جمعیۃ علماء اسلام اور امام ولی اللہ کا انقلابی اسلامی پروگرام

تحریک آزادیٔ ہند میں کانگریس اور مسلم لیگ سمیت دوسری جماعتیں ایک عرصہ تک صرف داخلی خودمختاری اور آئینی مراعات کے مطالبات پر اکتفا کیے ہوئے تھیں لیکن بہت جلد ان کو جمعیۃ علماء ہند کی طرح مکمل آزادی کے اسٹیج پر آنا پڑا ۔۔۔ اور پھر جب پاکستان کے قیام کی تحریک چلی تو اگرچہ ولی اللہی پارٹی کے سرکردہ ارکان قیام پاکستان کے مخالف تھے اور جمعیۃ علماء ہند نے کھلم کھلا اس کی مخالفت کی تھی، لیکن اس فیصلہ سے اختلاف کر کے تحریک پاکستان کے کیمپ میں شامل ہونے والے عظیم راہنما علامہ شبیر احمدؒ عثمانی بھی ولی اللہی گروہ سے ہی تعلق رکھتے تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ فروری ۱۹۷۵ء

کراچی کا فساد ‒ ریڈیو اور ٹیلی ویژن ‒ پاور لومز کی صنعت

جناب رسالتمآبؐ کی ولادت باسعادت کے مقدس دن کراچی میں جو کچھ ہوا وہ انتہائی افسوسناک ہے اور ہر شہری ان افراد کے غم میں رنجیدہ ہے جو شر پسند عناصر کی غنڈہ گردی کا شکار ہوگئے۔ تا دمِ تحریر سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق اسے فرقہ وارانہ فساد کا نام دیا گیا ہے مگر قائد جمعیۃ حضرت مولانا مفتی محمود کا یہ ارشاد بالکل بجا ہے کہ حالیہ تحریک اور انتخابی مہم میں مختلف مکاتب فکر کی طرف سے باہمی اتحاد و اتفاق اور اعتماد و رواداری کا جو مثالی مظاہرہ دیکھنے میں آیا ہے اس کے پیش نظر کسی اشتعال کے بغیر فرقہ وارانہ فساد کی بات کچھ قرین قیاس معلوم نہیں ہوتی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳ مارچ ۱۹۷۸ء

فرقہ وارانہ کشیدگی اور ہماری ذمہ داری

اردن کے شاہ حسین نے گزشتہ دنوں ایک اخباری انٹرویو میں کہا ہے کہ ’’عالمِ اسلام میں شیعہ سنی تنازعات کو ہوا دینے کی مسلسل کوشش کی جا رہی ہے اور بین الاقوامی سطح پر سازشی عناصر اس سلسلہ میں مصروفِ عمل ہیں‘‘۔ اسلام میں ایک جائز حد کے اندر اختلافِ رائے کی افادیت و ضرورت کو تسلیم کیا گیا ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس علمی اختلاف کو رحمت قرار دیا ہے۔ لیکن یہ اختلاف وہ ہے جو علمی مسائل میں جائز حدود کے اندر نیک نیتی سے دینی امور کی وضاحت کے لیے کیا جائے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ مارچ ۱۹۸۲ء

صحافت اور ذمہ داری ‒ بسوں کے کرایوں میں اضافہ

صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں ذمہ دارانہ صحافت پر کوئی پابندی نہیں ہے اور نہ ہی مستقبل میں کوئی پابندی عائد کرنے کا ارادہ ہے۔ اخبارات کو چاہیے کہ وہ ایک عظیم مشن اور سماجی خدمت کے جذبے کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کریں اور اپنے پیشہ وارانہ مفادات کا لحاظ رکھتے ہوئے عوام کی مثبت خطوط پر رہنمائی کریں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۹ اپریل ۱۹۸۲ء

ایرانی عوام کی جدوجہد

برادر پڑوسی ملک ایران کے عوام ایک عرصہ سے شہنشاہیت کے خاتمہ کے لیے نبرد آزما ہیں، ان کی پرجوش تحریک کی قیادت علامہ آیت اللہ خمینی اور علامہ آیت اللہ شریعت سدار جیسے متصلب شیعہ راہنماؤں کے ہاتھ میں ہے اور اس تحریک میں علماء و طلباء کے علاوہ خواتین، مزدور، ملازمین اور دوسرے طبقے بھی سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔ ہزاروں ایرانی اس وقت تک اس جدوجہد میں اپنی جانوں پر کھیل چکے ہیں اور تحریک کی شدت کا یہ عالم مکمل تحریر

۱۵ دسمبر ۱۹۷۸ء

گلگت بلتستان کا اصل مسئلہ کیا ہے؟

ستمبر کے آخر میں بلتستان کے پانچ روزہ سفر کے دوران مجھے گلگت بلتستان کو داخلی خودمختاری کے پیکیج کے تحت صوبائی درجہ دینے کے بارے میں مختلف طبقات کے لوگوں سے گفت و شنید کا موقع ملا، ان میں علماء کرام بھی ہیں، سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی ہیں، صحافی حضرات بھی ہیں اور انتظامیہ و عدلیہ کے بعض اعلیٰ افسران بھی شامل ہیں۔ ان حضرات کے تاثرات ملے جلے ہیں، حمایت کرنے والے لوگ بھی موجود ہیں اور مخالفت کرنے والوں کی کمی بھی نہیں، جبکہ حمایت کے باوجود تحفظات رکھنے والے حضرات بھی اچھی خاصی تعداد میں پائے جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۱ اکتوبر ۲۰۰۹ء

پاکستان، امریکی مفاد کی کڑی؟

جہاں تک امریکہ کی فوجی امداد کی بحالی کا تعلق ہے، اگر امریکہ پاکستان کی امداد بحال کر دے تو اس سے پاکستان کو دفاعی ضروریات پوری کرنے اور برصغیر میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے میں یقیناً مدد ملے گی۔ لیکن اس امداد کے پس منظر میں ڈاکٹر کیسنجر کے ریمارکس کے پیش نظر ہم اس خدشہ کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ شاید ایک بار پھر پاکستان کی خارجہ پالیسیوں کے گرد استعماری زنجیروں کا حلقہ تنگ کیا جا رہا ہے اور امریکہ کی طرف سے فوجی امداد کی یہ بحالی اس سلسلہ کی ایک کڑی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ اکتوبر ۱۹۷۴ء

پارلیمنٹ کا فیصلہ اور قادیانیوں کے عزائم

قادیانیت کے سلسلہ میں پارلیمنٹ کے فیصلہ کو ایک ماہ گزر چکا ہے لیکن ابھی تک نہ تو اس فیصلہ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ضروری اقدامات کا آغاز ہوا ہے اور نہ ہی قادیانی گروہ نے اس فیصلہ کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ مرزا ناصر احمد نے گزشتہ دنوں ربوہ میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے آئین میں واضح ممانعت کے باوجود اپنے دادا کی نبوت کا پرچار جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے اور ’’خدا کی بشارتوں‘‘ کے حوالے سے کہا ہے کہ میں جنوری تک اس فیصلہ کے بارے میں کوئی ردعمل ظاہر نہیں کروں گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ اکتوبر ۱۹۷۴ء

حضرت مولانا مفتی محمودؒ کی وفات پر تعزیتی قرارداد

مجلس شوریٰ کے اجلاس میں قائد محترم حضرت مولانا مفتی محمود نور اللہ مرقدہ کو شاندار خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔ شرکائے اجلاس نے پرنم آنکھوں اور مضطرب دلوں کے ساتھ قائد مرحوم کے مشن پر کاربند رہنے کا عزم کرتے ہوئے ان کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کی اور اس موقع پر انتہائی رقت انگیز فضا میں مندرجہ ذیل قرارداد کے ذریعہ حضرت مفتی اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ کی دینی، سیاسی اور علمی خدمات پر انہیں خراج عقیدت پیش کیا گیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹ دسمبر ۱۹۸۰ء

علماء کا سیاست میں حصہ لینا کیوں ضروری ہے؟

آج کل ایک گمراہ کن غلطی عام طور پر ہمارے معاشرہ میں پائی جاتی ہے کہ علماء اسلام کو ملکی سیاست میں حصہ نہیں لینا چاہیے بلکہ مساجد میں بھی صرف نماز، روزہ اور حج وغیرہ عبادات و اخلاقیات ہی کی بات کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ ملکی معاملات پر گفتگو کرنا اور عام لوگوں کے سیاسی مسائل میں دلچسپی لینا علماء کے لیے غیر ضروری بلکہ نامناسب ہے۔ یہ غلط فہمی سامراج اور اس کے آلۂ کار افراد نے اتنے منظم طریقہ سے پھیلائی ہے کہ آج سامراجی نظام اس غلط فہمی کے سہارے مساجد و مدارس دینیہ میں سیاسیات کے تذکرہ کو روکنے کے لیے قانونی اقدامات کی طرف بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ جولائی ۱۹۷۵ء

Pages

2016ء سے
Flag Counter