بعد الحمد والصلوٰۃ۔ بیت النور میں مختلف اوقات میں حاضری کا موقع ملتا رہتا ہے۔ آپ حضرات سے گفتگو بھی ہوتی ہے اور مولانا عثمان آفاق صاحب اور ان کی پوری ٹیم کا شکرگزار ہوں کہ اساتذہ کے ساتھ، طلبہ کے ساتھ ملاقات کا اور گفتگو کا موقع پیدا کر لیتے ہیں۔ آج بھی حاضری ہوئی ہے تو مشورہ یہ ہوا کہ، ایک گفتگو میری آپ کی چل رہی ہے ترتیب سے، اسی کا ایک حصہ عرض کروں گا۔ یاد ہو تو میں نے آپ کے سامنے انسانی حقوق کے حوالے سے گفتگو شروع کی تھی، غالباً دو نشستیں ہوئی تھیں، دو موضوعات پر کہ انسانی حقوق کیا ہیں؟ آج کی دنیا کا موقف کیا ہے، ہمارا موقف کیا ہے؟ تھوڑی سی پچھلی بات دہرا دوں گا تاکہ آپ کو اندازہ ہو جائے کہ آگے کیا چل رہا ہے۔ پھر آج کے موضوع پہ بات کروں گا۔
پہلی بات میں نے آپ سے تفصیل کے ساتھ عرض کی تھی کہ انسانی حقوق ہمارا موضوع بھی ہے، اور آج کی دنیا کا موضوع بھی ہے۔ قرآن پاک نے بھی انسانی حقوق بیان کیے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی انسانی حقوق بیان کیے۔ ہمارے اسلام کے فقہی نظام میں بھی حقوق ہی حقوق ہیں۔ اور آج کا ماحول بھی انسانی حقوق کی بات کرتا ہے۔ لیکن دو تین فرق میں نے عرض کیے تھے۔
پہلا فرق یہ عرض کیا تھا کہ ہم انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں، صرف انسانی حقوق کی نہیں کرتے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی بات کرتے ہیں۔ جوہری فرق کیا ہے کہ ہم کس کی بات کرتے ہیں؟ حقوق اللہ، اگر ساتھ رہنے والوں کا حق ہے تو پیدا کرنے والے کا حق بھی ہے، اس کا حق پہلے ہے۔ اس پر میں نے ایک دو آیتوں کا حوالہ دیا تھا، ایک دو تین حدیثوں کا حوالہ دیا تھا۔ آیت دوبارہ دوہرا دیتا ہوں۔ قرآن پاک نے حقوق کی بات بے شمار جگہ کی ہے اور مختلف انداز میں کی ہے۔ ایک آیت کریمہ میں اللہ رب العزت نے دس حقوق بیان کیے ہیں۔ وہ میں دوبارہ آیت پڑھ دیتا ہوں۔ ’’اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ واعبدوا اللہ ولا تشرکوا بہ شیئا وبالوالدین احسانا وبذی القربیٰ والیتامیٰ والمساکین والجار ذی القربیٰ والجار الجنب والصاحب بالجنب وابن السبیل وما ملکت ایمانکم‘‘ (النساء ۳۶) گنیں: پہلا حق (۱) واعبدوا اللہ ولا تشرکوا بہ شیئا، یہ کس کا ہے؟ (۲) وبالوالدین احسانا (۳) وبذی القربیٰ (۴) والیتامیٰ (۵) والمساکین (۶) والجار ذی القربیٰ (۷) والجار الجنب (۸) والصاحب بالجنب (۹) وابن السبیل (۱۰) وما ملکت ایمانکم۔ کتنے ہو گئے یہ؟ دس۔ میں صرف یاددہانی کے لیے، تفصیل کروں گا تو سارا وقت اسی میں لگ جائے گا۔ بات یاد آ گئی ہے؟ پہلا حق کس کا ہے؟ اللہ کا۔ اور باقی نو حق کس کے ہیں؟ بندوں کے۔ یہ میں نے صرف ایک آیت آپ کے سامنے عرض کی ہے۔ احادیث بھی ہیں۔ پہلی گفتگو ہم نے اس موضوع پہ کی تھی کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد۔ آج کی دنیا اللہ کو بھول گئی ہے۔ اللہ بھی کوئی ہے یا نہیں ہے۔ اس کا بھی کوئی حق ہے یا نہیں ہے۔ اس کی بھی ہمارے ذمے کوئی ذمہ داری ہے یا نہیں ہے۔ آج کی دنیا اللہ کو بالکل بھول گئی ہے اور بندوں کے حقوق یاد ہیں کہ جن کے ساتھ رہتے ہیں ان کے حقوق ہیں، جس نے پیدا کیا ہے وہ پتہ نہیں، ہے بھی کہ نہیں۔ یہ آج کی دنیا اس مقام پہ پہنچی ہوئی ہے۔ پہلی گفتگو کا خلاصہ میں نے یہ عرض کیا ہے۔
دوسری نشست میں، میں نے آپ سے بات کی تھی کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد قرآن پاک نے بھی بیان کیے ہیں۔ حق کا شعور، آج کی دنیا کہتی ہے، مغرب کہتا ہے، ویسٹ کہتا ہے، کہ حق کا شعور ہم نے پیدا کیا ہے۔ یہ میرا حق ہے، مجھے لینا چاہیے۔ مزدوروں میں، کسانوں میں، عورتوں میں، مردوں میں، بچوں میں۔ یہ چلڈرن رائٹس ہیں، یہ ویمن رائٹس ہیں، یہ ہیومن رائٹس ہیں۔ یہ جناب لیبر رائٹس ہیں۔ یہ مختلف طبقات میں شعور ہم نے پیدا کیا ہے۔ میں نے کہا، غلط کہتے ہیں آپ۔ یہ میرا حق ہے، میں نے لینا ہے۔ یہ اسلام نے دیا ہے۔ اس پر دو تین واقعات میں نے عرض کیے تھے دورِ نبوی کے۔ ایک دوہرا دیتا ہوں۔ بخاری شریف کی روایت ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں، مجلس لگی ہوئی ہے۔ حضورؐ کے دائیں طرف بیٹھے ہوئے ہیں عبد اللہ بن عباسؓ، بچے ہیں، تیرہ چودہ سال کا بچہ ہے، دائیں طرف بیٹھے ہوئے ہیں۔ بائیں طرف بیٹھے ہوئے ہیں حضرت صدیق اکبر اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی نے پانی پیش کیا پیالے میں، پانی پیا، دو تین گھونٹ بچ گئے یا بچا لیے، اب وہ کسی کو دینے ہیں۔ ضابطے کے مطابق کس کا حق بنتا ہے؟ ’’الایمن فالایمن‘‘ حضورً کا جی اِدھر (بائیں) دینے کو چاہ رہا ہے۔ بخاری کی روایت ہے۔ وہ جو بچا ہوا پانی ہے دو گھونٹ تین گھونٹ، حق کس کا بنتا ہے؟ دائیں والے کا۔ جی کدھر چاہ رہا ہے؟ وہ بچہ ہے، اِدھر خسر بزرگوار بیٹھے ہوئے ہیں۔ خالد بن ولیدؓ بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔ جی اِدھر چاہ رہا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت مانگی۔ عبد اللہ! اگر اجازت دو تو پانی اِدھر دے دوں؟ عبد اللہ بھی عبد اللہ تھا۔ یا رسول اللہ! آپ کا تبرک ہے، میں کسی کو اپنے اوپر ترجیح نہیں دیتا۔ آپ کا بچہ ہوا پانی، میرا حق ہے، میں کسی کو اپنے اوپر ترجیح نہیں دیتا۔ بخاری کی روایت کا لفظ یہ ہے ’’فتلوہ فی یدہ‘‘ حضورؐ نے پانی دیا نہیں، ’’لے پڑھ‘‘ غصے سے دیا ہے، اس کو تھمایا ہے، پکڑایا نہیں، تھمایا ہے۔ لیکن دیا اسی کو ہے جس کا حق ہے۔ اور اس بچے کو پتہ ہے کہ میں اگر اجازت نہیں دوں گا تو میرا حق کسی دوسرے کو منتقل ہو نہیں سکتا۔ یہ اسلام نے۔ حقوق کا شعور بھی کس نے دیا ہے؟ میں نے دو تین واقعات عرض کیے تھے، ان میں سے ایک یاددہانی کرائی ہے یہ۔ اتنی بات سمجھ میں آ گئی ہے؟
دو فرق آج بیان کروں گا۔ دیکھیں قرآن پاک نے جہاں بھی بات کی ہے نا ’’اٰت ذا القربیٰ حقہ والمسکین وابن السبیل‘‘ (بنی اسرائیل ۲۶) قریبی رشتہ داروں کا حق دو۔ مسافر کو جو دیتے ہو، اس کا حق ہے۔ مسکین کو جو دیتے ہو، تمہارا احسان نہیں ہے، اس کا حق ہے۔ قریبی رشتہ دار کو جو دیتے ہو، اس کا حق ہے، حق دو اُس کو۔ اسلام نے کہیں بھی یہ نہیں کہا، نہ قرآن پاک نے، نہ حدیث نے، کہ حق لو۔ حق دو۔ اور آج کا فلسفہ؟ پہلا سبق، تمہارا یہ حق ہے، وصول کرو۔ جب سارے حق دینے پر آئیں گے تو کیا معاملہ ہو گا؟ اور سارے حق لینے پر آئیں گے تو کیا ہو گا؟ ہر آدمی اس پر کہ میں نے حق لینا ہے تو کیا صورت؟ جو اِس وقت ہے، دھینگا مشتی۔ اور جب سب دینے پہ آجائیں گے، مجھ پر یہ فلاں کا حق ہے، میں نے دینا ہے، اگر سارے حق دینے پر آجائیں گے تو کسی کا حق رہ جائے گا؟ اور سارے حق لینے پر آجائیں گے تو سب کو مل جائے گا؟ نہیں، اور جھگڑا مفت میں۔ یہ ایک بڑا جوہری فرق ہے۔ اسلام حق دینے کی بات کرتا ہے ’’فی اموالھم حق للسائل والمحروم‘‘ (الذاریات ۱۹) ’’اٰت ذا القربیٰ حقہ والمسکین‘‘ (بنی اسرائیل ۲۶) دو بھئی، یہ ماں کا حق ہے، یہ باپ کا حق ہے، یہ رشتہ دار کا حق ہے، یہ مسکین کا حق ہے۔ بلکہ کتنی نفیس بات ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے۔
ایک حدیث میں ہے، ابو سعید خدریؓ روایت کرتے ہیں، بخاری شریف کی روایت ہے۔ حضورؐ نے فرمایا، راستے میں مت بیٹھا کرو بھئی۔ راستوں میں مت بیٹھا کرو، گزر گاہ ہے، آنے جانے والوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ تو ایک صحابیؓ نے عرض کیا ’’یارسول اللہ، ما لنا بد؟‘‘ یہ تو ’’مالا بد‘‘ ہے۔ راستے میں بیٹھنا کیا ہے؟ ’’ما لا بد منہ‘‘ ہے۔ کوئی چارہ نہیں اس کے بغیر، بیٹھنا پڑتا ہے، کیا کریں؟ اب ملنے کے لیے آیا ہے، گھر میں جگہ نہیں ہے، باہر گلی میں کھڑا ہونا پڑے گا بات کے لیے۔ ’’ما لنا بد‘‘ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے، مجبوری ہے ہماری۔ فرمایا ’’فاعطوا الطریق حقہ‘‘ اگر راستے میں بیٹھنا مجبوری ہے نا، تو راستے کا حق ادا کرو۔ کس کا حق؟ راستے کا۔ بندوں کا تو ہے ہی، جانوروں کا بھی ہے، اینٹوں کا بھی ہے۔ راستہ کس سے ہے؟ سیمنٹ سے، اینٹوں سے۔ ’’یا رسول اللہ، ما حق الطریق؟‘‘ راستے کا حق کیا ہے؟ فرمایا ’’غض البصر و کف الاذیٰ و رد السلام‘‘۔ راستے میں کوئی تکلیف دہ چیز پڑی ہے تو ہٹا دو۔ کیلے کا چھلکا پڑا ہے تو ہٹا دو۔ تم تو دیکھ رہے ہو، کوئی یوں [اوپر نظر] کر کے بھی گزرتا ہے، وہ جائے گا بیچارہ۔ کوئی روڑا، اینٹ پڑی ہے تو راستے سے ہٹا دو، نظر نہیں پڑے گی تو ٹھوکر لگ جائے گی۔ اور سلام کا جواب دو، کوئی سلام کرے، سلام کا جواب دو۔ اور تانک جھانک نہیں کرو ’’غص البصر‘‘ نگاہ نیچی رکھو، کون آ رہا ہے، کون جا رہی ہے، یہ نہیں کرو۔ یہ حق کس کا ہے؟ راستے کا۔ اور راستے کا حق تم پر ہے۔
میں بنیادی بات کیا کر رہا ہوں کہ اسلام حق دینے کی بات کرتا ہے۔ آج کا فلسفہ حق لینے کی بات کرتا ہے۔ اَلٹیمیٹ نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ حق دینے پر سارے آجائیں، حق کسی کا رکتا نہیں ہے اور بڑی محبت پیار کے ساتھ ہو جاتا ہے۔ اور حق لینے پہ سب آجائیں تو سب کو ملتے نہیں ہیں اور لڑائی مفت میں ہوتی ہے۔ اور آج دنیا میں حقوق کے نام پر ہیومن رائٹس فلسفے نے جو دھماچوکڑی مچا رکھی ہے وہ اسی وجہ سے ہے۔
تیسری بات، اب میرا خیال ہے چوتھی بات ہو گئی ہے یا پانچویں ہو گئی ہے۔ اتھارٹی کون ہے؟ آج کے دور میں یہ سمجھنا ضروری ہے۔ یہ حق اِس کا ہے، یہ نہیں ہے، اتھارٹی کون ہے؟ بڑی بنیادی سمجھنے کی بات ہے۔ میرے ذمے حقوق ہیں اور حقوق کا تعین بھی میں نے خود کرنا ہے، یہ انصاف کی بات ہے؟ مجھ پر حقوق ہیں، حقوق کا تعین بھی کس نے کرنا ہے؟ میں نے۔ کبھی انصاف کروں گا؟ جو جی چاہے گا حق مان لوں گا، جو جی چاہے گا نہیں مانوں گا۔ اچھا، آپ کا حق ہے مجھ پر اور حق آپ نے طے کرنا ہے، تو کیا کریں گے آپ؟ یہ بھی حق ہے، یہ بھی دو، یہ بھی دو، یہ بھی دو۔ حق کی اتھارٹی کوئی تیسری پارٹی ہونی چاہیے۔ حق دینے والے نے فہرست طے کرنی ہے تو صحیح طے ہو گی؟ اور حق لینے والے نے طے کرنی ہے تو صحیح طے ہو گی؟ کوئی تیسری اتھارٹی تلاش کریں گے کہ آپ ہمارے حقوق طے کر دیں۔ اور تیسری اتھارٹی سب سے بڑی اتھارٹی کونسی ہے؟ اللہ۔ اتھارٹی کون ہے؟ اللہ۔ اور آج سوسائٹی طے کرے گی۔ آج کا فلسفہ کیا ہے، حقوق کون طے کرے گی؟ سوسائٹی طے کرے گی۔ اچھا، فرد طے کرے تب سوسائٹی ہے، طبقہ طے کرے تب سوسائٹی ہے، پارلیمنٹ طے کرے تب سوسائٹی ہے، اکثریت طے کرے تب سوسائٹی ہے۔ ایک فرد طے کرے، انسان ہے نا۔ ایک طبقہ طے کر لے، وہ بھی کیا ہے؟ انسان ہے۔ ایک قوم طے کر لے، اور پوری دنیا مل کر طے کر لے، انسان ہی ہیں۔ کوئی ایسی اتھارٹی جس کے فیصلے کو چیلنج نہ کیا جا سکے، جس کے فیصلے کو کوئی انکار نہ کر سکے۔ ایسی اتھارٹی جس کے فیصلے کو چیلنج نہ کیا جا سکے، اُس اتھارٹی کے بغیر حقوق کی صحیح فہرست طے ہو جائے گی؟ وہ کون ہے؟ اللہ۔
میں اس کی مثال دوں گا، آج دنیا کو کہاں دھوکہ لگا ہے۔ سوسائٹی طے کرے گی۔ آج دیکھیں، دنیا کا ایک بڑا مسئلہ ہے ہیومن رائٹس کے حوالے سے، ہم جنس پرستی۔ مرد مرد سے اور عورت عورت سے اپنی جنسی خواہش پوری کرے۔ آج سے صرف سو سال پہلے مغربی ملکوں میں بھی جرم تھا یہ۔ ہم جنس پرستی آج جرائم میں ہے یا حقوق میں؟ آج سے دو سو سال پہلے چلے جائیں، انقلابِ فرانس سے پہلے، تین سو سال کر لو۔ جرائم میں تھا۔ آج بھی بائبل میں جرم لکھا ہوا ہے۔ آج بھی برطانیہ کے پرانے قوانین میں جرم لکھا ہوا ہے۔ گناہ ہے، جرم ہے، قابلِ سزا جرم ہے۔ آج حقوق میں ہے۔ ایک چیز دو سو سال پہلے گناہوں میں اور جرائم میں شمار ہوتی تھی، وہ چیز آج حقوق میں شمار ہوتی ہے، سولائزیشن کی علامت شمار ہوتی ہے۔ فیصلہ کس نے کیا ہے؟ سوسائٹی جو جی چاہے گی کرے گی۔ میری بات سمجھ میں آئی ہے؟ حقوق کی فہرست تبدیل ہو گئی ہے۔
میں نے یہ حوالہ دیا ہے، میں ایک لطیفہ سنا دیتا ہوں۔ ایک دفعہ مجھے؛ بہت دفعہ اتفاق ہوا ہے، میں سترہ اٹھارہ دفعہ امریکہ گیا ہوں۔ امریکہ کا ایک شہر ہے اٹلانٹا، وہاں میرے دوست رہتے ہیں۔ میں نے کہا یار کسی اچھے؛ میری عادت ہے یہ ایک، میں نے کہا کسی اچھے سے پادری سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں کہ ان کا view کیا ہے۔ میں معلوم کرتا رہتا ہوں اور میں ڈائریکٹ سورس پہ یقین رکھتا ہوں۔ یہودی رہنماؤں سے بھی، عیسائی رہنماؤں سے بھی، ہندو رہنماؤں سے، خود ملا ہوں، انٹرویو کیے ہیں، باتیں کی ہیں، کیا حل ہے اس مسئلے کا۔ اُن دنوں کینیڈا کی پارلیمنٹ نے ایک قانون پاس کیا تھا کہ مرد کی مرد سے شادی قانوناً جائز ہے، میاں بیوی رجسٹرڈ ہو سکتے ہیں۔ انہی دنوں میں لندن کے ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا تھا، مرد اور مرد نے آپس میں شادی کر لی، ایک میاں ایک بیوی، تو لندن ہائی کورٹ نے جائز قرار دے دیا۔ اس پر میں نے تبصرہ لکھا کہ آپ نے جائز تو قرار دے دیا ہے، یہ بھی طے کر لینا تھا کہ میاں کون ہے، بیوی کون ہے۔ لندن ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ یہ شادی جائز ہے، یہ میاں بیوی شمار ہوتے ہیں۔ میں نے کہا، یہ بھی طے کر دینا تھا جج صاحب، کہ میاں کون ہے بیوی کون ہے۔ وہ نہیں طے کیا۔ کینیڈا کی پارلیمنٹ نے ایک قانون پاس کر دیا کہ ٹھیک ہے اگر کوئی میاں بیوی، مرد مرد شادی رجسٹر کروائیں، یا عورت عورت اپنی شادی رجسٹر کروائیں، تو وہ قانوناً شادی تسلیم ہو گی۔
اس پر اٹلانٹا کے میں نے اپنے ساتھی سے کہا یار میں دو چیزیں دیکھنا چاہتا ہوں: ایک، کسی اچھے سے پادری سے اس مسئلے پہ بات کرنا چاہتا ہوں، ان کا وِیو کیا ہے؟ اور دوسرا، سنڈے سروسز کیا ہیں؟ اتوار کو اکٹھے ہوتے ہیں نا، کرتے کیا ہیں؟ ہم جمعے کو اکٹھے ہوتے ہیں تو کیا کرتے ہیں؟ اذان دیتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں، نفل پڑھتے ہیں، ہماری جمعہ سروسز ہیں یا نہیں ہیں؟ ان کی سنڈے سروسز کیا ہیں، یہ دیکھنا چاہتا ہوں، کرتے کیا ہیں یہ۔ میں نے کہا کسی گرجے میں جاؤں گا، دو تین گھنٹے گزاروں گا، دیکھوں گا اتوار کو کیا کرتے ہیں۔ اور ایک لطیفہ درمیان میں ہو جائے؟ وہیں اٹلانٹا میں اُس دوست کی بچی، اب تو خیر ما شاء اللہ خود بچوں والی ہے، اُس زمانے میں مجھے کہتی ہے، انکل! آپ سنڈے تک ہمارے ساتھ رہیں گے؟ میں نے کہا، کیوں؟ سنڈے کو ہم جمعہ پڑھتے ہیں، آپ ہمارے ساتھ جمعہ پڑھیں۔ گکھڑ کے ہیں، ہمارے پڑوسی ہیں، ملنے جلنے والے۔ میں نے کہا ’’افتخار، اے کی پئی آندی یا اوئے‘‘۔ کہتا ہے، اس بیچاری نے کیا کہنا ہے، ہمیں سنڈے کو چھٹی ہوتی ہے، کچھ پاکستانی فیملیاں ہیں، ایک کمیونٹی ہال میں جمع ہو جاتے ہیں، کھانا کھاتے ہیں دوپہر کا، ظہر کی نماز اکٹھی پڑھتے ہیں، اور کوئی تھوڑا بہت درس ہو جاتا ہے، یہ اس کو جمعہ سمجھتی ہے۔ میں نے کہا، اُس کا کیا قصور غریب کا، لیکن خیر۔ میں نے کہا، میں سنڈے سروسز دیکھنا چاہتا ہوں اِن کی۔ گیا۔ زبور گاتے ہیں وہ، موسیقی کے ساتھ اور رقص کے ساتھ۔ زبور، داؤد علیہ السلام کی، وہ ہے ہی گیتوں کی کتاب ساری، حمدیہ کلام ہے، اور شعری ماحول میں ہے۔ اور داؤد علیہ السلام کا لحنِ داؤدی سنا ہوا ہے؟ اللہ پاک نے آواز بھی، گلا بھی کیسا دیا تھا، وہ زبور پڑھتے تھے، پرندے فضا میں رک جایا کرتے تھے۔ سمندر کے کنارے زبور پڑھتے تھے زبور گاتے تھے اور مچھلیاں سطح پر آجاتی تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی تلاوت سن کر کہا تھا ’’لقد اوتیت مزمارا من مزامیر اٰل داؤد‘‘ ابو موسیٰ! تیرے گلے میں داؤد علیہ السلام کا گلا فٹ ہو گیا ہے۔ بڑی سُر ہے تیری۔ خیر، یہ رقص کر کے اور موسیقی کے ساتھ زبور گاتے ہیں، کچھ دعا کرتے ہیں، دعا بھی ناچ گانا ہی ہوتا ہے۔
پادری صاحب، فادر کیمبل ان کا نام تھا۔ جو بات میں کہنا چاہ رہا ہوں۔ میں نے کہا کچھ باتیں کرنی ہیں۔ کہا، ٹھیک ہے۔ اچھا، یہ بھی آپ لطیفہ ہی سمجھ لیں۔ ٹانگ ہر جگہ اڑا دیتا ہوں، انگریزی مجھے نہیں آتی، ترجمان سے کام چلاتا ہوں۔ اردو کے سوا کسی زبان میں بول نہیں سکتا۔ عربی آتی ہے لیکن بول نہیں سکتا۔ نہیں محاورہ۔ میں نے افتخار سے کہا۔ میں نے کہا، فادر، کینیڈا کی پارلیمنٹ نے یہ قانون پاس کیا ہے کہ مرد کی مرد سے شادی قانونی ہے، عورت سے عورت کی شادی قانونی ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے، آپ بائبل کے نمائندے ہیں، بائبل کا موقف کیا ہے؟ وہ دستور میں یہ لکھا ہے۔ میں نے کہا، مجھے پتہ ہے دستور تمہارا کیا ہے، اِس عمل کو بائبل کیا کہتی ہے؟ وہ گول مول گول مول بات کر رہے ہیں۔ میں نے کہا، جیسس کیا کہتے ہیں، اِس عمل کے بارے میں عیسیٰ علیہ السلام کا موقف کیا ہے، میں آپ سے بائبل کے نمائندے کے طور پر، بائبل کے عالم کے طور پر پوچھ رہا ہوں، آپ کا موقف نہیں پوچھ رہا، بائبل کا موقف پوچھ رہا ہوں، اِس عمل کو بائبل کیا کہتی ہے؟ انہوں نے کہا، بائبل تو condemn کرتی ہے۔ میں نے کہا، تم کیوں نہیں کرتے؟ یعنی میں نے یہ بتایا کیا ہے؟ جرم تھا۔ اور بائبل کہتی ہے کہ اس جرم میں شہرِ سدوم پر لوط علیہ السلام کی قوم پہ پتھر برسے ہیں، dead sea اسی کی نشانی موجود ہے اس وقت۔ لیکن چونکہ سوسائٹی نے قبول کر لیا، فیصلے کی اتھارٹی کون ہے؟ سوسائٹی نے قبول کر لیا ہے، پارلیمنٹ نے پاس کر دیا ہے، اس لیے اب اس کو جرم کہتے ہوئے ڈر لگتا ہے پادری صاحب کو۔ کیوں؟ فیصلے کی اتھارٹی کون ہے؟ سوسائٹی۔
ایک حوالہ اور دوں گا۔ یہ سارے ریکارڈ پر ہیں، میں نے سب لکھے ہوئے ہیں، کوئی چیز ادھوری نہیں چھوڑتا۔ چرچ آف انگلینڈ۔ میں اتھارٹی کی بات کر رہا ہوں، اتھارٹی کون ہے۔ جب اتھارٹی سوسائٹی کو قرار دیں گے تو نہ حلال قطعی ہے، نہ حرام قطعی ہے، نہ حق قطعی ہے، نہ ناحق قطعی ہے۔ سوسائٹی کل کوئی اور فیصلہ دے گی، آج کوئی اور فیصلہ دے گی، اور بیس سال کے بعد وہی فیصلہ بدل جائے گا۔ بدلتا ہے یا نہیں بدلتا؟ ایک تو میں نے بدلہ ہوا دکھایا ہے نا۔ ایک اور۔ چرچ آف انگلینڈ کا ایک خط میں نے چھاپا تھا آج سے تیس سال پہلے۔ اس میں انہوں نے اپنے چرچ آف انگلینڈ، انگلینڈ کا مرکزی چرچ، انگلینڈ کی تمام شاخوں کو ہدایت دی کہ یار یہ رواج پیدا ہو گیا ہے کہ شادی سے پہلے لڑکا لڑکی دو تین سال اکٹھے رہتے ہیں، ایک دوسرے کو چیک کرتے ہیں، انجوائے کرتے ہیں، پھر شادی کرتے ہیں۔ یہ عام رواج ہے وہاں، پہلے ایک دوسرے کے واقف ہو جائیں، پھر شادی کریں گے۔ اُس وقت یہ تھا کہ یہ گناہ ہے، اس کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ بڑے چرچ نے اپنی شاخوں کو ہدایت کی کہ یہ عمل گناہ ہے، بائبل اسے گناہ کہتی ہے، عیسیٰ علیہ السلام اس کو گناہ کہتے ہیں، اس کو condemn کیا جائے، اس کی حوصلہ شکنی کی جائے، لوگوں کو منع کیا جائے، ایسا نہ کریں۔ پچیس سال بعد دوسرا خط ہے۔ ہم نے آپ کو یہ سرکلر بھیجا تھا کہ مرد اور عورت کا شادی کے بغیر اکٹھے رہنا، یہ گناہ ہے، جرم ہے، اس کی حوصلہ شکنی کی جائے، لوگوں کو سمجھایا جائے۔ اب چونکہ ایسا کرنے والوں کا تناسب پچپن فیصد سے بڑھ گیا ہے اس لیے ہماری تازہ ہدایت یہ ہے کہ اس کو گناہ نہ کہا جائے۔ یعنی گناہ کا فیصلہ، جرم کا فیصلہ، یہ کس نے کرنا ہے؟ سوسائٹی نے۔ اسلام کہتا ہے، نہیں جناب۔ گناہ کا فیصلہ، جرم کا فیصلہ، حلال کا فیصلہ، حرام کا فیصلہ، کون کرتا ہے؟ اللہ۔
میں عرض کیا کرتا ہوں کہ اللہ رب العزت اگر جرم کو فہرست سے نکالنے کا، اور حلال حرام کی فہرست بدلنے کا، اور حقوق کی فہرست کا، اگر کسی کو اختیار دیتے تو کس کو دیتے؟ پوری کائنات میں اگر کسی کو صوابدیدی اختیار دیتے، کس کو دیتے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کوئی حقدار تھا؟ اللہ رب العزت حضورؐ سے کیا کہہ رہے ہیں؟ ’’لم تحرم مآ احل اللہ لک‘‘ کون کہہ رہا ہے؟ کس کو کہہ رہا ہے؟ اور اگلا جملہ تو میں ترجمہ کرتے ہوئے ڈرتا ہوں۔ ’’تبتغی مرضات ازواجک؟‘‘ ترجمہ کرنا پڑتا ہے لیکن میں تو گول کر جاتا ہوں۔ ’’لم تحرم مآ احل اللہ لک‘‘ ہم نے حلال کیا جناب، آپ کون ہیں حرام کرنے والے؟ ’’قد فرض اللہ لکم تحلت ‘‘ شہد کھائیں، آپ کو کس نے اختیار دیا ہے کہ آپ شہد کو حرام کر دیں؟ اگر اللہ کسی کو اختیار دیتا، جب رسول اللہ کو نہیں دیا تو اور کسی کو ہے؟
ایک بات اور عرض کر دیتا ہوں۔ اتھارٹی کون ہے؟ یہ کام جائز ہے، یہ ناجائز ہے، یہ حلال ہے، یہ حرام ہے، یہ اُس کا حق ہے، یہ نہیں ہے، اِن معاملات میں اتھارٹی کون ہے اللہ کے سوا؟ رسول اللہ اتھارٹی ہیں بطور رسول کے۔ رسول اللہ اتھارٹی ہیں کس کے؟ نمائندے ہیں نا، نمائندہ اتھارٹی ہوتا ہے۔ نمائندہ کس کی طرف سے کرتا ہے؟ بخاری شریف کی روایت ہے۔ عدی بن حاتمؓ، حاتم طائی کے بیٹے ہیں۔ حاتم طائی نے حضورؐ کا زمانہ نہیں پایا، بیٹا بھی صحابی ہے، بیٹی بھی صحابیہ ہے۔ بیٹے کا نام تو عدیؓ ہے، بیٹی کا نام کیا ہے؟ سفانہؓ۔ وہ جو خطباء کرام بیان کیا کرتے ہیں نا، خاتون آئی، ننگے سر تھی، حضورؐ نے سر پہ اپنی چادر دی۔ کسی نے پوچھا، یا رسول اللہ! کافر کی بیٹی ہے۔ حضورؐ نے فرمایا، بیٹی بیٹی ہوتی ہے خواہ کافر کی ہے۔ واقعہ سنتے رہتے ہیں نا؟ یہ سفانہؓ ہے۔ حاتم طائی کی بیٹی ہے۔ یہ عیسائی تھے پہلے سارے۔ پورا قبیلہ عیسائی تھا۔ حاتم طائی بھی عیسائی ہو گئے تھے، عدی بھی عیسائی تھا، سفانہؓ بھی عیسائی تھی رضی اللہ تعالیٰ عنہما۔
عدیؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا۔ یا رسول اللہ، قرآن پاک نے ہمارے بارے میں ایک بات کہی ہے ، وہ واقعہ کے مطابق نہیں ہے۔ بخاری کی روایت ہے۔ قرآن پاک کہتا ہے ’’اتخذوا احبارھم و رہبانھم ارباباً من دون اللہ والمسیح ابن مریم‘‘ (التوبہ ۳۱) اِن عیسائیوں نے مسیح بن مریم کو تو رب بنایا ہی تھا، خداوند یسوع مسیح، اپنے مولویوں اور پیروں کو بھی بنا لیا تھا؛ علماء اور مشائخ کو، مولویوں پیروں کو بھی ’’اربابا من دون اللہ‘‘ بنا لیا تھا۔ یہ قرآن پاک نے عیسائیوں کے بارے میں کہا ہے۔ عدیؓ نے کہا، یا رسول اللہ! ہم تو نہیں مانتے، یہ قرآن پاک نے ہمارے بارے میں کیا کہہ دیا ہے؟ ہم تو احبار اور رہبان کو ’’ارباباً من دون اللہ‘‘ نہیں کہتے تھے، عزت کرتے تھے، سب کچھ کرتے تھے۔ سوال سمجھ میں آیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، یہ بتاؤ، حلال حرام کی اتھارٹی ان کو سمجھتے تھے کہ نہیں سمجھتے تھے کہ حلال کو حرام قرار دے دیں، حرام کو حلال قرار دے دیں، یہ اتھارٹی ان کے پاس تھی؟ [عدیؓ نے کہا] یہ تو مانتے تھے ہم۔ فرمایا، یہی ’’ارباباً من دون اللہ‘‘ ہے۔
حلال حرام، جائز ناجائز کی اتھارٹی کسی کو ماننا، یہ کیا ہے؟ ’’ارباباً من دون اللہ‘‘۔ اور آج بھی یہ اتھارٹی، میں نے ابھی ذکر کیا ہے، یہ اتھارٹی کون استعمال کر رہا ہے؟ چرچ آف انگلینڈ۔ جناب گناہ تھا، اب نہیں رہا۔ حرام تھا، اب نہیں روکیں۔ یہ آج بھی ہے۔ ’’ارباباً من دون اللہ‘‘ یہی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اللہ کے سوا کسی کو اتھارٹی بنانے کو شرک کے زمرے میں شمار کیا ہے۔ تو میں نے کیا بات کی؟ حقوق کا تعین، جائز ناجائز کا تعین، حلال حرام کا تعین، اتھارٹی کون ہے؟ اللہ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتھارٹی ہیں رسول کے طور پر۔
ایک سوال آپ کے سامنے آئے گا کہ اگر اور کوئی اتھارٹی نہیں ہے تو فقہاء کیا کرتے ہیں؟ ہمارے ہاں فقہاء کیا کرتے ہیں؟ ایک فقیہ کہتا ہے حلال ہے، دوسرا کہتا ہے حرام ہے۔ ایک مسئلے میں یا بیسیوں مسئلوں میں؟ ایک دفعہ یہاں پی سی میں، یہاں آپ کے قریب ہی ہے، ایک سیمینار تھا بین الاقوامی، گیارہ بارہ ملکوں کے نمائندے تھے۔ موضوع یہ تھا کہ دنیا کی مارکیٹ میں حلال میٹ، ذبیحہ، اس کی مانگ بڑھتی جا رہی ہے۔ ہم تو شرعی حکم کے طور پر حرام سمجھتے ہیں نا، آج کی دنیا سائنسی تحقیق کے بعد اس نتیجے پہ پہنچی ہے کہ جانور ذبح ہو جائے صحیح طریقے سے تو اس کا دمِ مسفوح نکل جاتا ہے اور گوشت صاف ہو جاتا ہے۔ اگر ذبح نہ ہو تو دمِ مسفوح اندر جذب ہو جاتا ہے اور گوشت بھی زہر آلود ہو جاتا ہے۔ آج کی جدید سائنٹیفک تحقیق یہ ہے۔ اس لیے ذبیحہ چاہیے۔ وہ ذبیحہ مانگتے ہیں اِس حوالے سے۔ اور ذبیحہ کی گارنٹی مانگتے ہیں۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں، ذبیحہ ہے یہ، گارنٹی کون دے گا؟ حکومتیں۔ سٹیمپ اور گارنٹی مانگتے ہیں، ہمیں مال دو، ہم خریدیں گے، گارنٹی بھی دو کہ یہ ذبیحہ ہے۔ یہ آج کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اِس پر یہاں کانفرنس تھی پی سی میں۔ تین چار سال کی بات ہے۔ تیرہ چودہ ملکوں کے نمائندے، بنگلہ دیش بھی تھا، ترکی بھی تھا، ملائیشیا بھی تھا، تھائی لینڈ بھی تھا، جنوبی افریقہ بھی تھا، ہم بھی تھے۔ سوال یہ ہے کہ حلال میٹ کی گارنٹی اور حلال میٹ کی سٹیمپ، یہ بین الاقوامی مارکیٹ کا مطالبہ ہے، کیسے فراہم کریں؟ اچھا، مجھے بھی بلایا ہوا تھا انہوں نے۔ ایک مجلس میں مجھے بھی گفتگو کا موقع دیا۔ اور آپ مجھے جانتے ہیں، میں کوئی نہ کوئی کٹا کھول دیتا ہوں۔ یہ میرا مزاج شروع سے ہے، کوئی نہ کوئی کٹا کھول دیتا ہوں۔ میں نے کٹا کھول دیا۔
اُس مجلس کی صدارت کر رہے تھے انڈونیشیا کے سفیر۔ پاکستان میں انڈونیشیا کے سفیرِ محترم اس مجلس کی صدارت فرما رہے تھے۔ میں نے تقریر اردو میں ہی کی۔ بین الاقوامی کانفرنسوں میں ترجمہ ہوتا ہے۔ میں نے کہا یار بہت اچھی بات ہے، شکر ہے، اسلام کی حقانیت کی دلیل ہے کہ آج دنیا ذبیحہ مانگ رہی ہے۔ سائنسی بنیادوں پہ مانگ رہی ہے پر مانگ تو رہے ہیں نا۔ اسلام کی سچائی کی دلیل ہے یہ۔ لیکن میری درخواست ہے کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں حلال کی گارنٹی اور سٹیمپ فراہم کرنے سے پہلے آپس میں کوئی فارمولا طے کر لیں، صدرِ محترم کا حلال حرام اور ہے، میرا حلال حرام اور ہے، یہ شافعی ہیں، میں حنفی ہوں۔ کیوں جی، ہے کہ نہیں مختلف؟ میں نے کہا، آج کا دور sea food کا ہے، سی فوڈ جانتے ہیں؟ اِن کے نزدیک پانی کی ہر چیز حلال ہے۔ اور میں حنفی ہوں، میرے نزدیک مچھلی کے سوا کوئی شے جائز نہیں ہے۔ تو میں نے سوال یہ پیدا کر دیا کہ یار پہلے آپس میں فارمولا طے کر لو، حلال حرام کا ایک متفقہ فارمولا طے کرو، دنیا کو یہ تماشہ نہ دکھانا کہ یہ پاکستانی حلال ہے اور یہ انڈونیشی حلال ہے۔ شوافع کے نزدیک پانی کی ہر چیز ’’حلال طیب‘‘ حلال ہے۔ اور شوافع رہتے کہاں ہیں؟ تیس کروڑ شافعی پانی میں رہتے ہیں۔ انڈونیشیا بھی جزائر کا مجموعہ ہے، ملائیشیا بھی جزائر کا مجموعہ ہے، سارے شافعی ہیں۔ بمبئی سے آگے نکل جائیں، بتیس کروڑ شوافع جزیروں میں رہتے ہیں، اللہ میاں نے کہا، کھاؤ پیو، عیش کرو یار۔ یہ امرِ واقعہ ہے۔ خیر، تو میں نے کہا یار آپس میں فارمولا طے کر لو، دنیا کو تماشا نہ دکھانا، یہ لاہور کا حلال ہے اور یہ جکارتہ کا حلال ہے۔ اچھا خیر، بات ہو گئی۔ صدرِ محترم نے جب خطاب فرمایا نا، آخری صدارتی خطاب، ان کو میرا نام تو یاد نہیں تھا، میری طرف دیکھیں، وہ مولوی صاحب نے جو بات کی ہے، وہ صحیح کہہ رہا ہے۔ بار بار، تین چار دفعہ میری طرف اشارہ کیا انہوں نے۔ وہ مولوی صاحب جو بات کہہ رہا ہے نا، ٹھیک کہہ رہا ہے، اس کی بات سنو، پہلے ایک فارمولا طے کرو کہ حلال کس کو کہنا ہے۔
تو میں نے کیا عرض کیا کہ حلال حرام کی اتھارٹی کون ہے۔ آج کس پہ بات کی ہے؟ حقوق کے معاملے میں، جائز ناجائز کے معاملے میں اگر سوسائٹی پہ چھوڑ دو گے تو سوسائٹی کبھی ایک بات پہ متفق نہیں رہے گی۔ خلاصہ بات کا کیا ہے؟ لیکن ایک سوال کا جواب میں نے نہیں دیا۔ فقہاء کیا کرتے ہیں؟ سوال ہے یا نہیں ہے، بنتا ہے کہ نہیں بنتا؟ یہ فقہاء کی اتھارٹی صوابدیدی نہیں ہے، استنباطی ہے۔ سب سے بڑے امام کون ہیں ہمارے؟ وہ بھی کسی چیز کو حرام کہیں گے تو دلیل دینی پڑے گی۔ یہ نہیں کہ میں کہتا ہوں۔ ’’میں کہتا ہوں اس لیے حرام ہے‘‘ یہ نبی کے سوا کوئی نہیں ہے۔ ائمہ کی بات ہم کیا کہہ کر مانتے ہیں؟ بہت سی باتیں امام صاحب ناجائز کہتے ہیں، ہم نہیں مانتے، کہ جائز ہے۔ فقہاء کی اتھارٹی۔ میں نے آپ کے لیے یہ جواب دینا ضروری سمجھا ہے کہ کہیں مغالطے کا شکار نہ ہو جائیں۔ فقہاء کی اتھارٹی ہے، لیکن استدلالی، استنباطی۔ کوئی فقیہ کسی چیز کو حلال کہے گا، اس کو دلیل لانی پڑے گی۔ کہاں سے؟ قرآن سے، حدیث سے، اجماع سے، صحابہؓ سے۔ دلیل کے بغیر کسی فقیہ کی بات حلال حرام میں سنیں گے آپ؟ صوابدیدی اتھارٹی کہ ’’میں کہہ رہا ہوں اس لیے‘‘، یہ پیغمبر کے سوا کوئی نہیں ہے۔
بہرحال میں نے آج یہ عرض کیا ہے کہ حقوق کا معاملہ ہو، حلال حرام کا معاملہ ہو، ہمارا اور مغرب کا ایک بنیادی جھگڑا یہ ہے، وہ کہتے ہیں سوسائٹی اتھارٹی ہے۔ اور ہم کیا کہتے ہیں؟ اللہ کی ذات، اور اللہ کے نمائندے کے طور پر اللہ کا رسول، اور اللہ کے نمائندے کے طور پر اللہ کی کتاب۔ حلال حرام منصوص جو ہیں، اور جائز ناجائز اور حقوق، ان میں تبدیلی نہیں، ماں باپ کے جو حقوق تب تھے، اب بھی وہی ہیں، یہ نہیں کہ ماں باپ چالیس پچاس سال کے ہو جائیں تو اولڈ پیپلز ہوم میں چھوڑ آؤ جا کر کہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔ آج کیا ہے؟ ماں اور باپ پچاس پچپن سال کراس کر گئے ہیں، ہم سے نہیں سنبھالے جاتے، اولڈ پیپلز ہوم میں۔ بھئی، تمہاری ذمہ داری ہے۔ سوسائٹی کے بدلنے سے حقوق میں تبدیلی نہیں ہوتی، تو آج میں نے تیسرے نکتے پہ بات کی ہے کہ ان تمام معاملات میں ہمارے نزدیک اتھارٹی کون ہے؟ اللہ، اللہ کا رسول، اللہ کی کتاب۔ سوسائٹی الٹی لٹک جائے، وہ اللہ اور رسول کے فیصلوں کو تبدیل نہیں کر سکتی۔

