برطانوی اخبارات میں ان دنوں ایک مقدمہ کا بہت چرچا ہے جو ایک برطانوی شہری یوان سدرلینڈ نے یورپی عدالت میں دائر کر رکھا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں ہم جنس پرستی کے لیے ۱۸ سال کی عمر کی جو حد قانون نے مقرر کر رکھی ہے وہ انسانی حقوق کے منافی ہے، کیونکہ عورت کے ساتھ شادی کے لیے قانون میں ۱۶ سال کی عمر مقرر ہے، مگر ہم جنس پرستی کی اجازت کے لیے ۱۸ سال کی عمر کی حد لگائی گئی ہے۔ اس نے یورپی عدالت سے درخواست کی ہے کہ برطانوی حکومت کو پابند کیا جائے کہ وہ ہم جنس پرستی کے لیے عمر کی حد کو ۱۸ سال سے کم کر کے ۱۶ سال کر دے۔
روزنامہ جنگ لندن نے ۱۶ جولائی ۱۹۹۷ء کو اس سلسلہ میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ہم جنس پرستی کی قانونی اجازت کے لیے بیلجیم میں ۱۶ سال، فن لینڈ میں ۱۸ سال، فرانس میں ۱۵ سال، یونان میں ۱۵ سال، اٹلی میں ۱۶ سال، سلوانیہ میں ۱۴ سال، اور اسپین میں ۱۲ سال کی عمر مقرر ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ برطانوی حکومت نے عندیہ دیا ہے کہ وہ یورپی عدالت میں اس درخواست کی مخالفت نہیں کرے گی، اور کامیابی کی صورت میں وہ اس سلسلہ میں قانون سازی کے لیے تعاون کرے گی۔ چنانچہ اس بارے میں حکمران پارٹی کے ایک اجلاس میں ووٹنگ کے دوران وزیراعظم ٹونی بلیئر نے بھی عمر کم کرنے کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس درخواست کے قبول ہونے میں کوئی بڑی رکاوٹ باقی نہیں رہ گئی ہے۔
جبکہ ایک اور اخباری رپورٹ کے مطابق برطانوی پارلیمنٹ کے ان ارکان کے مرد دوستوں کو باقاعدہ بیوی کی حیثیت سے سرکاری مراعات اور پروٹوکول فراہم کرنے کی تجویز سرکاری حلقوں میں ان دنوں منظوری کے آخری مراحل میں ہے۔
ادھر جنگ لندن کی مذکورہ رپورٹ کے مطابق مذہبی رہنما اس تجویز کی سختی سے مخالفت کر رہے ہیں، اور اسکاٹ لینڈ کیتھولک چرچ کے سربراہ فادر ٹام کوملے نے کہا ہے کہ چرچ ہم جنس پرستی کو تسلیم ہی نہیں کرتا، ہمارے نزدیک یہ بالکل غلط کام ہے، اسے قابلِ سزا جرم ہونا چاہیے اور قانون کو نوجوانوں کی حفاظت کرنی چاہیے۔ جبکہ چرچ آف اسکاٹ لینڈ کے سماجی ذمہ داریوں کے بورڈ کے چیئرمین ہیو براؤن سے اس سلسلہ میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا ہم اس برے فعل کے ہی خلاف ہیں لہٰذا ہم عمر میں کمی کو کیسے پسند کر سکتے ہیں۔
ہمیں چرچ کے راہنماؤں کے اس موقف سے اتفاق ہے اور ہمدردی بھی، مگر اس کے ساتھ یہ عرض کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ یہ اخلاق باختگی اس خواہش پرستی اور مادر پدر آزادی کا منطقی نتیجہ ہے جو گزشتہ دو صدیوں سے مغربی معاشرہ کا طرۂ امتیاز بنی ہوئی ہے، اور سوسائٹی کو اس بے قید آزادی کا عادی بنانے میں چرچ بھی برابر کا ذمہ دار ہے، اس لیے ؎
جب چڑیاں چگ گئیں کھیت