سیٹلائٹ ٹاؤن گوجرانوالہ کے سلامت ہسپتال میں ڈاکٹر صداقت علی صاحب کی دعوت پر ہر بدھ کو تین بجے گھنٹے پون گھنٹے کی ایک محفل جمتی ہے جس میں شہر کے چند سرکردہ ڈاکٹر صاحبان اور سلامت ہسپتال کے عملہ کے حضرات شریک ہوتے ہیں۔ اس محفل میں قرآن کریم کی چند آیات کا ترجمہ اور تشریح بیان ہوتی ہے، کچھ دینی مسائل پر تبادلہ خیال ہوتا ہے اور پھر ماحضر اکٹھے تناول کر کے محفل اختتام پذیر ہو جاتی ہے۔
قرآن کریم کا ترجمہ اور تفسیر ترتیب تسلسل کے ساتھ چل رہی ہے۔ فاتحہ سے سورۃ آل عمران کی آیت ۱۵۵ تک یہ خدمت ہمارے فاضل دوست پروفیسر غلام رسول عدیم صاحب سر انجام دیتے رہے، اس کے بعد قرعہ فال میرے نام نکل آیا اور ڈاکٹر صاحبان کے ذوق قرآن فہمی نے مجھے گوناگوں مصروفیات کے باوجود اس ہفتہ وار محفل میں پابندی کے ساتھ حاضری پر مجبور کر دیا۔
گزشتہ بدھ کو سورۃ النساء کی آیت ۳۶ تا ۴۲ زیر درس تھی جن میں سے پہلی آیت کریمہ میں حقوق کا تذکرہ ہے۔ حقوق اللہ کا بھی اور حقوق العباد کا بھی۔ چونکہ ان دنوں حقوق انسانی کا تذکرہ ہر محفل میں ہونے لگا ہے اور اسلام کے بارے میں بطور خاص یہ کہا جانے لگا ہے کہ حقوق کے حوالے سے اس کا دامن آج کی دنیا کے بہت سے حلقوں کو تنگ نظر آتا ہے۔ اس آیت کریمہ کی تشریح میں جو گزارشات پیش کیں ان کا خلاصہ قارئین کی نذر کیا جا رہا ہے تاکہ یہ بات واضح ہو سکے کہ حقوق کے بارے میں اسلام نے کتنا متوازن، جامع اور وسیع پیکیج دیا ہے۔
اس آیت کریمہ میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کی تلقین کی ہے اور شرک سے ہر حال میں بچنے کا حکم دیا ہے جو انسان کے ذمہ اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا اور بنیادی حق ہے اور حقوق اللہ کی ادائیگی کی اساس ہے۔ انسان کے پاس سب سے بڑی نعمت اس کی زندگی ہے جس کی وجہ سے وہ باقی نعمتوں سے استفادہ کر پاتا ہے۔ یہ زندگی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہے اس لیے سب سے پہلے انسان کے ذمہ حق بھی اللہ کا ہی لازم آتا ہے کہ وہ اس کا شکر ادا کرے، اس کے احکام کی پیروی کرے اور اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ ٹھہرائے۔
اس کے بعد ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کا حکم ہے۔ قرآن کریم میں اور بھی بعض مقامات پر اللہ تعالیٰ نے یہ اسلوب اختیار کیا ہے کہ اپنی بندگی اور توحید کے ساتھ ماں باپ سے حسن سلوک کا تذکرہ کیا ہے۔ اس کی وجہ مفسرین یہ بیان کرتے ہیں کہ انسان کی زندگی کا اصل خالق اللہ تعالیٰ ہے لیکن عالم اسباب میں اس کی زندگی اور وجود کا باعث اس کے ماں باپ ہیں۔ اس لیے حقوق خداوندی کے بعد ماں باپ کا حق بنتا ہے کہ ان کی فرمانبرداری کی جائے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کیا جائے۔ یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ اللہ تعالیٰ کی توحید کے اقرار اور اس کی بندگی میں اللہ تعالیٰ اور رسول خداؐ کے حقوق سمیت تمام احکام شریعہ شامل ہیں۔ کیونکہ عبادت اور بندگی کا مطلب صرف یہ نہیں کہ چند رسوم شرعیہ کو بجا لایا جائے، بلکہ ان کے ساتھ زندگی کے تمام معاملات میں قرآن و سنت کی پیروی بھی بندگی کے مفہوم میں شامل ہے۔
ماں باپ کے بعد اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں کو انسان کے حسن سلوک کا حقدار قرار دیا ہے وہ اس آیت کریمہ کی رو سے درج ذیل ہیں:
- قریبی رشتہ دار
- یتیم بچے
- نادار اور مسکین لوگ
- وہ پڑوسی جو رشتہ دار بھی ہیں
- وہ پڑوسی جو رشتہ دار نہیں ہیں
- رفیق سفر اور ہم مجلس دوست
- مسافر اور مہمان
- غلام اور ماتحت افراد
ان افراد کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دے کر اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ کا اختتام اس جملہ پر کیا ہے کہ:
’’بے شک اللہ تعالیٰ کسی متکبر اور شیخی بگھارنے والے کو پسند نہیں کرتے۔‘‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد میں کوتاہی اللہ تعالیٰ کے نزدیک تکبر اور شیخی بگھارنے کے زمرہ میں شمار ہوتی ہے۔ اور جس طرح اللہ تعالیٰ کی بندگی سے گریز کبر و نخوت کی علامت ہے اسی طرح اس کے بندوں کے حقوق کو اہمیت نہ دینا اور ان کی ادائیگی کی ضرورت محسوس نہ کرنا بھی خود کو بڑا سمجھنے اور لوگوں کو حقیر تصور کرنے کے مترادف ہے۔
بندوں کے یہ حقوق ’’معاشرتی حقوق‘‘ ہیں اور ان کی پاسداری کو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کیا حیثیت دیتے تھے اس کا اندازہ ایک واقعہ سے کیا جا سکتا ہے جو بخاری شریف میں مذکور ہے۔ آنحضرتؐ ایک محفل میں تشریف فرما تھے۔ آپ کے دائیں جانب ایک نو عمر بچہ (حضرت عبد اللہ بن عباسؓ) اور بائیں جانب بڑی عمر کے جوان (حضرت خالد بن ولیدؓ) بیٹھے تھے۔ حضورؐ کی خدمت میں ایک مشروب پیش کیا گیا جو آپ نے نوش فرمایا۔ جبکہ برتن میں کچھ مشروب بچ گیا جو آپ نے بائیں جانب والے ساتھی کو دینا چاہا۔ مگر چونکہ حق دائیں جانب والے کا تھا اس لیے اس سے پوچھا کہ اگر تم اجازت دو تو میں یہ بچا ہوا مشروب دوسری طرف والے ساتھی کو دے دوں؟ اس پر نو عمر لڑکے نے کہا کہ:
’’میں آپؐ کے تبرک میں اپنے حق پر کسی کو ترجیح نہیں دیتا۔‘‘
اس واقعہ کے راوی حضرت سہل بن ساعدؓ کہتے ہیں کہ یہ جواب سن کر آنحضرتؐ نے وہ پیالہ اس بچے کے ہاتھ میں اس طرح تھمایا کہ اس میں ناگواری کے اثرات محسوس ہو رہے تھے۔اس سے اندازہ کر لیجیے کہ جناب نبی اکرمؐ کی نظر میں باہمی حقوق کی کیا اہمیت تھی کہ خود حضورؐ وہ پیالہ دوسری طرف دینا چاہتے تھے لیکن حق والا اپنے حق سے دستبردار نہیں ہوا جس پر آپؐ کو ناگواری ہوئی مگر اس کے باوجود پیالہ اسی کے ہاتھ میں دیا جس کا حق تھا۔ ایسا کر کے جناب رسول اللہؐ نے ہمیں یہ تعلیم دی کہ باہمی حقوق کی ادائیگی کا کس درجہ اہتمام ضروری ہے۔
آج ہمارا اصل المیہ یہ ہے کہ قرآن کریم کی تعلیمات سے ہم خود بھی آگاہ نہیں ہیں اور دنیا کو بھی ان سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہمیں صحیح طور پر محسوس نہیں ہو رہی۔ ورنہ حقوق کا جو جامع اور متوازن تصور قرآن کریم نے دیا ہے دنیا کے کسی نظام میں اس کا کوئی متبادل نہیں ہے۔