آج کی صحبت میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ایسے صحابی کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں جنہیں اللہ نے باقی حضرات سے مختلف اور منفرد ذوق عطا فرمایا تھا اور وہ اپنے اس ذوق کے حوالے سے حضرات صحابہؓ میں معروف ہو گئے تھے۔ ان صحابئ رسولؐ کا نام حضرت حذیفہ بن الیمانؓ ہے اور یہ اپنے والد محترم حضرت یمانؓ کے ہمراہ اس دور میں مسلمان ہو گئے تھے جب بدر کا معرکہ بپا ہونے والا تھا۔
یہ دونوں باپ بیٹا مسلمان ہو کر مدینہ منورہ کی طرف آ رہے تھے کہ راستے میں قریش کے لشکر نے گرفتار کر لیا اور اس وعدہ پر چھوڑا کہ وہ قریشِ مکہ کے خلاف جنگ میں جناب نبی اکرمؐ کے ساتھ شریک نہیں ہوں گے۔ یہ جناب نبی اکرمؐ کے پاس پہنچے اور انہیں اپنا ماجرا سنایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عین حالتِ جنگ میں تھے، لیکن لشکر کی تعداد کی قلت کے باوجود نبی اكرمؐ نے انہیں اپنے وعدہ کی پاسداری کا حکم دیا اور اپنے ساتھ لشکر میں شریک نہیں کیا۔ اس کے بعد دونوں باپ بیٹا احد کی لڑائی میں شریک ہوئے اور حضرت یمانؓ اس معرکہ میں شہید ہو گئے۔
حضرت حذیفہؓ کو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ”رازدان صحابی“ بھی کہا جاتا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ ایک غزوہ سے واپسی پر نبی اکرمؐ کو راستہ میں کچھ لوگوں نے شہید کرنے کے لیے گھات لگائی اور جب نبی اکرمؐ وہاں سے گزرے تو انہوں نے اچانک گھیرا ڈال لیا، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا نام بلند کیا تو اس کے رعب سے ان لوگوں کی تلواریں گر گئیں اور وہ ناکام ہو کر بھاگ گئے۔ یہ مدینہ منورہ کے رہنے والے تھے اور منافقین میں سے تھے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے نام حضرت حذیفہؓ کو اس طرح اور وعدہ پر بتا دیے کہ وہ یہ نام کسی اور کو نہیں بتائیں گے، اس لیے انہیں ”رازدارِ رسول“ کہا جاتا ہے اور انہوں نے آخری دم تک اس راز کی حفاظت کی۔
حتیٰ کہ بعض صحابہ کرامؓ بالخصوص حضرت عمرؓ نے ان سے کئی بار ان منافقین کے نام معلوم کرنے کی کوشش کی، مگر انہوں نے نام بتانے سے انکار کر دیا۔ ایک بار حضرت عمرؓ نے ان سے اس انداز سے دریافت کیا کہ کیا ان میں میرا نام تو نہیں ہے؟ جواب دیا کہ آپ کا نام ان میں نہیں ہے، لیکن آپ کے بعد کسی اور کی صفائی نہیں دوں گا۔ حضرت عمرؓ کا خیال تھا کہ اس طرح پانچ سات نام لوں گا تو شاید کسی کا نام آ جائے اور کچھ اندازہ ہو جائے، مگر حضرت حذیفہؓ نے دو ٹوک جواب دے کر اس کا راستہ بھی بند کر دیا۔
روایات میں آتا ہے کہ حضرت عمرؓ کا معمول بن گیا تھا کہ مدینہ منورہ کے کسی عام اور غیر معروف شخص کا جنازہ آتا تو پہلے یہ دیکھتے کہ جنازہ کے اجتماع میں حضرت حذیفہؓ موجود ہیں یا نہیں، اگر وہ شریک ہوتے تو حضرت عمرؓ جنازہ پڑھاتے ورنہ پیچھے ہٹ جاتے، اس خیال سے کہ یہ شخص کہیں ان لوگوں میں سے نہ ہو جن کے نام جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہؓ کو بتائے تھے۔
حضرت حذیفہؓ کو فتنوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے اور امت میں پیدا ہونے والی خرابیوں سے آگاہ رہنے کا بہت شوق تھا اور وہ خود اپنے اس ذوق کا ان الفاظ کے ساتھ اظہار فرماتے ہیں کہ ”کانوا يسئلونہ عن الخیر وكنت اسئلہ عن الشر“ باقی صحابہ کرامؓ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے بارے میں پوچھا کرتے تھے اور میں شر کے بارے میں پوچھتا رہتا تھا، یعنی وہ زیادہ تر ان فتنوں اور خرابیوں کے بارے میں دریافت کرتے تھے جو امت میں جناب نبی اکرمؐ کے بعد رونما ہونے والے تھے۔ اسی لیے فتنوں کے بارے میں زیادہ روایات انہی سے ہیں اور حضرات صحابہ کرامؓ کے دور میں یہ بات عام ہو گئی تھی کہ فتنوں کے حوالہ سے کسی نے کوئی بات پوچھنا ہوتی اور کسی صحابی سے وہ دریافت کرتا تو اسے یہ جواب ملتا کہ حذیفہؓ سے پوچھو، وہ اس کے بارے میں زیادہ جانتے ہیں۔
حضرت عمرؓ نے ایک بار ان سے پوچھا کہ بڑے فتنوں کا ظہور کب شروع ہو گا؟ حضرت حذیفہؓ نے جواب دیا کہ آپ کو ان سے کوئی خطرہ نہیں ہے، کیونکہ آپ کے اور فتنوں کے درمیان ایک مضبوط دروازہ حائل ہے، جو بند ہے۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا کہ وہ دروازہ کھولا جائے گا یا توڑا جائے گا؟ حضرت حذیفہؓ نے جواب دیا کہ توڑا جائے گا۔ اس دروازے سے مراد خود حضرت عمرؓ کی ذات گرامی تھی اور حضرت عمرؓ اس جواب سے یہ سمجھ گئے تھے کہ ان کی موت طبعی نہیں، بلکہ شہادت کی موت ہو گی۔
حضرت حذیفہؓ جہاں فتنوں کے بارے میں باخبر رہتے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے حوالہ سے لوگوں کو باخبر کرتے تھے، وہاں کوئی خرابی نظر آتی تو اس کی نشاندہی کرتے اور اس کو دور کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت میں قرآن کریم کی دوبارہ تدوین اور سرکاری نسخوں کی کتابت کی تحریک بھی حضرت حذیفہؓ نے کی تھی۔ جس کی وجہ یہ ہوئی کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے قرآن کریم کا ایک نسخہ مکمل تحریر کرا کے محفوظ کر لیا تھا، لیکن عام مسلمان اپنے اپنے ذوق کے مطابق مختلف قرأتوں میں قرآن پاک کی تلاوت کرتے تھے، جس کی اجازت تھی اور عرب چونکہ اہل زبان تھے اس لیے قرأتوں اور لغتوں کے اس اختلاف سے انہیں کوئی فرق بھی محسوس نہیں ہوتا تھا۔ کیونکہ ایک لفظ کو ایک ہی زبان کے مختلف لہجوں میں الگ الگ انداز سے ادا کیا جائے تو اس سے صرف تلفظ اور لہجہ بدلتا ہے، لفظ اور اس کے معنی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مگر اس بات کو صرف اہل زبان ہی ملحوظ رکھ سکتے ہیں، دوسری زبان والے لہجہ اور تلفظ کے اس فرق کو بہت بڑا فرق سمجھنے لگتے ہیں اور کم و بیش ہر زبان میں ایسا ہوتا ہے۔ اس لیے جب قرآن کریم کی تلاوت عجمیوں میں آئی تو بعض الفاظ کی ادائیگی میں تلفظ اور لہجے کا فرق جھگڑوں کا باعث بننے لگا۔
حضرت حذیفہؓ ایک سفر میں تھے کہ کسی جگہ پڑاؤ کے موقع پر انہیں اپنے ساتھ والے خیمہ میں دو آدمیوں کے جھگڑے کی آواز سنائی دی، وہاں تشریف لے گئے تو دیکھا کہ دو مسلمان سخت جھگڑا کر رہے ہیں اور بعض روایات کے مطابق انہوں نے تلواریں بھی نکال لی تھیں۔ وجہ یہ تھی کہ ایک صاحب قرآن کریم کی تلاوت کر رہے تھے کہ پاس بیٹھے ہوئے دوسرے ساتھی نے انہیں ایک لفظ پر ٹوکا کہ یہ لفظ اس طرح نہیں ہے جس طرح تم پڑھ رہے ہو۔ اس نے جواب میں کہا کہ میں نے یہ لفظ فلاں صحابی سے اسی طرح پڑھا ہے۔ ٹوکنے والے نے کہا کہ نہیں، میں نے فلاں دوسرے صحابی سے اسے دوسری طرح پڑھا ہے۔ اسی پر دونوں میں تنازعہ ہو گیا اور دونوں ساتھی اپنے اپنے استاذ صحابی کے بتائے ہوئے لفظ پر اڑے ہوئے تھے اور چونکہ دونوں عجمی تھے، اس لیے بات کی تہہ تک پہنچنا ان کے لیے مشکل تھا۔ حضرت حذیفہؓ نے دونوں کو بٹھایا، سمجھا بجھا کر ٹھنڈا کیا اور دونوں سے الگ الگ بات سنی تو بات صرف لفظ کے لہجہ اور ادائیگی کے فرق کی نکلی، اس لیے انہیں تو سمجھایا کہ تم دونوں ٹھیک پڑھ رہے ہو اور دونوں میں سے کوئی بھی غلط نہیں ہے۔
لیکن ان کی دور بین نگاہ نے خطرہ کو محسوس کر لیا کہ یہ بات آگے چل کر کسی بڑے فتنہ کا باعث بن سکتی ہے، اس لیے مدینہ منوره حاضر ہو کر حضرت حذیفہؓ نے امیر المؤمنین حضرت عثمان بن عفانؓ کو صورت حال سے آگاہ کیا اور ان سے درخواست کی کہ اس مسئلہ کا کوئی حل نکالا جائے۔ چنانچہ حضرت عثمان بن عفانؓ نے ام المؤمنین حضرت حفصہؓ کے پاس محفوظ قرآن کریم کا سرکاری نسخہ منگوا کر اس کے مطابق کئی نسخے تیار کرائے اور عالم اسلام کے مختلف علاقوں میں مستند اور معیاری نسخوں کے طور پر انہیں بھجوا دیا۔ پھر امیرالمؤمنین اور خلیفہ راشد کی حیثیت سے یہ حکم صادر فرمایا کہ آئندہ قرآن کریم کی تلاوت قریش کی لغت کے مطابق ہو گی اور باقی لغات اور لہجوں کے مطابق تلاوت قرآن کریم پر پابندی ہو گی اور اس کے ساتھ ہی مختلف حضرات کے پاس موجود مختلف لہجوں اور لغات میں لکھے ہوئے قرآن کریم اور اس کی سورتوں کو حکماً جمع کیا اور انہیں ایک جگہ اکٹھا کر کے نذرِ آتش کر دیا، تاکہ قریش کی لغت سے ہٹ کر اگر کسی نے قرآن کریم یا اس کی کوئی سورت لکھ رکھی ہے تو وہ بعد والے لوگوں کے لیے فتنہ اور خرابی کا باعث نہ بن جائے اور اس طرح حضرت حذیفہؓ کی بروقت جدوجہد سے قرآن کریم کے حوالے سے امت مسلمہ کسی بڑے فتنے کا شکار ہونے سے بچ گئی۔
آج چونکہ فتنوں کا دور دورہ ہے اور ہر روز نت نئے فتنوں کی یلغار ہو رہی ہے، اس لیے حضرت حذیفہ بن الیمانؓ کے اس ذوق کو زیادہ سے زیادہ بیدار کرنے اور ان کے حالاتِ زندگی، ارشادات اور جدوجہد نیز فتنوں کے بارے میں ان کی روایات کو زیادہ سے زیادہ پھیلانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ یہی ایک حصار ہے، جس کے دائرہ میں آ کر ہم فتنوں اور ان کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں اور اپنے ایمان، اعمال اور اخلاق کی حفاظت کر سکتے ہیں۔