معلوم ہوتا ہے کہ رائے عامہ کی راہنمائی کا دعوٰی رکھنے والے بہت سے دانشوروں نے خود اپنی ہی تاریخ اور تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کا عزم کر لیا ہے اور اس کے لیے کسی طے شدہ منصوبہ کے تحت لگاتار جھوٹ بولا جا رہا ہے۔ گوئبلز کا یہ مقولہ کہ ’’جھوٹ کو اتنی بار دہراؤ کہ لوگ اسے سچ سمجھنے لگیں‘‘ ہمارے قومی پریس کے بعض قلمکاروں کا ماٹو بن گیا ہے اور اس کے لیے کسی بھی قسم کی اخلاقیات کی پروا کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جا رہی جس پر انا للہ و انا الیہ راجعون کا ورد ہی کیا جا سکتا ہے۔ ’’قراردادِ مقاصد‘‘ کو تحریک پاکستان کے مخالفین کے کھاتے میں ڈالنے کے حوالہ سے تنویر قیصر شاہد صاحب کے ایک کالم پر ہم تبصرہ کر چکے ہیں کہ عید کے دن روزنامہ جنگ میں ایاز امیر صاحب کا یہ ارشاد پڑھنے کو مل گیا:
’’یہ ریاست جس کی بنیاد مسٹر جناح نے رکھی جبکہ انگریز حکومت نے فراخدلی سے اس کی تخلیق کے لیے راستہ دیا، اپنے وجود میں آنے کی منطق کھو چکی ہے۔ ہمیں ان بنیادی حقائق، جو اس کی تخلیق کا باعث بنے، کو تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہیے۔ اگر برصغیر پر برطانیہ کا قبضہ نہ ہوتا تو پاکستان بھی وجود میں نہ آتا۔ مزید یہ کہ برطانوی راج سے مسلمانوں کو اتنی تکلیف نہ تھی جتنی اس تصور سے کہ انگریز کے جانے کے بعد ہندو اکثریت تلے ایک سیاسی اقلیت بن کر رہنا پڑے گا۔ درحقیقت ہمارے آباؤ اجداد نے غیر ملکی تسلط سے آزادی حاصل کرنے کے لیے جدوجہد نہیں کی، کم از کم سر سید احمد خان کو برطانوی راج کے فوائد کے بارے میں کوئی مغالطہ نہ تھا۔ ۱۶ مارچ ۱۸۸۸ء کو میرٹھ میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے علی گڑھ تحریک کے بانی نے فرمایا تھا کہ انڈیا میں امن اور ترقی کے لیے برطانوی حکومت کو مزید کئی سال بلکہ ہمیشہ کے لیے قائم رہنا چاہیے۔ دراصل ہمارے آباؤ اجداد نے اپنے جداگانہ تشخص کی حفاظت کے لیے جدوجہد کی تھی اور برطانیہ جس کا طریق کار ہی یہ تھا کہ ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو، نے بھی اس کاوش میں ان کی حوصلہ افزائی کی۔‘‘
ایاز امیر صاحب پاکستان کے مقصدِ وجود کی افادیت کی نفی کے جوش میں یہ بات بھول گئے ہیں کہ اگر انگریز ہندوستان میں نہ آتا اور برطانوی حکومت قائم نہ ہوتی تو سرے سے پاکستان قائم کرنے کی ضرورت ہی نہ آتی، اس لیے کہ پورے متحدہ ہندوستان کا اقتدار مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا اور وہ اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود پانی پت کے میدان میں ہندو اکثریت سے کامیابی کے ساتھ نمٹ کر یہ بتا چکے تھے کہ ان کے اقتدار کو ادھر سے سرِدست کوئی سنجیدہ خطرہ نہیں ہے۔ پاکستان کے قیام کا دوسرا مقصد بھی انہیں برطانوی حکومت سے پہلے حاصل تھا کہ ملک کا عدالتی نظام فتاوٰی عالمگیری کی بنیاد پر اسلامی قوانین پر مبنی تھا اور سیاسی حکمرانی کے ساتھ ساتھ قانونی حکمرانی کا پرچم بھی انہی کے ہاتھ میں تھا۔ مسلمانوں کے سیاسی اقتدار اور اسلامی قوانین کی عملداری کو ختم کر کے ہی برطانوی حکومت نے ’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی کے تحت ہندوؤں اور مسلمانوں کو باہمی کشمکش کے راستے پر ڈالا تھا جس کی وجہ سے تحفظات کا ذہن رکھنے والے مسلمانوں کو یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ وہ اپنے جداگانہ تشخص کی بات کریں۔ اس لیے یہ کہنا کہ ’’اگر برصغیر پر برطانیہ کا قبضہ نہ ہوتا تو پاکستان بھی وجود میں نہ آتا‘‘ ایک گمراہ کن مغالطہ کے سوا کچھ حیثیت نہیں رکھتا لیکن تحفظات اور مرعوبیت کا شکار ذہن اس کے سوا اور سوچ بھی کیا سکتا ہے!
خیر اس بات کو تو ایک مغالطے کی اوٹ میں چھپایا جا سکتا ہے لیکن اس صریح جھوٹ کو کیموفلاج کرنے کے لیے آخر کون سی تکنیک استعمال کی جائے گی کہ’’درحقیقت ہمارے آباؤ اجداد نے غیر ملکی تسلط سے آزادی حاصل کرنے کے لیے جدوجہد نہیں کی‘‘؟ کیا ایاز امیر صاحب اس حقیقت کو جھٹلا سکتے ہیں کہ انگریز کے برصغیر میں قدم رکھتے ہی مزاحمت کی جدوجہد شروع ہوگئی تھی۔ کیا ۱۷۵۷ء میں بنگال کے نواب سراج الدولہ شہیدؒ کی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ جنگ اپنے جداگانہ تشخص کے تحفظ کے لیے تھی؟ اور سلطان ٹیپو شہیدؒ نے جس جرأت و استقامت کے ساتھ ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوجوں کا مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا تھا اسے ’’جداگانہ تشخص کے تحفظ‘‘ کی جدوجہد کا عنوان دے کر ایاز امیر صاحب تاریخ کی کون سی خدمت کر رہے ہیں اور اسے منطق کی کونسی صنف میں شمار کیا جائے گا؟ ٹیپو سلطان شہیدؒ تو غیر ملکی تسلط کا راستہ روکنے میں اس قدر حساس تھے کہ انہوں نے اس وقت کے عثمانی خلیفہ سے عدن کی بندرگاہ لیز پر مانگ لی تھی اور پیشکش کی تھی کہ اگر انہیں یہ بندرگاہ لیز پر دے دی جائے اور کچھ سائنس دانوں کی خدمات فراہم کر دی جائیں تو وہ پورے برصغیر کو ایسٹ انڈیا کمپنی کے تسلط سے بچانے کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔
پھر ۱۸۵۷ء کی ملک گیر معرکہ آرائی جسے ایاز امیر صاحب کے آباؤ و اجداد کچھ عرصہ پہلے تک ’’غدر‘‘ ہی کا عنوان دیتے رہے ہیں لیکن اب ہماری تاریخ اسے ’’جنگ آزادی‘‘ کے نام سے یاد کرتی ہے، اس میں تو مسلمان، ہندو اور سکھ سبھی شامل تھے۔ اس کے نتائج اور ناکامی کے اسباب پر بحث کی جا سکتی ہے لیکن اس بات میں شک کی کوئی گنجائش آخر کس طرح تلاش کر لی جائے گی کہ یہ معرکہ آرائی غیر ملکی تسلط سے آزادی کے لیے ہی تھی جس میں ہزاروں باشندگان وطن نے آزادیٔ وطن کے جذبہ کے تحت اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا اور اپنا سب کچھ جذبۂ حریت کی نذر کر دیا تھا۔ غیر ملکی تسلط سے آزادی کے لیے برصغیر کے طول و عرض میں بپا ہونے والی تحریکوں کا شمار بیسیوں میں کیا جا سکتا ہے جن میں سے صرف تین تحریکوں کا ہم نے ذکر کیا ہے۔
ایاز امیر صاحب کا کہنا ہے ہے کہ سر سید احمد خان مرحوم نے برطانوی راج کے ہمیشہ قائم رہنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ اس روایت کی ذمہ داری انہی پر ہے مگر ہم یہ جانتے ہیں کہ اگر سر سید احمد خان مرحوم کی یہ خواہش تھی بھی تو ان کی اپنی اگلی نسل نے اس سے بغاوت کر دی تھی اور علی گڑھ سے فیض پانے والے ایک سپوت مولانا محمد علی جوہرؒ نے سر سید احمد خان مرحوم کی وفات کے صرف تیرہ سال بعد ’’کامریڈ‘‘ کے نام سے انگریزی اخبار جاری کر کے اس خواہش کا ’’کریا کرم‘‘ کر دیا تھا۔ مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، ڈاکٹر انصاری، حکیم محمد اجمل خان اور مولانا ظفر علی خان رحمہم اللہ علی گڑھی کے مایہ ناز سپوت تھے جنہوں نے اس آن بان کے ساتھ تحریک آزادی کی قیادت کی کہ تحریک آزادی کا تذکرہ ان کے بغیر مکمل نہیں ہو پاتا۔ مولانا محمد علی جوہرؒ کا یہ اعزاز بھی ہے کہ جب وہ برطانوی حکومت سے مذاکرات کے لیے ۱۹۳۱ء کے دوران گول میز کانفرنس میں شرکت کی غرض سے لندن گئے تو انہوں نے کانفرنس کی میز پر کہہ دیا کہ وہ مکمل آزادی سے کم کسی بات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، اور اگر برطانوی حکومت برصغیر کی مکمل آزادی کا پروانہ انہیں دینے کے لیے آمادہ نہیں ہے تو اسے انہیں قبر کی جگہ بھی ہندوستان سے باہر دینا ہوگی اس لیے کہ وہ غلام ہندوستان میں مرنے اور دفن ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اللہ تعالٰی نے اس مرد قلندر کے اس نعرۂ مستانہ کی لاج اس طرح رکھی کہ گول میز کانفرنس کے بعد وہ بیمار ہوئے، اسی بیماری میں ان کا انتقال ہوگیا اور تدفین کے لیے انہیں بیت المقدس کے ماحول میں حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے قدموں میں قبر کی جگہ ملی۔
ایاز امیر صاحب سے درخواست ہے کہ امریکی بالادستی کی راہ ہموار کرنے کے لیے برطانوی استعمار کے تسلط کا تاریخی جواز تراشنے کی غرض سے وہ اپنی ذہانت کا ضرور اور بھرپور استعمال کریں لیکن اس کے لیے تاریخی حقائق کو مسخ نہ کریں، تحریک آزادی کے شہداء کے مقدس خون کا مذاق اڑانے سے باز رہیں اور گوئبلز کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس کے انجام پر بھی ایک نظر ڈال لیں۔