جہادِ افغانستان کے بارے میں پاکستان کا جو متوازن اور جرأت مندانہ موقف گزشتہ گیارہ سال سے چلا آرہا ہے اسے نہ صرف پاکستان کے عوام اور عالم اسلام کی بھرپور تائید حاصل ہے بلکہ عالمی رائے عامہ بھی اقوام متحدہ کی متعدد قراردادوں کی صورت میں اس اصولی موقف کو درست قرار دے چکی ہے۔ پاکستان نے نہ صرف افغان مہاجرین کو اپنے ملک میں پناہ دے کر انسانی ہمدردی اور اسلامی بھائی چارے کی بنیاد پر ان کی حتی المقدور خدمت کی بلکہ جہاد افغانستان کی اخلاقی اور سیاسی پشت پناہی کر کے افغان مجاہدین کو یہ حوصلہ بخشا کہ وہ روسی افواج کو اپنے وطن سے دریائے آموں کے دوسری طرف دھکیلنے میں کامیاب ہوگئے۔
افغان مجاہدین روسی افواج کو سرحدوں سے باہر دھکیلنے کے بعد روسی جارحیت کے بچے کھچے اثرات اور روس کے چھوڑے ہوئے اسلحہ اور اس کے محافظوں سے نمٹنے میں مصروف ہیں مگر کابل پر افغان مجاہدین کی نظریاتی اسلامی حکومت قائم ہوجانے کا خوف امریکہ، روس، بھارت اور اسرائیل کو مضطرب کیے ہوئے ہے اور عالمی سطح پر یہ سازشیں ہو رہی ہیں کہ افغان مجاہدین کی جدوجہد کو آخری مرحلہ میں سبوتاژ کر دیا جائے۔ خان عبد الولی خان کی طرف سے عالمی راہنماؤں کے نام خطوط میں افغان مجاہدین کی جدوجہد کے خلاف جو زہر افشانی کی گئی ہے وہ اسی سازش کی ایک کڑی ہے۔ اور اب یہ خبر اخبارات کی زینت بنی ہے کہ پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو افغان پالیسی پر نظر ثانی کی خواہشمند ہیں اور انہوں نے اپنے ایک حالیہ بیان میں خان عبد الولی خان کی مہم کی بالواسطہ حمایت کا عندیہ دیا ہے۔
اگرچہ اس فیصلہ کن مرحلہ میں کوئی سازش بھی افغان مجاہدین کو کابل کی طرف بڑھنے سے نہیں روک سکتی لیکن ہم اس کے باوجود حکومت پاکستان اور دیگر طبقات کو خبردار کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے عوام، عالم اسلام اور عالمی رائے عامہ افغان مجاہدین کے ساتھ ہیں اس لیے وہ افغان مجاہدین کی جدوجہد اور پاکستان کے کامیاب اور باوقار موقف کو سبوتاژ کرنے کی ناپاک سازش میں شریک نہ ہوں اور اپنے گروہی مفادات کی خاطر پاکستان کی اصول پسندی اور حق پرستی کو داؤ پر لگانے سے باز رہیں۔