صلہ رحمی اور سیرت نبویؐ

خاندانی زندگی کے حوالے سے جناب نبی کریمؐ کی تعلیم یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ رشتوں کو جوڑ کر رکھو، آپس میں میل جول پیدا کرو، تعاون کی فضا قائم کرو اور ضرورت کے وقت ایک دوسرے کی مدد کا سلسلہ رکھو۔ جناب رسول اللہؐ نے فرمایا ’’صِل من قطعک‘‘ کوئی تم سے تعلق توڑے تب بھی اس سے تعلق جوڑ کر رکھو۔ آپؐ نے یہ تعلیم دی کہ رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کا معاملہ کرو، اس سے خاندان میں جوڑ پیدا ہوتا ہے آپس میں محبت بڑھتی ہے اور ضرورت کے وقت دوسروں کی مدد اور تعاون میسر ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۲۰۰۷ء

غلامی کا تصور اور سیرت نبویؐ

جب غلامی کو ممنوع قرار دینے کی بات ہوئی تو یہ کہا گیا کہ اسلام بھی ان مذاہب میں سے ہے جنہوں نے غلامی کو جائز قرار دیا اور اپنے نظام میں غلامی کا رواج برقرار رکھا۔ اس بات کی بظاہر تائید بھی ہوتی ہے اس لیے کہ قرآن کریم میں غلامی کے بارے میں آیات موجود ہیں، احادیث میں ان کا ذکر ہے اور غلامی کے متعلق فقہ کے ابواب ہیں۔ اگرچہ آج کے دور میں عملاً غلامی موجود نہیں ہے لیکن اسلام کے اندر غلامی کا ایک مستقل تصور ہے جو پڑھا اور پڑھایاجاتا ہے۔ چنانچہ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ غلامی کیا تھی اور اسلام نے اس کے ساتھ کیا معاملہ کیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۲۰۰۷ء

گھریلو زندگی اور سیرت نبویؐ

انسان گھریلو زندگی کا آغاز ماں باپ کے زیر سایہ ایک بچے کی حیثیت سے کرتا ہے، بڑا ہوتا ہے تو بہن بھائیوں کا ساتھ میسر آتا ہے، خود مختار ہوتا ہے تو میاں بیوی کے رشتے میں منسلک ہوتا ہے جس کے بعد اولاد کی نوبت آتی ہے، یہ ہر شخص کی گھریلو زندگی کا ایک عمومی خاکہ ہے۔ اور گھر معاشرے کی ایک بنیادی اکائی ہے، اللہ تعالیٰ نے اکیلے انسان کو اس دنیا میں نہیں بھیجا بلکہ جنت سے میاں بیوی کا ایک جوڑا زمین پر اتارا، حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام کی صورت میں ایک کنبہ بھیجا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۲۰۰۷ء

غیر مسلموں سے سلوک اور سیرت نبویؐ

غیر مسلموں کے ساتھ جناب نبی کریمؐ کے معاملات کی نوعیت کیا تھی یہ ایک بڑا موضوع ہے جس کے بیسیوں پہلو ہیں۔ یہ ایک حساس اور پیچیدہ موضوع بھی ہے جس پر میں اصولی طور پر چند گزارشات پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔ قرآن کریم اور جناب رسول اللہؐ کی سنت و سیرت کے حوالے سے کافروں کے ساتھ تعلقات دیکھے جائیں تو اس کی الگ الگ نوعیتیں اور درجات سامنے آتے ہیں جن کے الگ الگ احکام ہیں۔ مسلمانوں کے غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات کی سب سے پہلی نوعیت وہ ہے جس کا دائرہ پوری دنیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۲۰۰۷ء

عورتوں کے حقوق اور سیرت نبویؐ

عورتوں کے حقوق، آج کی دنیا کے موضوعات میں سے ایک بہت اہم موضوع ہے۔ اسلام میں عورت کو رائے دینے کا حق ہے یا نہیں، تعلیم حاصل کرنے کا حق ہے یا نہیں، اسے مرد کے برابر حقوق حاصل ہیں یا نہیں اور یہ کہ عورت کو معاشرے کے اندر عام زندگی کے معاملات میں شرکت کا مساوی موقع ملنا چاہیے یا نہیں۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس کے کئی پہلوؤں پر گفتگو ہو سکتی ہے لیکن میں چند ایک ضروری نکات پر جناب رسول اللہؒ اور آپ کے متبعین سنت کے چند واقعات کے حوالے سے کچھ ضروری گزارشات پیش کرنے کی کوشش کروں گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۲۰۰۷ء

عدل و انصاف اور سیرت نبویؐ

اللہ تعالیٰ کے اسمائے گرامی میں بھی ایک اسم ’’عادل‘‘ ہے یعنی اللہ تعالیٰ عدل کرنے والے ہیں۔ اور جناب نبی کریمؐ کے اسماء میں بھی ایک اسم ’’عادل‘‘ ہے یعنی رسول اللہؐ بھی عدل کے پیکر تھے، عدل کرنے والے تھے۔ ہر چیز کا حق ادا کرنے کو عدل کہتے ہیں۔ عدل کے مقابلے میں ظلم کا لفظ آتا ہے۔ ظلم کہتے ہیں کسی کے ساتھ ناحق سلوک کرنے کو، کسی کے حق کو ضبط کرنا یا کسی کا حق دوسرے کو دے دینا۔ لغوی اصطلاح میں ’’وضع الشئی فی غیر محلہ‘‘ ظلم کا معنٰی ہے کسی چیز کو اس کے اصل مقام کے بجائے کسی دوسری جگہ پر رکھنا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۲۰۰۷ء

خاندان نبوتؐ

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹے تھے، ایک حضرت اسحاق علیہ السلام اور دوسرے حضرت اسماعیل علیہ السلام۔ یوں حضرت ابراہیمؑ کی اولاد میں دو سلسلے چلے۔ حضرت اسحاقؑ کے بیٹے حضرت یعقوبؑ تھے جن کا لقب ’’اسرائیل‘‘ تھا جو کہ عبرانی زبان میں ’’عبد اللہ‘‘ کو کہتے ہیں یعنی اللہ کا بندہ ۔ حضرت اسحاقؑ سے بنی اسرائیل کا سلسلہ چلا، اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل میں تقریباً تین ہزار پیغمبر مبعوث فرمائے۔ جبکہ حضرت ابراہیمؑ کے دوسرے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کی اولاد میں سے صرف ایک ہی پیغمبر ہوئے جو کہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۱۹۹۵ء

دعوت اسلام اور سیرت نبویؐ

دعوتِ اسلام کے حوالے سے میں تین پہلوؤں پر بات کروں گا: پہلی بات یہ کہ اسلام کی دعوت کی بنیادی حیثیت و نوعیت کیا ہے۔ دوسری بات اس الزام کی حقیقت کو واضح کرنا کہ رسول اللہؐ نے اسلام کو تلوار کے زور سے پھیلایا تھا اور یہ کہ اسلام دنیا میں طاقت کے بل پر پھیلا ہے۔ تیسری بات یہ کہ اسلام کی دعوت اور دوسروں کو اسلام کی طرف بلانے کے حوالے سے رسول اللہؐ کا طریقہ کار کیا تھا۔ جناب رسالت مآب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جتنے انبیاء علیہم الصلواۃ والتسلیمات بھی دنیا میں آئے ان کی نبوت علاقہ، قوم اور وقت کے لحاظ سے محدود تھی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۱۹۹۵ء

معاشی انصاف اور سیرت نبویؐ

انسان کی ضروریات کیسی بھی ہوں یہ وسائل کے ذریعے سے پوری ہوتی ہیں کیونکہ یہ دنیا وسائل اور اسباب کی دنیا ہے، اسباب اور وسائل کے بغیر اس دنیا میں زندگی بسر کرنا ممکن نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کے ضابطے کے خلاف ہے۔ ایک وقت آئے گا جب انسانی زندگی جنت میں اسباب اور وسائل کی محتاج نہیں ہوگی اور جب انسان کو اپنی خواہشات و ضروریات کو پورا کرنے کے لیے محنت و مشقت کا راستہ اختیار نہیں کرنا پڑے گا۔ لیکن اس دنیامیں بہرحال اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانی زندگی کو محنت و مشقت اور وسائل و اسباب کے ساتھ وابستہ کیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۱۹۹۵ء

قانون کی بالادستی اور سیرت نبویؐ

آج جب مسلمان دنیا کے کسی خطے میں بھی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو حکومت و قانون کی بنیاد بنانے کی بات کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ایک مسلمان ملک کا سارے کا سارا نظام قرآن کریم اور سنت رسولؐ کے مطابق ہونا چاہیے، وہاں اسلام کی بالادستی ہونی چاہیے، حدودِ شرعیہ نافذ ہونی چاہئیں، خلافت کا مکمل نظام نافذ ہونا چاہیے، تو اس کے جواب میں عام طور پر ایک بات کہی جاتی ہے کہ آج کے دور میں تھیاکریسی نہیں چل سکتی، یا آج کے دور میں پاپائیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ تھیا کریسی اور پاپائیت کسے کہتے ہیں؟ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۱۹۹۵ء

Pages


2016ء سے
Flag Counter