نکاح کی کوئی تقریب مسجد میں ہوتی ہے تو مجھے بہت خوشی ہوتی ہے کہ یہ سنت کے مطابق ہے، اور پھر شادی کے حوالہ سے جو خرافات عام ہوگئی ہیں کم از کم خطبہ اور ایجاب و قبول کے معاملات اس سے ہٹ کر مسجد کے ماحول میں طے پا جاتے ہیں۔ اس لیے ایسی تقریب کے ہر موقع پر خوشی کا اظہار کرتا ہوں اور اپنی گفتگو میں اس کی ترغیب اور حوصلہ افزائی کو بھی شامل کر لیتا ہوں۔ خرافات کا یہ سلسلہ اس قدر وسعت پکڑ چکا ہے کہ کہیں مجبورًا شریک ہونا پڑ جائے تو بہت پریشانی ہوتی ہے۔ بالکل انکار کو جی نہیں چاہتا کہ علماء اور سوسائٹی کے درمیان کسی نہ کسی درجہ میں کوئی تعلق باقی رہنے کے جو چند مواقع باقی رہ گئے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے۔ اور مکمل مقاطعہ کی صورت میں علماء اور معاشرہ کے درمیان رابطہ کی رہی سہی صورتیں بھی معدوم ہوتی نظر آنے لگتی ہیں۔ لیکن شادیوں کا ماحول اب ایسا ہوگیا ہے کہ تھوڑی دیر بیٹھنا بھی بے چینی کا باعث بن جاتا ہے۔
دو سال قبل گوجرانوالہ کے ایک اچھے خاصے مذہبی گھرانے کی شادی کی تقریب میں شریک ہوا تو وہاں الامان الحفیظ کا سماں تھا۔ خود پر ضبط کر کے بمشکل نکاح پڑھایا اور پھر چپکے سے وہاں سے ایسے کھسک آیا کہ کم و بیش ایک کلو میٹر تک کوئی سواری میسر نہیں آئی اور رات کے اندھیرے میں پیدل چل کر ویگن سٹاپ پر پہنچا۔ اسی وجہ سے کوشش کرتا ہوں کہ شادی کی تقریبات میں شرکت سے حتی الوسع گریز کروں اور اگر مسجد میں نکاح کی صورت ہو تو اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں۔
اس پس منظر میں وزیر آباد میں ہونے والی ایک شادی کی تقریب بہت زیادہ خوشی کا باعث ہوئی۔ مغل برادری میں شادی تھی، دولہا میاں کا نام غالبًا فخر عالم ہے۔ پاکستان شریعت کونسل کے امیر حضرت مولانا فداء الرحمن درخواستی کو نکاح کے لیے بطور خاص دعوت دی گئی تھی اور وہ کراچی سے تشریف لائے تھے۔ شادی ایک میرج ہال میں تھی جو مولانا موصوف کی وجہ سے قدرے مناسب ماحول میں تھی۔ لیکن عین نکاح کے وقت دلہن نے تقاضہ کیا کہ اس کی خواہش ہے کہ نکاح مسجد میں ہو۔ اس کا کہنا تھا کہ مسجد شادی ہال کے قریب ہی ہے نکاح وہاں ہو جائے، باقی معاملات شادی ہال میں چلتے رہیں۔ فوری طور پر اس کے مشکل ہونے کا ذکر کیا گیا تو وہ مصر بلکہ بضد ہوگئی کہ نکاح مسجد میں ہی ہوگا اور وہ خود ہی وہاں سے اٹھ کر قریب ایک مسجد کے دروازے پر جا کھڑی ہوئی۔ شادی ہال کا نام صدیق پیلس ہے اور مسجد الخلیل اس کے پڑوس میں ہے۔ رات کا وقت تھا جب دلہن خود ہی مسجد کے دروازے پر جا کھڑی ہوئی تو مجبورًا مسجد کھلوائی گئی اور مولانا درخواستی نے مسجد میں جا کر یہ نکاح پڑھایا۔ میں خود اس تقریب میں شریک نہیں تھا، جب اگلے روز مولانا درخواستی سے ملاقات کے لیے وزیر آباد گیا تو پروفیسر حافظ منیر احمد نے اس واقعہ کی تفصیل سے آگاہ کیا۔ سچی بات ہے کہ بہت خوشی ہوئی اور دل سے دعا نکلی کہ اللہ رب العزت اس بچی کو دنیا و آخرت کی برکات، سعادتوں اور خوشیوں سے نوازیں کہ اس نے آج کے دور میں ایک سنت پر عمل کے لیے اصرار کیا اور اس میں کامیابی حاصل کی، آمین یا رب العالمین۔
اس حوالہ سے میری گزارش عام طور پر یہ ہوتی ہے کہ ہم نکاح اور شادی کو سنت سمجھ کر سر انجام دیتے ہیں اور نکاح کے ہر خطبہ میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی بھی شامل ہوتا ہے کہ نکاح میری سنت ہے۔ تو جب ایک کام کو سنت سمجھ کر کرتے ہیں تو اسے سنت کے مطابق کرنے کی کوشش بھی کرنی چاہیے اور کم از کم خطبہ نکاح اور ایجاب و قبول کا مرحلہ تو خرافات سے پاک مسجد کے ماحول میں ہی ہونا چاہیے۔ بہرحال ایک اچھی بات دیکھی تو اس میں اپنے قارئین کو شامل کرنا بھی مناسب سمجھ کر اس کا ذکر کر دیا۔
وزیر آباد کے اس دورے کے موقع پر پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمن درخواستی نے ایک پریس کانفرنس سے بھی خطاب کیا جس میں انہوں نے اکیسویں آئینی ترمیم کے حوالہ سے سپریم کورٹ میں جاری بحث کے حوالہ سے اٹارنی جنرل کے ذریعہ پیش کیے جانے والے حکومت پاکستان کے موقف کا ذکر کیا اور اس کے اس حصے پر تشویش کا اظہار کیا کہ دستور پاکستان کا کوئی بنیادی ڈھانچہ موجود نہیں ہے جس کی پابندی پارلیمنٹ پر قانون سازی میں ضروری ہو۔ مولانا موصوف کا کہنا ہے کہ بظاہر یہ موقف پاکستان کی اسلامی شناخت اور نظریاتی تشخص کے منافی اور قرارداد مقاصد کی نفی کے مترادف ہے جس کا تمام محب وطن حلقوں کو نوٹس لینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام اور نظریہ پاکستان وطن عزیز کی نظریاتی بنیاد ہیں اور قرارداد مقاصد کو دستور پاکستان کے بنیادی ڈھانچے کی حیثیت حاصل ہے جس سے انحراف پاکستان کو سیکولر ریاست بنانے کی طرف ایک قدم ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان شریعت کونسل نے اس سلسلہ میں تمام سیاسی و دینی جماعتوں کے راہ نماؤں کو مراسلہ ارسال کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ اٹارنی جنرل کے پیش کردہ اس موقف کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیں اور اس کے مضمرات و نتائج پر اچھی طرح غور کر کے پاکستان کی اسلامی نظریاتی حیثیت اور شناخت کے تحفظ کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان شریعت کونسل کی مرکزی مجلس مشاورت کا ایک اہم اجلاس ۳۱ مارچ کو اسلام آباد میں طلب کر لیا گیا ہے جس میں قرارداد مقاصد کے تحفظ کے لیے رابطہ مہم کو آگے بڑھانے کے لیے لائحہ عمل طے کیا جائے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔