توہین رسالتؐ قانون ۔ مختلف طبقات کا موقف

ایک طبقہ ان لوگوں کا ہے جو سرے سے توہین رسالت کو جرم ہی نہیں سمجھتے اور اس پر سزا کو آزادیٔ رائے، آزادیٔ ضمیر اور آزادیٔ مذہب کے منافی تصور کرتے ہوئے اسے انسانی حقوق کے مغربی معیار کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں، بلکہ اس پر ظالمانہ قانون اور کالا قانون ہونے کی پھبتی بھی کستے رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس طرز فکر کے نمائندہ دانشور سیکولر جمہوریت کو عدل وانصاف کا واحد معیار تصور کرتے ہوئے سوسائٹی کے اجتماعی معاملات اور ریاست و حکومت کی پالیسیوں میں مذہب کا کوئی حوالہ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

مارچ ۲۰۱۱ء

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ

ڈاکٹر صاحب کا تعلق حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانوی اور حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی کے خاندان سے تھا۔ انھوں نے ابتدائی دینی تعلیم جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی میں حاصل کی اور دورۂ حدیث دار العلوم تعلیم القرآن راجہ بازار راول پنڈی میں کیا۔ ان کے حدیث کے استاذ صوبہ خیبر پختون خواہ کے معروف محدث حضرت مولانا عبد الرحمن المینوی رحمہ اللہ تعالیٰ اور قرآن کریم کے ترجمہ وتفسیر کے استاذ شیخ القرآن حضرت مولانا غلام اللہ خان رحمہ اللہ تعالیٰ تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جنوری ۲۰۱۱ء

نفاذِ شریعت کی جدوجہد: علمی مباحثہ کی ضرورت

یہ سوال قیام پاکستان کے فوراً بعد اٹھ کھڑا ہوا تھا کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی ایک نئی نظریاتی ریاست کا دستوری ڈھانچہ کیا ہوگا اور اس کی تشکیل میں مختلف مذہبی مکاتب فکر کے باہمی اختلافات کا کس حد تک عمل دخل ہوگا؟ چنانچہ اسی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے تمام مکاتب فکر کے ۳۱ سرکردہ علماء کرام نے ۲۲ متفقہ دستوری نکات قوم کے سامنے پیش کیے تھے تاکہ پاکستان کے دستوری ڈھانچے اور قانونی نظام کے بارے میں دینی حلقوں کا متفقہ موقف سامنے آ جائے اور یہ بات بھی واضح ہو جائے کہ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

دسمبر ۲۰۱۰ء

افکار مفتی محمودؒ اور عصر حاضر

بنیادی طور پر زمینداروں اور کارخانوں کے مسائل کا حل کرنا ضروری ہے ۔اسلام میں یہ متفقہ مسئلہ ہے کہ غیرآباد زمین کو آباد کرنے والا شرعاً اس کا مالک ہوتا ہے۔ اس اصول کے مطابق وہ تمام زمینیں جو قریب کے زمانے میں آباد ہوئی ہیں، ان کے آبادکار مزارعین ان زمینوں کے مالک قرار دیے جائیں، اور قدیم آباد زمینوں سے متعلق یہ تحقیق کی جائے کہ آیا یہ اراضی کسی جائز طریقے سے حاصل کی گئی تھیں یا انگریزوں نے ’’حق الخدمت‘‘ میں بطور جاگیر کے کسی کو عطا کی تھیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۴ اکتوبر ۲۰۱۰ء

افراد کی غلامی سے قوموں کی غلامی تک

انسانوں کی تجارت قدیم دور سے جاری ہے اور ہر زمانے میں اس کی کوئی نہ کوئی شکل موجود رہی ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت بھی یہ سلسلہ وسیع پیمانے پر جاری تھا۔ خود حضورؐ کے صحابہؓ میں سے حضرت زید بن حارثہؓ اسی انسان فروشی کے باعث غلام بنے تھے اور فروخت ہوتے ہوتے آپؐ کی بابرکت غلامی تک پہنچے تھے، مگر آپ نے انھیں آزاد کر کے منہ بولا بیٹا بنا لیا۔ حضرت سلمان فارسیؓ بھی اسی بردہ فروشی کا شکار ہوئے اور فروخت ہوتے ہوتے مدینہ منورہ کے ایک یہودی خاندان کی غلامی میں آ گئے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۲۰۱۰ء

عالم اسلام کے تکفیری گروہ: خوارج کی نشاۃ ثانیہ

عالم اسلام کے مختلف حصوں میں اس قسم کے تکفیری اور متشدد گروہوں کو دیکھ کر خوارج کے اس دور کی یاد پھر سے تازہ ہو گئی ہے۔ میں علماء کرام سے یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ بات بات پر تکفیر اور اس کی بنیاد پر بے گناہ مسلمانوں کے قتل عام کی نفسیات کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے خوارج کی تاریخ کا مطالعہ اوران کے مقابلے میں اہل سنت کے ائمہ کرام خصوصاً امام اعظم ابو حنیفہؒ کی سیاسی جدوجہد سے واقفیت حاصل کرنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر آج کے متشدد گروہوں کی نفسیات اور ذہنیت کو پوری طرح سمجھنا آسان نہیں ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اگست ۲۰۱۰ء

شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کا تجدیدی منصوبہ

قارئین کے سامنے ایک پرانی داستان کی یاد تازہ کرنا چاہتا ہوں جو بہت سے دوستوں کو شاید یاد ہوگی۔ کم وبیش ربع صدی قبل کی بات ہے کہ گوجرانوالہ میں دیوبندی مسلک کے علماء کرام اور دیگر متعلقین نے جمعیت اہل السنۃ و الجماعۃ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی تھی جس کا مقصد مسلکی معاملات کی بجا آوری اور بوقت ضرورت دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والے حلقوں اور جماعتوں کو باہمی اجتماع کے لیے مشترکہ فورم مہیا کرنا تھا۔ یہ جمعیت آج بھی موجود ہے، لیکن زیادہ متحرک نہیں رہی اور صرف علماء کرام تک محدود ہوکر رہ گئی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اگست ۲۰۱۰ء

قادیانی مسئلے کو ری اوپن کرنے کی تمہیدات؟

لاہور کے سانحہ کے ذمہ دار عناصر جو بھی ہیں انھوں نے ملک، دین اور قوم تینوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ اگر خدا نخواستہ کسی انتہا پسند تنظیم نے اس کی پلاننگ کی ہے تو یہ قادیانیوں کے ساتھ نمٹنے کا انتہائی غلط طریق کار ہے۔ اور اگر یہ کارروائی پس پردہ خفیہ ہاتھوں کی کارستانی ہے تو ملک کو نقصان پہنچانے اور پاکستان کے داخلی معاملات میں بیرونی مداخلت کا دائرہ کار وسیع کرنے کی کسی سازش کاحصہ ہے۔ اس بات کا فیصلہ کرنا قانون اور عدالت کا کام ہے کہ اس افسوس ناک واقعہ کے عوامل واسباب کیا ہیں اور یہ کن لوگوں کی کارروائی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جولائی ۲۰۱۰ء

فوجی افسران کی گرفتاری اور سرکاری موقف

پاک فوج کے بعض افسروں کی گرفتاری کے تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد وزیراعظم اور وزیردفاع کے بیانات نے اس سلسلہ میں ملکی اور عالمی سطح پر ہونے والی بحث کو ایک نیا رخ دے دیا ہے اور حکومت کی مسلسل خاموشی سے پیدا ہونے والے شکوک و خدشات ختم ہونے کی بجائے مزید سوالات و شبہات کو جنم دینے کا باعث بن گئے ہیں۔ میجر جنرل ظہیر الاسلام اور بریگیڈیر مستنصر باللہ سمیت دو درجن کے لگ بھگ افراد اس وقت زیرحراست ہیں جن میں فوجی افسران کے علاوہ بعض علماء کرام بھی شامل ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

دسمبر ۱۹۹۵ء

قرآن کریم اور دستور پاکستان

کیا قرآن کریم خود کسی اسلامی ریاست کے لیے دستور کی حیثیت نہیں رکھتا اور کیا قرآن کریم کو ریاست ومملکت کے تمام معاملات میں بالادستی حاصل نہیں ہے؟ خطبہ حجۃ الوداع میں جناب نبی اکرم ﷺ نے جب اپنی امت کو یہ تلقین فرمائی تھی کہ ’’اپنے حکمران کی اطاعت کرو خواہ وہ حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، جب تک وہ تمھارے معاملات کو قرآن کریم کے مطابق چلاتا رہے‘‘ تو یہ قرآن کریم کی اسی حیثیت کا اعلان تھا کہ وہ اسلامی ریاست کا دستور ہے اور ریاست و حکومت کے تمام معاملات کا اسی دستور کے دائرے میں رہنا ضروری ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جون ۲۰۱۰ء

Pages


2016ء سے
Flag Counter