لبنان میں ابھی خانہ جنگی کے زخم بھرنے نہ پائے تھے کہ اسرائیل نے اسے جارحیت کی زد میں لے لیا ہے اور تا دمِ تحریر وہ لبنان میں مسلح کاروائیوں میں مصروف ہے۔ اسرائیل کو شکایت ہے کہ فلسطینی حریت پسند اسرائیل کے خلاف چھاپہ مار کارروائیاں لبنان سے کر رہے ہیں اور ان آزادی خواہ مجاہدین کے حملوں سے بچنے کے لیے وہ ضروری سمجھتا ہے کہ لبنان میں فلسطینی حریت پسندوں کے ٹھکانوں پر قبضہ کر لے۔ اسرائیلی حکام نے حالیہ جارحیت کے جواز میں یہی منطق پیش کی ہے۔
سوال یہ ہے کہ فلسطین کے وہ اصل باشندے جنہیں ان کے وطن سے محروم کر کے وہاں اسرائیل نے طاقت اور بعض بڑی طاقتوں کی پشت پناہی کے زور سے غاصبانہ قبضہ جما رکھا ہے اور اس خطۂ زمین کے اصل باشندے مختلف ممالک میں جلاوطنی کے عالم میں کیمپوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں، کیا انہیں اتنا بھی حق نہیں کہ وہ اپنے غاصب اور ظالم دشمن سے مؤثر احتجاج کر سکیں۔ فلسطینی حریت پسند اگر وقتاً فوقتاً اسرائیلی غاصبوں پر ضرب لگاتے ہیں تو صرف اس لیے کہ مسئلہ کو زندہ رکھنے، دنیا کو اس ظلم و بربریت کی طرف متوجہ کرنے اور ظالموں کو ان کے ظلم کا احساس دلانے کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے اور یہ بھی احتجاج اور اضطراب کے اظہار کا ایک مؤثر طریقہ ہے۔ اسرائیل اگر یہ سمجھتا ہے کہ وہ جارحیت کا مسلسل ارتکاب کر کے فلسطینی حریت پسندوں کی قوت مزاحمت کو ختم یا کمزور کر سکتا ہے تو یہ اس کی غلط فہمی ہے کیونکہ یہ صرف فلسطینی عوام کا نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ اور انسانیت و انصاف دوست رکھنے والی ہر قوم کا مسئلہ ہے اور انہیں اس مسئلہ میں عالمی رائے عامہ کی حمایت حاصل ہے۔
تعجب کی بات ہے کہ اسرائیل ایک طرف تو مصر کے صدر انور السادات سے مذاکرات کر کے علاقائی امن کے مسائل کو حل کرنے کی کوششوں میں مصروف نظر آتا ہے اور دوسری طرف اس نے امن کی راہ پر پیش قدمی کے راستے میں جارحیت کی ایک نئی دیوار کھڑی کر دی ہے۔ بہرحال اس وقت عالمی رائے عامہ بالخصوص عالمی طاقتوں کا فرض ہے کہ وہ نہ صرف اسرائیل کو اس جارحیت کے ارتکاب سے باز رکھیں بلکہ اسے عربوں اور فلسطینیوں کے علاقے اور حقوق واپس کرنے پر بھی مجبور کریں کہ عالمی طاقت ہونے کی نسبت سے ان پر یہی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔