۱۵ جنوری کو دو اہم تقریبات میں شرکت کا موقع ملا۔ اسلام آباد میں اسلامی نظریاتی کونسل کے ہال میں سید ابوالحسن علی ندویؒ اکیڈمی کے زیر اہتمام مضمون نویسی کے ایک بین الاقوامی مقابلہ کی تکمیل پر انعامات کی تقسیم کے لیے سیمینار منعقد ہوا جس کی صدارت اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین جناب ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کی اور اس سے دیگر ممتاز اصحاب فکر و دانش کے علاوہ معروف اسکالر جناب احمد جاوید نے بھی خطاب کیا۔
اس موقع پر چند گزارشات راقم الحروف نے بھی پیش کیں جن میں اس بات پر زور دیا گیا کہ ندوۃ العلماء لکھنو اور مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی دینی و علمی راہنمائی میں جو نمایاں اور امتیازی خدمات سرانجام دی ہیں انہیں اجاگر کرنے کی ضرورت ہے اور نئی نسل کو ان سے متعارف اور مانوس کرانے کے لیے اس نوعیت کی سرگرمیاں بہت مفید ہیں۔ جنوبی ایشیا میں ۱۸۵۷ء کے بعد امت مسلمہ کی راہنمائی اور اس کے نئے تعلیمی و فکری ڈھانچے کی تشکیل میں علی گڑھ اور دیوبند کے بعد سب سے نمایاں کردار ندوہ کا ہے اور اس کی علمی و فکری جدوجہد تاریخ کے ایک مستقل باب کی حیثیت رکھتی ہے۔ مثلاً ندوہ نے قدیم اور جدید کے حوالہ سے پیدا ہو جانے والی خلیج کو کم کرنے کی کوشش کی، امت کو ماضی سے وابستہ رکھنے کے لیے تاریخ اسلام کو نئے انداز سے پیش کیا، علمی و دینی تحریکات کے ساتھ ساتھ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ اور صحابہ کرامؓ کے اسوہ اور سوانح سے لے کر عصر حاضر کی علمی، دینی اور روحانی شخصیات کے افکار و سوانح کو اردو میں منظم انداز میں متعارف کرایا، تعلیمی خدمات کے ساتھ ساتھ روحانی و اخلاقی تربیت کی طرف خصوصی توجہ دی، اور عربی زبان کو عصر حاضر کی زندہ اور ارتقا پذیر زبان کے طور پر جنوبی ایشیا کے دینی و علمی حلقوں میں زندہ رکھا۔ جبکہ مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے اس کے ساتھ ساتھ فکری راہنمائی کا پرچم بھی سنبھالا اور اسلام کی تہذیبی و ثقافتی روایات کے تحفظ و بقا کے حوالہ سے امت کو مستقبل کے خطرات و ضروریات سے مسلسل آگاہ کیا۔
آج مغرب کی دانش سوسائٹئ میں مذہب کی واپسی کے امکانات اور اس کی پیشرفت کو دیکھتے ہوئے روایت، درایت اور وجدانیات کے جس امتزاج اور توازن کی تلاش میں ہے میرے نزدیک اسے صحیح طور پر مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کے افکار و تعلیمات اور علمی جدوجہد میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔ اور اسلام آباد کی سید ابوالحسن علی ندویؒ اکیڈمی نے اسی عزم کے ساتھ اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا ہے جس پر وہ ہم سب کے شکریہ اور تعاون کی مستحق ہے۔ یہ اکیڈمی ہمارے فاضل دوست جناب جعفر بھٹی نے اپنے رفقاء کے ہمراہ قائم کی ہے اور ایک اچھی لائبریری کے قیام کے علاوہ اس کی طرف سے طلبہ و طالبات میں اس قسم کے سیمینارز اور تقریری و تحریری مقابلوں کا اہتمام بھی کیا جا رہا ہے۔
اسی روز مغرب کی نماز کے بعد محترم صلاح الدین فاروقی کے ہمراہ ہری پور جانا ہوا جہاں ’’الاقتصاد اسلامک سوسائٹی‘‘ نے حلال تجارت کی اہمیت کے عنوان سے بلدیہ ہال میں سیمینار کا اہتمام کر رکھا تھا۔ یہ سوسائٹی ہری پور کے چند علماء کرام نے اپنے تاجر دوستوں کے تعاون سے قائم کی ہے جس کا مقصد تاجر برادری کو تجارت و معیشت کے میدان میں حلال و حرام کے دائروں سے متعارف کرا کے انہیں شرعی بنیادوں پر حلال معاملات اور تجارت کے سلسلہ میں راہنمائی فراہم کرنا ہے۔ یہ سیمینار اسی سلسلہ میں منعقد کیا گیا تھا جس میں بہت سے سماجی راہنماؤں اور تاجر برادری کی سرکردہ شخصیات کے ساتھ ساتھ علماء کرام کی ایک بڑی تعداد بھی شریک تھی۔ جبکہ ممتاز ماہر معیشت محترم ڈاکٹر محمد جہانگیر نے موجودہ حالات کے تناظر میں ملکی اور عالمی سطح پر تجارت و معیشت میں حلال و حرام کے فرق کا ذوق و احساس بیدار ہونے اور اس میں مسلسل اضافہ اور فروغ کی صورتحال پر تفصیلی خطاب کیا، جس میں یہ بات معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ وہ ایک باقاعدہ فورم تشکیل دے کر خیبرپختونخوا میں اس سلسلہ میں محنت کو منظم کر رہے ہیں۔ سیمینار میں راقم الحروف نے بھی چند گزارشات پیش کیں اور علماء کرام کے اس ذوق کو سراہا کہ وہ قوم کی معاشرتی ضروریات کی طرف بتدریج متوجہ ہو رہے ہیں اور مختلف شعبوں میں دینی راہنمائی کا سلسلہ آگے بڑھ رہا ہے۔
ہری پور کے ساتھ ڈھینڈہ میں اپنے مشفق استاذ حضرت مولانا قاضی محمد اسلمؒ کے قائم کردہ دینی ادارہ دارالعلوم انوریہ میں حاضری اور ان کے فرزندان گرامی مولانا قاضی عبد الباقی اور مولانا قاضی عبد الباری کے ساتھ ملاقات کا موقع بھی ملا اور دارالعلوم کی طالبات کی ایک نشست میں کچھ معروضات پیش کیں۔ ڈھینڈہ سے تعلق رکھنے والے حضرت مولانا قاضی محمد اسلمؒ اور حضرت مولانا قاضی عزیز اللہؒ میرے اساتذہ میں سے تھے اور حضرت مولانا حافظ عبد الصبورؒ میرے بزرگ دوست اور ساتھی تھے جو ایک عرصہ تک سمن آباد لاہور کی بینک کالونی میں خطیب و امام رہے ہیں، اس لیے وہاں حاضری میرے لیے سعادت کی بات بھی تھی۔ اللہ تعالٰی ان بزرگوں کے درجات جنت میں بلند سے بلند تر فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔