استحکامِ پاکستان اور اس کے تقاضے

   
مسلم اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن
نامعلوم

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میں مسلم سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (MSO) کو اس بر وقت اجتماع پر مبارک باد دینا چاہوں گا۔ آج پاکستان کا استحکام، پاکستان کی سالمیت اور پاکستان کی وحدت بہت سی غیر ذمہ دارانہ حرکتوں کی وجہ سے سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں۔ اِن حالات میں وہ نوجوان جو دین کی بات کرتے ہیں اور دین سے تعلق رکھتے ہیں، ان کا استحکام پاکستان کے عنوان پر اکٹھے ہونا پاکستان کے اچھے مستقبل کی علامت ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ آپ حضرات کے جذبات قبول فرمائیں۔

مجھ سے پہلے ہمارے فاضل دوست جناب قمر الزمان صاحب جس صورت حال کی طرف اشارہ کر رہے تھے، یہ کشمکش تو ہماری صدیوں سے جاری ہے۔ کردار کشی اور حق و باطل کی کشمکش صدیوں سے جاری ہے۔ ہم اِس وقت تک گزشتہ ڈیڑھ سو سال میں دو سامراج بھگت چکے ہیں جبکہ تیسرے سے نبرد آزما ہیں۔ برطانوی اور روسی استعمار ہم نے بھگتے ہیں جبکہ امریکی استعمار کو بھگت رہے ہیں۔ ان شاء اللہ آئندہ راؤنڈ بھی ہمارا ہوگا، آپ حوصلہ رکھیں۔ آزمائش تو ہوگی اور یہ آزمائشیں بڑھیں گی۔ آج ہمارے دینی اداروں کو ختم کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں، ان مدرسوں کو ختم کرتے کرتے برطانیہ رخصت ہوا، روس رخصت ہوا اور اب امریکہ بھی رخصت ہوگا۔ اور ان شاء اللہ دین کی بقا اور حفاظت کے لیے نہ صرف یہ مدرسے باقی رہیں گے بلکہ مؤثر کردار بھی ادا کریں گے۔

استحکامِ پاکستان کے حوالے سے میں اپنے حکمرانوں سے مخاطب ہونا چاہتا ہوں۔ آج ہمارے حکمرانوں کو یہ فکر ہے کہ ملک کے سیاسی استحکام کے لیے کوئی ترکیب کارگر نہیں ہو رہی۔ اور یہ کہ ملک کا نظام صحیح رخ پر نہیں جا رہا۔ میں اِس پر یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ اس بارے میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ ہماری کیا رہنمائی کرتی ہے۔ ہمارے آج کے دستوری مسائل، قانونی مسائل، سسٹم کے مسائل، ہماری معاشرت، ہماری تہذیب اور ہماری نفسیات کے مختلف لیول، ان کے متعلق ہمیں حضورؐ کے اسوہ حسنہ میں کیا روشنی ملتی ہے، کیا رہنمائی ملتی ہے۔ دو تین مختصر جھلکیاں پیش کر کے میں آپ سے اجازت چاہوں گا۔

ایک مشہور واقعہ ہے جو آپ نے کئی بار سنا ہوگا اور کئی بار سنیں گے۔ جناب نبی کریمؐ کے زمانے میں چوری کی ایک واردات ہوئی تھی اور چور پکڑا گیا تھا جو کہ بنو مخزوم قبیلہ سے تعلق رکھنے والی فاطمہ نامی ایک خاتون تھی۔ اس خاتون پر کیس چلا اور چوری کا جرم ثابت ہونے پر ہاتھ کٹنے کا فیصلہ ہوگیا۔ جب کسی وی آئی پی فیملی کے فرد پر جرم ثابت ہوتا ہے تو بہت سے عوامل متحرک ہو جاتے ہیں۔ لوگ اپروچ تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ چنانچہ چیف جسٹس یعنی جناب نبی کریم ؐکے لیے اپروچ تلاش کی گئی۔ حضرت اسامہ بن زیدؓ جو حضورؐ کے پسندیدہ نوجوان تھے اور حضورؐ کے منہ بولے پوتے لگتے تھے، انہیں حضورؐ کے لیے اپروچ بنایا گیا۔ اسامہؓ نے حضورؐ کی خدمت کرتے ہوئے پاؤں دباتے دباتے ہلکا ہلکا ذکر شروع کیا کہ یا رسول اللہ وہ بنو مخزوم کی فاطمہ پر چوری کا جرم ثابت ہوگیا ہے ، آپ نے ہاتھ کاٹنے کا حکم دے دیا ہے۔ کیا ہاتھ کٹے گا؟ آپؐ نے فرمایا، کٹے گا۔ اسامہؓ نے کہا یا رسول اللہ اس خاتون کا ہاتھ تو کٹے گا لیکن اس سے تو بنو مخزوم کی ناک کٹ جائے گی۔ یا رسول اللہ، قانون میں ان (وی آئی پی لوگوں) کے لیے کوئی گنجائش، کوئی نرمی؟ رسول اللہ ؐلیٹے ہوئے تھے اٹھ کر بیٹھ گئے۔ پہلے تو یہ کہہ کر اُسامہؓ کو ڈانٹا کہ أتشفع فی حد من حدود اللّٰہ؟ کیا اللہ کی حدود میں سفارش کرتے ہو؟ پھر صرف اس ڈانٹ پر قناعت نہیں کی بلکہ مسجد میں تشریف لے گئے اور جا کر عوامی خطبہ ارشاد فرمایا۔ فرمایا، کیا تم لوگ اللہ کے قانون میں سفارشیں تلاش کرتے ہو؟ اور ایک جملہ ارشاد فرمایا جو میں آج کے حکمرانوں کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں انما ہلک من کان قبلکمتم سے پہلے قومیں کیوں برباد ہوئی ہیں؟ ان کی تباہی کے اسباب میں ایک بڑا سبب یہ تھا کہ جب کوئی غریب آدمی جرم کرتا تھا تو سزا بھگتا تھا، لیکن جب کوئی امیر آدمی جرم کرتا تھا تو اسے اپروچ اور سفارش مل جاتی تھی جس کی مدد سے وہ سزا سے بچ جاتا تھا۔ فرمایا، تم میں بھی جب یہ بات آئے گی تو تم بھی برباد ہو جاؤ گے۔

میں پاکستان کے حکمرانوں سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ یہ بڑی سیدھی سی بات ہے۔ قانون اور اس کا اطلاق یکساں کر دیجئے، بیشتر مسائل حل ہو جائیں گے۔ صرف کاغذوں میں نہیں بلکہ عمل میں، نفسیات میں، سوچ اور ذہنیت میں۔ قانون کا ہمارے صدر پر بھی اطلاق ہو اور لاہور کی ایک کچی آبادی کے کسی فرد پر بھی اطلاق ہو۔ جب تک سوسائٹی میں جناب نبی کریمؐ کے اس ارشاد پر عمل کا اہتمام نہیں ہوگا اور قانون کا یکساں اطلاق نہیں ہوگا، آپ امن کے خواب دیکھ کر خود کو دھوکہ اور فریب مت دیجئے۔ انصاف، استحکام اور امن کے راستے پر نہ چلنا بلکہ صرف نعرے لگاتے رہنا، یہ خود فریبی ہوتی ہے اور قوموں کی زندگی میں خودکشی ہوتی ہے۔

غزوہ احزاب کا موقع تھا اور نبی کریمؐ مدینہ منورہ کا دفاع کر رہے تھے۔ عرب قبائل متحد ہو کر مدینے پر چڑھ دوڑے تھے اور اتحادی فوجوں نے مدینے کا محاصرہ کر رکھا تھا۔ مدینے کے دفاع کے لیے خندق کھودی جا رہی تھی۔ سینکڑوں صحابہؓ انصار و مہاجرین مدینے کے لیے خندق کھودنے میں مصروف تھے۔ ایسے میں کمانڈر انچیف کسی ایئر کنڈیشنڈ ہاؤس میں بیٹھ کر لشکر کو کمان نہیں کر رہا تھا بلکہ اس کے ہاتھ میں بھی کدال تھی اور سر پر مٹی کی ٹوکری تھی۔ اُم سلمہؓ فرماتی ہیں مٹی اٹھا اٹھا کر حضورؐ کی داڑھی مبارک میں مٹی اٹک جاتی تھی جسے میں ہاتھ سے جھاڑتی تھی۔ اِس کیفیت میں آنحضرتؐ کے پاس ایک شخص آیا اور کہا، یارسول اللہؐ بھوک لگی ہے۔ آپؐ نے فرمایا، صبر کرو۔ کہا، یا رسول اللہ صبر نہیں ہو رہا۔ فرمایا، حوصلہ کرو۔ کہا یا رسول اللہ برداشت سے باہر ہوگئی ہے۔ اس نے پیٹ سے کپڑا اٹھایا اور دکھایا کہ یا رسول اللہ میں نے بھوک کی شدت کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھ رکھا ہے۔ یہ دیکھ کر آپؐ نے بھی اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھایا اور فرمایا، برخودار تم نے ایک پتھر باندھ رکھا ہے جبکہ میں نے دو باندھ رکھے ہیں۔

میں نے یہ دو جھلکیاں جناب نبی کریمؐ کی سیرت طیبہ کے حوالے سے پیش کی ہیں۔ جب تک دنیا اس طرح کے مناظر دوبارہ نہیں دیکھے گی، دنیا کو انصاف، استحکام اور امن نہیں ملے گا۔

چند ماہ قبل ہمارے چیف جسٹس جناب افتخار محمد چودھری نے ایک کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے۔ ہمارے ملک کو بد دیانتی، نااہلی اور اقربا پروری دیمک کی طرح کھا رہے ہیں۔ پھر کہا کہ کرپشن کا علاج گڈ گورننس ہے۔ اس کے بعد ایک جملہ کہا جو میں اکثر لوگوں کو یاد دلاتا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ گڈ گورننس ہمیں حضرت عمر فاروقؓ کے دروازے سے ملے گی۔ ہم تو یہ بات کہتے ہی تھے اور کہتے رہیں گے لیکن اب یہ پاکستان کے چیف جسٹس فرما رہے ہیں کہ گڈ گورننس ہماری ضرورت اصل ہے اور یہ ملے گی ہمیں حضرت عمرؓ کی پیروی کرنے سے۔ یعنی جناب نبی کریمؐ کے ایک خلیفہ کی پیروی کرنے سے ہمیں پتہ چلے گا کہ گڈ گورننس کیا ہوتی ہے۔

گڈ گورننس کی ایک ہلکی سی جھلک بھی آپ کے سامنے پیش کر دوں کہ جب گڈ گورننس ہوتی تھی تو معاملہ کیا ہوتا تھا۔ اور یہ جھلک چھوٹے حضرت عمر یعنی حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کی ہے۔ میں اِس وقت بڑے حضرت عمرؓ کی بات نہیں کرتا، ہم ابھی شاید اس کے متحمل نہیں ہیں۔ چند سال ہوئے ہمارے ایک معروف سیاست دان نے بیان دیا کہ ہمیں مولویوں والا اسلام نہیں چاہیے بلکہ حضرت عمرؓ والا اسلام چاہیے۔ میں نے کہا بھئی ’’ ہتھ ہولا رکھ، اَسی اینے جوگے نئیں‘‘ (ہاتھ ہلکا رکھو ہم اس قابل نہیں ہیں)۔ ایک لمحے کے لیے تصور کریں کہ حضرت عمرؓ چوبیس گھنٹے کے لیے ہمارے درمیان ایک چکر لگا جائیں تو ہمارے بارے میں کیا سمجھیں گے کہ ہم کون ہیں؟ کیا وہ ہم میں سے کسی کو مسلمان بھی سمجھیں گے؟ تو میں نے کہا سیاست دان صاحب سے کہا کہ بھئی نیچے نیچے کوئی شخصیت تلاش کرو، جس شخصیت کی تم بات کر رہے ہو، اِس صورت حال میں ہم اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

چھوٹے حضرت عمر یعنی حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کی مثال پیش کرتا ہوں۔ ’’کتاب الاموال‘‘ ہماری اسلامی معاشیات کی کلاسیکل کتاب ہے، تیسری صدی ہجری میں امام ابو عبید قاسم بن سلامؒ نے لکھی تھی اور یہ مستند کتابوں میں سے ہے۔ اس میں اسلامی معیشت کے حوالے سے بہت سی باتیں مذکور ہیں۔ انہوں نے اِس کتاب میں ایک واقعہ لکھا ہے ۔ حضرت عمر ابن عبد العزیزؒ پہلی صدی ہجری کے اختتام پر دنیائے اسلام کے واحد حکمران تھے اور دمشق میں بیٹھتے تھے۔ عراق کے علاقے میں ان کے ایک گورنر تھے عبد الحمید۔ عراق کے گورنر نے خط لکھا کہ یا امیر المؤمنین! اس سال صوبے کا ریونیو (زکوٰۃ وغیرہ) وصول ہو کر سالانہ اخراجات پورے ہونے کے بعد بجٹ میں کچھ پیسے بچے ہیں۔ ہماری ضروریات پوری ہوگئی ہیں، تو اِس فاضل بجٹ کا ہم کیا کریں؟ امیر المؤمنین نے جواب دیا، ایسا کرو، اعلان کرو کہ تمہارے صوبے میں جو لوگ مقروض ہیں، انکوائری کر کے ان کی تحقیق کرو، جو لوگ اِس درجے کے ہوں کہ اپنا قرضہ ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ان تمام کے قرضے بیت المال سے ادا کر دو۔ عبد الحمید صاحب نے جواب میں لکھا کہ امیر المؤمنین یہ کام ہم نے کر دیا ہے۔ دوسرا خط آیا کہ جو لڑکے اور لڑکیاں شادی کے قابل ہیں اور شادی کا خرچہ برداشت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے، ان کی شادیاں بیت المال کے خرچے سے کروا دو۔ جواب میں لکھا کہ یہ بھی کر چکا ہوں۔ کتاب الاموال کی روایت میں ہے کہ تیسرا خط آیا کہ شادی شدہ لوگ جن کی شادیاں ہو چکی ہیں اور بال بچے دار ہیں لیکن وہ اپنی بیویوں کا مہر ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، انکوائری کر کے ان کے مہر بھی بیت المال سے ادا کردو۔ گورنر صاحب نے لکھا، یا حضرت! یہ بھی کر دیا ہے لیکن بجٹ میں اب بھی کچھ پیسے بچے ہوئے ہیں۔ چوتھے خط میں امیر المؤمنین نے کہا ایسا کرو کہ زمینوں کا سروے کرواؤ ، جو قابل کاشت زمینیں ہیں، آباد نہیں ہو رہیں، کاشت کاروں کو آسان قسطوں پر قرضے دے کر وہ زمینیں آباد کرادو۔

یہ ایک جھلکی ہے اس سوسائٹی کی جو جناب نبی اکرمؐ کی سیرت پر چلنے والوں نے قائم کی تھی۔ یہ واقعہ میں نے ایک جگہ ذکر کیا تو ایک نوجوان نے مجھ سے سوال کیا مولوی صاحب ایک صوبے کے پاس اتنا ریونیو کدھر سے آگیا۔ آپ کے ذہن میں بھی یہ سوال آیا ہوگا۔ یعنی وہ ریونیو تھا یا کیا تھا، کتنے محصولات وصول ہوئے ہوں گے کہ سال کا بجٹ بھی پورا ہو رہا ہے، مقروضوں کے قرضے بھی ادا ہو رہے ہیں ، کنواروں کی شادیاں بھی ہو رہی ہیں، شادی شدہ لوگوں کے مہر بھی ادا کیے جا رہے ہیں اور کسانوں کو آسان قسطوں پر قرضے بھی دیے جا رہے ہیں۔ تو اس نوجوان نے یہ سوال کیا کہ ایک صوبے کے پاس اتنا ریونیو کہاں سے آیا؟ میں نے کہا میں بتاتا ہوں کہاں سے آیا۔

میں نے کہا، انہی حضرت عمر ابن عبد العزیزؒ کا ایک واقعہ بتاتا ہوں جس سے پوری بات سمجھ میں آجائے گی۔ ایک دفعہ اپنے گھر آئے، آکر اپنی بیوی سے کہا کہ فاطمہ تمہارے پاس کوئی ایک آدھ درہم بچا ہوا ہو تو دو مجھے ضرورت ہے۔ ان کی بیوی تھیں فاطمہ بنت عبد الملک۔ درہم چاندی کا سکہ ہوتا تھا ساڑھے تین ماشے کا۔ موجودہ دور میں مارکیٹ کی ویلیو کے حساب سے تقریباً ایک برطانوی پونڈ سمجھ لیں۔ بیوی نے پوچھا کیا کرنا ہے؟ یہ بات ذرا حوصلے کے ساتھ سننے کی ہے۔ اپنے وقت کی آباد دنیا میں بڑے حصے کا جبکہ عالم اسلام کا واحد حکمران ہے اور اپنی بیوی سے کہہ رہا ہے کہ میں گھر آرہا تھا راستے میں ایک ریڑھی پر انگور لگے ہوئے ہیں، انگور اچھے ہیں کھانے کو جی چاہتا ہے لیکن جیب میں پیسے نہیں ہیں۔ فاطمہ نے کہا آپ کے پاس نہیں ہیں تو میرے پاس کدھر سے آئے؟ ایک جواب تو یہ دیا، جبکہ دوسرا جواب بیویوں والا دیا۔ کہا، آپ امیر المؤمنین ہیں ایک درہم کا انگور بازار سے نہیں منگوا سکتے؟ اِس بات کا کیا مطلب ہے؟ میں آج کی زبان میں اس کا ترجمہ کرتا ہوں کہ کیا آپ کے پاس کوئی صوابدیدی فنڈ نہیں ہے؟ امیر المؤمنین حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ نے جو جواب دیا میں آج کے حکمرانوں سے عرض کرتا ہوں۔ امیر المؤمنین نے کہا، فاطمہ جس درہم کی تم بات کرتی ہو وہ درہم نہیں آگ کا انگارہ ہے۔

میں نے اس نوجوان سے کہا کہ جس ملک کا سربراہ سرکاری خزانے کو آگ کا انگارہ سمجھے گا اس ملک کے ریونیو میں پیسے ہی پیسے ہوں گے۔ اس ملک کو پیسوں کے لیے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے پاس جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ لیکن ظاہر بات ہے کہ یہ آسان کام نہیں ہے، کشکول سے نجات کے لیے قربانی دینے پڑے گی اور ہمارے حکمرانوں کو اس بات پر آنا پڑے گا کہ ہمارے لیے سرکاری خزانہ آگ کا انگارہ ہے۔

حضرات محترم! استحکامِ پاکستان کے لیے کچھ بھی کر لیں لیکن بات وہی ہے جس پر میں اپنی گفتگو کا اختتام کروں گا جو ہمارے چیف جسٹس صاحب نے فرمائی ہے کہ اگر ملک کو کرپشن سے نجات دلانی ہے، ملک کو انصاف مہیا کرنا ہے، ملک کو گڈ گورننس فراہم کرنی ہے اور ملک کو مستحکم کرنا ہے تو ہمیں حضرت عمرؓ کا دروازہ کھٹکھٹانا ہوگا۔ جس دن ہم حضرت عمرؓ کا دروازہ کھٹکھٹانے چلے گئے، ہمارے لیے امن، انصاف اور استحکام کے سارے راستے کھل جائیں گے۔ اللہ پاک مجھے اور آپ کو عمل صالح کی توفیق عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter