مرزا غلام نبی جانباز مرحوم تحریک آزادی کے ان کارکنوں میں سے تھے جنہوں نے فرنگی استعمار کے تسلط کے خلاف جدوجہد آزادی میں اپنا بہت کچھ قربان کر دیا اور اپنے خون سے آزادی کی شمع روشن کی۔ ان کا تعلق مجلس احرار اسلام سے تھا، وہ ایک انقلابی شاعر کےطور پر کاروانِ آزادی کے حدی خوان تھے اور انہوں نے ایثار و قربانی کے دیگر کٹھن مراحل کے علاوہ اپنی جوانی کے تقریباً چودہ برس آزادی کی خاطر جیلوں کی نذر کیے۔ عام حلقوں میں جانباز مرزا کے نام سے متعارف تھے اور ماہنامہ تبصرہ کے نام سے لاہور سے ایک رسالہ شائع کیا کرتے تھے، اس کے علاوہ ان کا ایک بڑا کارنامہ ’’کاروانِ احرار‘‘ کے عنوان سے مجلس احرار اسلام کی عظیم جدوجہد کے بکھرے ہوئے اوراق کو مجتمع کر دینا ہے جو کئی ضخیم جلدوں میں ہے اور احرار کے علاوہ اس دور کی دیگر سیاسی تحریکات اور جماعتوں کی جدوجہد کا بھی احاطہ کرتی ہے۔ مزاج میں ظرافت اور بے ساختہ پن تھا اور پورے اعتماد اور بے باکی کے ساتھ ہر وہ بات کسی بھی مجلس میں کہہ جاتے تھے جو شاید دوسرا کوئی نہ کہہ پائے۔
صدر محمد ایوب خان مرحوم کے آخری دور میں جب سیاسی اور فکری تحریکوں کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا، اس دور میں بھی جانباز مرزا مرحوم ایک متحرک کردار کے طور پر متعارف تھے۔ اس دور میں لاہور میں ایک عالم دین مولانا غلام نبی جانباز ہوا کرتے تھے جن کا تعلق بریلوی مکتب فکر سے تھا اور ان کے بیانات اخبارات میں شائع ہوتے تھے۔ مرزا غلام نبی جانباز اور مولانا غلام نبی جانباز الگ الگ سیاسی کیمپوں میں تھے اس لیے اخبارات میں ان کے بیانات بسا اوقات دوستوں کے لیے الجھن کا باعث بن جایا کرتے تھے۔ روایت ہے کہ جانباز مرزا مرحوم ایک روز خود مولانا موصوف کے پاس جا دھمکے اور کہا کہ ’’مولوی صاحب! یا آپ نام تبدیل کر لیں یا میں تبدیل کر لیتا ہوں ایسا نہ ہو کہ میری وجہ سے آپ کسی آزمائش میں پڑ جائیں یا آپ کی وجہ سے میں کسی جگہ دھر لیا جاؤں۔‘‘ مولانا موصوف نے اپنا نام تبدیل کیا یا نہیں مگر جانباز مرزا مرحوم کا یہ لطیفہ کافی دنوں تک دوستوں میں گردش کرتا رہا۔
۱۹۷۷ء میں پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کے دوران اسی طرح کا ایک اور واقعہ پیش آیا کہ گوجرانوالہ میں تحریک استقلال کے ایک سرگرم رہنما ظفر ڈار تھے جو احتجاجی تحریک میں پیش پیش تھے، ان کے والد محترم کا نام غلام رسول تھا اور قوم کشمیری ڈار۔ اسی نام کے ایک بزرگ ظفر ڈار صاحب ہمارے ہاں مرکزی جامع مسجد کے قریب رہتے ہیں جن کا تعلق تبلیغی جماعت سے ہے اور وہ سیاسی ہنگاموں سے ہمیشہ فاصلے پر رہتے ہیں، ان کے والد محترم کا نام بھی غلام رسول ہے اور قوم کشمیری۔ اب ’’ظفر ڈار ولد غلام رسول قوم کشمیری‘‘ کے نام سے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تو پولیس اہلکار پہلے تو شش و پنج میں پڑ گئے کہ ان دونوں میں سے کسے گرفتار کریں مگر بعد میں گوجرانوالہ پولیس نے تردد سے پیچھا چھڑانے کے لیے دونوں کو گرفتار کر لیا اور تبلیغی جماعت والے ظفر ڈار صاحب کو جھنگ جیل میں ایک ماہ رہنا پڑا۔
مجھے یہ واقعات اس لیے یاد آرہے ہیں کہ میں بھی اس الجھن میں پڑ چکا ہوں جس میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ چند سال قبل جھنگ سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان عالم دین نے زاہد الراشدی کہلانا شروع کیا اور پھر اچانک شیعہ مذہب اختیار کر لیا تو میرے حلقہ احباب اور والد محترم کے عقیدت مندوں میں کہرام سا مچ گیا کیونکہ انہوں نے شیعہ مذہب اختیار کرنے کا اعلان ایک پریس کانفرنس میں کیا تھا اور بعض قومی اخبارات نے شہ سرخوں کے ساتھ اسے شائع کیا تھا۔ میں ان دنوں لندن میں تھا اور مجھے اس کی وضاحت میں کافی عرصہ لگ گیا کہ وہ زاہد الراشدی میں نہیں ہوں۔ حتیٰ کہ اب بھی کسی مجلس عزا کے اشتہار میں یا کسی امام بارگاہ کے جلسہ کی اخباری رپورٹ میں یہ نام آتا ہے تو بعض حضرات پوچھنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ یہ کیا ہے؟ مگر وہ زاہد الراشدی صاحب بڑے مزے سے اہل تشیع کی تنظیم ’’سپاہ محمدؐ‘‘ کے ایک دھڑے کے سیکرٹری اطلاعات کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔
گزشتہ برس کی بات ہے کہ میں مسجد امن باغبانپورہ لاہور میں پاکستان شریعت کونسل صوبہ پنجاب کے سیکرٹری جنرل مولانا قاری جمیل الرحمان اختر سے ملاقات کے لیے گیا تو انہوں نے اپنے مدرسہ کے ایک طالب علم کو بلایا جو تیرہ چودہ سال کی عمر کا لگتا تھا، اسے میرے سامنے بٹھایا اور پوچھا کہ تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے بڑے اعتماد کے ساتھ جواب دیا کہ ’’حضرت مولانا محمد زاہد الراشدی‘‘۔ میں چونکا اور پوچھا کہ یہ کیا قصہ ہے تو قاری جمیل الرحمان اختر صاحب نے بتایا کہ اس کا نام محمد زاہد ہے، یہاں قرآن کریم حفظ کرتا ہے، آپ سے عقیدت رکھتا ہے اور کہتا ہے کہ میں بھی مولانا محمد زاہد الراشدی ہوں۔ بچہ تھا اور اس کے جذبات کا بھی خیال تھا اس لیے اسے اور تو کچھ نہ کہہ سکا مگر اتنا ضرور کہا کہ بیٹا! زاہد الراشدی بننے والا ایک نوجوان تو شیعہ ہوگیا ہے تم بتاؤ کہ تمہارا کیا پروگرام ہے؟
یہ بات بھی شاید میں بھول جاتا مگر ایک اور ’’زاہد الراشدی صاحب‘‘ کے نمودار ہونے سے پچھلی ساری باتیں ذہن میں پھر سے تازہ ہوگئی ہیں۔ ان صاحب کا تعارف جامعہ ابوہریرہؓ خالق آباد نوشہرہ صوبہ سرحد کے ترجمان ماہنامہ ’’القاسم‘‘ نے ستمبر ۲۰۰۰ء کے شمارہ میں ایک کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کرایا ہے۔ یہ کتاب ان زاہد الراشدی صاحب کی تصنیف ہے جو ’’صحت اور جدید ریسرچ‘‘ کے عنوان سے ہے اور دارالمطالعہ بالمقابل جامع مسجد اللہ والی حاصل پور ضلع بہاولپور نے شائع کی ہے۔ جامعہ خیر المدارس ملتان کے ماہنامہ الخیر کے تبصرہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ کتاب خاصی جاندار اور تحقیقی ہے جس پر مولانا عبد القیوم حقانی کا تبصرہ یوں ہے کہ مولانا زاہد الراشدی کی علمی، مطالعاتی اور تحریری و تصنیفی مشاغل اپنی جگہ مسلم مگر زیرتبصرہ کتاب نے تو ان کی علمی صلاحیتوں اور تحقیقی عظمتوں کا لوہا منوا دیا ہے۔ اس لیے کتاب دیکھے بغیر مصنف کو مبارکباد پیش کرنے کو جی چاہتا ہے مگر ایک اور زاہد الراشدی کے ظہور نے میری ذہنی الجھن میں جو اضافہ کر دیا ہے اس کا کوئی حل سمجھ میں نہیں آرہا۔ پہلے دو زاہد الراشدی تو شاید اس الجھن کو محسوس ہی نہ کر پائیں مگر یہ ’’زاہد الراشدی صاحب نمبر چار‘‘ خاصے پڑھے لکھے اور صاحب مطالعہ و ہم مسلک دوست معلوم ہوتے ہیں، وہ اس الجھن کے حل میں میری رہنمائی اور معاونت کی کوئی صورت نکال سکیں تو ان کی بے حد نوازش ہوگی۔