نوائے وقت لاہور ۱۹ دسمبر ۱۹۹۹ء کی ایک خبر کے مطابق انڈونیشیا میں دینی حلقوں کے پرجوش مظاہرہ کے بعد رمضان المبارک کے دوران تمام نائٹ کلبوں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
انڈونیشیا آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک ہے، لیکن جہاں اس کا آئین سیکولر بنیادوں پر استوار ہے، وہاں ایک عرصہ سے وہ مسیحی مشنریوں کی یلغار کی زد میں ہے۔ اور بعض رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ مسیحی مشنریوں کی سرگرمیاں مسلمان ملکوں میں سے اس وقت سب سے زیادہ انڈونیشیا میں جاری ہیں۔ جس کا نتیجہ ہے کہ انڈونیشیا میں مسلم مسیحی فسادات روزمرہ کا معمول بن گئے ہیں، اور مغربی ممالک نے وہاں مسیحی اقلیت کو ٹریننگ دے کر یہ پوزیشن دے دی ہے کہ وہ انڈونیشیا کے جس صوبے میں چاہے فسادات کی آگ بھڑکا سکتی ہے۔ گزشتہ دنوں مشرقی تیمور میں ریفرنڈم کرا کے اسے خودمختار ملک بنانے کی راہ بین الاقوامی اداروں بالخصوص اقوام متحدہ نے صرف اس لیے ہموار کی ہے کہ وہاں عیسائیوں کی آبادی زیادہ ہے۔ اور اب بعض دیگر صوبوں میں بھی اس قسم کی یورش کا اہتمام کیا جا رہا ہے، اور انڈونیشیا کے مختلف علاقوں میں مسیحی مسلم فسادات کی خبریں آئے دن اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔
مگر اس کے ساتھ ہی دینی حلقوں کی بیداری میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور اسلامی اقدار و روایات کے احیا اور شرعی قوانین کی بالادستی کی علمبردار جماعتیں بتدریج آگے بڑھ رہی ہیں۔ حتیٰ کہ حالیہ انتخابات میں منتخب ہونے والے ملک کے نئے صدر جناب عبد الرحمٰن واحد کا تعلق علماء کی سب سے بڑی جماعت ’’تہفۃ العلماء‘‘ سے بتایا جاتا ہے۔ اور ملک کے دینی حلقوں کو ان سے یہ امید وابستہ ہو گئی ہے کہ ان کی قیادت میں دنیا کا سب سے زیادہ مسلم آبادی والا یہ ملک اسلامی اقدار و روایات اور نظام و قانون کی طرف عملی پیشرفت کرنے کے ساتھ مسیحی مشنریوں کی یلغار سے پیدا شدہ صورتحال کی اصلاح کی طرف بھی گامزن ہو سکے گا۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ رب العزت انہیں علماء کرام کی جماعت کے ساتھ وابستگی کی لاج رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین۔