قرآن کریم کی تعلیم لازم کرنے کا مستحسن حکومتی فیصلہ

   
۲۰ جون ۲۰۱۶ء

پیشہ وارانہ تعلیم و تربیت کے وفاقی وزیر مملکت جناب بلیغ الرحمن نے گزشتہ روز اسلام آباد میں اسلامی نظریاتی کونسل کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے قرآن کریم کی تعلیم لازمی کر دی ہے۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق اس بریفنگ میں وفاقی وزیر نے بتایا کہ پہلی سے پانچویں جماعت تک تمام بچوں کو قرآن کریم ناظرہ پڑھایا جائے گا، جبکہ چھٹی سے بارہویں تک طلبہ کو قرآن کریم کی ترجمہ کے ساتھ تعلیم دی جائے گی جس میں ساتویں سے دسویں تک قرآن کریم میں بیان کیے گئے واقعات پڑھائے جائیں گے۔ اور دسویں سے بارہویں تک مسلمانوں کو دیے گئے احکامات پر مشتمل سورتیں ترجمے کے ساتھ پڑھائی جائیں گی۔

رمضان المبارک کے دوران جناب بلیغ الرحمن کی طرف سے دی جانے والی یہ خبر پوری قوم کے لیے بہت بڑی خوشخبری ہے جس پر ہم ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے حکومت کو اس فیصلہ پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔

قرآن کریم ہماری زندگی، ایمان اور نجات کی بنیاد ہے جس کی تعلیم ایمان کا تقاضہ ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور و قانون کی ناگزیر ضرورت بھی ہے اور ہمارے بہت سے قومی اور معاشرتی مسائل کا حل اس سے وابستہ ہے۔ یہ کام قیام پاکستان کے بعد ہی ہوجانا چاہیے تھا اور ۱۹۷۳ء کے دستور کے نفاذ کے بعد تو اس میں تاخیر کی کوئی گنجائش ہی نہیں تھی۔ لیکن مختلف اندرونی و بیرونی عوامل کے باعث یہ مبارک کام مسلسل ٹال مٹول کا شکار ہوتا رہا اور اب اس طرف حکومت نے سنجیدہ توجہ کا عندیہ دیا ہے تو ہم سب کو اس پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اس کی تکمیل میں ہر سطح پر مخلصانہ تعاون کا اہتمام بھی کرنا چاہیے۔

ابھی حال ہی میں ظفر وال ضلع نارووال کے ہمارے ایک عزیز شاگرد مولانا حافظ احسان اللہ تبلیغی جماعت کے ساتھ بیرون ملک ایک سال لگا کر واپس آئے ہیں، میں نے ان سے سفر کے احوال دریافت کیے تو انہوں نے بتایا کہ ان کا زیادہ وقت سوڈان میں گزرا ہے۔ وہاں کے حالات پوچھتے ہوئے میں نے سوال کیا کہ وہاں دینی مدارس کا ماحول کیسا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ وہاں ہماری طرز کے دینی مدارس سرے سے موجود ہی نہیں ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ سوڈان کے قومی تعلیمی نظام میں دینی تعلیم سرکاری نصاب کا حصہ ہے اور میٹرک یا انٹر میڈیٹ تک ریاستی تعلیمی اداروں میں طلبہ کو اتنی ضروری دینی تعلیم سے آراستہ کر دیا جاتا ہے کہ پھر ان کے لیے الگ دینی مدارس کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔

ہمارے ہاں دینی مدارس کے جداگانہ تعلیمی کردار اور امتیازی ماحول کی شکایت تو ہر حلقہ میں کی جاتی ہے مگر اس بات کی طرف کسی کی توجہ نہیں ہے یا کوئی توجہ دینا نہیں چاہتا کہ دینی تعلیم قوم کی ایک لازمی ضرورت ہے، اسے اگر ریاستی نظام تعلیم پورا نہیں کرے گا تو قوم اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی راستہ ضرور اختیار کرے گی۔ اور ہمارے ماحول میں دینی مدارس کی موجودگی اور ان کے ساتھ قوم کے ہر طبقہ کے بھرپور تعاون کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ دینی مدارس پاکستانی قوم کی ایک بہت بڑی ضرورت کی تکمیل کا سامان فراہم کیے ہوئے ہیں اور اس کے لیے ہر وقت سرگرم رہتے ہیں۔ جبکہ ریاستی اداروں اور مقتدر حلقوں کی طرف سے اس ضرورت کی تکمیل کا کوئی بندوبست آج تک سامنے نہیں آیا۔

اس کے ساتھ ہماری ایک بدقسمتی اور بھی ہے کہ عالمی لابیوں اور قومی سیکولر حلقوں نے ایک خود ساختہ اور مصنوعی تاثر قائم کر رکھا ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو دینی تعلیم مجبوری کی وجہ سے دلاتے ہیں کہ دینی تعلیم کی طرف وہی لوگ آتے ہیں جو سرکاری اور پرائیویٹ عصری تعلیمی اداروں میں تعلیم کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ اس لیے ان کے خیال میں دینی تعلیم ضرورت نہیں بلکہ مجبوری ہے۔ حالانکہ یہ تاثر سراسر گمراہ کن اور خلاف واقعہ ہے۔ ملک بھر میں دینی تعلیم حاصل کرنے والوں کے بارے میں سروے کیا جائے اور پرائیویٹ عصری تعلیمی اداروں میں قرآن کریم کی تعلیم کے بڑھتے ہوئے رجحانات کو دیکھ لیا جائے تو اس مصنوعی تاثر کی قلعی کھل جائے گی اور واضح ہو جائے گا کہ کھاتے پیتے گھرانوں اور پوش خاندانوں میں بھی دینی تعلیم کے رجحان میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ اور بحمد اللہ تعالیٰ پوری قوم میں یہ احساس دن بدن اجاگر ہو رہا ہے کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جس کا پڑھنا اور سننا ہمارے لیے ثواب و برکت اور شفاء و مغفرت کے حصول کا باعث ہے، جبکہ اس سے راہنمائی لینا ہماری قومی ضرورت ہے۔

حتیٰ کہ جس فرقہ واریت کی ہر طرف دہائی دی جا رہی ہے اس کا سادہ سا حل بھی یہی ہے کہ قرآن کریم کو ترجمہ و مفہوم کے ساتھ قوم کی دست رس میں لایا جائے۔ پرانی بات ہے کہ ایک طویل سفر کے دوران میرے ایک ہم سفر نے مجھ سے بحث چھڑ دی کہ مولوی صاحبان نے قوم کو خواہ مخواہ فرقہ وارانہ مسائل میں الجھا رکھا ہے، ہر مولوی قرآن کریم کی آیات پڑھتا ہے اور حدیثیں سناتا ہے جس سے ہم مشکل میں پڑ جاتے ہیں کہ کس مولوی کی بات مانیں اور کس کی نہ مانیں۔ ان کا لہجہ تو بہت تلخ تھا مگر میں نے آہستگی سے کہا کہ میرے بھائی یہ سوچیں اس میں قصور کس کا ہے؟ اگر آپ قرآن کریم کا ترجمہ جانتے ہوں اور عربی زبان سے اتنا واقف ہوں کہ حدیث رسولؐ کا مفہوم سمجھ سکیں تو کیا کوئی مولوی صاحب قرآن کریم کی آیات یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سنا کر آپ سے اپنے مطلب کی بات منوا سکے گا؟ ان صاحب نے کہا کہ نہیں پھر تو میں کوئی غلط بات نہیں مانوں گا۔ میں نے کہا کہ پھر زیادہ قصور تو آپ کا ہے کہ کچھ لوگ آپ کی بے خبری اور جہالت کا غلط فائدہ اٹھالیتے ہیں جبکہ آپ اپنی کمزوری کی طرف توجہ دینے کی بجائے سارا قصور مولویوں کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں۔

ہمارے معاشرہ میں فرقہ وارانہ عصبیت و منافرت اور ’’امپورٹڈ دانش‘‘ دونوں کو اپنے پاؤں جمانے کا موقع اس لیے مل رہا ہے کہ عام مسلمان کا قرآن و سنت کے ساتھ فہم و شعور کا تعلق نہیں ہے اس لیے دونوں طبقے من مانی تشریحات کا حوصلہ کر لیتے ہیں۔ اگر معاشرہ میں قرآن و سنت کے فہم و شعور کا اجتماعی ماحول پیدا کر دیا جائے اور اس میں ریاستی ادارے اور میڈیا اپنے منفی کردار کو مثبت کردار میں بدل دیں تو ان دونوں بیماریوں سے سوسائٹی کو نجات مل سکتی ہے۔

چنانچہ ہم وفاقی حکومت کے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے امید رکھتے ہیں کہ اس پر سنجیدگی کے ساتھ عمل کا اہتمام بھی کیا جائے گا جس کے لیے سب سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ سکولوں میں قرآن کریم کی مذکورہ تعلیم و تدریس کے لیے مستند اور اہل مدرسین کا انتخاب کیا جائے اور زبانی جمع خرچ سے گریز کرتے ہوئے قوم کے بچوں کو پورے خلوص کے ساتھ قرآن کریم کی تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کا اہتمام کیا جائے۔

   
2016ء سے
Flag Counter