ۔ بخاری شریف کی روایت ہے، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد کا واقعہ ہے۔ شہید ہو چکے تھے، صورتحال تبدیل ہو چکی تھی۔ ظاہر بات ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت میں مسلمان کہلانے والوں کا ہی گروہ تھا۔ انہی کا ’’کارنامہ‘‘ تھا یہ۔ تو حضرت عثمانؓ کے مخالفین بھی موجود تھے۔ رہے ہیں۔ اور بخاری شریف کے اندر جو اصطلاحات استعمال ہوئی ہیں نا، تین گروہ سیاسی طور پر سمجھے جاتے تھے: (۱) شیعانِ علیؓ (۲) شیعانِ معاویہؓ (۳) شیعانِ عثمانؓ۔ شیعہ کی اصطلاح تینوں کے لیے بولی جاتی تھی۔ یہ حضرت عثمانؓ کی پارٹی ہے۔ یہ حضرت علیؓ کی پارٹی ہے۔ یہ حضرت معاویہؓ کی پارٹی ہے۔ تین پارٹیاں۔ بخاری میں ہے ’’ھو من شیعۃ معاویہ‘‘، ’’ھو من شیعۃ عثمان‘‘۔ شیعانِ علیؓ، شیعانِ عثمانؓ، شیعانِ معاویہؓ۔ ان کا عقیدے کا کوئی فرق نہیں تھا۔ صحابہؓ اور تابعینؒ کے دور میں عقیدے کا کوئی ایک لحظے کا فرق نہیں تھا۔ پولیٹیکل تعلقات تھے۔ واقعہ کچھ اور عرض کرنا چاہ رہا ہوں۔ یہ سمجھانے کے لیے کہ واقعے کا پس منظر کیسا ہے۔
بخاری شریف کی روایت یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ۔ حج کا موقع تھا، کوئی آدمی حج کرنے کے لیے آیا، حج میں شریک ہوا۔ مسجد حرام میں ایک اجتماع دیکھا۔ ایک بزرگ درمیان میں بیٹھے ہوئے ہیں، لوگ ان کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں، استفادہ کر رہے ہیں، پوچھ رہے ہیں۔ پوچھا، یہ لوگ کون ہیں؟ انہوں نے کہا، یہ قریشی بیٹھے ہوئے ہیں سارے۔ بابا جی کون ہیں؟ یہ عبد اللہ بن عمرؓ ہیں۔ اردگرد بیٹھے ہوئے زیادہ لوگ قریشی ہیں اور درمیان میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس کو موقع مل گیا۔ یہ حضرت عثمانؓ کے مخالفین میں سے تھا۔ آ کے اس نے سلام کہا، حضرت! ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں۔ پوچھو بھئی۔
یہ بتائیں کہ حضرت عثمانؓ بدر میں شریک تھے؟ انہوں نے کہا، نہیں۔
اُحد میں جو لوگ بھاگ گئے تھے، ان میں حضرت عثمانؓ تھے؟ تھے۔
بیعتِ رضوان میں حضرت عثمانؓ شریک تھے؟ نہیں تھے۔
اللہ اکبر۔ نعرہ لگایا اس نے ٹکا کے۔
مقصد یہ تھا۔ یہ سوال کرنا، کچھ معلوم کرنا نہیں تھا، لوگوں کے ذہنوں میں شک پیدا کرنا تھا۔ بعض سوال کس لیے کیے جاتے ہیں؟ سوال بہت ضروری ہے لیکن بات معلوم کرنے کے لیے۔ لوگوں کے ذہنوں میں شک پیدا کرنے کے لیے سوال، یہ سوال نہیں ہوتا، شرارت ہوتی ہے۔ یہ کیا ہوتی ہے؟ شرارت۔
خیر، سوال کیا: حضرت عثمانؓ بدر میں تھے؟ نہیں تھے۔ اُحد میں جو لوگ بھاگ گئے تھے، ان میں تھے؟ ہاں ان میں تھے۔ بیعتِ رضوان میں، درخت کے نیچے جو بیعت ہوئی اس میں حضرت عثمانؓ تھے؟ نہیں تھے۔ اللہ اکبر۔
مطلب یہ ہے کہ حضرت عثمانؓ کی دو تین اپنے بقول کمزوریاں اس نے لوگوں کے سامنے عبد اللہ بن عمرؓ سے تصدیق کروا دی۔ یہی مقصد تھا اس کا۔ سوال کا مقصد معلوم کرنا نہیں تھا، شرارت کرنا تھا۔ عبد اللہ بن عمرؓ نے کہا، ٹھہرو یار! نعرے بعد میں لگانا۔ مجھ سے پوچھو تو، کیوں؟ یہ تو پوچھ لو، بدر میں کیوں نہیں تھے؟ بیعت رضوان، یہ بھی تو پوچھو نا۔ ادھورا سوال کر کے لوگوں کا ذہن خراب کر کے جا رہے ہو۔ بیٹھو، میری بات سنو پوری۔ بٹھا لیا۔ اس نے کہا، پوری بات سناؤ۔
فرمایا، بدر میں حضرت عثمانؓ وہاں تھے۔ حضرت عثمانؓ کی اہلیہ محترمہ، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت رقیہؓ بیمار تھیں۔ اسی بیماری میں فوت ہوئیں۔ سخت بیمار تھیں۔ حضورؐ نے فرمایا، عثمانؓ! رقیہؓ اکیلی ہے، کوئی اس کا پرسانِ حال، گھر میں پانی دینے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ باقی تو سارا خاندان مکے ہے۔ وہ بیچاری۔ تم ایسا کرو، تم جاؤ رقیہ کے پاس۔ یا رسول اللہ! میں یہاں شریک نہیں ہوں گا؟ نہیں ہو گے یار۔ بیچاری بستر پہ پڑی ہے، ہلنے جلنے کے قابل نہیں ہے، اس کو پانی دینے والا بھی نہیں ہے، تم جاؤ! حضرت عثمانؓ سے کہا کہ تم جہاد، لڑائی میں شریک نہیں ہو گے، یہ کہا کہ اجر بھی تمہیں پورا ملے گا، حصہ بھی پورا ملے گا، واپس جاؤ۔
حضرت عثمانؓ کو حضورؐ نے مدینہ منورہ بھجوا دیا، حکماً، کس لیے؟ ان کی اہلیہ محترمہ تھیں، اور حضورؐ کی کیا تھیں؟ بیٹی تھیں۔ بیماری تھیں۔ مجبور تھیں۔ تو حضرت عثمانؓ کو واپس بھجوایا اور یہ کہہ کر بھجوایا ’’لک الاجر وسہمہ‘‘ ثواب بھی پورا ملے گا، حصہ بھی پورا ملے گا۔ چنانچہ بخاری شریف میں بدریوں کی جو فہرست ہے نا، فہرست میں حضرت عثمانؓ کا نام موجود ہے۔ اور جن لوگوں کو بدر میں غنیمت کا حصہ ملا ہے، ان میں بھی حضرت عثمانؓ موجود ہیں، ان کو حصہ بھی ملا ہے۔ یہ ان کی غیر حاضری اپنی مرضی سے نہیں تھی، ضرورتاً تھی اور حکم بھی تھا۔
[حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے] فرمایا، اب پتہ لگ گیا ہے؟ جی جی، پتہ لگ گیا ہے۔ کہا، اب اگلی سنو!
اُحد میں بھاگ گئے تھے۔ ٹھیک ہے، بھاگ گئے تھے۔ احد میں کیا ہوا تھا؟ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صف بندی کی، اُحد پہاڑ پیچھے تھا، سامنے دشمنوں کی صفیں تھیں۔ یہ کوئی سات سو تھے، وہ تین ہزار تھے۔ تو اُحد قدرتی دفاع تھا پیچھے، حضورؐ نے اس کو جان بوجھ کر منتخب کیا تھا کہ پیچھے پہاڑی مستقل دفاع ہوتا ہے۔ لیکن ایک درہ تھا درمیان میں، اس پر پچاس آدمی مقرر کیے عبد اللہ بن جبیرؓ کی امارت میں، کہ یہاں کھڑے رہو، ہمیں فتح ہو یا شکست، تم نے درہ نہیں چھوڑنا۔ یہ دفاعی اعتبار سے بہت ضروری ہے۔ یہ دفاعی حکمت عملی تھی۔ تم نے یہاں کھڑے ہونا ہے۔ وہ وہاں کھڑے ہو گئے۔
لڑائی شروع ہو گئی۔ مسلمانوں کو فتح ہوئی۔ کافر آگے آگے بھاگنے شروع ہو گئے۔ جو اوپر والے تو سارا منظر دیکھ رہے ہیں نا، کافر بھاگ رہے ہیں، مسلمان پیچھا کر رہے ہیں، غنیمت اکٹھی کر رہے ہیں، سامان اکٹھا کر رہے ہیں۔ ان کو خیال آیا، کام تو ہو گیا ہے، اب کھڑے ہونے کا فائدہ؟ چلو ہم بھی پیچھے چلتے ہیں۔ یہ ان سے خطا ہو گئی۔ ہو گئی، انسان سے ہو جاتی ہے۔ کام تو ہو گیا، کافر بھاگے جا رہے ہیں، مسلمان ان کا تعاقب کر رہے ہیں، پکڑ رہے ہیں، غنیمت لے رہے ہیں، ہم بھی چلتے ہیں۔
امیر محترمؓ نے منع کیا، نہیں بھئی! حضورؐ نے فرمایا تھا، ہمیں فتح ہو یا شکست، تم نے تا حکمِ ثانی یہاں سے ہلنا نہیں ہے۔ حکم یہ تھا۔ تم نے یہیں کھڑے رہنا ہے۔ میں تو نہیں ہلوں گا۔ انہوں نے کہا یار کام ہو گیا، اب یہاں کھڑے ہو کر کیا فائدہ؟ فضول کھڑے رہنا ہے؟ ہوا یوں کہ امیر محترمؓ اور آٹھ دس آدمی اور، وہ تو وہیں کھڑے رہے، باقی نیچے اتر گئے، چلو ہم بھی شریک ہوتے ہیں تعاقب میں۔
خالد بن ولیدؓ اُس کیمپ میں تھے۔ کس میں؟ کافر۔ کافر سردار تھے۔ دنیا کا بہترین کمانڈر ہے۔ ماہرینِ جنگ خالد بن ولیدؓ کو دنیا کے چوٹی کے چار پانچ، کمانڈروں میں نہیں، کمانڈوز میں، جنگ کی صورتحال کو ایسے بدلتا تھا کہ بندہ دنگ رہ جاتا تھا۔ یہاں بھی بدلی۔ دیکھا، درہ خالی ہو گیا ہے۔ دو سو سواروں کا دستہ لے کر آرام سے پیچھے سے آئے۔ اس درے سے اترے۔ اوپر والوں کو وہاں شہید کیا۔ نیچے اترتے یہ شہید کیے۔ اوپر سے آواز دی، یار واپس پلٹو، میں خالد پیچھے سے آگیا ہوں۔ وہ آگے سے واپس پلٹے، یہ پیچھے سے۔ مسلمان درمیان میں۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہی کیا ہو رہا ہے۔ ایسی افراتفری مچی، ایسی افراتفری مچی، کسی کو کچھ پتہ نہیں کیا ہو رہا ہے۔ نہ کافروں کی صف کی کوئی بات رہی، نہ مسلمانوں کی صف کی کوئی بات رہی۔ حذیفہ بن الیمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں، میرے والد صاحب حضرت الیمانؓ میری آنکھوں کے سامنے مسلمانوں کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔ میں چیختا رہا او ابی، ابی، میرا پیو، میرا پیو۔ او مار دیا۔ مسلمانوں کے ہاتھوں۔ افراتفری میں پتہ ہی نہیں چلا۔ کہتے ہیں میں چیختا رہا، ابی، ابی، ابی، میرا باپ، میرا باپ، میرا باپ۔ باپ شہید ہو گیا مسلمانوں کے ہاتھوں۔ ہو جاتا ہے۔
اس افراتفری میں جو لوگ، جن کے بارے میں قرآن پاک ’’اذ تصعدون ولا تلون علیٰ احد والرسول یدعوکم فی اخرٰکم‘‘ (اٰل عمران ۱۵۳) اللہ پاک قرآن پاک میں کہہ رہا ہے، رسول اللہ تمہیں ادھر بلا رہے تھے، تم پہاڑیاں چڑھ رہے تھے۔ اللہ پاک ڈانٹ رہے ہیں قرآن پاک میں۔ مڑ کر بھی نہیں دیکھ رہے۔ ان میں حضرت عثمانؓ بھی تھے۔ یہ درست ہے۔ اللہ پاک نے بڑی ڈانٹ ڈپٹ کی ہے۔ جتنی ڈانٹ اُحد والوں کو کی ہے، کسی کو نہیں کی۔ قرآن پاک پڑھ لیں آپ۔ لیکن آخر میں کیا کہا ہے؟ یار تم نے کیا تو بہت غلط ہے لیکن ’’ولقد عفا اللہ عنھم‘‘ اللہ پاک نے ان کو کیا کر دیا ہے؟ معاف کر دے گا نہیں، معاف کر دیا ہے نہیں، ’’ولقد عفا اللہ‘‘ (اٰل عمران ۱۵۵) اللہ پاک نے معاف کر ہی دیا ہے۔
عبد اللہ بن عمرؓ نے کہا یار، ٹھیک ہے، غلطی ہو گئی تھی۔ اللہ نے معاف کر دیا۔ اور معافی کا اعلان کہاں کیا؟ قرآن پاک میں۔ یار، تو بھی معاف کر دے، مہربانی کر۔ غلطی تو اللہ کی کی تھی نا۔ اللہ نے کیا کر دیا؟ اور کس جملے کے ساتھ؟ ’’ولقد عفا اللہ عنہم‘‘۔ اللہ پاک نے ڈانٹا بھی بہت ہے، لیکن یار چل، معاف کر دیا۔ کہا، اللہ نے تو معاف کر دیا ہے، تو بھی مہربانی کر یار، معاف کر دے۔ دو؛
تیسری بات کیا تھی؟ بیعتِ رضوان میں شریک نہیں تھے۔ اللہ کے بندے! بیعتِ رضوان ہوئی کس کی وجہ سے تھی؟ کس کی وجہ سے ہوئی تھی؟ واقعہ کیا تھا؟ حضورؐ عمرہ کرنے آئے ہیں۔ قریشیوں نے کہا نہیں کرنے دیں گے۔ لمبا قصہ ہے۔ سامنے کھڑے ہو گئے، نہیں، سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، ہم تمہیں عمرہ کرنے دیں! اب مذاکرات چل رہے ہیں، گفتگو۔ حضورؐ نے کہا یار، عمرہ کرنے آئے ہیں، لڑنے نہیں آئے، نہیں لڑیں گے، کچھ نہیں کریں گے، صرف عمرہ کریں گے، چلے جائیں گے۔ انہوں نے کہا، ناں ناں ناں، یہ کیسے ہو گا؟ یہاں بھی خالد بن ولید تھے سامنے۔ نہیں کرنے دیں گے۔ یہ نہیں کرنے دیں گے، کون تھے؟ نہیں جناب، یہ کیسے ہو سکتا ہے، میرے ہوتے ہوئے آپ عمرہ کر جائیں! خالد، خالد تھا یار۔ کھڑے ہیں، نہیں۔
مذاکرات چل رہے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے بڑوں سے مذاکرات کے لیے حضرت عثمانؓ کو بھیجا۔ اس کی دو وجہیں تھیں: ایک تو یہ کہ وہاں تعلقات بہت وسیع تھے۔ ان کی برادری بہت بڑی برادری تھی۔ ان کے چاچے تائے، وہاں ان کا حلقہ موجود تھا۔ اور دوسری وجہ یہ تھی کہ ٹھنڈے مزاج کا بندہ تھا۔ اور مذاکرات کی میز پر ٹھنڈے مزاج کا بندہ چاہیے۔ لڑائی کے میدان میں ٹھنڈا جرنیل نہیں چاہیے۔ اور مذاکرات کی میز پر گرم ڈپلومیٹ نہیں چاہیے۔ میز کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں، مورچے کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ یہ ایک مستقل موضوع ہے۔ ٹھنڈا بندہ ہے، سوچ کے بات کرتا ہے، اور اس کی لابی بڑی ہے وہاں، اور اس کا حلقہ بہت ہے۔ حضرت عثمانؓ کو بھیج دیا۔ آگے بھی واسطہ خالد بن ولید سے تھا۔ انہوں نے پکڑا اِن کو، بیت اللہ میں بند کیا، تالا لگا دیا اور خبر مشہور کر دی ’’ان عثمان قد قتل‘‘ عثمانؓ کو تو مار دیا۔ اگلی بات کرو۔
مارا نہیں، بیت اللہ میں بند کر دیا، تالا لگا دیا، چابی خالد صاحب نے جیب میں ڈالی، اعلان کر دیا کہ عثمانؓ کو تو ہم نے قتل کر دیا، اگلی بات کرو کیا کہتے ہو۔ اب حضورؐ نے صحابؓہ کو، یار! ہم لڑنے آئے نہیں تھے، لڑائی گلے پڑ گئی ہے۔ یہ ہے بیعتِ رضوان۔ ہم لڑنے تو نہیں آئے تھے، عمرہ کرنے آئے تھے، لیکن لڑائی گلے پڑ گئی ہے، کیا کریں۔ لڑیں گے، آؤ بیعت کرو۔ یہ تھی بیعت کہ یا عثمانؓ کا بدلہ لیں گے، یا یہیں خود بھی شہید ہو جائیں گے۔ یہ بیعتِ رضوان ہے۔ عثمانؓ کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے تو بیعت ہوئی تھی۔ عثمان نے کہاں ہونا تھا وہاں؟
عبد اللہ بن عمرؓ اس کو بتا رہے ہیں کہ بھئی بیعت ہوئی ہی اس لیے تھی کہ عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں خبر آ گئی تھی کہ عثمانؓ کیا ہو گئے ہیں؟ شہید کر دیے گئے ہیں۔ اور عثمانؓ کے اب خون کا بدلہ لینا ضروری ہے۔ اب حضورؐ نے بیعت لی سب سے۔ چودہ سو آدمیوں سے بیعت لی۔ ’’اذ یبایعونک تحت الشجرۃ فعلم ما فی قلوبھم فانزل السکینۃ علیھم واثابھم فتحاً قریبا‘‘ (الفتح ۱۸) قرآن پاک نے اس بیعت کا ذکر کیا ہے ’’لقد رضی اللہ‘‘۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے کہا دیکھو، یہ بیعت ہوئی ہی عثمانؓ کی وجہ سے تھی۔
اس کے باوجود جب بیعت مکمل ہو گئی، سب لوگوں نے بیعت کر لی، آخر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اٹھایا۔ یہ کیا ہے؟ ہاتھ ہے۔ کس کا ہے؟ یا رسول اللہ، آپ کا ہے۔ کونسا ہے؟ دایاں۔ یہ اس وقت میرا ہاتھ نہیں، عثمانؓ کا ہاتھ ہے۔ یہ اس وقت میرا ہاتھ نہیں، عثمانؓ کی طرف سے بیعت کرتا ہوں۔ اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پہ رکھا، بیعت کی۔ فرمایا، عثمانؓ کی طرف سے میں خود اپنے ہاتھ پہ کیا کر رہا ہوں؟ بیعت کر رہا ہوں۔
یہ تین وضاحتیں کر کے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے کہا، ہاں! اب نعرہ لگاؤ، اب کہو کیا کہتے ہو؟ یہ ساری باتیں لے کر جانا، ادھورے جواب لے کر نہیں جانا۔
اس پر فقہاء نے دو اصول اخذ کیے ہیں۔ جو بات میں کہنا چاہتا ہوں۔ دو اصول اخذ کیے ہیں:
ایک اصول یہ ہے کہ سوال کرنے والے کا صرف یہ نہیں دیکھنا چاہیے کیا پوچھ رہا ہے۔ یہ بھی دیکھنا چاہیے کیوں پوچھ رہا ہے۔ کیا پوچھ رہا ہے، جواب دے دیں۔ نہیں، کیوں پوچھ رہا ہے۔ معلوم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ سوال میں جواب صرف ’’کیا‘‘ کا نہیں، کس کا بھی ضروری ہے؟ ’’کیوں‘‘ کا۔ کیوں پوچھ رہا ہے، اس کا مقصد کیا ہے، سوال کر کے کرنا کیا چاہتا ہے یہ؟ ایک، کہ سوال کرنے والے کے سوال کو اور سوال کے مقصد کو سمجھنے کی کوشش کرو، سوال کیوں کر رہا ہے، پھر جواب دو۔
اور دوسری بات، فقہاء نے یہ اصول اخذ کیا ہے کہ جس طرح ادھورا سوال کر کے شک پیدا کرنا غلط ہے، اسی طرح ادھورا جواب دے کر شک بڑھانا بھی غلط ہے۔ جواب ادھورا نہیں دینا چاہیے، اگر خدشہ ہو کہ اس جواب کا غلط فائدہ اٹھائے گا۔
یہ دو اصول فقہاء نے اخذ کیے ہیں۔ پہلا اصول کیا ہے کہ سوال میں صرف یہ نہیں دیکھنا کیا پوچھ رہا ہے؟ یہ بھی معلوم کرنا چاہیے کیوں پوچھ رہا ہے؟ اس پر ایک چھوٹا سا واقعہ اور عرض کرنا چاہتا ہوں۔ یہ پورا کر لوں پہلے۔ اور دوسرا، ادھورے سوال سے اشکال پیدا ہوتے ہیں، ادھورے جواب سے اشکال پکے ہوتے ہیں۔ یہ دوسرا اصول ہے کہ جہاں خطرہ ہو وہاں بات پوری وضاحت سے کریں۔
یہ کیوں پوچھ رہا ہے، اس کا بھی ایک واقعہ اور عرض کر دیتا ہوں۔ یہ حضرت عبد اللہ بن عباس کا ہے، رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ تفسیر قرطبی میں ہے۔ ’’ومن یقتل مؤمنا متعمداً فجزآءہ جھنم خالدا فیھا‘‘ (النساء ۹۳) تفسیر قرطبی میں واقعہ لکھا ہے، حضرت عبد اللہ بن عباسؓ تشریف فرما ہیں، مجلس لگی ہوئی ہے، ایک آدمی آیا۔ حضرت! قاتل کے لیے توبہ ہے؟ اگر کوئی آدمی کسی کو قتل کر کے توبہ کرے، توبہ قبول ہو گی؟ فرمایا، نہیں ہو گی۔ قاتل کے لیے کوئی توبہ نہیں ہے۔ وہ چلا گیا۔
ساتھیوں نے پوچھا، بابا جی! ہمیں کچھ اور بتایا ہے، اس کو کچھ اور بتا دیا ہے۔ توبہ کس کے لیے نہیں ہے؟ مشرک کے لیے ہے تو قاتل کے لیے نہیں ہے؟ ہمیں آپ نے بتایا تھا کہ قاتل کے لیے بھی توبہ ہے۔ توبہ ہے یا نہیں ہے؟ مشرک توبہ کر لے، توبہ قبول ہو گی یا نہیں ہو گی؟ کافر اگر توبہ کر لے تو قبول ہو گی یا نہیں ہو گی؟ تو قاتل کی کیوں نہیں ہو گی؟ ہمیں تو آپ نے بتایا تھا قاتل کے لیے توبہ ہے۔ اس کو کیا کہہ دیا آپ نے؟ قاتل کے لیے توبہ نہیں ہے۔ عبد اللہ بن عباسؓ کہتے ہیں، میں نے اس کے چہرے سے، آنکھوں سے اندازہ کر لیا تھا کہ یہ کسی کو قتل کرنے جا رہا ہے، اور میرے فتوے کو بہانہ بنائے گا۔ میں نے چہرے سے اندازہ کر لیا تھا کہ یہ کیوں پوچھ رہا ہے۔ میں نے اس کا راستہ روکا ہے۔ میں نے کہا، نہیں ہے۔ یہ ’’نہیں ہے‘‘ کہہ کر میں نے کیا کیا ہے؟ اس کا راستہ روکا ہے۔ مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ کسی کو قتل کرنے جا رہا ہے اور مجھ سے پوچھ کر اپنی تسلی کرے گا کہ چلو توبہ کر لیں گے۔ میں نے کہا، نہیں ہے۔ وہ گیا۔
عکرمہؓ کہتے ہیں ہمیں تھوڑا سا تردد ہوا۔ انہوں نے کہا، نہیں، پتہ کرنا چاہیے یار، بابا جی کا اندازہ غلط بھی ہو سکتا ہے۔ ہم نے اس آدمی کا پیچھا کیا۔ تلاش کیا۔ اس سے جا کر پوچھا۔ اس نے کہا، بابا ٹھیک کہتا ہے۔ اس نے کہا، بابا جی نے ٹھیک کہا ہے، میرا واقعی ارادہ یہ تھا، میں ایک آدمی کو قتل کرنے جا رہا تھا، اپنی تسلی کے لیے میں نے بابا جی سے پوچھا۔ میں نے قتل نہیں کیا، میں قتل سے رک گیا۔
یہ بات فقہاء فرماتے ہیں کہ سوال میں صرف یہ نہیں دیکھنا چاہیے کیا پوچھ رہا ہے، یہ بھی سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کیوں پوچھ رہا ہے، اور اس کے مطابق جواب دینا چاہیے۔