۸ جولائی اتوار کا دن بحمد اللہ تعالیٰ خاصا مصروف گزرا، جامعہ نصرۃ العلوم کے اسباق سے فارغ ہو کر جامعہ فاروقیہ کوٹ رفیق کامونکی میں جمعیۃ اہل السنۃ والجماعۃ کے زیر اہتمام علماء کرام کے ماہانہ علاقائی اجتماع میں شرکت ہوئی، اس کے بعد ضلع کچہری گوجرانوالہ کے قریب لارڈز ہوٹل میں متحدہ مجلس عمل کے حلقہ این اے ۸۱ کے امیدوار حافظ حمید الدین اعوان اور صوبائی اسمبلی کے امیدوار ڈاکٹر عبد الرحمان پن اور جناب محمد یوسف بٹ کی انتخابی مہم کے سلسلہ میں منعقد ہونے والے علماء کنونشن میں حاضری دی، جبکہ نماز مغرب کے بعد آسٹریلیا مسجد لاہور میں مجلس ارشاد المسلمین کے رئیس مولانا حافظ عبد الوحید اشرفی کی دعوت پر منعقد ہونے والی ایک فکری نشست میں شریک ہونے کا موقع ملا۔ ان اجتماعات میں حالات حاضرہ کی روشنی میں کچھ اہم مسائل پر گفتگو اور چند سوالات کا جائزہ لینے کی سعادت حاصل ہوئی، گفتگو کے ایک حصے کا خلاصہ نذر قارئین ہے۔
بعد الحمد والصلٰوۃ۔ آج کل ملک بھر میں عام انتخابات کی گہماگہمی ہے متحدہ مجلس عمل سمیت بہت سی دینی جماعتیں اس معرکہ میں شریک ہیں۔ اس سلسلہ میں علماء کرام اور دینی کارکنوں کو ایک سوال کا عام طور پر سامنا کرنا پڑتا ہے کہ علماء کرام کا انتخابی سیاست اور جمہوری عمل سے کیا تعلق ہے؟ یہ سوال دو طرف سے ہوتا ہے۔ ایک طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ علماء کرام کا کام لوگوں کو نماز پڑھانا، دین کی تعلیم دینا اور ان کی دینی و اخلاقی راہنمائی کرنا ہے، سیاست ان کے دائرہ کار کی چیز نہیں ہے اس لیے انہیں اس جھمیلے میں پڑے بغیر اپنے کام کو مسجد و مدرسہ تک محدود رکھنا چاہیے۔ جبکہ دوسری طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ انتخابی اور جمہوری سیاست دینی مزاج کے خلاف ہے اور مغرب کے نظام کی پیروی ہے اس لیے علماء کرام کو نفاذ اسلام کے لیے انتخابی و جمہوری سیاست میں شریک ہونے کی بجائے متبادل صورتیں اختیار کرنی چاہئیں اور مغربی جمہوریت کو اپنانے سے گریز کرنا چاہیے۔
اس سوال کے بارے میں دو حوالوں سے کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔ ایک یہ کہ علماء کرام اور دینی جماعتوں کے سیاسی عمل میں شریک ہونے کا تاریخی پس منظر کیا ہے؟ اور دوسرا یہ کہ اس کی شرعی اور فقہی حیثیت کیا ہے؟
ہمارے ہاں جنوبی ایشیا یعنی پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت وغیرہ میں مسلمانوں کا تاریخی پس منظر مغل بادشاہت کا ہے۔ یہاں مختلف طاقتور مسلمان خاندانوں نے مسلسل ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ تک حکومت کی ہے، ان میں سب سے لمبا عرصہ مغل سلطنت کا تھا جسے برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے ۱۷۵۷ء کے دوران بنگال کے نواب سراج الدولہؒ کو شہید کر کے بتدریج دہلی کی طرف پیشرفت کرتے ہوئے سلطنت سے محروم کر دیا اور ایک صدی اس خطہ پر حکمرانی کی۔ اس کے بعد نوے سال تک براہ راست تاج برطانیہ نے یہاں حکومت کی اور یہ پورا خطہ ان کی نوآبادی رہا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے سو سالہ دور میں ہم نے مزاحمت کا راستہ اختیار کیا جب برصغیر کے طول و عرض میں بیسیوں مسلح تحریکات نے عسکری مزاحمت کی اور مختلف علاقوں میں کنٹرول حاصل کر کے اسلامی شریعت کا نفاذ کیا۔ ۱۸۵۸ء کی جنگ آزادی کے بعد مسلح مزاحمت مجموعی طور پر دم توڑ گئی اور دہلی کا اقتدار برطانوی حکومت نے سنبھال لیا تو اس کے بعد بھی مسلح مزاحمت کی مختلف تحریکات ابھرتی رہیں جن میں سے بڑی اور منظم تحریک شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی تھی جسے برطانوی ریکارڈ میں ’’ریشمی خطوط سازش کیس‘‘ سے تعبیر کیا گیا جبکہ عام طور پر اس کا تذکرہ ’’تحریک ریشمی رومال‘‘ (Silk Letters Movement) کے عنوان سے کیا جاتا ہے۔ یہ تحریک منظم تو ہوئی اور اس کے لیے جرمنی، جاپان، افغانستان اور خلافت عثمانیہ جیسی قوتوں کے ساتھ بین الاقوامی رابطے بھی مکمل ہوگئے مگر قبل از وقت راز افشا ہونے کی وجہ سے عملاً بپا نہ ہو سکی۔ اس ملک گیر بلکہ بین الاقوامی طور پر منظم کی جانے والی تحریک کی ناکامی کے بعد شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ اور ان کے رفقاء نے تحریک آزادی کی بنیادی حکمت عملی تبدیل کر لی اور عسکری مزاحمت ترک کر کے آزادیٔ وطن کے لیے عدم تشدد پر مبنی عوامی سیاسی تحریک کا آغاز کیا اور جمہوری عمل، رائے عامہ کی قوت، اسٹریٹ پاور اور سول سوسائٹی کو اپنی آئندہ جدوجہد کی بنیاد بنایا جس کا تسلسل اب تک چلا آرہا ہے اور جنوبی ایشیا کے دینی عناصر بدستور اسی پر قائم ہیں۔
سیاسی عمل اور جمہوری جدوجہد میں یہ شمولیت دو دائروں میں تھی۔ ایک آزادی کی تحریکات، جلسوں، جلوسوں، گرفتاریوں اور قربانیوں کا دائرہ تھا جس میں ’’تحریک خلافت‘‘ نقطۂ آغاز بنی اور پھر مختلف حوالوں سے پر امن احتجاجی تحریکات کا سلسلہ چل نکلا۔ جبکہ دوسرا دائرہ انتخابات کا تھا جس میں کانگریس اور مسلم لیگ کے ساتھ ساتھ جمعیۃ علماء ہند، مجلس احرار اسلام اور جمعیۃ علماء اسلام کے عنوان سے ہمارے اکابر نے انتخابات میں حصہ لیا اور مختلف اسمبلیوں کے لیے منتخب ہوتے رہے، حتٰی کہ ایک موقع پر مسلم لیگ اور جمعیۃ علماء ہند کے درمیان انتخابی اتحاد ہوا جبکہ کانگریس کی انتخابی مہم میں سرکردہ علماء کرام پیش پیش تھے۔ اور تحریک پاکستان کی حمایت کرنے والی دینی جماعتوں اور شخصیات نے بھی یہی طریق کار اختیار کیا۔ تقسیم ہند اور آزادیٔ وطن کے بعد جب پاکستان بنا تو یہ بنیادی مسئلہ درپیش تھا کہ اس نئی ریاست کی نوعیت کیا ہوگی؟ (۱) خاندانی سلطنت، (۲) جمہوری حکومت اور (۳) طاقتور کی حکمرانی کے تین راستے سامنے تھے، ان کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں تھا۔ خاندانی سلطنت بنتی تو قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم کے خاندان کا حق بنتا تھا کہ ان کی خاندانی بادشاہت کا اعلان کر دیا جاتا جس کے لیے وہ خود بھی تیار نہیں تھے۔ طاقت کو حکومت کے قیام کا ذریعہ تسلیم کر لیا جاتا تو پھر فوج ہی واحد طاقت تھی جسے حکمران طبقہ کے طور پر قبول کر لیا جاتا۔ یا پھر عوامی نمائندگی کے ذریعے حکومت کی تشکیل کو اصول بنا لیا جاتا۔
پاکستان کے تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام نے متفقہ طور پر اس تیسرے راستے کو منتخب کیا اور قراردادِ مقاصد کی صورت میں (۱) اللہ تعالیٰ کی حاکمیت (۲) عوام کے ووٹوں سے حکومت کی تشکیل اور (۳) دستور و قانون میں قرآن و سنت کی بالادستی کے تین اصولوں کو ریاست و حکومت کی اساس قرار دے دیا جس کی بنیاد پر وقفہ وقفہ سے انتخابات ہوتے رہتے ہیں اور حکومتیں بنتی بگڑتی رہتی ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ اور قرآن و سنت کی بالادستی کے لیے علماء کرام اور دینی جماعتوں ہی کی سب سے زیادہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس عمل میں شریک ہوں اور انتخابات میں حصہ لے کر حکومت کی تشکیل میں کردار ادا کریں جبکہ ان کا عظیم تحریکی ماضی بھی ان کی پشت پر ہے۔
یہ فیصلہ کسی مجبوری یا وقتی مصلحت کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ مذکورہ بالا تاریخی تسلسل کے ساتھ ساتھ شرعی اساس بھی رکھتا ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد جب حضرت ابوبکرؓ کی خلافت قائم ہوئی تو وہ نہ تو کسی نسبی استحقاق پر تھی اور نہ ہی طاقت کے ذریعے قبضہ کے طور پر تھی، بلکہ رائے عامہ اور عوامی خواہشات کی صورت میں وہ فیصلہ ہوا تھا جس کے نتیجے میں حضرت ابوبکر صدیقؓ اسلامی ریاست کے حکمران بن گئے تھے۔ فقہاء کرام نے اسلامی خلافت کے انعقاد کی جو صورتیں بیان کی ہیں ان میں سب سے پہلی اور سب سے بہتر صورت یہی بیان کی گئی ہے کہ عوامی مشاورت کے ذریعے رائے عامہ کی بنیاد پر حکومت تشکیل دی جائے اور فقہاء کرام کی بیان کردہ اسی صورت کو ہمارے بزرگوں نے اپنے فیصلے کی بنیاد بنایا ہے۔ چنانچہ پاکستان میں عوام کے ووٹ کے ذریعے حکومت کے قیام کا اصول شرعی اساس پر مبنی ہے جسے کم و بیش سبھی فقہاء کرام نے حضرت صدیق اکبرؓ کی خلافت کے حوالہ سے بیان کیا ہے، اس لیے انتخابی سیاست میں شریک ہونا علماء کرام اور دینی جماعتوں کا صرف حق نہیں ہے بلکہ ان کی شرعی ذمہ داری بھی ہے جس کے ذریعے وہ ملک میں اسلامی نظام کی طرف مؤثر پیشرفت کر سکتے ہیں اور پاکستان کو اسلامی ریاست کی شکل دینے کے لیے یہی طریقہ قابل عمل ہے۔