اسلام کی صحیح شناخت کا معاملہ

   
جولائی ۲۰۰۴ء

مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس گزشتہ ہفتہ ترکی کے شہر استنبول میں منعقد ہوا جس میں پاکستان کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے بھی شرکت کی۔ روزنامہ جنگ لاہور ۱۶ جون ۲۰۰۴ء کی رپورٹ کے مطابق جناب خورشید محمود قصوری نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اسلامی سربراہ کانفرنس پر زور دیا ہے کہ وہ غیر ملکی تسلط کے خلاف مسلمانوں کی جدوجہد کے لیے آواز اٹھائے اور بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اسلامی کانفرنس کو مؤثر اور متحرک بنایا جائے۔ مسلم وزرائے خارجہ کے اس اجلاس میں متعدد فیصلے ہوئے اور اعلانات کیے گئے جو اخبارات کے ذریعہ منظر عام پر آچکے ہیں۔ اس موقع پر اسلام کی صحیح شناخت کا مسئلہ بھی زیر بحث آیا اور مختلف ممالک کے نمائندوں نے اس نقطۂ نظر کا اظہار کیا کہ عالمی میڈیا دنیا کے سامنے اسلام اور مسلمانوں کی جو تصویر پیش کر رہا ہے وہ کردارکشی پر مبنی ہے اور حقائق کے منافی ہے اس لیے اسلام اور مسلمانوں کی درست شناخت دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے اسلامی سربراہ کانفرنس کو مؤثر کردار ادا کرنا چاہیے۔

جہاں تک اسلام اور مسلمانوں کی شناخت کے بارے میں عالمی میڈیا کا تعلق ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا رویہ اس حوالہ سے انتہائی معاندانہ اور تحقیر آمیز ہے۔ اور چونکہ مغرب یہ بات اچھی طرح سمجھتا ہے کہ اس نے لادینیت اور آسمانی تعلیمات سے انحراف و بغاوت کا جو فلسفہ پیش کیا ہے اور اس پر مبنی جو تہذیب و ثقافت دنیا میں متعارف کرا رکھی ہے اس کی راہ میں اسلام ہی ایک مضبوط رکاوٹ ثابت ہو رہا ہے اور اسلامی تعلیمات و اقدار کی وجہ سے مسلم معاشرہ میں مغربی فلسفہ و ثقافت کو رائج کرنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں، جبکہ مغربی دانشوروں کا خیال ہے کہ مستقبل میں بھی صرف اسلام مغربی تہذیب و فلسفہ کے مقابل آسکتا ہے، اس لیے وہ طے شدہ پروگرام اور سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق اسلام کو بدنام کرکے، مسلمانوں کی کردارکشی کرکے اور خاص طور پر دینی حلقوں کے خلاف الزامات و اتہامات کا بازار گرم کرکے دنیا کو اسلام اور مسلمانوں سے اس حد تک متنفر کر دینا چاہتا ہے کہ وہ اسلام کی کوئی بات سننے کے لیے تیار نہ ہو۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس سلسلہ میں مسلم حکومتوں کا کردار کیا ہے اور وہ اسلام اور مسلمانوں کی صحیح شناخت دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے کیا کر رہی ہیں؟

ہمیں اس امر کے اعتراف میں کوئی حجاب نہیں ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں مسلم معاشروں کی صورتحال ایسی نہیں ہے کہ اسے اسلام اور مسلمانوں کی صحیح شناخت کے لیے معیار بنایا جا سکے بلکہ اخلاقی، سیاسی اور معاشی ہر حوالہ سے موجودہ صورتحال اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں مثبت تاثرات پیدا ہونے اور کشش کا باعث بننے کی بجائے بُعد اور تنفّر کا باعث بن رہی ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ صورتحال خود مغربی ممالک کی پیداکردہ ہے جنہوں نے مسلم ممالک پر نو آبادیاتی تسلط کے دور میں باقاعدہ حکمت عملی اور پروگرام کے تحت مسلم معاشروں کو اس حالت تک پہنچایا ہے تاکہ اس سے فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کو مغربی تہذیب و ثقافت کو قبول کرنے اور مغربی نظام کو اپنانے پر آمادہ کیا جا سکے جبکہ مسلم ممالک کے حکمران طبقات اس سلسلہ میں مغرب کے معاون اور مددگار کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

عالم اسلام کی موجودہ معاشرتی صورتحال اس وقت برزخی کیفیت سے دوچار ہے کیونکہ نہ تو اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر وہ اسلامی معاشرہ کہلانے کی حقدار ہے اور نہ ہی وہ مغربی فلسفہ و ثقافت کو ہضم کر پا رہی ہے۔ اس وقت دنیا بھر کا مسلم معاشرہ دوراہے پر کھڑا ہے اور اس کے سامنے دو راستے واضح طور پر آگئے ہیں:

  • ایک طرف عالم اسلام کی دینی تحریکات مسلم معاشرہ کو اسلامی تعلیمات کی طرف واپس لے جانے کی جدوجہد کر رہی ہیں اور ان کا موقف یہ ہے کہ ہماری تہذیبی اور ثقافتی اساس قرآن و سنت پر ہے اور ڈیڑھ ہزار سالہ اسلامی اقدار و روایات پر ہے جن سے دستبردار ہو کر ہم اپنی شناخت قائم نہیں رکھ سکتے۔
  • جبکہ دوسری طرف اسلام اور مسلمانوں کی شناخت اور مستقبل میں اسلام کے معاشرتی کردار کا ایک خاکہ خود مغرب نے طے کر رکھا ہے جسے مسلمانوں سے قبول کرانے کے لیے مختلف اطراف سے مسلم ممالک حکومتوں اور عوام پر دباؤ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ اور اس کی بنیاد اس پر ہے کہ مسلمان اپنے ماضی سے دستبردار ہو کر اپنا تہذیبی و ثقافتی مستقبل مغرب سے وابستہ کر لیں اور قرآن و سنت کی تعلیمات و احکام کو قصۂ پارینہ سمجھتے ہوئے انہیں ذاتی زندگی اور پسند و ناپسند تک محدود کر دیں۔ مغرب اسے اسلام کو دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا نام دیتا ہے اور بدقسمتی سے مسلم ممالک کے حکمران گروہ اور طبقات اس مہم میں مغرب کے ساتھ پوری طرح شریک کار ہیں۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم آج کے دور کے تقاضوں اور جدید معاشرتی مسائل اور چیلنجز کے وجود سے انکار کر رہے ہیں یا انہیں حل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے، ہمیں ان ضروریات اور چیلنجز کا پوری طرح ادراک و احساس ہے اور ہم امت مسلمہ کے دینی حلقوں اور علمی مراکز کو مسلسل ان کی طرف توجہ دلاتے رہتے ہیں۔ مگر اس بات سے ہمیں صاف انکار ہے کہ ہمارے تہذیبی مستقبل کا نقشہ مغرب طے کرے اور ہمارے لیے جو ایجنڈا وہ تشکیل دے ہم آنکھیں بند کرکے اس کی تکمیل کرتے چلے جائیں۔ آج کے بہت سے مسلم حکمرانوں کو اس وقت اسلام کی صحیح شناخت دنیا کے سامنے پیش کرنے کا شوق ہے اور ان کی طرف سے مسلسل اس طرح کی باتیں سامنے آتی رہتی ہیں، ہمیں ان کی اس خواہش اور سوچ سے اتفاق ہے مگر اس کے لیے اتنی گزارش ضرور کرنا چاہتے ہیں کہ اسلام اور مسلمانوں کی صحیح شناخت کی اساس کا پہلے تعین کر لیں، کیونکہ:

  • اگر اس سے مراد یہ ہے کہ ہم اپنی ملی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے اور آج کے عالمی اور معاشرتی تقاضوں کا ادراک کرتے ہوئے قرآن و سنت کی تعلیمات اور مسلّمہ اسلامی روایات و اقدار کے دائرہ میں اپنی شناخت کو بہتر بنانے کی کوشش کریں اور اس برزخی کیفیت سے نکلنے کے لیے ہاتھ پاؤں ماریں تو یہ وقت کی ضرورت ہے اور اہم ترین ملی تقاضہ ہے، اس کے لیے ہم اپنے حکمرانوں کی ہر کوشش کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں۔
  • لیکن اس کا مطلب اگر یہ ہے کہ مغرب ہمیں جس طرح دیکھنا چاہتا ہے ہم اس طرح بننے کی کوشش کریں اور وہ ہمیں جس تہذیبی اور فکری سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کر رہا ہے اس میں ڈھلنے کے لیے ہم موم بن جائیں تو ایسا کبھی نہیں ہوگا، کیونکہ ایسا کرنا اسلام اور مسلمانوں کی شناخت کو بہتر بنانا نہیں بلکہ مزید بگاڑنے کے مترادف ہوگا۔

مسلم حکمران اگر یہ سوچتے ہیں کہ وہ دنیا کے مسلم معاشروں کو شناخت بہتر بنانے کے نام پر مغربی فلسفہ و ثقافت کے سامنے سر جھکانے کے لیے تیار کر لیں گے تو یہ ان کی خام خیالی ہے، اس لیے کہ مسلمانوں کے عقائد اور اقدار روایات کی فکری اساس قرآن و سنت پر ہے جو نہ صرف اصلی اور محفوظ حالت میں مسلمانوں کے پاس موجود ہیں بلکہ مسلمانوں کی بے لچک کمٹمنٹ بھی ان کے ساتھ بدستور قائم ہے۔ اس لیے مسلم ممالک کے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ اپنا قبلہ درست کریں اور مغرب کی فکری، تہذیبی اور معاشرتی خواہشات کی تکمیل میں آلہ کار بننے کی بجائے اپنا رشتہ قرآن و سنت اور اسلامی اقدار و روایات کے ساتھ استوار کریں کیونکہ اسی طرح وہ اسلام اور مسلمانوں کی شناخت کو بہتر بنانے اور اسلام کی صحیح تصویر دنیا کے سامنے پیش کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter