گزشتہ دنوں مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان کے سابق امیر حضرت مولانا محمد حیاتؒ اور نظام العلماء پاکستان ضلع اٹک کے بزرگ راہنما حضرت مولانا مفتی عبد الحئی آف بھوئی گاڑ انتقال فرما گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
مولانا محمد حیاتؒ کا نام آج کی نسل کے لیے شاید متعارف نہ ہو کہ وہ تعارف و قبولیت کے مروجہ معیار پر پورے نہ اترتے تھے۔ نہ آواز میں کرارہ پن، نہ لباس میں کروفر، نہ بود و باش اور خورد و نوش میں ’’بڑائی‘‘ کی کوئی علامت۔ زندگی کے ہر پہلو میں سادگی، خلوص اور ایثار کا خوگر بھلا آج کے دور میں تعارف و قبولیت کا زینہ کیسے طے کر سکتا ہے؟ لیکن جن لوگوں نے مولانا محمد حیاتؒ کو ریاضت و مجاہدہ کے اس دور میں دیکھا ہے جب وہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر قادیان میں کفر و ارتداد کے خلاف مورچہ لگائے بیٹھے تھے، یا جن لوگوں نے قادیانی مناظرین کو مولانا محمد حیاتؒ کے بنے ہوئے دلائل کے جال میں بے بسی کے ساتھ تڑپتے پھڑکتے دیکھا ہے، یا جن لوگوں کو مولانا محمد حیاتؒ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے اور ان سے قادیانی دلائل کے تار و پود سے آگاہی حاصل کرنے کا موقع ملا ہے، ان سے مولانا مرحوم کی عظمت اور ان کا مقام و مرتبہ مخفی نہیں ہے۔
مولانا محمد حیاتؒ ایک اولوالعزم انسان تھے جنہوں نے علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری نور اللہ مرقدہ کی پیروی میں علمی محاذ پر قادیانیت کے تعاقب کو اپنا مشن بنایا اور پھر اپنا تمام تر علم و فضل، قوت و توانائی اور صلاحیتیں اس کے لیے وقف کر دیں۔ اکابر نے انہیں قادیان میں اپنے مشن کے لیے بھیجا تو ان کی جرأت و استقامت نے ’’فاتح قادیاں‘‘ کے خطاب کو ہمیشہ کے لیے ان کے سینے کا تمغہ بنا دیا۔
دیکھنے میں ایک بھولا سا جاٹ مگر عزم و ہمت کا پیکر یہ مرد درویش اپنے وقت کا عظیم مناظر تھا۔ ایسا مناظر کہ اس کا نام سن کر مخالف مناظرین کی روح کانپ جایا کرتی تھی۔ اور وہ ایک ایسا مشفق استاذ تھا جس کی سادہ سی باتیں اور منطقی طرز کی گفتگو اپنے تلامذہ کے دلوں میں اعتماد و حوصلہ کا دریا موجزن کر دیتا تھا۔ جو اپنے شاگردوں کو دل کی گہرائی سے ابھرنے والی دعاؤں سے بھی نوازتا تھا، ان کا حوصلہ بڑھانے کے لیے اعزاز و اکرام سے بھی بہرہ ور کرتا تھا۔
مولانا محمد حیاتؒ آج ہم سے رخصت ہوگئے ہیں لیکن ان کی یاد دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔ ان کی شفقت و مروت کے مناظر مجھ جیسے تلامذہ کی نگاہوں کے سامنے ہمیشہ گھومتے رہیں گے اور ان کی جرأت و استقامت کی روایات دعوت و عزیمت کی تاریخ میں ایک روشن باب کے طور پر محفوظ رہیں گی۔
اللہ تعالیٰ ان کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے، ان کی لغزشوں پر قلم عفو پھیر دے اور ہم ناکاروں کو ان کی سادگی، خلوص اور ایثار کے عظیم ورثہ کا حقدار بنائے، آمین یا الٰہ العالمین۔
مولانا حکیم مفتی عبد الحئیؒ کا تعلق بھی اسی قافلہ حق و صداقت سے تھا اور وہ اپنے علاقہ میں حق پرست قافلہ کے باہمت اور جری سالار تھے۔ انہوں نے ہر دینی و قومی تحریک میں قائدانہ حصہ لیا اور صبر و استقلال کی روایات زندہ کیں۔ وہ کفر و الحاد کے ہر وار کے سامنے علاقہ کے عوام کے لیے ڈھال بنے۔ وہ (جسمانی طور پر) معذور تھے لیکن انتخابی و تحریکی مہموں میں جماعتی مشن کو آگے بڑھانے کے لیے انہوں نے میدانی اور پہاڑی راستوں کو اپنے ناتواں قدموں تلے روند ڈالا۔ ان کا فقہی مزاج اور علمی تفوق علاقہ کے علماء کے لیے سند اور باعث یقین و اعتماد تھا۔ انہوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور انتخابی معرکوں میں کودے لیکن کوئی خوف یا لالچ ان کے پائے استقلال میں لرزش نہ پیدا کر سکی۔
آج وہ ہم میں نہیں ہیں لیکن ان کی روایات اور داستانِ جہد و استقلال زندہ اور آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائیں اور ان کے فرزندوں مولانا حکیم احمد حسن، مولانا ابوبکر قریشی اور حسین احمد قریشی کو صبر و حوصلہ کے ساتھ اپنے عظیم باپ کی روایات کو زندہ رکھنے کی توفیق دیں، آمین یا الٰہ العالمین۔