اسلامی جمہوری اتحاد، جمعیۃ کا جماعتی اتحاد اور حلقہ ۹۶

عام انتخابات کا دن جوں جوں قریب آرہا ہے سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم میں شدت اور جوش و خروش پیدا ہو رہا ہے۔ ایک طرف پاکستان پیپلز پارٹی ہے جو اپنے نو سالہ سیاسی حلیفوں پر مشتمل ایم آر ڈی کا تیاپانچہ کر کے اکیلی میدانِ انتخاب میں ڈٹی ہوئی ہے اور دوسری طرف اسلامی جمہوری اتحاد ہے جو اسلامی قوانین کی بالادستی، جہادِ افغانستان کی مکمل حمایت اور ایٹمی قوت کے حصول کے عزم کے ساتھ انتخابی مہم میں پیپلز پارٹی کا سامنا کر رہا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ نومبر ۱۹۸۸ء

پیپلز پارٹی اپنے اصل پر

پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت نے برسراقتدار آنے کے بعد گزشتہ چار ماہ سے بھی کم عرصہ کے دوران اپنی پالیسیوں کو جس رخ پر چلانے کی کوشش کی ہے اس سے اس کے عزائم کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ اور ان سیاسی عناصر کی خوش فہمیاں اب ہوا میں تحلیل ہو رہی ہیں جنہوں نے گزشتہ دس سالہ دور میں پی پی پی کی سیاسی رفاقت کا راستہ اس خیال سے اپنا لیا تھا کہ وہ اس پارٹی کو شاید اپنا مزاج اور فکر تبدیل کرنے پر آمادہ کر سکیں گے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۷ مارچ ۱۹۸۹ء

اے بادِ صبا ایں ہمہ آوردۂ تست

یادش بخیر مولانا فضل الرحمان نے ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اصل مسئلہ عورت کی سربراہی کا نہیں ہے بلکہ موجودہ جمہوری نظام ایک غلاظت ہے جس پر خودبخود مکھی آکر بیٹھے گی۔ اگر تم کہو کہ یہ مکھی غلاظت پر کیوں بیٹھتی ہے تو مکھی نے غلاظت پر بیٹھنا ہے چاہے وہ کسی شکل میں ہو۔‘‘ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۱ اپریل ۱۹۸۹ء

عورت کی حکمرانی: علماء کے موقف پر اعتراضات کا تجزیہ

عورت کی حکمرانی کے بارے میں علماء کا موقف قرآن و سنت اور اجماع امت کی روشنی میں اس قدر واضح اور مبرہن ہو کر سامنے آچکا ہے کہ اب اس میں مزید کلام کی گنجائش نظر نہیں آتی۔ اور نہ ہی اہل علم و دانش اور اصحاب فہم و فراست کے لیے اس مسئلہ میں کسی قسم کا کوئی ابہام باقی رہ گیا ہے کہ قرآن و سنت کے صریح احکام اور امت مسلمہ کے چودہ سو سالہ تواتر عملی کی رو سے کسی مسلم ریاست میں خاتون کے حکمران بننے کا کوئی شرعی جواز نہیں ہے۔ البتہ اس موقف اور اس کے مطابق علماء کرام کی اجتماعی جدوجہد کے بارے میں مختلف شکوک و شبہات اور اعتراضات سامنے آرہے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۱ مارچ ۱۹۸۹ء

عورت کی حکمرانی اور مولانا فضل الرحمان کا موقف

عورت کی حکمرانی کے بارے میں تمام مکاتب فکر کے جمہور علماء ایک طرف ہیں کہ قرآن و سنت کے صریح احکام اور امت مسلمہ کے چودہ سو سالہ تواتر عملی کے باعث کسی مسلمان ملک پر عورت کے حکمران بننے کا شرعاً کوئی جواز نہیں ہے۔ جبکہ علماء کہلانے والے چند افراد دوسری طرف ہیں جو کسی منطق، استدلال اور جواز کے بغیر سرکاری ذرائع ابلاغ کے ذریعہ اس پراپیگنڈا میں مصروف ہیں کہ عورت کے حکمران بن جانے میں کوئی حرج نہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۷ مارچ ۱۹۸۹ء

یورپی یونین کے مطالبات اور جمہوریہ ترکی

روزنامہ اسلام کے فارن ڈیسک کی رپورٹ کے مطابق یورپی یونین نے ترکی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ملک میں رائج سزائے موت کا قانون ختم کرے اور اپنے تعلیمی نظام، ریڈیو اور ٹی وی کی نشریات میں ترکی زبان کا استعمال ترک کر دے اور اس کی بجائے انگریزی کو ذریعہ تعلیم، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی نشریات کی زبان کے طور پر اختیار کرے۔ یورپی یونین کے اس مطالبہ پر ترکی میں سخت اضطراب پایا جاتا ہے اور ترکی کے نائب وزیراعظم اور نیشنل موومنٹ پارٹی کے سربراہ دولت باصلی نے یورپی یونین کے اس مطالبے پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ ستمبر ۲۰۰۲ء

ہاشمی سلطنت کا قیام ۔ نئی امریکی سازش

لندن سے شائع ہونے والے ہفت روزہ نوائے وقت نے ۱۱ اکتوبر ۲۰۰۲ء کی اشاعت میں ایک رپورٹ کے ذریعے انکشاف کیا ہے کہ امریکہ نے عراق پر متوقع حملہ کے بعد سرے سے عراق کی ریاست کو ختم کر کے اسے اردن میں ضمن کرنے کے پلان پر غور شروع کر دیا ہے اور اس سلسلہ میں امریکی ماہرین منصوبے کو آخری شکل دینے میں مصروف ہیں۔ رپورٹ کے مطابق مجوزہ پلان یہ ہے کہ عراق اور اردن کو ملا کر ایک علیحدہ سلطنت تشکیل دی جائے گی جس پر اردن کے شاہ عبد اللہ کی قیادت میں ہاشمی خاندان حکومت کرے گا اور اس نئے مجوزہ ملک کا دارالحکومت عمان ہوگا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۱ اکتوبر ۲۰۰۲ء

مولانا محمد اعظم طارق کی نظر بندی

انسدادِ دہشت گردی کی عدالت سے مولانا محمد اعظم طارق کی ضمانت منظور ہوجانے کے باوجود انہیں حکومت پنجاب نے مزید تین ماہ کے لیے نظربندی کے عنوان سے زیرحراست رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ این این آئی کی ایک رپورٹ کے مطابق مولانا محمد اعظم طارق کو حکومتی حلقوں کی طرف سے یہ پیشکش کی گئی ہے کہ اگر وہ جلاوطنی قبول کر لیں تو انہیں رہا کیا جا سکتا ہے ورنہ حکومت اس بات پر مجبور ہے کہ انہیں مسلسل زیرحراست رکھے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مولانا موصوف نے یہ پیشکش قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۱ جولائی ۲۰۰۲ء

مولانا محمد اعظم طارق کی بھوک ہڑتال

عربی ادب کی کتابوں میں کہاوت بیان کی جاتی ہے کہ ایک لڑکا نہر میں ڈبکیاں کھا رہا تھا اور مدد کے لیے چیخ و پکار کر رہا تھا کہ کوئی اسے آکر ڈوبنے سے بچا لے۔ ایک شخص نے نہر کے کنارے سے گزرتے ہوئے اسے دیکھا اور وہیں کھڑے ہو کر اسے ملامت کرنے لگا کہ اگر تجھے تیرنا نہیں آتا تھا تو نہر میں چھلانگ کیوں لگائی تھی؟ یہ بے وقوفی تم نے کیوں کی؟ نہر میں اترتے ہوئے تم نے کیوں نہ سوچا کہ یہ کتنی گہری ہے؟ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۷ اگست ۲۰۰۲ء

ربوہ کا نیا نام: صدیق آباد، نواں قادیان یا چناب نگر؟

گزشتہ روز فلیٹیز لاہور میں انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کی طرف سے ربوہ کا نام تبدیل ہونے کی خوشی میں پنجاب اسمبلی کی قرارداد کے محرک مولانا منظور احمد چنیوٹی اور صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر جناب حسن اختر موکل کے اعزاز میں استقبالیہ تقریب منعقد ہوئی جس میں مختلف دینی جماعتوں کے سرکردہ رہنماؤں نے شرکت کی اور ربوہ کا نام تبدیل کرنے کی قرارداد منظور کرنے پر پنجاب اسمبلی کے ارکان، حکومت، اپوزیشن اور محرک کو خراج تحسین پیش کیا گیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰ دسمبر ۱۹۹۸ء

Pages


2016ء سے
Flag Counter