سلطنت برطانیہ اور آل سعود کے درمیان معاہدہ

   
۲۴ نومبر ۱۹۹۹ء

میں تاریخ کا طالب علم ہوں اور تاریخ کا وہ حصہ میری خصوصی دلچسپی کا موضوع ہے جس کا تعلق اب سے دو صدیاں پہلے کی دو عظیم مسلم سلطنتوں خلافت عثمانیہ اور سلطنت مغلیہ کے خلاف یورپی ملکوں کی سازشوں سے ہے۔ اور اس حوالہ سے وقتاً فوقتاً ان کالموں میں کچھ لکھتا بھی رہتا ہوں۔ اسی مناسبت سے مجھے ایک معاہدہ کی تفصیلات کی تلاش تھی جو برطانوی حکومت اور آل سعود کے درمیان ہوا تھا اور جس پر اب تک بدستور عمل ہو رہا ہے۔ گزشتہ روز والد محترم حضرت مولانا سرفراز خان صفدر سے ملاقات اور ان کی بیمار پرسی کے لیے گکھڑ منڈی گیا تو ان کی لائبریری میں حسب عادت کتب گردانی کرتے ہوئے ہندوستان سے حجاز جانے والے ایک وفد کے دورے کی مطبوعہ رپورٹ مل گئی جس میں اس معاہدہ کی تفصیل موجود ہے۔ اسے قارئین کے سامنے لانا چاہتا ہوں مگر اس سے پہلے اس کا تھوڑا سا پس منظر واضح کرنا بھی ضروری ہے۔

پہلی جنگ عظیم کے دوران خلافت عثمانیہ کو جرمنی کی حمایت کی سزا دینے اور اس بہانے سے اس کا وجود ختم کرنے کے لیے حکومت برطانیہ نے عرب ممالک کو خلافت عثمانیہ سے باغی کرنے کا پروگرام بنایا۔ اور خلافت عثمانیہ کی طرف سے مکہ مکرمہ کے والی حسین بن علی کو، جسے شریف مکہ کہا جاتا تھا، اس بات پر آمادہ کیا گیا کہ اگر وہ خلافت عثمانیہ سے بغاوت کا اعلان کر دے تو اسے پورے عرب کا بادشاہ بنا دیا جائے گا اور ترک خلیفہ کی بجائے اس کے سر پر خلیفۃ المسلمین کا تاج رکھ دیا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے شریف مکہ کے بیٹے امیر عبد اللہ اور برطانوی نمائندہ لارڈ کچر کے درمیان ۱۹۱۵ء میں قاہرہ میں باقاعدہ معاہدہ طے پایا جس کے مطابق شریف مکہ نے خلافت عثمانیہ سے بغاوت کر کے میدان جنگ میں ترک فوجوں کو شکست دی۔ لیکن جب ترک فوجیں شکست کھا کر پسپا ہوگئیں اور عرب ممالک سے خلافت عثمانیہ کا اقتدار ختم ہوا تو انگریزوں نے شریف مکہ حسین بن علی کو عرب دنیا کا بادشاہ تسلیم کرنے کی بجائے اس کے بیٹے امیر عبد اللہ کو دریائے اردن کے کنارے پر ایک پٹی کا بادشاہ بنا دیا جو اردن کی مملکت ہاشمیہ کے نام سے معروف ہے۔ اور اردن کے موجودہ بادشاہ عبد اللہ اسی امیر عبد اللہ کے پڑپوتے ہیں۔ جبکہ حجاز مقدس میں آل سعود کو آگے بڑھایا جو اس سے پہلے نجد اور اس کے اطراف کے حکمران تھے، انہوں نے شریف مکہ حسین بن علی کو شکست دے کر حجاز مقدس پر قبضہ کیا اور سعودی مملکت قائم کر لی۔

شریف مکہ کے ہاتھوں خلافت عثمانیہ کی فوجوں کی شکست کے بعد آل سعود کے اچانک آگے بڑھنے اور اس سے حجاز مقدس کا کنٹرول چھین لینے سے عام مسلمانوں کو یہ اطمینان ہوا کہ ایک غدار کو اپنے جرم کی سزا مل گئی ہے اور اس کی جگہ حجاز مقدس ایک مذہبی اور دیندار خاندان کی تحویل میں آگیا ہے۔ لیکن اصل حقیقت یہ تھی کہ اس خاندان کے پیچھے بھی برطانوی حکومت تھی اور اس کی منصوبہ بندی کے مطابق اس سارے ڈرامے کی تکمیل ہوئی۔

سعودی مملکت قائم ہونے کے بعد اس کی طرف سے مزارات اور مقابر کے انہدام کے حوالہ سے ہندوستان کے عام مسلمانوں میں اضطراب اور تشویش پیدا ہوئی تو مختلف دینی حلقوں نے مسلمانوں کے جذبات سعودی حکومت تک پہنچانے کا اہتمام کیا۔ ان میں ایک لکھنو کی جمعیۃ خدام الحرمین بھی تھی جو فرنگی محل کے معروف علمی مرکز کے سربراہ حضرت مولانا عبد الباری فرنگی محلی کی کوششوں سے قائم ہوئی۔ اس کا ایک وفد ۱۹۲۶ء میں حجاز مقدس گیا اور سعودی مملکت کے بانی شاہ عبد العزیز بن سعود مرحوم سے ملاقات کر کے انہیں ہندوستان کے مسلمانوں کے جذبات سے آگاہ کیا۔ اس وفد کے دورہ کی رپورٹ جمعیۃ خدام الحرمین کے سیکرٹری جنرل شیخ مشیر حسین قدوائی بار ایٹ لاء نے لکھنو سے شائع کی جو اس وقت میرے سامنے ہے۔ اور اس میں ایک ضمیمہ کے طور پر اس معاہدہ کا متن عربی اور اردو زبانوں میں درج ہے جو ۱۹۱۵ء میں کویت میں شاہ عبد العزیز بن سعود اور برطانوی نمائندہ لیفٹیننٹ کرنل سر پرسی کاکس کے درمیان تحریری طور پر طے پایا۔ اس معاہدہ کے بعد آل سعود کے سربراہ شاہ عبد العزیز کو برطانوی حکومت کی طرف سے ’’ستارہ ہند‘‘ کے سرکاری اعزاز سے بھی نوازا گیا۔ اور سرپرسی کاکس نے شاہ عبد العزیز کے سینے پر ’’ستارہ ہند‘‘ کا تمغہ آویزاں کرنے کے بعد جو گروپ فوٹو کھنچوایا وہ بھی اس رپورٹ میں موجود ہے۔

اس پس منظر میں معاہدہ کا متن ملاحظہ فرمائیے:

’’چونکہ حکومت عالیہ برطانیہ اور نجد و احساء و قطیف و جبیل اور اس کے ملحق مقامات کے حاکم عبد العزیز بن عبد الرحمان بن فیصل السعود کی خود اور اپنے ورثاء اور قبائل کی طرف سے ایک عرصہ سے خواہش تھی کہ طرفین (برطانیہ اور ابن سعود) میں دوستانہ راہ و رسم کی تجدید ہو جائے اور فریقین کے اغراض و مقاصد کے مضبوط کرنے کے لیے عمدہ تصفیہ ہو جائے، اس لیے حکومت برطانیہ نے سرپرسی کاکس بالقابہ نمائندہ برطانیہ متعینہ خلیج فارس کو سلطان ابن سعود سے مذکورہ بالا مقصد کا ایک معاہدہ طے کرنے کے لیے اپنا وکیل مقرر کیا۔ چنانچہ سر مذکور اور ابن سعود میں حسب ذیل امور پر معاہدہ طے ہوا کہ:

دفعہ نمبر ۱

حکومت برطانیہ اعتراف کرتی ہے اور اس کو اس امر کے تسلیم کرنے میں کوئی عذر نہیں ہے کہ علاقہ جات نجد، احساء، قطیف، جبیل اور خلیج فارس کے ملحقہ مقامات جن کی حد بندی بعد کو ہوگی، یہ سلطان ابن سعود کے علاقہ جات ہیں۔ اور حکومت برطانیہ اس امر کو تسلیم کرتی ہے کہ ان مقامات کے مستقل حاکم سلطان مذکور اور ان کے بیٹے اور ان کے جانشین ہیں۔ ان کو ان ممالک اور قبائل پر خود مختار حکومت حاصل ہے اور اس کے بعد اس کے لڑکے بالے ان کے صحیح وارث ہوں گے۔ لیکن ان ورثاء میں سے ایک کو سلطنت کے لیے انتخاب و تقرر کی یہ شرط ہوگی کہ وہ شخص سلطنت برطانیہ کا کچھ بھی مخالف نہ ہو اور مشروط مندرجہ معاہدہ ہذا کی رو سے شخص مذکور برطانیہ کے خلاف نہ ہو۔

دفعہ نمبر ۲

اگر کوئی اجنبی طاقت سلطان ابن سعود اور اس کے ورثاء کے ممالک پر حکومت برطانیہ کے مشورہ کے بغیر یا اس کو ابن سعود کے ساتھ مشورہ کرنے کی فرصت دیے بغیر حملہ آور ہوگی تو حکومت برطانیہ ابن سعود سے مشورہ کر کے حملہ آور حکومت کے خلاف ابن سعود کو امداد دے گی اور اپنے حالات ملحوظ رکھ کر ایسی تدابیر اختیار کرے گی جن سے ابن سعود کے اغراض و مقاصد اور اس کے ممالک کی بہبود محفوظ رہ سکے۔

دفعہ نمبر ۳

ابن سعود اس معاہدہ پر راضی ہے اور وعدہ کرتا ہے کہ وہ کسی غیر قوم یا کسی سلطنت کے ساتھ کسی قسم کی گفتگو یا سمجھوتہ اور معاہدہ کرنے سے پرہیز کرے گا۔ مالک مذکور بالا کے متعلق اگر کوئی سلطنت دخل دے گی تو ابن سعود فورًا حکومت برطانیہ کو اس امر کی اطلاع دے گا۔

دفعہ نمبر ۴

ابن سعود عہد کرتا ہے کہ وہ اس سے پھرے گا نہیں اور وہ ممالک مذکورہ یا اس کے کسی حصے کو حکومت برطانیہ سے مشورہ کے بغیر بیچنے، رہن رکھنے، مستاجری یا اور کسی قسم کے تصرف کرنے کا مجاز نہ ہوگا۔ اور اس کو اس امر کا اختیار نہ ہوگا کہ وہ کسی حکومت کی رعایا کو برطانیہ کی مرضی کے خلاف ممالک مذکورہ بالا میں کوئی رعایت یا لائسنس دے۔ ابن سعود وعدہ کرتا ہے کہ وہ حکومت برطانیہ کے ارشاد کی تعمیل کرے گا اور اس امر کی قید نہیں ہے کہ وہ ارشاد اس کے مفاد کے خلاف ہو یا موافق۔

دفعہ نمبر ۵

ابن سعود عہد کرتا ہے کہ مقامات مقدسہ کے لیے جو راستے سلطنت سے گزرتے ہیں وہ باقی رہیں گے اور ابن سعود حجاج کی آمد و رفت کے زمانے میں ان کی حفاظت کرے گا۔

دفعہ نمبر ۶

ابن سعود اپنے پیشرو سلاطین نجد کی طرح عہد کرتا ہے کہ وہ علاقہ جات کویت، بحرین، علاقہ جات روسائے عرب، عمان کے ان ساحلی علاقات جات اور دیگر ملحقہ مقامات کے متعلق جو برطانوی حمایت میں ہیں، اور جن کے حکومت برطانیہ کے ساتھ معاہدانہ تعلقات ہیں، کسی قسم کی مداخلت نہیں کرے گا۔ ان ریاستوں کی حد بندی بعد کو ہوگی جو برطانیہ سے معاہدہ کر چکی ہیں۔

دفعہ نمبر ۷

اس کے علاوہ حکومت برطانیہ اور ابن سعود اس امر پر راضی ہیں کہ طرفین کے بقیہ باہمی معاملات کے لیے ایک اور مفصل عہد نامہ مرتب و منظور کیا جائے گا۔‘‘

یہ معاہدہ کویت میں ۲۶ نومبر ۱۹۱۵ء کو طے پایا۔ اس پر سلطان عبد العزیز بن سعود اور برطانوی نمائندہ بی زیڈ کاکس کے دستخط ہیں۔ اور اس کی توثیق ہندوستان میں برطانوی وائسرائے چیمس فورڈ نے ۱۸ مئی ۱۹۱۶ء کو شملہ میں اس پر دستخط ثبت کر کے کی۔ اور اس پر سیکرٹری پولیٹیکل اینڈ فارن ڈیپارٹمنٹ حکومت ہند رے ایچ گرانٹ کے بھی دستخط ہیں۔

اس معاہدہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت برطانیہ نے شریف مکہ کے خاندان اور آل سعود سے ایک ہی سال کے دوران یعنی ۱۹۱۵ء میں دو الگ الگ معاہدے کیے۔ اور شاید ابتدا میں اس کا پروگرام حجاز اور نجد میں دو الگ الگ حکومتوں کو قائم رکھنے کا تھا، لیکن شریف مکہ کو خلافت عثمانیہ سے بغاوت میں کامیابی کے بعد اپنے لیے زیادہ مفید نہ سمجھتے ہوئے حکومت برطانیہ کا ارادہ بدل گیا اور حجاز مقدس بھی آل سعود کی تحویل میں دے دیا گیا۔

   
2016ء سے
Flag Counter