نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی انتظامیہ نے ازبکستان سے تعلق رکھنے والے مجاہدین کی تنظیم ’’ازبک اسلامک فرنٹ‘‘ کو بھی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کر کے اس پر پابندی لگانے کا اعلان کر دیا ہے۔ رپورٹ میں امریکی محکمہ خارجہ کے شعبہ انسداد دہشت گردی کے کو آرڈینیٹر مائیکل شیہان کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ عام طور پر دہشت گرد تنظیموں کی فہرست پر دو سال کے بعد نظرثانی ہوتی ہے اور کسی نئی تنظیم کو اسی موقع پر فہرست میں شامل کیا جاتا ہے لیکن ازبک مجاہدین کی اس تنظیم کی سرگرمیوں کے پیش نظر دو سال کی اس مدت کے دوران ہی روٹین سے ہٹ کر اسے فہرست میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس سے امریکہ کے نزدیک دہشت گرد تنظیموں کی تعداد اب ۲۹ ہوگئی ہے۔
ازبکستان وسطی ایشیا کے ان ممالک میں سے ہے جو سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد آزاد ہوئے ہیں اور غالب مسلم اکثریت کے ممالک ہیں۔ تاشقند اور سمرقند جیسے معروف شہر اسی ازبکستان میں ہیں اور ایک زمانہ میں یہ خطہ اسلامی تہذیب و تمدن اور علوم و فنون کے مراکز میں شمار ہوتا تھا۔ مگر روس میں کمیونسٹ انقلاب کے بعد یہ علاقہ بھی کمیونزم کے زیرتسلط آگیا اور اسلامی تہذیب و تمدن اور علوم و اقدار کی روایات قصہ پارینہ بن کر رہ گئیں۔ کم و بیش پون صدی تک وسطی ایشیا کے یہ ممالک کمیونزم کے غلبہ کا شکار رہے اور جہادِ افغانستان کے نتیجے میں جب سوویت یونین کا آہنی شکنجہ ڈھیلا ہوا تو سوویت یونین کی یہ ریاستیں دنیا کے نقشہ پر آزاد ممالک کی حیثیت سے نمودار ہوگئیں۔
ازبکستان کے آزادی کی حدود میں قدم رکھنے کے بعد راقم الحروف کو وہاں جانے کا موقع ملا ہے اور تاشقند و سمرقند میں چند روز گزارنے کے علاوہ سمرقند سے چند میل کے فاصلے پر ’’خرتنگ‘‘ میں حضرت امام بخاریؒ کے مزار پر حاضری کی سعادت بھی حاصل ہوئی ہے۔ یہ چند سال پہلے کی بات ہے جب وہاں بند مساجد دوبارہ کھل رہی تھیں اور اسلامی روایات و اقدار کا ایک بار پھر احیاء ہو رہا تھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ ہزاروں مساجد ایسی ہیں جو پون صدی کا عرصہ مقفل رہی ہیں اور بہت سی مساجد کو دوسرے مقاصد کے لیے استعمال میں لایا جاتا رہا ہے۔ تاشقند کی ایک بڑی مسجد ہم نے دیکھی جس کے بارے میں معلوم ہوا کہ چالیس سال تک یہ مسجد سیمنٹ کے گودام کے طور پر استعمال ہوتی رہی۔ سمرقند کی مرکزی جامع مسجد میں بھی حاضری ہوئی جس کے بارے میں بتایا گیا کہ اس مسجد کا مین ہال تقریباً نصف صدی تک سینما ہال بنا رہا۔
عام زندگی میں نماز وغیرہ عبادات کا اظہار ممکن نہیں تھا، کچھ لوگ چوری چھپے پڑھتے تھے۔ ایک عالم دین نے بتایا کہ ملازمت سے دوپہر کے وقفہ کے دوران وہ کھانے کے لیے گھر آتے تو ظہر کی نماز اس کیفیت سے پڑھتے تھے کہ ایک شخص دروازے پر پہرہ دیتا تھا تاکہ کسی کے دیکھنے کا خطرہ محسوس ہو تو وہ نماز پڑھنے والے کو نماز توڑنے کا اشارہ کر سکے۔ قرآن کریم کا چھاپنا اور پڑھنا شجر ممنوعہ تھا، حتیٰ کہ آزادی کا پرچم لہرائے جانے کے بعد وہاں کے مسلمانوں کا باقی دنیا کے مسلمانوں سے سب سے بڑا تقاضہ یہ تھا کہ انہیں قرآن کریم کے جس قدر نسخے مہیا کیے جا سکیں کیے جائیں۔ چنانچہ سعودی عرب اور مصر کی حکومتوں اور پاکستان کے دینی اداروں نے کروڑوں کی تعداد میں قرآن کریم چھپوا کر ان ممالک میں تقسیم کرائے۔
لیکن ان ممالک کی بدقسمتی یہ رہی کہ آزادی کا لیبل چسپاں ہونے کے باوجود ان ریاستوں میں حکومتی ڈھانچے، ریاستی نظام او رحکمران کلاس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اور آزادی کے منتظم اور رکھوالے بھی وہی قرار پائے جو آزادی سے قبل کمیونسٹ نظام کو چلانے کے ذمہ دار تھے اور چلاتے آرہے تھے۔ اس طرح وسطی ایشیا کے مسلمانوں کے ساتھ بھی وہی ’’ٹریجڈی‘‘ ہوئی جس کا اس سے قبل ہم جنوبی ایشیا کے مسلمان شکار ہو چکے ہیں کہ کہنے کو ہمیں آزادی مل گئی اور ہم پاکستان کے نام سے ایک آزاد مسلمان ملک کی حیثیت سے آزاد اقوام کی فہرست میں شمار کر لیے گئے مگر سیاست و معیشت اور عدالت و معاشرت کا نظام وہی رہا جو غلامی کے دور میں تھا، بلکہ حکمران کلاس او رطبقات بھی وہی رہے جو برطانوی استعمار کے معاون و مددگار کے طور پر آزادی سے قبل اس خطہ میں حکمرانی کرتے چلے آرہے تھے۔ اور اس قسم کی آزادی نے ہمارے معاشرتی نظام اور ڈھانچے کو ترقی اور بہتری کی طرف لے جانے کی بجائے تذبذب، انارکی اور دوعملی کی دلدل میں دھکیل دیا۔
ازبکستان اور وسطی ایشیا کی دیگر مسلمان ریاستوں کے ساتھ بھی یہی المیہ پیش آیا ہے کہ جب افغانستان میں روسی افواج کی شکست یقینی ہوگئی اور یہ واضح نظر آنے لگا کہ روسی فوجوں کی افغانستان سے واپسی کے سوا اب کوئی راستہ باقی نہیں رہ گیا تو شکست خوردہ روسی دانشوروں سے زیادہ فاتح امریکی دانشوروں کو اس بات کی فکر لاحق ہوگئی کہ افغانستان سے روسی فوجوں کی واپسی کے بعد جب کابل میں مجاہدین کی حکومت قائم ہوگی تو اس کی بنیاد اسلام پر ہوگی، یہ اسلام محض دکھاوے کا نہیں بلکہ عملی ہوگا اور اس کے اثرات صرف افغانستان تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ اردگرد کے ممالک بالخصوص پاکستان اور وسطی ایشیا کی ریاستوں کا اس سے متاثر ہونا لازمی بات ہے۔ اس لیے کابل میں خالص اسلامی حکومت کے قیام کو روکنے اور قائم ہو جانے کی صورت میں اس کے اردگرد اثر انداز ہونے کی صلاحیت کو محدود کرنے کے لیے ایک نئی منصوبہ بندی کی گئی جس کے لیے امریکہ کے سابق صدر مسٹر نکسن نے سب سے نمایاں کردار ادا کیا۔ انہوں نے آگے بڑھ کر روسی دانشوروں کو دعوت دی کہ وہ امریکہ کے ساتھ اپنے اختلافات کو ختم کر دیں تاکہ امریکہ اور روس دونوں مل کر اپنے مشترکہ دشمن سے نمٹ سکیں جو ’’احیائے اسلام‘‘ کی ایک نئی لہر کی صورت میں نمودار ہو رہا ہے اور کابل اس کے مرکز کے طور پر سامنے آنے لگا ہے۔
چنانچہ مسٹر نکسن کی تحریک پر نئی منصوبہ بندی ہوئی جس کے تحت ’’جنیوا امن معاہدہ‘‘ ہوا، امریکہ اور روس کے درمیان سرد جنگ کا خاتمہ ہوا اور بالٹیک ریاستوں کے ساتھ ساتھ وسطی ایشیا کی مسلمان ریاستوں کی ’’نقد آزادی‘‘ کو غنیمت سمجھا گیا تاکہ کم از کم وہاں کے ریاستی نظام اور حکومتی طبقات کو کسی متوقع انقلاب سے محفوظ رکھا جا سکے، حتیٰ کہ ان میں سے کسی ملک کے عوام اس نظام یا حکمران گروہ کی تبدیلی اور وہاں اپنے عقائد و رجحانات اور آزادی کے تقاضوں کے مطابق نئے نظام کے نفاذ کے لیے جدوجہد کرتے ہیں تو انہیں بنیاد پرست اور دہشت گرد قرار دے کر امریکہ اور روس دونوں ان کے خلاف سرگرم عمل ہو جاتے ہیں۔
ازبک اسلامک فرنٹ کا معاملہ بھی یہی ہے کیونکہ وہ ان گروہوں میں سے ہے جو یہ کہتے ہیں کہ جب سوویت یونین بکھر گیا ہے تو وسطی ایشیا کے مسلمان ممالک سے کمیونسٹ دور کی یادگار ’’نوآبادیاتی نظام‘‘ کا بھی خاتمہ ہونا چاہیے۔ ازبک اسلامک فرنٹ پر امریکہ کا الزام یہ ہے کہ اس نے ہتھیار اٹھا رکھے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ جب منطق، دلیل اور استدلال کے سارے راستے بند کر دیے جائیں تو حق مانگنے والوں کے پاس ہتھیار اٹھانے کے سوا کون سا راستہ باقی رہ جاتا ہے؟ اور ترکی اور الجزائر میں رائے عامہ کا حشر سامنے آنے کے بعد اب امریکہ عالم اسلام کی تحریکات کو ہتھیار پھینک کر دلیل سے بات کرنے کے کون سے فلسفے کا سبق پڑھانا چاہتا ہے؟